ابن المبرد
امام ابن المبرد (عربی زبان: جمال الدین یوسف بن عبد الہادی ) (پیدائش: یکم محرم الحرام 841ھ/ 4 جولائی 1437ء– وفات: 16 محرم الحرام 909ھ/10 جولائی 1503ء) فقیہ اور فقہ حنبلی کے عالم تھے۔ ابن المبرد کی وجہ شہرت اُن کی تصنیف مغنی ذوی الافہام عن الكتب الكثيرة فی الاحكام فی فقہ الحنابلہ ہے۔
ابن المبرد | |
---|---|
(عربی میں: يُوسُف بن حسن بن أحمد بن حسن بن عبد الهادي الصالحي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1436ء [1][2][3][4] صالحیہ، دمشق |
وفات | سنہ 1503ء (66–67 سال)[1][2][3][4] دمشق |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | حنبلی |
عملی زندگی | |
پیشہ | عالم ، فقیہ ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [5] |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمابن المبرد کی پیدائش بروز جمعرات یکممحرم الحرام 841ھ/ 4 جولائی 1437ء میں شام کے ایک قصبہ صالحیہ، دمشق میں ہوئی۔[6]
نام و نسب
ترمیمامام ابن المبرد کا نام یوسف بن حسن ہے۔ کنیت ابو العباس اور ابو المحاسن ہے۔ امام ابن المبرد کا نسب خلیفہ دؤم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تک ملتا ہے جس سے القرشی العدوی کہلاتے ہیں۔ دمشق میں سکونت کے اعتبار سے صالحی دمشقی بھی کہلاتے ہیں۔ شیخ نجم الدین محمد بن محمد الغزی (متوفی 1061ھ/1651ء) نے ابن المبرد کو شیخ الامام، علامہ، مصنف، محدث کے القابات سے یاد کیا ہے۔[7]
امام ابن المبرد کا نسب یوں ہے : یوسف بن الحسن بن احمد بن الحسن بن احمد بن عبد الہادی بن عبد الحمید بن یوسف بن محمد بن قدامۃ بن مقدام بن نصر بن فتح بن حذیفۃ بن محمد بن یعقوب بن القاسم بن ابراہیم بن اسماعیل بن یحییٰ بن محمد بن سالم بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب العدوی القرشی۔ [8]
القاب و خطابات
ترمیممحدثین نے امام ابن المبرد کو مختلف القابات و خطابات سے یاد کیا ہے جیسے کہ: الامام العالم، علامہ الہمام، نخبۃ المحدثین، عمدۃ الحفاظ المسندین، بقیۃ السلف، قدوۃ الخلف، عدیم النظیر فی التحریر و التقریر۔ [6]
تحصیل علم
ترمیمتعلیم قرآن اور تفسیر
ترمیمابن المبرد نے ابتدائی تعلیم میں قرآن کریم کی تعلیم شیخ احمد المصری الحنبلی الصفدی سے حاصل کی، بعد ازاں شیخ محمد اور شیخ عمر العسکرین، شیخ زین الدین الحبال سے تفسیر پڑھی۔ تین بار نماز میں مکمل قرآن کریم کی تلاوت کی۔
حدیث
ترمیمابن المبرد نے حدیث کی تحصیل امام تقی الدین الجراعی (825ھ–883ھ) سے کی۔ امام ابوالعباس احمد الفولاذی (774ھ–867ھ) سے صحیح بخاری پڑھی اور اِنہی سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت کی اجازت لی۔ امام ابوالعباس احمد الحریری سے مسند احمد بن حنبل، سنن ابی داؤد، شمائل ترمذی پڑھی اور اِن سب کتب حدیث کی روایت کی اجازت لی۔ محدثہ فاطمہ بنت خلیل الحرستانی (متوفی 873ھ) سے امام ضیاء الدین المقدسی کی کرامات مشائخ الارض المقدسہ کی حکایات المقتسبۃ اور امالی شیخ حمد بن عبد الواحد بن عبد العزیز المصری پڑھیں اور اِن کی اجازت حاصل کی۔ امام احمد بن حنبل (متوفی 241ھ/ 855ء) کی ثلاثیات اسماعیل بن عمر المقدسی سے پڑھیں اور اِن سے بھی شمائل ترمذی کی روایت کی سند حاصل کی۔[9]
فقہ
ترمیمابن المبر نے فقہ کی تحصیل امام ب رہان الدین بن مفلح (816ھ–884ھ)، امام تقی الدین بن قندس (809ھ–861ھ) سے کی۔ امام تقی الدین الجراعی سے ہی ابن قدامہ کی المقنع پڑھی۔ المقنع کے کچھ ابواب امام علاء الدین المرداوی (817ھ–885ھ) سے پڑھے۔
تلامذہ
ترمیمامام ابن المبرد نے تقریباً 40 سال سے زائد کی مدت تک حدیث اور فقہ کی تعلیم دی اور اِس مدت میں اُن کی ہزاروں تلامذہ نے شہرت پائی جن میں سے چند مشہور یہ ہیں : احمد الشوبکی، عبد الرحیم الکستنی، محمد بن عبد الرحمن الماوردی، نجم الدین الماتانی، شمس الدین محمد بن طولون۔[9][10]
تصانیف
