جدید دور میں روبوٹ سے مراد ایک میکانیکی یا غیر ماہیتی، مصنوعی سازندہ (agent) ہے۔ بالعموم روبوٹ ایک ایسے میکانیکی و برقی نظام کو کہا جاتا ہے جس کی حرکات و سکنات اور شکل و صورت سے یوں لگے جیسے اس میں خود سے قوت ارادہ یا قوت تغیر موجود ہو۔ غیر ماہیتی روبوٹ سے مراد سافٹ ویئر سازندے (soft ware agents) ہیں، جن کے لیے ”بوٹ” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر خودکار نظام یا آلے کو روبوٹ نہیں کہا جاتا۔ ایک خودکار آلے اور روبوٹ کا فرق سمجھنے کے لیے روبوٹ کی مندرجہ ذیل خصوصیات کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔

فائل:ROBALA.PNG
ہنڈا نامی ادارے کی جانب سے تیار کیا گیا ایک انسان نما روبوٹ جو ASIMO کہلاتا ہے

روبوٹ کو مصنوعی طور پر بنایا جاتا ہے، یہ قدرتی طور پر موجود نہیں ہوتا۔ وہ نہ صرف اپنے ماحول کو محسوس کر سکتا ہے بلکہ اس میں تبدیلی بھی لا سکتا ہے۔ اس میں کسی قسم کی ذہانت موجود ہونی چاہیے، جس کو بروئے کار لا کر وہ اپنے ماحول میں تبدیلی لانے کا لائحہ عمل منتخب کرے اور پھر اس لائحہ عمل کو اپنے افعال کے ذریعے عملی جامہ پہنا سکے۔ مزید یہ کہ اس کو پروگرام کیا جا سکے، یعنی اس کی ذہانت و انتخاب میں بدرجہِ صلاحیت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس میں جنبش و حرکت کی صلاحیت ہو جس سے وہ نقل و حمل کر سکے۔

وجہ تسمیہ

روبوٹ کا لفظ سب سے پہلے Karel Capek نے استعمال کیا اور یہ زمانہ 1920ء کا ہے جب پہلی بار ایک اصطلاح جو آگے چل کر سائنس میں داخل ہو گئی انگریزی زبان میں دیکھنے میں آئی۔ درحقیقت اس لفظ کی ماخوذیت بہت پیچیدہ اور طویل سفر رکھتی ہے اور گمان غالب ہے کہ یہ لفظ اصل میں چیک زبان (Czech language) کے لفظ robota سے آیا ہے جس کے معنی کارندہ، غلام، سازندہ اور عمالی وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ پھر 1941 میں آئزک ایسیموو نے اسی لفظ سے وہ لفظ ڈھالا جو آج نہ صرف ٹیکنالوجی کی انتہائی حدود پر قائم ہے بلکہ ایک مکمل علم کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، یعنی Robotics۔

توصیفِ روبوٹ

گو یہ بات قابل بحث ہی ہے کہ کونسے خواص یا اوصاف ایسے ہیں کہ جن کی بنا پر ایک آلہ ، روبوٹ کہلایا جا سکتا ہے۔ عمومی طور پر ایک روبوٹ میں مندرجہ ذیل خواص میں سے کئی موجود ہونے چاہیے، یہ ضروری نہیں کہ اس فہرست کے تمام کے تمام اوصاف موجود ہوں۔

  • روبوٹ کہلائی جانے والی چیز قدرتی نہ ہو بلکہ مصنوعی طور پر تیار کردہ ہو۔
  • وہ آلہ اپنے ماحول کو کسی حد تک محسوس کر سکتا ہو۔
  • اپنے ماحول کی اشیاء پر کام کر سکتا ہو۔
  • اس میں کسی نہ کسی حد تک خصوصیت ذکاء (intelligence) ہونا چاہیے۔ اگر یہ نہ ہو تو کم از کم اس میں ماحول کے مطابق کوئی انتخاب کرنے کی صلاحیت (جو خود کار تضبیط (automatic control) اور یا پھر کسی پیش پروگرامنگ متوالیت (preprogrammed sequence) کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے)۔
  • وہ آلہ، ایک یا زائد محورِ گردش یا تـرجـمہ پر حرکت کر سکتا ہو۔
  • وہ آلہ، باہم مربوط اجادی (dexterous) حرکات انجام دے سکتا ہو۔
  • اس میں ایک نیت (ارادہ) اور وکالت (agency) کا اظہار محسوس ہوتا ہو۔
  • وکالت میں درج ذیل تین اوصاف شامل ہو سکتے ہیں۔
(ان تینوں اوصاف کی مزید تفصیل ان کے مخصوص صفحات پر دیکھیے)

