اشوریہ
اشوریہ تقریباً دو ہزار برس قبل مسیح میں شمالی عراق کے دریائے دجلہ و فرات کے وسط میں فروغ پانے والی ایک تہذیب اور سلطنت تھی جو اپنے دور عروج میں مصر، شام، لبنان، آرمینیا، ایلم (جنوب مغربی ایران) اور بابل تک پھیلی ہوئی تھی۔ ابتدا میں اس کا دار السلطنت شہر اشور (اب قلعہ شرغتہ، جو موصل سے 55 میل جنوب میں واقع ہے) تھا، چنانچہ اسی شہر کے نام پر اس سلطنت کا نام اشوریہ پڑا۔ بعد میں اشوری فرماں رواؤں نے شہر نینوا کو دار السلطنت بنایا اور وہاں عظیم الشان محل، معابد اور دیگر عمارتیں تعمیر کیں۔[1]
اشوریہ | |
---|---|
زمین و آبادی | |
متناسقات | 36°00′N 43°18′E / 36°N 43.3°E |
دارالحکومت | آشور کیتیوم نینوا تل لیلان قار توقلتی نینرتا نمردو دور شروکین (717) حران (612) کرکمیش (610) |
سرکاری زبان | اکدی ، آرامی ، سومری |
حکمران | |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 2025 ق.م |
عمر کی حدبندیاں | |
درستی - ترمیم |
شاہ اشور بنی پال کی وفات کے بعد سلطنت اشوریہ کا زوال شروع ہوا اور 612 ق م میں اہل بابل نے نینوا پر قبضہ کرکے اشوری سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور صرف اس کا نام اسیریا (اشوریہ) یونانی لفظ (سیریا) کی شکل میں باقی رہا جو اب شرق اوسط کے ایک جدید ملک (شام) کا نام ہے۔
اشوریوں کے مذہبی عقائد قدیم سومیری اور بابلی عقائد سے ماخوذ تھے اور ان کا سب سے بڑا دیوتا اشور تھا۔ جس کا سر گدھ کا اور جسم انسان کا تھا۔ اشوری علوم و فنون کے دل دادہ تھے۔ نینوا کی کھدائی سے جن عمارتوں کے کھنڈر دریافت ہوئے ہیں وہ ان کی عظمت کے گواہ ہیں۔ شاہ اشور بنی پال کے شاہی کتب خانے میں مذہب، تاریخ، جغرافیہ اور دیگر موضوعات پر چالیس ہزار کتابیں تھیں جو کچی مٹی کی تختیوں پر لکھی گئی تھیں۔
ویکی ذخائر پر اشوریہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
آشوری
ترمیمتاریخ میں آشوری تہذیب جنم دینے والا ایک سامی قبیلہ تھا جو اموریوں کی طرح جزیرہ نماہ عرب سے اٹھا تھا اور ایک بت کی پوجا کرتا تھا جو آشور Ashur کے نام سے مشہور تھا۔ اُسء بُرو یا دیوتا کے نام سے قبیلہ آشور اور ریاست کے علاوہ ایک شہر آشور دریائے دجلہ کے کنارے آباد کیا تھا، جس نے قدیم زمانے میں بڑی شہرت پائی اور آشوری حکومت کے ابتدائی دور میں ریاست کا پایہ تخت بھی رہا۔ آشوریوں کے دور سے پہلے یہ علاقہ جو آشوریہ کہلاتے تھے سمیریوں کے ماتحت تھے۔ جب سمیری حکومت کمزور ہوئی تو آشوریوں نے بھی ایک مختصر مگر آزاد ریاست کی بنیاد رکھی۔ مگر جلد ہی انھیں اکادی فرمانروا سرغون اول نے انھیں محکوم بنا لیا۔ اکادیوں کے بعد یہ ریاست میتانیوں اور اس کے بعد اموریوں نے بھی انھیں محکوم بنا لیا۔ اموری بادشاہ حمورابی کی موت کے آشوریوں نے آزادی حاصل کی اور ان کا یہ دور خوش حالی کا تھے۔ اس دور کے مشہور بادشاہوں میں شمش اعداد اول، شمش اعداد دوم، آشور اوبلیت زیادہ مشہور ہیں۔
