بھارتی فوج ١٥ اگست ١٩٤٧ء کو بھارت کی آزادی کے بعد قائم کی گئی۔ اس کی افرادی قوت میں 11 لاکھ حاضر سروس فوجی جبکہ 9 لاکھ 60 ہزار ریزرو فوجی شامل ہیں۔ اس کا ہیڈ کوارٹر نئی دہلی بھارت میں واقع ہے۔ سنہری،سرخ اور سیاہ رنگ بھارتی فوج کے رنگ ہیں۔ جبکہ موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل بپن راوت ہيں۔

بھارتی فوج
بھارتی سینا
بھارتی آرمی کا نشان
قیام1 اپریل 1895؛ 129 سال قبل (1895-04-01)
ملک بھارت
قسمفوج
حجم1,237,117 active personnel
960,000 reserve personnel
136 aircraft
حصہبھارتی مسلح افواج
صدر مراکزنئی دہلی
نصب العین"Service Before Self"
Gold, red and black
   
برسیاں15 January – Army Day
ویب سائٹindianarmy.nic.in
کمان دار
رئیس عملۂ دفاعجنرل بیپین راوت، UYSM، AVSM، YSM، SM، VSM
رجمنٹ کے کرنللیفٹیننٹ جنرل Devraj Anbu، PVSM ، UYSM، AVSM، YSM، SM
قابل ذکر
کمان دار
Field Marshal K. M. Cariappa
فیلڈ مارشل مانک شاء
طغرا
عَلَم
اڑائے جانے والے طیارے
ہیلی کاپٹرHAL Dhruv، HAL Rudra، HAL Chetak ، HAL Cheetah
‎بھارتی فوج کا جھنڈا‎

پاکستان پر جارحیت

ترمیم

بھارتی فوج نے 1947,1965,1971 اور کارگل کی جنگیں پاکستان کے خلاف اور 1962 کی جنگ چين کيخلاف لڑی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے علاقے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ بھارتی فوج کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ اس کے علاوہ معمولی سرحدی جھڑپیں اور بلا اشتعال فائرنگ بھارتی فوج کا روز کا کام ہے۔

لڑای کا نظریہ

ترمیم

بھارتی فوج کی حالیہ حربی تعلیم لڑاکا اور دفاعی فارمیشنوں کے مؤثر استعمال پر مبنی ہے۔ جنگ کی صورت ميں دفاعی فارميشنيں دشمن کے حملے کو روکيں گی اور لڑاکا فارميشنيں دشمن افواج کے کمزور سيکٹروں پے جوابی حملہ کريں گی۔ بھارت پر حملے کی صورت ميں دفاعی فارميشنيں دشمن کے حملے غير موثر کر ديں گی جبکہ لڑاکا فارميشنيں اپنی مرضی سے منتخب شدہ جگہ کا انتخاب کر کے حملہ کريں گی۔ ہندوستانی فوج کی کئی کور لڑاکا فارمیشنوں کے کردار کے لیے وقف ہیں۔ اس وقت فوج اسپیشل فورسز کی صلاحیتوں کو بڑھانے پر غور کر رہی ہے۔ دور دراز کے ممالک ميں بھارتی مفادات کے تحفظ کے لیے بھارتی فوج اور بھارتی بحریہ مشترکہ طور ایک میرین بریگیڈ سیٹ اپ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

اہلکار

ترمیم

بھارتی فوج ميں بھرتی رضاکارانہ ہے اور اگرچہ جبری فوجی بھرتی کے لیے ایک دفعہ بھارتی آئین میں موجود ہے، لیکن اس کو کبھی نہیں نافذ کيا گیا ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز، کے مطابق 2010 میں فوج ميں 1,129,900 فعال اہلکار تھے اور 960,000 اہلکار ریزرو تھے۔ ان ریزرو میں سے 160000 اہلکار علاقائی فوج کے تھے ۔

پيادہ (انفنٹری)

