گوجری (انگریزی: Gojri) زبان پاکستان، بھارت افغانستان اور کشمیر میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے۔قدیم عہد سے لے کر عہد وسطیٰ تک ہندوستان میں یہ لوگ بڑی بڑی سلطننتوں کے حاکم تھے۔اس دوران گوجری زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی ۔ گیارہویں ,بارہویں اور تیرہویں صدی میں ہندوستان پر حملہ کرنے والے ترک اور فارسی حملہ آوروں نے ان کی ان عظیم ریاستوں کو ختم کیا[2] جس سے گوجری زبان سرکاری سرپرستی اور گجر قوم اپنی مرکزیت سے محروم ہو گئی۔ ترک اور فارسی حملہ آوروں کے ہاتھوں اپنا اقتدار گنوانے کے بعد اس قوم کی در بدری کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔اس دوران کشمیر، پختونخوا,گلگت بلتستان,سندھ,بلوچستان اور افغانستان میں ان پر جو بیتی وہ ناقابل بیان ہے۔کہاں وہ وقت کہ بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک تھے اور کہاں ایسا وقت کہ تعلیم و روزگار سے بھی دور ہو گئے۔چترال,انڈس کوہستان,ملاکنڈ ڈویژن,ہزارہ ڈویژن,سندھ,بلوچستان,گلگت بلتستان اور افغانستان غرض ہر جگہ کالونیل ازم کے تحت ان کی جاگیریں چھینی گئیں ، ان کے روزگار ، کاروبار ، معاش پر قدغنیں لگائی گئیں ۔ پنجاب میں مرکزی انجمن گجراں نے سب سے پہلے گجر قوم کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی اور اس کے بعد دیگر کئی علاقوں میں سماجی تنظیمیں وجود میں آئیں اور گجر قوم کی تعلیم، صحت ، روزگار اور حقوق کے حصول کے لیے بیداری کی ایک لہر پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں گوجری زبان کی ادبی سرگرمیوں میں بھی دوبارہ تیزی آئی ۔ اس وقت کشمیر ، خیبر پختونخوا اور افغانستان میں گوجری زبان کی ترقی و ترویج ، تحریر و تصنیف اور شاعری پر بہت کام ہو رہا ہے ۔ جدید زمانے میں گجر قوم اور گوجری زبان کاسب سے بڑا علمی ,ادبی اور ثقافتی مرکز کشمیر ہے جہاں یہ مختلف سطحوں پر زبان نصاب میں شامل ہے اور آٸینی و دستوری طور پر اس زبان کی اہمیت تسلیم کی گٸ ہے۔اس کے علاوہ افغانستان میں بھی گوجری زبان نصاب میں شامل ہے ۔

گوجری
Gojri, Gurjari
مقامی افغانستان، پاکستان، بھارت
علاقہکشمیر، جنوب مشرقی افغانستان
مقامی متکلمین
(1 ملین cited 1992–2000)e21
زبان رموز
آیزو 639-3gju
گلوٹولاگguja1253[1]

مزید برآں,بھارت کی ریاست ہریانہ میں گوجری زبان کے ہریانوی لہجے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان میں جو لوگ انڈیا کے ہشیار پور سے ہجرت کر کے پاکستان آئے وہ گوجری زبان بولتے ہیں۔ہندوستان میں جو ہریانوی، راجستھانی، گجراتی، میواتی وغیرہ زبانیں بولی جاتیں ہیں وہ دراصل گوجری زبان کی ہی مختلف شکلیں ہیں ۔ اس کے علاوہ سندھی ، ہندی اور اردو بھی گوجری زبان کی جدید شکلیں ہیں ۔

علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر ایمے ریٹس کی تحقیق کے مطابق دکن میں گوجری دہلی سے پہنچی اور دہلی اور ہریانہ میں قدیم زمانے سے گجروں کی اپنی زبان ہے ۔ دہلی میں آج بھی گجر گوجری زبان بولتے ہیں ۔ ہریانہ کے گجروں کی زبان کھڑی زبان اس وجہ سے کہلاتی تھی کیونکہ اس کے اکثر الفاظ کے آخر میں الف آتا تھا ۔ جیسے ۔ کھاتا ، پیتا ، جاگتا ۔ جبکہ دہلی اور دیگر علاقوں کے گجر آخر میں "و" استعمال کرتے تھے جیسے کھاتو ، پیتو ، جاگتو۔ہریانہ کے گجروں کی زبان کے اثرات دہلی پہنچے اور دہلی کی گوجری زبان جو گجر سلطنتوں کے دور میں سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی تھی اس کے ساتھ مل کر جدید گوجری کی شکل اختیار کی جو مسلم حکمرانوں کے دور میں دکن میں پہنچی ، دکن میں یہ زبان دکنی ، گوجری ، گجری ، گجراتی کہلائی ۔ پھر دکن سے یہ زبان دوبارہ دکنی اثرات لیے لکھنؤ اور دہلی میں پہنچی تو اول ریختہ کہلائی اور بعد ازاں اردو کہلائی ۔ جبکہ اس کی دوسری شاخ ہندی کہلائی ۔ بقول پروفیسر ایمے ریٹس مرزا مظہر جانجاناں اور حاتم نے زبان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ متروکات کے نام پر اور ’’مرزا ایانِ دہلی‘‘ کی سند لے کر بے شمار ہندی کے الفاظ پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ حاتمؔ کو شرم آئی تو اپنے ضخیم دیوان سے 1755میْں ایک ’’دیوان زادہ‘‘ کی تولید کی۔ اس کے بعد سوداؔ نے اپنے قصائد کے ذریعے اس میْں فارسی لغات کا دہانہ چھوڑ دیا۔ [3]یوں قدیم گوجری کی ایک شاخ فارسی ، عربی اور ترک اثرات کے ساتھ اردو کہلائی جبکہ دوسری شاخ جو ہندوؤں میں مستعمل رہی و ہ ہندی کہلائی ۔

بھارت کی ریاستوں میں گوجری زبان جموں و کشمیر، ہماچل پردیش، ہریانہ، اتراکھنڈ، راجستھان، گجرات (بھارت)، پنجاب، بھارت، دہلی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ پاکستان میں شمالی پنجاب یعنی گوجرانوالہ ڈویژن,گجرات ڈویژن اور خطہ پوٹھوہار میں گجر کافی تعداد میں آباد ہیں۔,سندھ,بلوچستان اورپختونخوا میں بھی گجر کافی تعداد میں موجود ہیں۔ملاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ ڈویژن میں ان کی موجودگی زیادہ نمایاں ہے۔ علاوہ ازیں آزاد کشمیر,مقبوضہ کشمیر , گلگت بلتستان,انڈس کوہستان,چترال وغیرہ میں بھی گجر بڑی تعداد میں موجود ہیں جو گوجری زبان بولتے ہیں۔افغانستان کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں بھی گجر آباد ہیں جو گوجری زبان بولتے ہیں۔جموں و کشمیر نے گوجری زبان کو آئین ریاست کی 6 فہرست بند زبانوں میں شامل کیا ہے۔[4]

تاریخ ترمیم

گوجری زبان برصغیر کی قدیم زبانوں میں سے ایک زبان ہے۔ اس خطے میں گوجروں کے تاریخی شواہدقدیم زمانے سے ملتے ہیں ۔ راج ترنگنی کو ہند میں سب سے مستند تاریخ سمجھا جاتا ہے جو 1142ء میں پنڈت کلہن نے سنسکرت زبان میں تحریر کی ۔

