2004ء کے اعداد و شمار کے مطابق ازبکستان میں 88 فیصد مسلمان، 9 فیصد مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا اور 3 فیصد دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔[1]

Devonaboy Mosque in اندیجان. اسلام is the main religion in Uzbekistan.

مذہبی رائے شماری ترمیم

2012ء میں WIN-Gallup International' نے ایک سروے کیا جس میں حصہ لینے والوں میں سے 79 فیصد نے کہا کہ وہ مذہبی ہیں، 18 فیصد نے خود کو دہریہ بتایا اور 3 فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ [2]

ازبکستان میں مذہبی مراکز N
1 اسلام 2 050
2 کوریائی مسیحی کلیسا 52
3 روسی راسخ الاعتقاد کلیسیا 37
4 اصطباغی کلیسیا 23
5 پینتی کاسٹل 21
6 سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ چرچ 10
7 یہودیت 8
8 بہائیت 6
9 کاتھولک کلیسیا 5
10 نیو اپاسٹولک چرچ 4
11 لوتھریت 2
12 آرمینیائی رسولی کلیسیا 2
13 یہوواہ کے گواہ 1
14 کرشنا کنشسنیس 1
15 بدھ مت 1
16 چرچ آف وائس آف گاڈ 1
17 بائبل سوسائٹی[3] 1
ازبکستان میں مذاہب، 2004ء[1]
مذاہب فیصد
اسلام
  
88%
مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا
  
9%
دیگر
  
3%

عہد سوویت ترمیم

سوویت اتحاد کے تمام ممالک میں مارکس اور لینن سے متاثر دہریت کا بول بالا تھا۔ سوویت نے ایک اصطلاح رائج کی تھی جسے گوساٹیزم (gosateizm) کہتے تھے۔ یہ( gosudarstvo) یعنی ریاست اور (atheism) یعنی دہریت کا مرکب ہے۔ اس کا مقصد ریاست میں دہریت کو فروغ دینا، مذہب کے خلاف تعلیمی مواد چھاپنا اور نشر کرنا، نظام تعلیم میں مذہب کے خلاف تدریسی مواد فراہم کرنا اور مذہبی نشانات کو ختم کرنا تھا۔ 1980ء کی دہائی تک سوویت مذہب کے اثر کو ماند کرنے میں کامیاب رہا بایں طور کہ مساجد اور مدارس مقفل کر دیے گئے، مذہبی متون اور تعلیمات پر پابندی لگادی گئی، مذہبی رہنماؤں کو مقید کر دیا گیا۔ [4]

آزادی کے بعد ترمیم

ازبکستان ایک سیکیولر ملک ہے اور دستور کی دفعہ 61 کے مطابق مذہبی تنظیمیں ریاست سے الگ رہیں گی اور قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گی۔کسی بھی مذہبی تنظیم کے کام کاج میں ریاست کی کوئی دخل اندازی نہیں ہوگی۔ [5] 1990ء کی دہائی میں سقوط سوویت کے وقت سعودی عرب اور ترکی کے متعدد مذہبی گروہ ازبکستان میں آئئے اور صوفیت اور وہابیت کی تبلیغ کی۔ 1992ء میں نامیغان نامی شہر میں سعودی یونیورسٹی سے پڑھکر آئے کچھ طالبعلموں میں ایک سرکاری عمارت پر قبضہ کر لیا اور صدر کریمو سے مانگ کی کہ اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب ہونے کا اعلان کیا جائے اور ملک میں شرعی قانون نافذ کیا جائے۔ حالانکہ ان کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا اور حکومت نے ان پر غلبہ حاصل کر لیا۔ ان کا سرغنہ افغانستان فرار ہو گیا اور پھر پاکستان چلا گیا۔ اسے بعد میں اتحادی فوج نے شہادت دے دی۔ 1992ء اور 1993ء میں 50 مبلغین کو سعودے عرب سے بھگا دیا گیا۔ صوفی مبلغوں کو بھی تبلیغ سے منع کر دیا گیا۔ [6]

اسلام ترمیم

اسلام ازبکستان کا سب سے برا مذہب ہے۔ یہاں اہل تشیع کے بالمقابل اہل سنت کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں 8ویں صدی میں عرب قوم نے اسلام کو متعارف کروایا۔ اولا وہ وسط ایشیا میں ترکستان کے جنوبی حصہ میں آئے اور بعد میں شمال کی جانب اپنا اثر بڑھایا۔ [7] 14ویں صدی میں امیر تیمور میں کئی ساری مذہبی عمارتیں، مساجد تعمیر کروائیں جن میں بی بی خانم مسجد بھی شامل ہے۔ اس نے احمد یسوی کے مزار پر اپنی سب سے شاہکار عمارت بنوائی۔ احمد یوسی ایک صوفی بزرگ تھے جنھوں نے خانہ بدوشوں میں اسلام کی تبلیغ کی۔ ازبیگ خان کے تبدیلی مذہب نے ازبک لوگوں کو کافی متاثر کیا اور بہت بڑی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ ازبیگ خان نے احمد یسوی کے ایک مرید عبد الحمید کی تبلیغ پر اسلام قبول کیا۔ پھر انھوں نے طلانی اردو میں جم کر اسلام کی تبلغ کی اور وسط ایشیا میں مبلغین کے سفیر روانہ کیے۔ سوویت اتحاد کے دور میں ماسکو نے کامیابی سے ازبیک باشندوں کے ذہن میں اسلامی مطلب کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور ان کی نظر میں اسلام کے معنی ہی بدل گئے۔ انھوں نے وسط ایشیا میں ایک مد مقابل اسلامی ذہانت تیار کیا۔ حکومت نے بھی مذہب مخالف تنظیموں کی بھرپور مدد کی اور اسلامی تحریکوں کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو جبرا تبدیلی مذہب کروایا گیا۔ جوزف استالن کے عہد میں متعدد مساجد مقفل کر دی گئیں اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو جلا وطن کر دیا گیا۔ یہ اندازی لگایا جارہا تھا کہ سوویت کے سقوط تک ازبکستان سے اسلام ختم ہوجائے گا اور اسلام بنیادپرستی ماند پڑ جائے گی مگر یہ اندازہ اس وقت غلط ثابت ہوا جب پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ملک میں 96.3% مسلمان بستے ہیں۔ [8]

عیسائیت ترمیم

اسلام کی آمد سے قبل موجودہ دورکے ازبکستان میں ،مشرقی عیسائیت کے کچھ قبائل آباد تھے جن میں نسطوریت سے تعلق رکھنے والی آشوری قوم اور سریانی راسخ الاعتقاد کلیسیا شامل ہیں۔ 7 ویں اور 14ویں صدی عیسوی کے درمیان میں نسطوریت قبائل آباد ہوئے۔ بخارا اور سمرقند میں عیسائیت کت بڑے مراکز کھولے گئے۔ عرب قوم کی آمد کے بعد علاقہ میں مسلمانوں کا تسلط بڑھ گیا اور ان کی حکوکت قائم ہوئی۔ اس دوران میں نسطوریت کو خراج دینا پڑتا تھا۔ ان کو مذہبی عمارت بنانے پر پابندی تھی۔ یہاں تک کہ عوام میں صلیب بھی نمایاں نہیں کی جا سکتی تھی۔ ان پابندیوں کے باعث کئی عیسائیوں سے اسلام قبول کر لیا۔ علاقہ عیسائیت کا زور کم ہونے کی دوسری وجہ ییتی سو میں 1338-1339ء میں وبا کا عام ہوجانا ہے جس سے ہزاروں عیسائی قبائل ختم ہو گئے۔ ایک وجہ تجارت بھی ہے کیونکہ شاہراہ ریشم کی تجارت تقریباً مکمل طور پر مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی لہذا معاشی بہتری کے لیے عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا۔ تیمور کے پوتے الوغ بیگ (1409–1449) کے زمانے میں عیسائی وہاں سے بالکل ختم ہو گئے۔ [9][10] بہرحال 1867ء میں روس کے حملے کے بعد علاقہ عیسائیت کی گھرواپسی ہوئی اور راسخ الاعتقاد کلیسا کی تعمیر ہوئی تاکہ یورپی اور روسی افسران اور لوگوں کی مدد کی جا سکے۔ موجودہ دور میں ازبکستان کے زیادہ عیسائی روسی نسل کے ہیں جو مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا کو مانتے ہیں۔ یہاں کچھ قبائل کاتھولک کلیسیا کے بھی آباد ہیں۔ ازبکستان میں کاتھولک کلیسا بین القوامی کاتھولک کلیسا کا حصہ ہیں جن کی روحانی نگہبانی روم کے پاپ کرتے ہیں۔

پروٹسٹنٹ مسیحیت کی تعداد ازبکستان میں بہت کم ہے۔

یہودیت ترمیم

2007ء میں ازبکستان میں یہودیوں کی تعداد 5000 بتائی گئی ہے جو کل آبادی کا 0.2% ہے۔ [11] ازبکستان میں صرف یہود بخاری ایک چھوٹی سی آبادی باقی رہ گئی ہے۔

بہائیت ترمیم

ازبکستان میں 6 مندرج کمیون موجود ہیں جو تاشقند، بخارا، سمرقند، ناوئی اور جزاخ جیسے شہروں میں رہتے ہیں۔ [12] سفیر طاہر، ایک ایرانی النسل برطانوی نزاد انگریزی زبان کا معلم تھا، اس کی ولادت 1959ء میں ہوئی تھی ار اس نے ایک ازبک لڑکی سے شادی کر کے وہیں سکونت اختیار کرلی تھی، اس کو غیر قانونی طور پر بہائیت کی تبلیغ کرتے ہوئے پایا گیا تھا لہذا نومبر 2009ء میں اسے ملک بدر کر دیا گیا۔ [13]

ہندو مت ترمیم

ازبکستان میں ہرے کرشنا نامی ایک گروہ رجسٹرڈ ہے

بدھ مت ترمیم

موجودہ ازبکستان میں کئی بدھ مت کے رشتہ دار پائے گئے ہیں جو قدیم زمانے میں بدھ مت کو مانتے تھے۔ ان میں زیادہ تر باختر علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

زرتشتیت ترمیم

ازبکستان میں ما قبل اسلام زرتشتیت ابھی بھی باقی ہ اور تقریباً 7,400 لوگ اس کے متبع ہیں۔ [14] ازبک کے کچھ باشندے ابھی بھی آگ کی پرستش کرتے ہیں ایسا وہ مقدس آگ سے مندر کو بچان کے لیے کرتے ہیں۔ شادی کے بعد جب دلہن اپنے شوہر کے گھر جاتی تب اس کو آگ کے ارد گرد تین چکر لگانے پڑتے ہیں تاکہ خود کو ظہارت دے سکیں۔ اس کے بعد ہی شوہر بیوی اپنی بانہوں میں لیتا ہے اور زینت بستر بناتا ہے۔

لامذہبیت ترمیم

WIN-Gallup International's 2012 کے مطابق ایک سروے میں 2 فیصد لوگوں نے قبول کیا ان کا کوئی مذہب نہیں ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب "Middle East :: UZBEKISTAN"۔ CIA The World Factbook۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2018 
  2. WIN-Gallup International.GLOBAL INDEX OF RELIGIOSITY AND ATHEISM آرکائیو شدہ 2013-10-21 بذریعہ وے بیک مشین
  3. The Bible Society of Uzbekistan (BSU)
  4. Soviet Muslims 23. جون 1980
  5. Constitution of Uzbekistan. Part II. Basic human and civil rights, freedoms and duties.
  6. Islam and Secular State in Uzbekistan: State Control of Religion and its Implications for the Understanding of Secularity.
  7. Atabaki, Touraj. Central Asia and the Caucasus: transnationalism and diaspora، pg. 24
  8. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 19 مئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2018 
  9. NESTORIAN CHRISTIANITY IN CENTRAL ASIA
  10. SYRIAC GRAVESTONES IN THE TASHKENT HISTORY MUSEUM
  11. "AMERICAN JEWISH YEAR BOOK, 2007, Page 592" (PDF)۔ 26 مارچ 2009 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2018 
  12. "Bahai Centers in Uzbekistan"۔ 20 مارچ 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2018 
  13. Detailed story of Sepehr Taheri
  14. Uzbakistan