خصوصیاتِ روبوٹ

ایک بہت اہم خصوصیت جو (موجود تصور کے مطابق) روبوٹ کہلائے جانے کے لیے ایک آلہ میں ہونا ضروری ہے وہ وکالت (agency) ہی ہے اور جس قدر زیادہ کوئی آلہ، اوپر بیان کردہ تین خصوصیات کی حامل وکالت میں قوی ہوگا اسی قدر اس کے روبوٹ ہونے کا تصور واضح اور نمایاں ہوگا۔

عقلی وکالت

 
KITT عقلی تجسیمہ نمونے یعنی
anthropomorphic model کی ایک مثال ہے

عقلی وکالت (mental agency) سے مراد کسی روبوٹ کی ذکاء اور عقلی صلاحیت سے ہوتی ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ایک ماہرروبالیات اور روبالی مہندس کے لیے ایک روبوٹ کی ظاہری وکالت سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہوتی ہے کہ اس کے افعال اور حرکات وسکنات کو کس طرح اور کس خوبی سے قابو یا تضبیط کیا جا سکتا ہے۔ جس قدر زیادہ ایک تضبیطی نظام یعنی control system کی وکالت یا agency ہوتی ہے اسی قدر زیادہ ایک انجینئر کی نظر میں اس آلہ کی حقیقی روبوٹ کی حیثیت سے دیکھنے کا امکان ہوتا ہے۔ ایک اور اہم خصوصیت جو عقلی وکالت میں پائی جاتی ہے وہ اس وکالت کے لیے موجود انتخابات کی ہے، جس قدر زیادہ کسی آلے میں مختلف انتخابات یا چناؤ کی صلاحیت ہوتی ہے اسی قدر زیادہ اس کی عقلی وکالت کو سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر

جسمانی وکالت

جسمانی وکالت (physical agency) سے مراد کسی روبوٹ کے جسم کی ساخت یا اظہار ہوتا ہے۔ ماہرین روبالیات (robotics) کے نقطۂ نظر سے تو اوپر بیان کردہ روبوٹ کی عقلی وکالت اہمیت رکھتی ہے مگر اکثر افراد کے لیے ایک روبوٹ کا انسَنَہ (anthropomorphic) اور یا پھر حیَونہ (zoomorphic) سے تجسیم کا قریب ہونا زیادہ اہم خصوصیت ہے۔ مثال کے طور پر اگر وہ آلہ کوئی طرف یعنی limb رکھتا ہو یا ایک جاندار کی طرح سے چل پھر سکتا ہو تو اس کے روبوٹ ہونے کا تصور زیادہ ابھرتا ہے، جیسے Asimo اور Aibo نامی روبالات۔ مثال کے طور پر

مختلف تعریفیں

 
گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانے والے ایک روبوٹ کی مثال؛ یہ روبوٹ دراصل ایک برقی جھاڑو (vacuum cleaner) ہے جسے صرف فرش پر ڈال دینا کافی ہے، پھر یہ خود چکر لگا لگا کر تمام علاقہ صاف کرتا رہتا ہے

جیسا کہ اب تک کہ بیان سے اندازہ ہو چکا ہوگا کہ روبوٹ کی کوئی ایک مستحکم اور متعین تعریف نہیں ہے، مختلف ماہرین اور مختلف ادارے اس کی مختلف تعریفیں بیان کرتے ہیں مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ انکا بنیادی مفہوم ایک ہی ہوتا ہے جو اوپر توصیف روبوٹ کے قطعہ میں پیش کیا گیا ہے۔

  • ایک خود تضبیطی، قابل ِپروگرام ِمکرر، کثیرالمقاصد، تین یا مزید الجہتی قابل ِصارفی ترامیم ؛ جو صنعتی خودکار استعمالات کے لیے ثابت بھی ہو سکتا ہے اور یا پھر متحرک بھی [1]
    An automatically controlled, reprogrammable, multipurpose, manipulator programmable in three or more axes, which may be either fixed in place or mobile for use in industrial automation applications.
  • صنعتی روبالیات کے بانیوں میں سے ایک، Joseph Engelberger کا کہنا ہے کہ
  • میں روبوٹ کی تعریف تو نہیں کر سکتا، ہاں جب اسے دیکھتا ہوں تو پہچان جاتا ہوں [2]
    I can't define a robot, but I know one when I see one."
  • خودکار کام انجام دینے کے لیے ایک آلہ، جو شمارندے سے تضبیط کیا جاتا ہے۔ [3]
    A machine used to perform jobs automatically, which is controlled by a computer.

تاریخ

ایک میکانیکی نظام رکھنے والے جاندار اور بطور خاص انسان کا تصور بہت قدیم ہے اور دنیا کے مختلف ممالک کی افسانوی اور دیومالائی داستانوں میں ملتا ہے۔ مگر حقیقی اور سائنسی معنوں میں ایک روبوٹ کا قدیم ترین تصور جابر بن حیان نامی ایک مسلم سائنسدان کے یہاں ملتا ہے جس نے انسان سمیت مختلف الانواع جانداروں کو میکانیکی طور پر بنانے کے بارے میں طریقۂ کار بیان کیے (انگریزی ویکیپیڈیا کے مطابق) اور غالب امکان ہے کہ اس نے یقیناً کسی نہ کسی درجہ (گو ابتدائیییی ہی صحیح) پر روبالات کی تیاری کی عملی کوشش بھی کی ہوگی کیونکہ ایک سائنس دان کی فطرت اسے صرف لکھنے تک محدود نہیں رکھ سکتی، لیکن اس کے اس کام کا کوئی نمونہ دستیاب نہیں (کم از کم اس تحریر کے وقت تک)۔

غرض یہ کہ روبوٹ کا تصور انسانی تاریخ میں بہت قدیم ہے۔ 450 قبل مسیح ایک یونانی Archytas نے ایک ایسے پرندے کا تذکرہ (یا تصور) کیا کہ جو بھاپ سے متحرک ہو سکتا تھا۔ Heron نامی اسکندریہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے 10 تا 70 سال بعد المسیح متعدد خودکاریہ (automata) بنائے۔ مسلم سائنسدان ، الجزاری نے کئی خودکاریہ مثلا ساعت الماء (آبی گھڑی)، گھریلو استعمال کی نیم خودکار اشیاء اور موسیقی کے آلات کو خودکار (جو آبی قوت سے چلتے تھے) تیار کرنے کے تجربات کیے [4]

1950ء میں دریافت ہونے والے لیونارڈو ڈاونچی کے ایک کتابچے میں ایک 1495ء میں تخیل کیے جانے والے ایک میکانیکی انسان کا خاکہ پایا گیا ہے جو خود کار طریقے پر اٹھ کر بیٹھ سکتا تھا (یہ صرف ایک خاکہ یا تصور ہے اس کے عملی حصول کی کسی کوشش یا تجربے کا کوئی ثبوت نہیں)۔ 1738ء میں Jacques de Vaucanson نے ایک میکانیکی بطخ بنائی جو دانہ منہ میں ڈال سکتی تھی اور پر پھڑپھڑا سکتی تھی۔

دور جدید کے مفہوم میں پہلا روبوٹ 1898ء میں Nikola Telsa کی تیار کردہ ایک بعید عالجہ کشتی (teleoperated boat) کو مانا جاتا ہے۔ 1930ء Westinghouse والوں نے ایک انسان نما روبوٹ تیار کیا جس کا نام Elektro رکھا گیا۔ پھر 1940ء میں پہلے برقیاتی اور خودکار روبالے کو W. Grey نے جامعۂ برسٹل برطانیہ میں تیار کیا۔ صنعتی روبالوں میں پہلا صنعتی روبوٹ George Devol نے تیار کیا۔

کسی روبالے سے کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا پہلا انسان Robert Williams کو کہا جاتا ہے [5] ، جبکہ اکثر Kenji Urada بھی اسی قسم کے حادثے کا شکار ہونے والا پہلا شخص کہا جاتا ہے۔ لیکن دستاویزات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ولیئم کے ساتھ یہ حادثہ 1979ء میں جبکہ کینجی کے ساتھ 1981ء میں پیش آیا [6] ۔