اس میں مصنف نے لکھا کہ شنکر ورمن نے گجر بھومی پر حملہ کیا اور گوجر بادشاہ لکھن پال  نے شنکر ورمن کو موجودہ ٹیکسلا کا علاقہ دے دیا ۔  یہ لکھن گجر راجا بھوجا (گرجر پرتیہار مہر بھوج) کا ماتحت راجا تھا۔راج ترنگنی کا مصنف ذات کا پنڈت تھا۔اس نے اس بات کی تصدیق کی کہ پنجاب ، سرحد اور کابل تک کا علاقہ گجر بھومی کہلاتا رہا ہے ۔ راج ترنگنی کا ترجمہ مسٹر اسٹین نے کیا اور پنجاب ، سرحد اور کابل کے تمام علاقوں کو گجر دیش قرار دیا ۔[5]

گجرات ، گجرانوالہ ، گجر خان ، کھاریاں، راولپنڈی سمیت بے شمار مقامات جو اس علاقے میں گجر قوم اور اس کی گوتوں کے نام سے موسوم ہیں گجربھومی کی ہی باقیات ہیں ۔ انگریز مورخ سر ڈینزل ابٹسن  گجروں کا بہت مخالف رہا لیکن جب آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ آنا شروع ہو ئیں تو اسے بھی گلوشری ٹرائبس اینڈ کاسٹس پنجاب اینڈاین ڈبلیو ایف پی میں یہ لکھنا پڑا :[6]

Recent investigation has shown that the Pratihar (Padhyar or Prihar) was really only a section of the Gujars and this fact raises a strong presumption that the other fire-born clans the Solanki, Panwar and Chauhan must also be of Gujar origin.  The Tunwars must be assigned a similar origin. The Gojar Empire was of great extent at the beginning of the 9th century. It included or dominated Bhoja (lower Himalyas) , Matsya ( Lahore area), Madr ( Sialkot area), Kuru ( Haryana), Yadi ( Attok and Hazara), Yavan ( Sibi Baluchistan and kira Kingdoms hilly area) Practicully the whole Panjab. The Gurjars gave dynasties to Kanoj, Ajmer and other States. Now it is undoubtedly true that the Gojar is one of the few great castes or races of Northern Sub-Continent.