دوسرا دور
ترمیمآشوریوں کا دوسرا دور شلما نضر اول سے شروع ہوتا ہے جو آشور ابلت کا پوتا تھا اور مصری فرمانروا رعمیس دوم کا ہم عصر تھا۔ اس نے کلاخ کو اپنا پایا تخت بنایا اور سلطنت کو وسیع کرنے کی کوشش کی۔ اس نے حتیوں اور میتانیوں کو شکست دے کر ان کے وسیع علاقہ پر قبضہ کر لیا اور تیس سال حکومت کرنے کے بعد 1246 ق م میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس کے مرنے کے بعد آشوری ریاست کمزور ہو گئی۔ مگر ڈیڑھ سو سال کے بعد تلگت پلاسر اول (1115 ق م تا 1103 ق م) کے دور سے پھر اس نے طاقت پکڑی۔ اس وقت بابل میں کاسی حکومت ختم ہو چکی اور طوائف الملوکی پھیلی تھی، تلگت پلاسر نے اس انتشار سے فائدہ اٹھایا اور بابل پر حملہ کرکے اس کو ممالک محروسہ میں شامل کر لیا نیز اس نے حتیوں اور آرمینوں کو آگے بڑھنے سے روک لیا۔ اس نے اپنے کار نامے کتبوں پر بیان کیے ہیں۔ اس نے ایک کتبہ پر لکھا ہے کہ آشور اور دوسرے دیوتا جنوں نے مجھے حکومت دی ہے اور مجھے حکم دیا کہ ان کی حکومت دور تک پھیلاؤں۔ انھوں نے مجھے شاندار اسلحہ عطا کیا، میں نے میدانوں پہاڑوں اور شہروں کو اپنے زیر نگیں کیا اور جو شہزادے آشور کے دشمن تھے ان کو مغلوب کیا۔۔ میں نے اپنی ریاست کی سرحدوں کو وسیع کیا۔
دوسری جگہ لکھتا ہے ’میں نے اپنی بے مثال بہادری کے ساتھ قموح کی قوم پر حملہ کیا۔ ان کے شہروں پر قبضہ کیا۔ ان کے اموال و املاک کو مال غنیمت میں میں لوٹا، پھر ان کے شہروں کو آگ لگادی اور ان کو پوری طرح برباد کر دیا۔ ۔۔۔ عدناش کے لوگ شہر چھوڑ کر بھاگے اور میرے قدموں میں آگرے۔ میں نے ان پر خراج مقرر کر دیا۔
اس طرح اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے چایس قبائل کو مغلوب کیا۔ ایک کتبہ میں اس کو شکاری بھی بتایا ہے کہ اس نے پا پیادہ اور رتھوں پر بیٹھ کر ایک سو بیس شیروں کا شکار کیا ہے۔
مگر اس کی فتوحات دیر پانہیں ہوئیں۔ بابل نے بغاوت کر دی۔ تلگت پلاسر اس کے صدمے سے جلد مر گیا اور اس کی موت کے بعد بد نظمی ہو گئی اور آوارہ گرد قبائل نے آشوری علاقہ کو لوٹنا شروع کیا اور یہ حالت دوسو سال تک رہی۔
تیسرا دور
ترمیمآشور ناصر پال تلگت پلاسر کی موت کے دو سو اٹھارہ سال بعد (883 ق م تا 859 ق م) تخت پر بیٹھا، اس نے اپنے چونتیس سالہ دور میں آشوری حکومت کو مضبوط کیا اور شرپسندوں کا خاتمہ کیا۔ ارد گرد قبائل پر حملے کرکے انھیں مغلوب کیا۔ اس نے اپنے ایک کتبہ پر لکھا ہے کہ ’میں طوفانوں کی طرح پہاڑ کی چوٹیوں پر جا پڑا اور ان پر قابض ہو گیا۔ چٹانوں کے درمیان میں دشمنوں کا قتل عام کیا اور ان کے خون سے پہاروں کو لالہ زار بنا دیا۔ ۔۔۔ میں نے ان کی املاک اور اموال کو لوٹا۔ ۔۔ ان کے نو خیز مردوں اور عورتوں کو آگ کے شعلے میں چھوک دیا۔ اس کے مختلف کتبوں کو دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سخت ظالم و جابر حکمران تھا۔ یوں تو قریب قریب تمام آشوری حکمران ظلم پسند تھے، مگر وہ ظلم تعدی میں اپنے پیشروں سے سبقت لے گیا تھا۔
آشور ناصر پال کی موت کے بعد شلما نضر سوم نے فتوحات کے دائرے کو شام تک وسیع کر دیا اور اس پر معدد حملے کیے اور ایک جنگ میں جس کا تذکرہ ایک کتبہ پر ملتا ہے، شام کی متحدہ طاقت کو قرقر کے مقام پر شکست دی، گو وہ دمشق پر قبضہ نہیں کرسکا۔ اس کامیابی کے ضم میں اپنے آپ کو ’شہنشاہ‘ شاہ عالم‘ اور ’شاہ ربع سکون‘ لکھا ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کا بیٹاشمش اعداد (883 ق م تا 811 ق م) اس کے بعد اس کی ملکہ سمورا مت نے تین سال اور اس کے بیٹے عداد نراری سوم نے ستائیس سال حکمت کی۔ بعد کے تین حکمرانوں شلما نضر چہارم (782 ق م تا 377 ق م)، آشور دان سوم (773 ق م تا 753 ق م) اور آشور نراری سوم (753 ق م تا 547 ق م)۔ آشوری نرار کی موت کے بعد ایسا لگتا تھا کہ آشوری حکومت ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ایک فوجی سالار تلگت پلاسر سوم نے تخت پر قبضہ کر لیا اور نہ صرف حکومت کو بچایا بلکہ اسے وہ عظمت عطا کی کہ اس سے پہلے کسی بادشاہ کو حاصل نہیں ہو سکی۔ اس کا دور عہد قدیم میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔
تلگت پلاسر سوم نے تقریباً اٹھارہ سال (745 ق م تا 727 ق م) حکومت کی۔ اس نے بابل کو فتح کیا اور پھر شام پر معتدد حملے کیے اور آرامیوں، حتیوں اور اسرائیلیوں کو شکست دے کر دمشق اور سماریہ پر اپنا تسلط قائم کیا، مختصر یہ کہ اس کے عہد میں آشوری حکومت کوہ قاف سے لے کر مصر تک پھیل گئی۔ تلگت پلاسر تعمیرات کا شائق، اچھا ناظم تھا، اس کے دور خوش حالی کا دور تھا۔
تلگت پلاسر سوم کی موت کے اس کا بیٹا شلمانضر پنجم حکمران بنا، وہ 722 ق م میں مر گیا۔ اس کے مرنے کے بعد ایک سالار نے تخت پر قبضہ کر لیا اور سرغون دوم کا لقب اختیار کیا۔
زرین دور
ترمیمسرغون دوم سے آشوریہ کا زرین دور شروع ہوتا ہے اس نے سترہ سال (722 ق م تا 705 ق م) حکومت کی۔ اس نے اوائل حکومت میں اسرائیلی دار الحکومت سامریہ پر چڑھائی کی اور تقریباً ستائیس ہزار عبرانیوں کو میدیا کی طرف جلا الوطن کر دیا۔ یہ ستائیس ہزر تاریخ میں اسرائیل کے دس ہزار گمشدہ قبائل کے نام سے مشہور ہیں اور ان کا انجام اب تک پردہ خفا میں ہے۔
مصر کے حبشی فرمانروا نے یہودیوں سے ساز باز کر کے ایشائے کوچک میں اپنا اقتدار قائم کرنے کی کوشش کی، مگر سرغون نے ان کے منصوبے کامیاب نہ ہونے دیا اور یہودیوں دوسری راست یہودیہ پر قابض ہو گیا۔ اس طرح وہ پورے شام پر قابض ہو گیا۔ اس سرغون نے بابل کو جو آشوری حکومت کے قبضہ سے نکل گیا تھا دوبارہ فتح کیا اور اپنی مملکت کو خلیج فارس تک وسیع کر لیا۔
تعمیرات اور نظم مملکت کے لحاظ سے سرغون کا دور بھی عہد زریں ہے۔ اس نے معتدد شاندار عمارتیں تعمیر کرائیں اور نینواہ کو اپنا دار الحکومت بنایا جس نے عہد قدیم میں شہرت اور عظمت حاصل کی۔ اس نے وہاں اپنے لیے عظیم انشان قیصر بھی بنوایا تھا، جو سرغون برج کہلاتا تھا۔
سرغون کی موت کے بعد اس کا شہرہ آفاق بیٹا سنا خریب آشور کے تخت پر بیٹھا۔ اس کے تخت پر بیٹھے ہی سلطنت کے مختلف حصوں میں بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ کلدانیوں اور عیلامیوں نے حملے کیے اور دوسری طرف سامریہ اور فلسطین کے اسرائیلی اور یہود نے کلدانیوں سے ساز باز کرکے آزادی حاصل کرنے کی کشش کی۔ مگر سنا خریب نے ان سب کے خلاف جوانمردی کے جوہر دیکھائے۔ اس نے اسرائیلی ریاست سامریہ کو ختم کرکے تقریباً دو لاکھ یہودیوں کو مشرق کی طرف جلاالوطن کر دیا۔ فلسطین کے یہودیوں کو بھی عبرت ناک سزائیں دیں۔ ان کے شہر پائمال کرکے ان کے سردار اور پیغمبر حزقیا سے بھی بھاری خراج وصول کیا۔
اس کے بارہ سال کے بعد (689 ق م) بابل نے بغاوت کی اس نے اس نے ایک ہی حملے میں عیلامیوں اور کلدانیوں کی طاقت کو پاش پاش کر دیا اور پھر بابل پر تسلط قائم کیا۔ اس موقع پر سناخریب نے سخت بے رحمی اور سفاکی کا مظاہرہ کیا۔ شہر پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے انیٹ سے اینٹ بجادی۔ بلا امتیاز عورت، مرد بڑے، چھوٹے، جوان اور بوڑھوں تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو لوگ زندہ بچے ان کو جلاالوطن کیا اور ایک نہر کا منہ کا رخ پھیر کر پورے علاقہ کو غرقاب کر دیا تا کہ بابل کا نام و نشان ہی نہ رہے۔
سنا خریب کا خیال شاید یہ تھا کہ ان سختیوں سے وہ ہیشہ کے لیے ان بغاوتوں کا استیصال کر دے گا اور بابل کی تباہی دیکھ کر دوسرے لوگوں شورش کی جرت نہیں ہوگی۔ مگر حقیقتاً ایسا نہ ہوا۔ فلسطین کے یہودیوں نے مصر کی حمایت حاصل کرکے پھر بغاوت کردی۔ سناخریب یلغار کرتا ہوا بغاوت کچلنے کے لیے فلسطین پہنچا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ مگر اس موقع پر اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور فوج کے اندر وبا ٹوٹ پڑی۔ اسے مجبوراً واپس آنا پڑا۔
وہ فوج کشی کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ اس کے بیٹوں نے اس کے خلاف سازش کی اور وہ مارا گیا۔ اس کا عہد آشوری تاریخ میں فتوحات اور تعمیرات دونوں کے لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے پر آشوب دور میں اقدار سنبھالنے کے بعد اس نے نہ صرف حکومت کو سنبھالے رکھا بلکہ اس نے فتوحات کے دائرے کو بھی وسیع کیا۔ اس نے مال غنیمت کا زیادہ حصہ تعمیرات پر خرچ کیا نینواہ کو ازسر نو آباد کیا شاندار عمارتیں، محلات اور عبادت گاہیں بنوائیں، باغات لگوائے اور اپنے دار الحکومت کو وہ شان بخشی کہ مغربی ایشیا کا سب سے خوبصورت شہر بن گیا۔
سناخریب نے بڑے بیٹوں کو نذر انداز کرکے چھوٹے بیٹے اسر حدون کو جانشین نامرز کیا۔ اس پر بڑے بیٹوں نے سازش کر کے باپ کو قتل کر دیا۔ مگر اسرحدون حیقیقتاً اپنے بڑے بیٹوں پر فوقیت رکھتا تھا، اس نے تمام شازشوں کو ناکام بنا کر تخت پر قبضہ کر لیا۔
اسرحدون نے بارہ سال (681 ق م تا 669 ق م) تک حکومت کی، اس نے اپنے باپ کی ناکام مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے فلسطین پر حملہ کیا اور یہودیوں کو مغلوب کر لیا۔ پھر اس نے مصر کے خلاف فوج کشی کر کے شہر ممطیہ پر قبضہ کر کے اسے زیر کر لیا۔ اس کی واپسی کے بعد مصریوں نے جنگ کی تیاری کی اور شام کی طرف بڑھے۔ اسرحدون ان سے مقابلے کے لیے نکلا، مگر راستے میں اس کی موت واقع ہو گئی۔
اسرحدون کا سب سے بڑا کارنامہ بابل کی دوبارہ تعمیر ہے۔ اس کے لیے اس نے جلاالوطن اور مفرور باشندوں کو واپس ٓنے کی اجازت دی اور آباد کاری کے لیے ہر ممکن سہولتیں بہم پہنچائیں۔ مکانات تعمیر کروائے اور اسے ہر لحاظ سے بارونق بنانے کی کوششیں کیں۔ مگر اسے کھوئی ہوئی عظمت حاصل نہیں ہو سکی، اس کی وجہ یہ تھی کہ بابل آشوریہ کا پایہ تخت نہیں تھا۔
اس کے آشور بنی بال اس کا بیٹا تخت پر بیٹھا، اس نے مصر کی طرف توجہ دی۔ شہر تسبتہ کو لوٹا اور بالآکر اسے اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ واپسی سے پہلے اس نے شہر سائیس کے ایک مصری سردار سامتیق کو اپنا نائب مقرر کیا۔
اپنی حکومت کے سولہویں سال اس کو ایک بڑی سازش کا مقابلہ کرنا پڑا، جس میں اس کا بھائی جو بابل کا حکمران تھا اور دوسرے میدی، عیلامی، کلدانی، آرامی اور شامی فرمانروا شریک تھے۔ آشور بنی بال نے نہایت مستعدی اور بہادری سے اپنے حریفوں سے مقابلہ کیا اور انھیں یکے بعد دیگر ہر ایک کو شکست دی۔ مگر اس اثنا میں مصر اس کے قبضے سے نکل گیا، سامتیق نے اپنی خود مختیاری کا اعلان کرکے آشوری سیادت کا جوا اپنی گردن سے اتار پھینکا۔
آشور بنی پال نے تقریباً بیالیس سال (669 ق م تا 626 ق م) حکومت کی۔ اس کی حکومت کے آخری اٹھارہ سال کے اندر آشوریہ کی فوجی طاقت میں انحطاط شروع ہو گیا۔ چنانچہ اس کی موت کے ایک سال کے بعد ہی کلدانی سردار بنوپلاسر نے بابل پر قبضہ کر لیا۔
زوال
