کرشنا کوہلی
کرشنا کماری کوہلی ((سندھی: ڪرشنا ڪماري ڪوهلي)، انگریزی: Krishna Kumari Kohli، مختصر نام کشو بائی) ایک پاکستانی سیاست دان جو ایوان بالا پاکستان کی مارچ 2018ء سے منتخب رکن ہے۔ وہ پہلی ہندو دلت خاتون اور یہ منصب پانے والی دوسری ہندو خاتون (پہلی رتنا بھگوان داس چاولا) ہے۔ اس نے حقوق نسواں کے لیے اور بندھوا مزدوری کے خلاف مہم چلائی تھی۔
کرشنا کوہلی | |
---|---|
رکن ایوان بالا پاکستان | |
آغاز منصب 12 مارچ 2018ء | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 فروری 1979ء (45 سال) ضلع تھرپارکر |
شہریت | پاکستان |
جماعت | پاکستان پیپلز پارٹی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ سندھ |
پیشہ | سیاست دان |
مادری زبان | اردو |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
شعبۂ عمل | انسانی حقوق |
اعزازات | |
100 خواتین (بی بی سی) (2018)[1] |
|
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیمکرشنا کوہلی 1 فروری 1979ء[2] کو نگر پارکر کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے غریب خاندان میں پیدا ہوئی۔[3] جب وہ بچی تھی اور تیسری جماعت کی طالبہ تھی، تو اس کو اور اس کے خاندان کو بندھوا مزدور بنا کر تین سال کے لیے ضلع عمرکوٹ کے نجی قید خانے میں (جس کا مالک ایک وڈیرا تھا) قید کر لیا گیا۔[4][3] انھیں تب ہی رہائی ملی جب پولیس نے اس نجی قید خانے میں چھاپہ مارا۔ اس نے ابتدائی تعلیم ضلع عمرکوٹ سے حاصل کی اور پھر ضلع میرپور خاص سے حاصل کی۔
اس نے 1994ء میں 16 برس کی عمر میں شادی کی تب وہ نویں جماعت کی طالبہ تھی۔[2] اس نے شادی کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھی اور 2013ء میں جامعہ سندھ سے عمرانیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔[3]
وہ سنہ 2007ء میں اسلام آباد میں تیسرے مہر گڑھ ہیومن رائٹس یوتھ لیڈرشپ ٹرینگ کیمپ میں آئی جس میں اس نے حکومت پاکستان، بین الاقوامی ہجرت، تزویراتی منصوبہ بندی کے متعلق مطالعہ کیا اور معاشرہ کو تبدیل کرنے والے آلات کے متعلق سیکھا۔[2]
سیاسی کیریئر
ترمیمکرشنا کوہلی نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں ایک سماجی فعالیت پسند کے طور پر شمولیت اختیار کی تاکہ وہ تھر کے علاقے کی اچھوت برادریوں کے حقوق کے لیے مہم چلا سکے۔ اس نے حقوق نسواں کے لیے، پندھوا مزدوری کے خلاف اور جنسی حراساں کرنے کے خلاف بھی مہم چلائی۔[4] 2018ء کے پاکستانی ایوان بالا انتخابات میں وہ پیپلز پارٹی کی سندھ سے امیدوار تھی اور وہ ان انتخابات میں کامیابی سے منتخب ہوئی۔[5][6] وہ پہلی ہندو دلت خاتون رکن ہے اور رتنا بھگوان داس چاولا کے بعد دوسری منتخب شدہ ہندو خاتون رکنِ ایوان بالا ہے۔[4]
اعزاز
ترمیم2018ء کو بی بی سی نے کرشنا کو 100 با اثر خواتیں کی فہرست میں شامل کیا۔[7]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.bbc.com/news/world-46225037
- ^ ا ب پ "In historic first, a Thari Hindu woman has been elected to the Senate"۔ ڈان ڈاٹ کام۔ 4 مارچ 2018۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مارچ 2018
- ^ ا ب پ حنیف سمون (4 فروری 2018)۔ "PPP nominates Thari woman to contest Senate polls on general seat"۔ ڈان۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مارچ 2018
- ^ ا ب پ داؤد رحمان (3 مارچ 2018)۔ "Krishna Kumari becomes first Hindu Dalit woman senator of Pakistan"۔ ڈیلی پاکستان گلوبل۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2018
- ↑ "LIVE: PML-N-backed independent candidates lead in Punjab, PPP in Sindh – The Express Tribune"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ 3 مارچ 2018۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ 2018
- ↑ اے۔ خان (4 مارچ 2018)۔ "PML-N gains Senate control amid surprise PPP showing"۔ ڈان ڈاٹ کام۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مارچ 2018
- ↑ "BBC 100 Women 2018: Who is on the list?"۔ BBC News۔ 19 November 2018۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 نومبر 2018