پنڈت کلہن نے جس علاقے کو گجر بھومی قرار دیا  یہ کب سے گجر بھومی تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قدیم کتاب "پنچ تینتر " جو قبل مسیح میں لکھی گئی اس میں گرجارا دیشہ کا ذکر آیا ہے۔ جس کی حدود میں یہ جہلم اور گجرات کے علاقے بھی آتے ہیں۔مسٹر ویش راج بھاٹی نے اپنی کتاب " مریادا کی دیواریں " میں لکھا ہے کہ جب سکندر نے حملہ کیا تو مغربی پنجاب میں گجر رھتے تھے[7]۔ سکندر کا مقابلہ راجا پورس سے ہوا ۔ پورس یونانی تلفظ ہے ۔ اصل لفظ " پوڑ " ہے۔ اور پوڑ گجر قوم کی گوت ہے ۔ آج بھی اس علاقے میں پوڑ گجروں کی کافی تعداد موجود ہے ۔ یونانی ذرائع کے مطابق سکندر اور پورس کے درمیان   جنگ جس مقام پر ہوئی تھی وہ دریائے جہلم کے کنارے ایک مقام تھا جس کو آج ٹبہ مونگ کہتے ہیں۔یہ علاقہ ضلع گجرات کا حصہ ہے ۔  مورخین کے مطابق اس وقت گجرات کی ریاست میں جہلم کا علاقہ ، کھاریاں ، سرائے عالمگیر اور گجرانوالہ سمیت دیگر کئی علاقے شامل تھے۔ انگریز مورخ جنرل کنگھم کی تحقیق کے مطابق گجرات شہر کی بنیاد 460 قبل مسیح میں گجرراجہ بچن پال نے رکھی ۔ اس راجا کی موت 425قم  میں ہوئی ۔ اس کے بعد رانی گجراں نے گجرات پر حکومت کی ۔ سکندر یونانی نے 323 قم میں راجا پورس سے مقابلہ کیا ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سکندر کے حملہ کے وقت یہ علاقہ گجرات کہلاتا تھا ۔ 2010ء میں محمد احسان چھینہ نے ایک کتاب بعنوان" گجرات اور شاہدولہ ولی" لکھی جس میں اس نے لکھا کہ پورس راجا بچن پال کی اولاد میں سے تھا[8] جو گجر راجا تھا اور رانی گجراں اس کی ملکہ تھی جس نے راجا بچن پال کے بعد گجرات پر حکومت کی ۔ رانی گجراں کے بعد پورس کی حکومت گجرات پر ہوئی ۔ کتاب ضلع گجرات کا مصنف ڈاکٹر احمد حسین احمد قریشی صفحہ 129،130 پر لکھتا ہے "گجرات شہر کے بارے بتایا جاتا ہے کہ یہ سکندر اعظم کے وقت بھی آباد تھا اور اسے " گجرات " کہتے تھے[9]۔ فردوسی نے شاہنامہ میں لکھا ہے کہ سکندر کے حملہ ایران کے وقت ہخامشی بادشاہ داراسوم نے ھندی بادشاہ "فور" سے فوجی مدد طلب کی۔ پارسیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ "پ" کو "ف" میں بدل کر بولتے اور لکھتے تھے ۔ جیسے پارس کو فارس ، پارسی کو فارسی وغیرہ ۔ اسی طرح انھوں نے پوڑ کو فور لکھا ۔ کتاب "خوتائے نامک " بذات خود ایک قدیم پہلوی کتاب ہے جو 600ء کے لگ بھگ لکھی گئی۔ اس میں پورس کے حوالے سے لکھا ہے کہ فور کہتا ہے کہ میں" فور" (پوڑ) ہوں اور فوروں ( پوڑوں) کا بیٹا ھوں۔ سنسکرت میں پور یا پوڑ کو پورو لکھا گیا ہے ۔ رگ وید 7.96.2 میں لکھا ہے کہ پورو ایک قبیلہ تھا جو سرسوتی دریا کے کنارے آباد تھا۔چینی مورخ ہیون تسانگ نے جہلم کو پاراوت یعنی پوڑوں کا علاقہ لکھا ہے ۔ رگ وید ( 2،21-2) میں بھی پاراوت کا ذکر آیا ہے۔ پنج ومش برھمن ( 11،14-9) میں بھی پاراوت کا لفظ آیا ہے۔ تاریخ پاکستان کا مصنف یحییٰ امجد صفحہ 96 پر لکھتا ہے کہ " پوڑ قبیلہ نہ صرف دوآبہ چچ میں آباد تھا بلکہ رچنا دوآب میں بھی پوڑوں ہی کا غلبہ تھا[10]۔ راجا پورس کے ہاتھیوں کے سپہ سالار گجگاہیہ یعنی ہاتھی نشین کہلاتے تھے۔ گجگاہیہ قوم کے لوگ گجرات شہر میں آج بھی آباد اور پرانے باسی ہیں۔وراھمی ہیرا کی برہد سمہتا (26-27-4) نے پوڑوں کو ٹکشا سلا  (ٹیکسلا)اور پشلاوتی  (پشاور)کے لوگ بتایا ہے۔ ٹیکسلا اور پشاور شہر گجروں کے آباد کردہ ہیں۔ روزنامہ جنگ 1983ء میں چوہدری فضل الحق کا مضمون گواہی دیتاہے کہ مغربی پنجاب میں پہلے بھی اور اب بھی عام روایت ہے کہ پورس گجر تھا ۔