ترمیم

اپنے آغاز پر بھارتی فوج کو برطانوی فوج کا تنظیمی ڈھانچہ ورثے میں ملا جو آج بھی برقرار ہے۔ پس برطانوی فوج کے پیشرو کی طرح ایک بھارتی انفنٹری رجمنٹ کی ذمہ داری فیلڈ آپریشن کرنا نہیں بلکہ فارمیشنوں کو اچھی طرح تربیت یافتہ اہلکاروں کی بٹالین فراہم کرنا ہے۔ اس لیے يہ عام بات ہے کہ ایک انفنٹری رجمنٹ کی بٹالينز , بریگیڈ، کور اور یہاں تک کہ تھیٹر میں تقسیم ھو۔ برطانوی اور دولت مشترکہ کے ہم منصبوں کی طرح جو جوان جس رجمنٹ کو تفویض ہو جاتا ہے وہ عام طور پر پوری نوکری اس رجمنٹ ميں کرتا ہے اور اس پہ فخر محسوس کرتا ہے۔ ايک انفنٹری رجمنٹ علاقے، نسل یا مذہب کی بنياد پہ کھڑی ہوتی ہے مثلأ آسام رجمنٹ، جٹ رجمنٹ اور سکھ رجمنٹ وغيرہ۔ ان میں سے اکثر رجمنٹيں برطانوی راج کے دوران قائم ہونے والی اپنی روايات برقرار رکھتی ہيں، سالوں سے مختلف سیاسی اور عسکری دھڑوں نے رجمنٹوں کے منفرد انتخاب کے معیار کی مخالفت اس بات پر کی ہے کہ رجمنٹ کی وفاداری بھارت سے زيادہ اس کے علاقے، نسل یا مذہب کی عوام سے ہو گی۔ اور اس کو تحلیل کرنے ميں کسی حد تک کامیاب بھی رہے اور غیر نسلی، غیر مذہبی اور غیر علاقائی رجمنٹيں کھڑی کی گئيں مثلأ برگيڈ آف گارڈز اور پیراشوٹ رجمنٹ وغيرہ، لیکن يہ ایک چھوٹی سی کامیابی ہے کيونکہ اس کو جوانوں اورعوام کی حمایت حاصل نہيں۔ بھارتی فوج کے اندر سینیارٹی کے حساب سے رجمنٹوں کی ترتيب:

  • برگيڈ آف گارڈز
  • بکتر بند انفنٹری رجمنٹ
  • پیراشوٹ رجمنٹ
  • پنجاب رجمنٹ
  • مدراس رجمنٹ
  • گرينيڈير رجمنٹ
  • مراہٹہ لائٹ انفنٹری رجمنٹ
  • راجپوتانہ رائفلز
  • راجپوت رجمنٹ
  • ڈوگرہ رجمنٹ
  • گھڑوال رجمنٹ
  • کماون رجمنٹ
  • آسام رجمنٹ
  • بہار رجمنٹ
  • مہار رجمنٹ
  • جموں کشمير رائفلز
  • جموں کشمير لائٹ انفنٹری رجمنٹ
  • ناگا رجمنٹ
  • گورکھا رجمنٹ
  • لداخ اسکاوٹس
  • راشٹرايہ رائفلز
  • اروناچل اسکاوٹس
  • سکھم اسکاوٹس

توپخانہ( آرٹلری)

ترمیم

توپخانہ بھارتی فوج کا زبردست آپریشنل بازو ہے۔
کارگل جنگ کے دوران دشمن کا سب سے زیادہ نقصان توپخانے نے کیا۔ توپخانے کے کردار کی حکام بالا کی طرف سے بہت تعریف کی گئی تھی۔
تاریخی طور پر ہندوستان میں توپخانہ مغل بادشاہ بابر نے 1526ء میں پانی پت کی مشہور لڑائی میں متعارف کرايا۔
بھارتی آرٹلری نئی 130 ملی میٹر اور 150 ملی میٹر آرٹلری گنوں کے حصول کے ليے کوشش کر رہی ہے۔

رسالہ(آرمر)

ترمیم

بھارتی فوج میں رسالے کی97 رجمنٹيں موجود ہیں۔ ان میں درج ذیل تاریخی رجمنٹيں انیسویں صدی سے پہلے کی شامل ہیں: اول (سکنر) ہارس، 2nd لانسرز (گارڈنر ہارس)، 3 کیولری، 4 (ہوڈسن)ہارس، 7 لائٹ کیولری، 8 لائٹ کیولری، 9 (دکن)ہارس، 14 (سکاندی)ہارس، 17 (پونا)ہارس، 15لانسرز، 16لائٹ کیولری، 18 کیولری، 20 لانسرز اور 21 (سينٹرل انڈين)ہارس۔ آزادی کے بعد بڑی تعداد میں يونٹيں 'کیولری' یا 'آرمرڈ' رجمنٹوں کے نام سے کھڑی کی گئی ہيں۔