فی زمانہ استعمالات

روبالات کی پیچیدگی اور استعمالات دونوں میں (وقت کے ساتھ ساتھ) اضافہ ہو رہا ہے اور صنعتوں میں انکا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ اب تک انکا زیادہ استعمال کثیرپیداواری کارخانوں میں خودکاریت پیدا کرنے کے لیے ہوتا رہا ہے جہاں کوئی ایک متعین اور لگا بندھا کام تکرار کے ساتھ کیا جاتا ہو جس کو روبالات دھراتے رہیں۔ اس طرح کے کام کی ایک عام مثال پیداوارِ سیارہ (car production) کے شعبہ میں ملتی ہے جہاں روبالات، رنگائی (painting)، جوشکاری (welding) اور پیچ جڑھانے جیسے کام تکرار کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔

روبالات کا ایک اور اہم کام، انسان کے لیے پرخطر اور یا پھر ناگوار حالات میں ہوتا ہے۔ مثلا تلافی قنبلہ (bomb disposal) یا خلاء، زیرآب اور کان کنی وغیرہ کے شعبہ جات میں کام اور زہریلے مادوں کے ساتھ کام کرنا وغیرہ۔ اس مقصد کے لیے چند روبالے Robowatch OFRO اور Robowatch MOSRO ہیں۔ ارتجالی منفجر اختراعات (improvised explosive devices) کو ہٹانا بھی اسی قسم کی ایک مثال ہے اس قسم کے کام کو EOD بھی کہا جاتا ہے۔

روبالات کا ایک اور استعمال خود امامی ناقلات (AGVs) میں بھی بکثرت کیا جا رہا ہے۔ اس قسم کا کام بڑے بڑے ذخیرہ خانوں اور کارخانوں میں دیکھنے میں آتا ہے جہاں روبوٹ کو اشیاء ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا اس سے نہ صرف کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ انسانی حفاظت میں بھی۔ یہ روبالات یا تو اپنی تضبیط کے لیے تاروں اور یا پھر لیزر کی امامت (guidance) پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی نظریہ کے تحت چند جگہوں پر روبالات کو شفاخانوں میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

گھریلو استعمال میں روبالات ابھی صرف ان کاموں تک محدود ہیں جو تواتر رکھنے کے ساتھ ساتھ سادہ بھی ہوں مثلا برقی جھاڑو دینا (مثال کے طور پر اسکوبا اور رومبا نامی روبالات) اور یا پھر باغ میں گھاس تراشی کرنا وغیرہ۔ اس کے علاوہ باورچی خانوں میں کام کرسکنے والے روبالات کے بھی تجرباتی نمونے خاصی کامیابی سے مکمل کرلیے گئے ہیں جن پر ابھی مزید تحقیق جاری ہے۔

گھریلو استعمال کی ایک اور قسم ان روبالات کی ہے جو ہمجولی یا دوست کی حیثیت سے استعمال کیے جاسکیں (مثلا آئبو (AIBO)) اور یا پھر ان کو کھیل میں حریف بنایا جاسکے (مثلا ludobots)۔ ایسے روبالات، معاشی روبوٹ کے زمرے میں آجاتے ہیں۔ مزید یہ کہ کچھ رولابات، نحیف اور اپنا جسم درست استعمال نہ کرسکنے والے افراد کے لیے بھی خاصی کامیابی سے تیار کیے جاچکے ہیں جن کی مثالیں واکامارو اور پارو ہیں۔

حوالہ جات

  1. "روبوٹ کی تعریف کے بارے میں ایک دستاویز (پی ڈی ایف فائل)" (PDF)۔ 28 جون 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2007 
  2. چیزیں کیسے کام کرتی ہیں کہ بارے میں ایک موقع آن لائن
  3. "کیمبرج لغت کا موقع آن لائن: روبوٹ کے بارے میں"۔ 11 دسمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2007 
  4. "الجزاری کی خودکاریہ (automata) تحقیق پر ایک حوالہ"۔ 21 اپریل 2003 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2007 
  5. روبالے کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے پہلے انسان کے بارے میں ایک صفحہ
  6. کینجی کے بارے میں اکنامسٹ ڈاٹ کام پر ذکر