پہلی صدی عیسوی میں کسانہ گجروں کی عظیم الشان سلطنت کا ذکر ملتا ہے جسے کشان سلطنت کے نام سے تاریخ میں جانا جاتاہے ، اس کا نامور راجا کنشک تھا جس نے 22 مارچ 79ء کو ایک کیلنڈر جاری کیا ۔ اسی نسبت سے دنیا بھر کے گجر 22 مارچ کو انٹرنیشنل گجر ڈے مناتے ہیں ۔ کشان سلطنت وسط ایشیا سے لے کر گجرات ( انڈیا ) تک پھیلی ہوئی تھی ۔ کشان سلطنت کے بعد گرجارا پرتہارا سلطنت گجر قوم کے بڑی سلطنت تھی جس کا ذکر عرب مورخین ، چینی سیاحوں اور مسلمان سیاحوں نے بھی کیا ہے ۔ اس کے علاوہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے بھی گرجارا پرتہارا سلطنت کے بادشاہوں کو گجر قرار دیا ۔ اس کے بعد دہلی اور اجمیر کی چوہان سلطنت کا ذکر ملتا ہے جس کا نامور راجا پرتھوی راج چوہان تھا ۔ تاریخ واضح طور پر پرتھوی راج چوہان اور اس کے آبا و اجداد کو گرجر ثابت کرتی ہے ۔ اسی طرح کابل اور لاہور کے آخری ہندو راجا بھی گجر تھے جن میں سے راجا جے پال مشہور راجا تھا جس کا مقابلہ محمود غزنوی کے ساتھ ہوا ۔ پنڈت کلہن نے راجا جے پال کے خاندان کو کھٹانہ گجر لکھا ہے ۔

قدیم دور سے تیرہویں صدی عیسوی تک ہندوستان میں مختلف گجر ریاستوں اور مملکتوں کے واضح ثبوت دیکھنے میں آتے ہیں۔اُس دور میں گوجری زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی۔خصوصاً عہد وسطیٰ کے سرکاری سرپرستی کے زمانے میں ادیبوں اور شاعروں نے کافی مقدار میں گوجری اَدب تخلیق کیا البتہ اس میں شعری اَدب زیادہ ہے اور وہ بھی اکثر صوفیانہ کلام ہے۔ ان شعرا میں سید نور الدین ست گرو، حضرت امیر خسرو، شاہ میراں جی، شاہ باجن ،شاہ علی جیوگامی، برہان الدین جانم، خوب محمد چشتی، جگت گرو اور امین گجراتی کے نام قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر جاوید راہی نے ”گوجری کی صوفیانہ شاعری“ کے نام سے پوری کتاب لکھی ہے۔

ریاست جموں وکشمیر میں بولی جانے والی گوجری پر عربی اور فارسی کے واضح اثرات دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ ریاست کے تمام گوجر مذہب اسلام کو ماننے والے ہیں اور ان کا مذہبی لٹریچر عربی اور فارسی زبانوں میں دستیاب تھا مذہبی اور عالم فاضل لوگ درسگاہوں میں عربی فارسی کی تعلیم دیتے تھے اس لیے عام لوگوں کی زبان پر بھی یہ اثرات مرتب ہونے لگے البتہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ آریائی ہندوستان میں داخل ہوئے تو وہ انڈک زبان بولتے تھے باقی زبانیں آریائی اور قدیم ہندوستانی تہذیبوں اور بولیوں کے میل میلاپ سے وجود میں آئیں جنہیں پراکرت کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کی ایک شاخ آپ بھرنس ہے۔

سرکاری سرپرستی کے دور میں گوجری زبان کو مملکتِ گجرات(جس کا ایک حصہ برٹش ددر میں راجپوتانہ کہلایا ) میں مرکزی حیثیت حاصل رہی۔اردو زبان کے نامور ادیب ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی ” تاریخ اردو ادب “ میں لکھتے ہیں:

” جب دکن میں اردو کے نئے مراکز ابھرے تو وہاں کے اہل علم و ادب نے قدرتی طور پر گوجری ادب کی روایت کو اپنایا۔ دکن میں جب اردو کا چرچا ہوا اور اسے سرکاری دربار کی سرپرستی حاصل ہوئی تو وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کی نظر گوجری ادب پر ہی گئی اس ادب کو معیار تسلیم کر کے انھوں نے اس ادب کے تمام عناصر کو اپنے ادب میں جذب کر لیا“۔

ڈاکٹر جمیل جالبی اردو اور گوجری کے لسانی روابط تلاش کرتے ہوئے گوجری زبان کی ادبی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اردو بولنے والوں کو گوجری سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی یقیناً گوجری زبان اور اردو کا لسانی رشتہ بہت قریبی ہے کیونکہ اردو زبان کی بنیادیں ہی گوجری ادب پر ہیں۔

  کشمیر میں تخلیق ہونے والا گوجری ادب مقامی لہجوں کا مرکزی روپ ہے گوجری زبان کا اپنا ایک حلقہ ہے ،اپنا ایک ادب ہے، اپنے خالص الفاظ کا ذخیرہ ہے اور اپنی ایک الگ پہچان ہے۔گوجری زبان میں محاورے، ضرب المثل، پہلیاں، لوک گیت، لوک کہانیاں اور لوک بار غیر ہ  سب مواد موجود ہے۔ گوجری اپنی قدامت اور وسعت کے لحاظ سے برصغیر کی اہم زبان ہے۔شروع شروع میں گجرات (بھارت) اور دکن میں اس سے اردو نے نشو و نما پائی ۔ 

اردو ادب کے دبستانِ دکن پر گوجری زبان کے اثرات نمایاں ہیں۔ چوہدری اشرف گوجر نے اپنی کتاب” اردو کی خالق، گوجری زبان“ میں بڑے خوبصورت طریقے سے یہ بات ثابت کی ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی کے بعد عرب اور ترک حملہ آوروں کے پے درپے حملوں کے نتیجے میں ہندوستان میں گجرریاستوں (مملکتِ گجرات و راجستھان) اور گجرحکومتوں کا خاتمہ ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی گوجری زبان کی سرکاری سرپرستی ختم ہو گئی اور یہ زبان اپنے مرکز سے محروم ہو گئی ۔ گوجری زبان برصغیر کے میدانوں اور کوہساروں میں بڑی توانائی کے ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی سعی کررہی ہے۔ یہ زبان ہندوستانی گجرات, راجستھان، ہماچل پردیش، جموں وکشمیر، شمالی پنجاب ,ہزارہ ڈویژن ,ملاکنڈ ڈویژن , اور گلگت بلتستان اور ساتھ ہی افغانستان،ایران, روس اور چین کے کچھ علاقوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق برصغیر پاک و ہند و افغانستان میں گوجری زبان بولنے والوں کی تعداد دوکروڑ سے زیادہ ہے۔جغرافیائی وسعت کے اعتبار سے برصغیر کی دوسری کوئی زبان گوجری کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ گوجری زبان بولنے والے ہندو ، سکھ ، بت مدھ ، جین مدھ ،عیسائی اور مسلمان شامل ہیں ، گوجری کثیر المذاہب زبان کا مقام رکھتی ہے ۔ گوجری زبان میں ہر صِنف ادب موجود ہے اور سب سے زیادہ مذہبی لٹریچر ہے جن میں ترجمہ قرآن ، سیرت النبی ﷺ ، نعت رسول مقبول ﷺ ، منقبت اصحاب ‏‏، منقبت اولیاء ، مرثیہ، لوک گیت، وغیرہ شامل ہیں ۔

ادب ترمیم

گوجری ادب میں اسلامی ادب کا بڑا سرمایہ موجود ہے جس میں تراجم قرآن کریم۔ تفاسیر قرآن۔ سیرت الرسول ۔ منقبت اصحاب۔ منقبت اولیاء۔فقہ اور حدیث کے تراجم پائے جاتے ہیں۔

قرآن مجید کا گوجری زبان میں صوتی ترجمہ بھی ہو چکا ہے جس کا سہرا معروف صحافی و سماجی شخصیت منیراحمد زاہد کے سر جاتا ہے ۔