ساز و سامان

ترمیم

بھارتی فوج اپنا زیادہ تر ساز و سامان درآمد کرتی ہے، لیکن ساز و سامان کی مقامی تیاری کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایک حد تک ہندوستانی فوج کے لیے چھوٹے ہتھیار، آرٹلری، راڈار اور ارجن ٹینک وغيرہ دفاعی تحقیق اور ترقی کے ادارے نے تیار کيے ہيں۔ تمام چھوٹے فوجی ہتھیار اور توپیں آرڈننس فيکٹريز بورڈ کی چھتری تلے اچہاپور، کعثساپور، کانپور، جبالپور اور ٹاروچاراپاللی میں تيار کيے جاتے ہيں۔ انسساس رائفل جو بھارتی فوج 1997 سے کاميابی سے استعمال کر رہی ہے اشاپور رائفل فیکٹری کی پیداوار ہے۔ جبکہ ايمونيشن کہادک اور ممکنہ طور پر بولانگیر میں تیار کيا جاتا ہے ۔

آرمی ایوی ایشن

ترمیم

آرمی ایوی ایشن کور بھارتی فوج کا اہم جسد ہے، ہیلی کاپٹر فوج کی فضائی امداد ٹرانسپورٹ ٹیکٹکل فضائی نقل و حمل، جاسوسی اور طبی انخلاء کے ذمہ دار ہیں۔ جبکہ بھارتی فضائیہ کے ہیلی کاپٹر بھی فوج کی فضائی امداد کرتے ہيں۔ بھارتی آرمی ایوی ایشن کور کے پاس تقريبأ 150 ہیلی کاپٹر ہيں۔ بھارتی فوج نے ايسے ہیلی کاپٹروں کی خريداری کی درخواست دی ہوئی ہے جو کے 750 کلو تک وزن جموں و کشمیر اور سیاچن گلیشیر ميں 23,000 فٹ تک کی بلندیوں پر لے کر جا سکتے ہیں۔ ان بلندیوں پر پرواز منفرد چیلنج ہے۔ بھارتی فوج اپنے چيتا اور چيتک ہیلی کاپٹروں کے بیڑے کو جن میں سے بعض ہیلی کاپٹر تین دہائیاں پہلے شامل کيے گئے تھے ہال لائٹ يوٹلٹی ہیلی کاپٹروں سے بدلے گی۔ 13 اکتوبر 2012 کو وزیر دفاع نے لڑاکا ہیلی کاپٹروں کا کنٹرول بھارتی فضائیہ سے بھارتی فوج کو دے ديا۔

ملٹری انٹیلی جینس

ترمیم

ملٹری انٹیلی جینس بھارتی فوج کا انٹیلی جنس بازو ہے۔ ایم آئی (یہ عام طور پر کہا جاتا ہے) 1941 میں قائم کی گئی ابتدائی طور پر اس کا کام فوج کی اپنی صفوں میں کرپشن کی پڑتال کرنا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے کردار میں بارڈر پار انٹیلی جنس، دوست ممالک کے ساتھ انٹیلی جنس کا تبادلہ، باغی گروپوں کے بارے ميں معلومات اور انسداد دہشت گردی وغيرہ شامل ہو گئے۔ 1970 کی دہائی کے اواخر میں سامبا جاسوسی کيس سامنے آيا جس میں بھارتی فوج کے 3 افسران کو پاکستانی جاسوس ہونے کے الزامات ثابت ہونے کی وجہ سے سنگين سزائیں سنا ئی گئیں۔ اس کيس سے ادارے کو بہت بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2012 سے اب تک ایم آئی کے بہت سے اختيارات نئی بنائی گئی قومی تکنیکی تحقیقاتی تنظیم NTRO اور ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کو دے ديے گئے ہيں، قومی تکنیکی تحقیقاتی تنظیم کو 2004 میں سپریم سائنسی ایجنسی کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ اس کے ذيلی اداروں میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کریپٹالوجی بھی شامل ہے، جو ایشیا میں اپنی نوعیت کا پہلا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم