چیتنیا مہاپربھو

ہندو سنت
(چیتنیا مہا پربھو سے رجوع مکرر)

چیتنیا مہاپربھو ایک ہندو مذہبی رہنما تھے۔ وہ نودویپ ’’بنگال‘‘ میں پیدا ہوئے۔ برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ تعلیم سے فراغت پا کر ہندو مت کا پرچار شروع کیا اور چھ سال میں ہندوستان کے بڑے بڑے تیرتھوں اور مذہبی شہروں کا دورہ کیا۔ کرشن کے بھگت تھے۔ اور کہا کرتے تھے کہ کرشن کے ماننے والے خواہ کسی مذہب کے کیوں نہ ہوں، برابر ہیں۔ بنگال میں ان کے بہت سے پیرو اب بھی موجود ہیں۔

چیتنیا مہاپربھو
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (بنگالی میں: বিশ্বম্ভর মিশ্র ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 1486ء [1][2][3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نودویپ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1534ء (47–48 سال)[1][2][3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پوری   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات غرق [5]،  سانپ کا ڈنک [6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل [8][9]  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت شاہی بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ وشنو پریا   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سن٘نیاسی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سنسکرت   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

بنگال کے علاقہ نودویپ یا ندیا نگر میں سمبت سال 1542 میں پونم کے تہوار کے دن چاند گرہن کے وقت ان کی پیدائش ہوئی تھی۔[10] ان کے والد کا نام جگناتھ مشرا اور ماں کا نام سچ دیوی تھا۔[11] بچپن میں ان کا نام وشوم بھر تھا لیکن ان کو نمائی، گوڑ، گورانگ، گوزہری کے نام سے پکارتے تھے۔ سنیاس لینے کے بعد یہ چیتنیا مہاپربھو کے نام سے مخاطب کیے جاتے تھے۔ بچپن سے ہی ان کی شخصیت غیر معمولی تھی۔[12] وہ بڑے زندہ دل تھے۔ کھیلوں میں کافی شرارت کرتے تھے۔ عمر کے پانچویں سال میں تعلیم کا آغاز ہوا اور نویں سال میں ان کی رسم زنار بندی کی گئی۔ انھوں نے پنڈت گنگا داس سے دو سال تک سنسکرت صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی اور سنسکرت پڑھتے رہے۔ پھر دو سال وشنو مترا کی زیر نگرانی منو سمرتی وغیرہ، ہندو قانون اور جوتش کے شاستروں کا مطالعہ کیا اور دو سال تک سدرشن مترا کے پاس کھٹ درشن یا ہندو فلسفہ کے چھ نظاموں کا درس حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد واسدیو سارو بھرم کے پاٹھ شالہ میں ہندی منطق اور ترک شاستر پڑھ کر اُدیَن آچاریہ سے ویدوں اور سری مدبھاکرت کا تفصیل سے مطالعہ کیا اور ودیا ساگر کا خطاب حاصل کیا۔ چیتنیہ لوگوں کے ساتھ مناظرہ کرتے وقت بہت چست و چالاک اور حاضر جواب دکھائی دیتے تھے۔ ان کی بحث کو سن کر بڑے بڑے عالم فاضل بھی حیرت کرتے تھے۔ مشہور منطقی رگھوناتھ شرومنی ان کے ہم جماعت تھے۔ ان دونوں نے ہندی منطق پر کئی کتابیں لکھیں۔ چیتنیہ نے تمام علوم میں کامل مہارت حاصل کر کے صرف سولہ سال کی عمر میں سمبت سنہ 1559 میں اپنا ایک پاٹھ شالہ کھول دیا اور ویاکرن (سنسکرت حرور و نحو) پڑھانے لگے۔ ان کا مطالعہ اس قدر گہرا اور طریقہ تعلیم اس قدر خوشگوار تھا کہ شاگردوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ اسی سال ان کی شادی ولبھ آچاریہ کی لڑکی لکشمی پِرِیا سے ہوئی۔ انھی دنوں میں مادھویندر پوری یاترا کرتے ہوئے نودویپ پہنچے اور کچھ دن وہاں ٹھہرے۔ ان کی پاک صحبت اور روحانی تقریروں سے چیتنیہ میں پریم بھگتی کی آگ بھڑک گئی۔ 1560 سمبت میں گوریا گورانگ کہلانے والے چتینیہ نے مشرقی بنگال کا سفر کیا اور اپنے آبا و اجداد کے مقام شری مٹھ تک پہنچے۔ اس زمانہ میں سانپ کاٹنے سے ندیا میں ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ سفر سے واپس آ کر انھوں نے پھر پاٹھ شالہ کا کام شروع کر دیا اور چوطرف مناظروں میں فتح پانے والے عالم فاضل کیشو کشمیری کو سنسکرت کے ادبیاتی مباحثہ میں شکست دے دی اور ان کو اپنا بھکت بنا لیا۔ اس کے نتیجہ کے طور پر گورانگ پربھو ندیا کے سب سے قابل عالم و فاضل تسلیم کیے جانے لگے۔ سمبت 1561 میں ان کی دوسری شادی سناتن مترا کی لڑکی وشنو پریا سے ہوئی۔ گیا میں آپ نے سنت ایشور پوری سے مذہبی طریقہ پر منتر حاصل کیا اور پھر نودویپ واپس آ گئے۔ لیکن اب منطق پڑھانے کی بجائے ایشور کی بھگتی اور عشق الہی کا سبق دینے لگے اور ہری نام سنکیرتن اور بھگود بھگتی کی اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ ستیہ نند، ادویت آچاریہ وغیرہ سبھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ سمبت 1565 میں ان پر ایسی روحانی کیفیت طاری ہوئی کہ یہ بھگوت اوتار مانے جانے لگے۔ ان کے ہری نام سنکیرتن اور سری کرشن پریم بھگتی کا بازار ایسا گرم ہوا کہ بنگال ہی نہیں بلکہ تمام شمالی ہندوستان کی مذہبی دنیا متاثر ہوئی۔[13]