ترمیم- مغنی ذوی الافہام عن الكتب الكثيرة فی الاحكام فی فقہ الحنابلہ
- الدرر الكبير جزء منہ فی التراجم والسير
- النهاية فی اتصال الرواية
- تاريخ الإسلام
- الاقتباس: تعليقات وشروح على سيرة ابن سيد الناس
- تاريخ الإسلام
- تاريخ الإسلام
- تاريخ الإسلام
- الميرة فی حل مشكل السيرة: الجزء الثانی منه فی شرح ما أبہم من سيرة ابن هشام
- العقد التام فيمن زوجہ النبی عليہ الصلاة والسلام
- محض الشيد فی مناقب سعيد بن زيد
- محض الخلاص فی مناقب سعد ابن أبی وقاص
- ضبط من غبر فيمن قيده ابن حجر
- تذكرة الحفاظ وتبصرة الإيقاظ
- تراجم الشافعية
- العطاء المعجل: فی تراجم الحنابلة
- ارشاد السالک الى مناقب مالک
- العقد التام فيمن زوجہ النبی عليہ الصلاة والسلام
- تعريف الغادی
- سير الحاث: رسالة فی الطلاق
- الإتقان في أدوية اللثة والأسنان
- الإتقان لأدوية اليرقان
- الطباخة: رسالة في أوصاف بعض المآكل
- عدة الملمات في تعداد الحمامات
- الإعانات على معرفة الخانات
- ثمار المقاصد في ذكر المساجد
- آداب الحمام وأحكامه
- الحسبة: رسالة
- نزهة المسامر في أخبار مجنون بني عامر
- نزهة الرفاق: رسالة في أسماء الأسواق بدمشق في أيامه
- الدرة المضية: رسالة فی الشجرة النبوية
- تحفة الوصول الى علم الاصول
- نزهة الرفاق: رسالة في أسماء الأسواق بدمشق في أيامه
- الرد على من شدد وعسر فی جواز الاضحية بما تيسر
- غراس الآثار وثمار الأخبار ورائق الحكايات والأشعار
- الاختلاف بين رواة البخاری
- بلغة الحثيث الى علم الحديث
- غاية السول إلى علم الأصول
- مقبول المنقول من علمی الجدل والأصول
- محض الصواب في فضائل أمير المؤمنين عمر بن الخطاب
- تاريخ الصالحية
- بحر الدم فی من تكلم فيه احمد بن حنبل بمدح او ذم
- مراقی الجنان بقضاء حوائج الإخوان
وفات
ترمیمامام ابن المبرد نے بروز پیر 16 محرم الحرام 909ھ/ 10 جولائی 1503ء کو صالحیہ، دمشق میں 68 سال 15 دن قمری کی عمر میں انتقال کیا اور صالحیہ، دمشق کے باب الصغیر قبرستان واقع جبل قاسیون میں تدفین کی گئی۔[9][11]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب سی ای آر ایل - آئی ڈی: https://data.cerl.org/thesaurus/cnp00636423 — اخذ شدہ بتاریخ: 23 جنوری 2019
- ^ ا ب بنام: Yūsuf ibn Ḥasan or Ibn al-Mibrad — وی آئی اے ایف آئی ڈی: https://viaf.org/viaf/398330/ — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb178000951 — بنام: Yūsuf ibn Ḥasan Ibn al-Mibrad — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب Diamond Catalog ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/3096 — بنام: Yūsuf ibn Ḥasan Ibn al-Mibrad
- ↑ عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/069915652 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020
- ^ ا ب ابن المبرد: مغنی ذوی الافہام عن الکتب الکثیرۃ فی الاحکام، ترجمۃ المصنف، صفحہ 12۔ مطبوعہ مکتبہ طبریہ، ریاض، سعودی عرب، 1416ھ/ 1995ء۔
- ↑ نجم الدین محمد بن محمد الغزی: الکواکب السائرۃ باعیان المائۃ العشرۃ، جلد 1، صفحہ 317، تذکرہ یوسف بن حسن بن المبرد الحنبلی۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1417ھ/ 1998ء۔
- ↑ ابن المبرد: بحر الدم فیمن تکلم فیہ الامام احمد بمدح اوذم، ترجمۃ المصنف، صفحہ 3۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1413ھ/ 1992ء۔
- ^ ا ب پ ابن العماد الحنبلی: شذرات الذھب فی اخبار من ذھب، جلد 10، صفحہ 62۔ تذکرۃ سنۃ 909ھ۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1406ھ/ 1986ء۔
- ↑ ابن المبرد: ایضاح المقالۃ فیما ورد بالامالۃ، ترجمۃ المصنف، صفحہ 14، مطبوعہ دارالبشائر الاسلامیہ، بیروت، لبنان، 1430ھ/ 2009ء۔
- ↑ ابن المبرد: ایضاح المقالۃ فیما ورد بالامالۃ، ترجمۃ المصنف، صفحہ 18، مطبوعہ دارالبشائر الاسلامیہ، بیروت، لبنان، 1430ھ/ 2009ء۔