ترمیمکلدانی تقریباً چار سو سال بیشتر ہی (1000 ق م) عراق کی سرزمین میں داخل ہو چکے تھے اور اپنا اثر قائم کرنے کی فکر میں تھے۔ خصوصیت کے ساتھ بابل ان کی سیاسی تحریک کا مرکز بن گیا تھا۔ مگر وہ زمانہ آشوریوں کے عروج کا تھا، کلدانیوں کی سازشیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ جب بھی انھوں نے سر اٹھایا آشوریوں نے کچل دیا، مگر اب حالات بدل چکے تھے، آشوریوں کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ آشور بنی بال کے جانشین ناہل تھے، دوسری طرف مخالف طاقتیں ابھر تی جا رہی تھیں۔ بنو پلاسر بابل پر قابض ہونے کے بعد اپنی مملکت کی توسیع کی فکر میں تھا۔ چنانچہ بارہ سال کے بعد اس نے میدیوں، پارسیوں اور سہتھیوں کی مدد حاصل کرکے نینواہ پر حملہ کیا۔ آشوری اپنے دار الحکومت کو نہیں بچا سکے۔ شہر غارتگری اور تباہ کاری کا آماج گاہ بنا اور ایسا اجڑا کے پھر اسے آباد ہونا نصیب نہیں ہوا۔ تمام عمارتیں منہدم کردی گئیں اور مغربی ایشیا کا مایہ ناز شہر مٹی کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔ شاہ میڈیا اور بابل نے آشوری مملکت کے حصے بخیرے کرکے اپنی حکومت کی سرحدیں متعین کیں۔
نینواہ کی تباہی کے وقت آشوری لشکر کے چند دستے ایک شہزادے آشور ابلت دوم کی قیادت میں مغرب کی طرف بھاگے۔ انھوں نے حران کو اپنا مسقر بنایا اور فرعون مصر نخو دوم سے ساز باز کرکے ایک بار قسمت آزمائی کی۔ قارقمش میں جنگ ہوئی، جس میں کلدانی شہزادے بخت نضر نے مصری و آشوری فوجوں کو عبرت ناک شکست دی۔ اس سانحہ کے بعد آشوری سر نہیں اٹھا سکے اور ان کا ستارہ (605 ق م) میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔
طرز حکومت
ترمیمآشوری حکومت تمام قدیم حکومتوں کی طرح شخصی اور مطلق العنان تھی۔ باپ کے بعد بیٹے کی تخت نشینی کا رواج تھا، بڑے بیٹوں کی موجودگی میں چھوٹے بیٹے کی مثالیں ملتی ہیں۔ بادشاہ آشور دیوتا مظہر اور نائب سمجھا جاتا تھا، اس کی ذات تمام غلطیوں سے پاک اور تنقید سے بالاتر تھی، تمام احکام آشور کے نام سے جاری و نافذ ہوتے تھے۔ اسی کے نام سے محصولات لگائے جاتے تھے اور اسی کے نام سے جنگیں لڑیں جاتی تھیں۔ بادشاہ دیوتا کے نائب کی حثیت سے ان تمام امور کو انجام دیا کرتا تھا۔ سمیریوں اور بابلیوں کے برعکس آشوری سیاست و حکومت پر مذہب کا اثر کم تھا۔ بادشاہ خود ہی مذہبی بیشوا بھی تھا، اس لیے مذہبی پیشواؤں کی قید و بند سے آزاد تھا۔ آشوری ریاست شہروں میں بٹی ہوئی تھی۔ ہر شہر اپنے متعلقہ علاقوں کے ساتھ ایک صوبہ کی حثیت رکھتا تھا، شہروں کو ایک گونہ آزادی حاصل تھی اور ان کے مذہب اور قوانین اکثر جدا گانہ تھے۔ بادشاہ عموماً ان کے معاملات میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرتا تھا، جب تک وہ خراج ادا کرتے تھے۔ ابتدا میں شہروں کا نظم و نسق جاگیر داروں اور زمنداروں کے سپرد تھا، وہ ایک مقررہ رقم اور سپاہ بادشاہ کو دیتے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ جاگیر دار ختم ہونے لگے اور ان کی جگہ پر حاکموں کو مقرر کیا جانے لگا۔ صوبے کے تمام امور آبپاشی، زراعت، خراج کی وصولی اور عام نظم و نسق ان کے متعلق کر دیا۔ حاکموں کے لیے یہ ضروری تھا کہ اپنے علاقہ میں فوج رکھیں اور ضرورت کے وقت بادشاہ کی مدد کریں۔ چوں کہ وہ اکثر بغاوت کر دیا کرتے تھے اس لیے ان پر شاہی جاسوس مقرر کر دیے گئے جو بادشاہ کو حالات سے مطلع کرتے رہتے تھے۔ آشوری اپنے نظام حکومت کے لحاظ سے دوسری ہم عصر قوموں پر فوقیت رکھتے تھے خصوصیت کے ساتھ آشور بنی بال کی نظام حکومت بہت وسیع، منظم اور مظبوط تھا۔ شام کے آرامیوں سے جب آشوریوں کا تعلق قائم ہوا تو ان کی زبان اور فن تحریر کو مزید ترقی ملی۔ اس کا اثر ان کے نظام حکومت پر پڑا، دفاتر بڑی باقیدگی سے چلنے لگے اور ان کی بہت سی کمزوریاں دور ہوگئیں۔
عسکری تنظیم
ترمیمعسکریت آشوری ریاست کی پہلی خصوصیت تھی۔ اس کی بنیاد ہی جنگی طاقت پر رکھی گئی تھی۔ پوری قوم عسکری صفات کی حامل تھی، تربیت یافتہ اور فن جنگ میں ماہر تھی۔ ان کی فوجیں جدید اسلحہ سے آرستہ تھیں، گھوڑے سوار فوج کا اہم حصہ تھے۔ اپنی حربی طاقت ہی کی بدولت وہ ہر چہار طرف دشمنوں میں گھرے ہونے کے باوجود اپنی حکومت کو صدیوں تک شان و شکوہ کے ساتھ قائم رکھ سکے۔ انھوں نے شکستیں بھی کھائیں اور محکوم بھی ہوئے، مگر جیسے ہی دشمنوں کی گرفت ڈھیلی ہوئی پھر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ اپنی حکومت کے تیسرے دور میں انھوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں اور اپنی ریاست کو خلیج فارس سے لے کر مصر تک وسیع کیا۔ بابل، آرمینا، میدیا، شام فلسطین، فینیقیہ، عیلام اور مصر کی حکومتیں ان کی باج گزار بن گئیں۔ انھوں نے اپنی ہم عصر قوموں کو نیچا دیکھایا اور انھیں اپنی سیادت قبول کرنے پر مجبور کیا۔ آشوریوں کے تمام کارناموں میں فن حرب کی ترقی سب سے اہم ہے اس میدان میں وہ اپنی تمام ہم عصر قوموں سے آگے بڑھ گئے، انھوں نے اچھے اور عمدہ ہتیار بنائے اور محاصرے کے آلات کے آلات کو خاطر خواہ ترقی دی، ان کے اسلحوں میں تیر کمان، برچھے،بھالے، نیزے، تیغے، گذر کلہارے، گنداسے اور منجیق اور وردیوں میں لوہے کے خود، زرہ بکتر، کمر بند، گھاکھرے اور سپر شامل تھے۔ آشوری فوج رتھ سواروں گھڑ سواروں، پیادوں اور قلعہ شکن دستوں پر مشتمل تھی۔ میدان جنگ میں بادشاہ خود ہی سپہ سالار کے فرائض انجام دیتا تھا۔
مذہب و اخلاق