گیا میں منتر حاصل کرنے کے بعد یہ برائے نام خانہ دار (گرہستھ) بنے رہے، لیکن درحقیقت دل سے وہ بھگوان کرشن کے جاں نثار بھگت تھے اور دنیاوی خواہشات کو ترک کر چکے تھے۔ پھر بھی اس خیال سے کہ گرہستی کو ترک کر کے سچ مچ سنیاسی ہو کر اپنے بھگتی کے مذہب کی اشاعت تمام ہندوستان میں کر سکتے ہیں۔ انھوں نے سمبت 1566 میں سوامی کیشو بھارتی کی ہدایت حاصل کر کے سنیاس لے لیا اور ان کے سنیاس کا نام شری کرشن چیتنیہ ہوا۔[14] اپنی ماں کے حکم سے انھوں نے نیلانچل جگناتھ پوری میں رہنا منظور کر لیا۔ وہیں سے اپنے دھرم کو پھیلانا شروع کر دیا۔ یہاں انھوں نے اپنے ذاتی گیان سے ایک زبردست عالم سادھو بھیم بھٹاچاریہ کو بھگت بنا لیا اور اودھوت نینسا نند گو سوامی کو بے حد متاثر کر کے اور ان کو گرہستھ بنا کر اپنے دھرم کی اشاعت کرنے کے لیے پوری سے اپنے گھر ندیا کو روانہ کر دیا تا کہ وہ بنگال میں ہر جگہ بھگتی پھیلا دیں اور آپ خود جنوب کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں رائے رام نند سے روحانی مسائل پر بات چیت کر کے سری رنگ پٹن پہنچ گئے۔ وہاں وینکٹ بھٹ کے یہاں برسات کے چار مہینے گزارے اور سمبت 1568 میں ان کے بیٹے گوپال بھٹ کو چیلا بنا لیا۔ یہی گوپال بھٹ اور ان کے شاگردوں کے گروہ نے شمالی ہند سے گجرات تک اس متبرک کام کو نہایت کامیابی سے انجام دیا۔ اس طرح دو سال کے بعد چیتنیہ نیلانچل واپس آ گئے۔ یہاں سے وہ ایک مرتبہ بنگال بھی گئے اور اس کے بعد سمبت 1572 میں برندابن کی جاترا کے لیے نکل گئے۔ بنارس اور الہ آباد ہوتے ہوئے یہ متھرا پہنچے اور وہاں لیلا کے تمام مقامت کے درشن کیے۔ راستہ میں انھوں نے روپ گوسوامی اور سناتن گوسوامی کو اپنا چیلا بنا کر انھیں برندابن جانے کی ہدایت دے دی اور بنارس میں ویدانت کے مسایا وادی پرکاش آندد سرسوتی کو اپنی منطقی دلیلوں سے متاثر کر کے انھیں اپنا چیلا بنا لیا۔ اس طرح تمام ہندوستان میں متبرک پریم بھگتی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے نیلانچل واپس آ گئے۔ ان کے پاکیزہ اوصاف اور سب سے یکساں محبت اور پریم کے برتاؤ کی وجہ سے جو بھی ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہو کر ان کا چیلا بن جاتا تھا۔