گوجری فولک میں نغمے، بلاڈ اور فولک کہانیاں جنہیں داستان کہا جاتا ہے بہت دستیاب ہیں۔ گوجری زبان کے سیکڑوں گانے نشر ہوئے ہیں جن میں “نوروو‘‘، “تاجو“، “نئرا“، “بیگوما“، “شوپیا“، “کونجھڑی“ اور “ماریاں“ شامل ہیں۔ گوجری زبان میں اب لکھنے کا رواج بھی عام ہوچلا ہے۔ مشہور لکھاریوں میں سین قادر بخش، نون پونچی اور دیگر شامل ہیں۔ دوسرے لکھاریوں میں میاں نطام الدین، خدا بخش، زابائی راجوری، شمس الدین مہجور پونچی، میاں بشیر احمد، جاوید راہی، رفیق انجم، ملکی رام کوشن، سروری کاسانا، نسیم پونچی، مفتی محمد ادریس ولی [11]۔(مفتی صاحب کی کتاب لشکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حکومت پاکستان نے 2021 میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا ہے)۔جیسے لوگوں نے نام کمایا ہے اور اپنی شاعری، نثر اور تنقیدوں کے ذریعے گوجری زبان کی خدمت کی ہے۔

گوجری زبان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اب پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بھی کام ہوناشروع ہوا ہے ہے جس میں سب سے پہلا قدم ہزارہ یونیورسٹی شعبہ اردو کے چئیرمین اور ہزارہ چئیر کے ڈائریکٹر ڈاکڑ الطاف یوسفزئی نے 11 جنوری 2023 کو ہزارہ یونورسٹی کے ہال میں ایک پر وقار سیمنار بعنوان ( پہلی اردو گوجری کے ادبی ولسانی اشتراکات ) کا انعقاد کیا جس میں ڈاکٹر خاور چوہدری ، مفتی محمد ادریس ولی ، ڈاکٹر طاہرہ جبین ، پروفیسر ممتاز، نوجوان شاعر صفی ربانی، شہنشاہ گوجری غزل مخلص وجدانی اور دیگر حضرات نے اپنے مقالہ جات پیش کیے ، جس میں گوجری کو اردو کی خالق اور ہند کی جملہ زبانوں سے قدیم ہونا ثابت کیا ۔ ہزارہ کی سر زمین پر گوجری زبان کو اجاگر کرنے میں مفتی محمد ادریس ولی کی خدمات کو سراہا گیا ۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ہرالڈ ہیمر اسٹورم، رابرٹ فورکل، مارٹن ہاسپلمتھ، مدیران (2017ء)۔ "Gujari"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری 
  2. ” اردو کی خالق، گوجری زبان“ مصنف چوہدری محمد اشرف ایڈووکیٹ 
  3. (ماخوذ از ’اردو زبان: تاریخ، تشکیل، تقدیر‘، خطبۂ پروفیسر ایمے ریٹس، علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1988، ص59)
  4. In Jammu and Kashmir, Gujari is written right-to-left in an extension of the Persian alphabet, which is itself an extension of the Arabic alphabet. Gujari is associated with the Nastaʿlīq style of Persian calligraphy – http://jktribals.page.tl/Gojri-Language.htm آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jktribals.page.tl (Error: unknown archive URL), http://www.merinews.com/article/writers-in-jk-seek-constitutional-safeguards-for-gojri/129813.shtml آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ merinews.com (Error: unknown archive URL)
  5. (راج ترنگنی باب 5 صفحہ 205 ، ترجمہ مسٹر سٹین)
  6. گلوشری ٹرائبس اینڈ کاسٹس پنجاب اینڈاین ڈبلیو ایف پی 
  7. " مریادا کی دیواریں " مسٹر ویش راج بھاٹی 
  8. " گجرات اور شاہدولہ ولی" محمد احسان چھینہ 
  9. "ضلع گجرات " مصنف ڈاکٹر احمد حسین احمد قریشی، صفحہ: 129،130 
  10. "تاریخ پاکستان" ۔ مصنف یحییٰ امجد، صفحہ: 96 
  11. ادریس۔ گوجری زبان میں اسلامی ادب