سمبت 1573 میں یاترا سے واپس آنے کے بعد سمبت 1590 تک نیلانچل میں ہی رہے اور یہیں اسی سال وہ غائب ہو گئے۔ ان آخری اٹھارہ سال میں ہمیشہ رات دن ہری کیرتن، سری مدبھاگوت کا پاٹھ اور بھجن گاین برابر ہوتا رہا اور کئی ایک بہت مشہور عالم فاضل بھگت ان کو گھیرے رہتے تھے۔ ان کے پریم بھگتی کے پرچار سے براہمن سے لے کر چنڈال تک میں کرشن بھگتی کی عجیب و غریب لہر دوڑ گئی تھی اور بے شمار لوگ اس فرقہ کو تسلیم کر کے اس راہ پر گامزن ہو گئے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/11851833X — اخذ شدہ بتاریخ: 15 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب مصنف: آرون سوارٹز — او ایل آئی ڈی: https://openlibrary.org/works/OL2130A?mode=all — بنام: Chaitanya — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/55076 — بنام: Chaitanya — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. ^ ا ب بنام: Caitanya — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/375972 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. https://archive.org/details/in.ernet.dli.2015.336613/page/n461/mode/2up
  6. https://archive.org/details/in.ernet.dli.2015.336613/page/n461/mode/2up
  7. https://archive.org/details/in.ernet.dli.2015.336613/page/n461/mode/2up — اخذ شدہ بتاریخ: 3 ستمبر 2018
  8. عنوان : কাঁহা গেলে তোমা পাই
  9. https://www.kolkata24x7.com/both-sri-chaitanya-and-his-researcher-were-killed-in-puri/
  10. Sri Chaitanya Mahaprabhu: His Life and Precepts by Bhaktivinoda Thakura ohآرکائیو شدہ 17 مئی 2014 بذریعہ وے بیک مشین "Chaitanya Mahäprabhu appeared in نودویپ in Bengal just after sunset on the evening of the 23rd Phälguna 1407 Shakabda, answering to 18 February 1486, of the Christian Era. The moon was eclipsed at the time of His 'birth'"
  11. Sri Chaitanya Mahaprabhu: His Life and Precepts, by Bhaktivinoda Thakura آرکائیو شدہ 17 مئی 2014 بذریعہ وے بیک مشین
  12. CC Adi lila 14.22 آرکائیو شدہ 6 مارچ 2012 بذریعہ وے بیک مشین
  13. Gaudiya Vaishnavas آرکائیو شدہ 2 مارچ 2009 بذریعہ وے بیک مشین "His magnetism attracted men of great learning such as Särvabhauma Bhattächärya, the greatest authority on logic, and Shree Advaita Ächärya, leader of the Vaishnavas in Bengal, and men of power and wealth like the King of Odisha, Pratap Rudra and his minister, Rämänanda Räya..."
  14. Teachings of Lord Chaitanya آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ vedabase.net (Error: unknown archive URL) "They were surprised to see Lord Chaitanya after He accepted his sannyasa order from Kesava Bharati"