ترمیمبابلیوں کی طرح آشوری بت پرست تھے، ان کا سب اہم اور قومی دیوتا آشور تھا، یہ سورج دیوتا تھا، جو نہایت جنگجو اور دشمنوں کے مقابلے میں بڑا ظالم سمجھا جاتا تھا، آشوریوں کا عقیدہ تھا کہ جنگی قیدیوں کی قربانی سے دیوتا بہت خوش ہوتا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ قربانی سے کر اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ دیوتا کہ اس تصور نے انھیں اور بھی سفاک اور بے رحم بنا دیا تھا۔
آشور کے علاوہ وہ چند سمیری اور بابلی معبودوں مثلاً شمش، بیل عشتر اور ننار کی بھی پرستش کرتے تھے۔ مگر حقیقت میں آشوری معاشرے پر مذہب کا اثر بہت ہلکا اور سطحی تھا، مذہبی امور کو انجام دینے کے لیے ایک مذہبی طبقہ موجود تھا، مگر اس کا اثر و اقتدار کا دائرہ بہت مختصر اور محدود تھا، پوری قوم مذہبی چھمیلوں سے آزاد تھی۔ ان کے نذدیک دو باتیں مذہباً ضروری تھیں، حب الوطنی اور قربانی۔ قومیت یا امتیاز رنگ و نسل قیام حکومت کے لیے ضروری تھا، قربانی نجات کے لیے ضرورہ تھی۔ ان دو باتوں پر دین و دنیا کی کامیابی کا دارو مدار تھا، اس لیے آشوری مذہب کے دائرے کو ان باتوں تک محدود رکھنا پسند کرتے تھے۔
آشوریوں کی صرف ایک مذہبی کتاب دستیاب ہوئی ہے، جس میں بدشگونیوں کی ایک فہرست ہے اور ان سے بچنے کی تذابیر درج ہیں۔ بابلیوں کی طرح ان کا عقیدہ تھا کہ تمام امراض اور مصاحب بھوتوں اور جنوں کے تسلط کا نتیجہ ہوتے ہیں اور ان سے بچنے کے لیے لمبے لمبے منتروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
آشوری ایک جنگجو اور سفاک قوم تھی، ان کے مذہب نے ظلم و تعدی کے اس طبی رجحان کو روکنے کی بجائے اور تقویت بخش دی تھی۔ اس کا اثر ان کے اخلاق پر بھی پڑا۔ ہر طرح کا ظلم ان کے یہاں مذہب طور پر جائز تھا۔ سرغون اور سناخریب تو خیر ظلم پسندی کے لیے مشہور تھے لیکن آشور بنی بال جیسا پڑھا لکھا اور مہذب بادشاہ بھی ان کو درست سمجھتا تھا اور فخریہ اپنے جور و ظلم بیان کرتا تھا، وہ عیلام کی تباہی کا حال ان الفاظ میں بیان کرتا ہے، میں نے ایک ماہ اور پچیس دن کی مسافت کی سر زمین کو جو عیلانیوں کے قبضے میں تھی برباد کر دیا۔ بادشاہ کے بیٹوں، بہنوں، شاہی گھرانے کے دوسرے افراد جوان اور بڑھوں، محافظوں، حاکموں، سرداروں، ہنر مندوں اور کاریگروں کل کے کل باشندوں عورتوں، مردوں، چھوٹوں، بڑوں کو ان کے لاتعداد خچروں، گدھوں، ریوڑوں اور مویشیوں کے ساتھ مال غنیمت بنا کر آشوریہ لے گیا۔ دوسری جگہ لکھتا ہے ’میں نے تین ہزار قیدیوں کو آگ میں جلا دیا، ان میں سے ایک کو بھی یرغمال کے طور پر زندہ نہیں چھوڑا‘۔ اس کے ایک دوسرے کتبہ میں ہے کہ ’میں نے ان کی زبانیں کھنچوا دیں ان کے گھر کے افراد کو کتوں، سوروں اور بھیڑیوں کے آگے ڈالدیا۔ ۔۔‘
جب آشور بنی بال کی سفاکیوں کا یہ حال تھا تو اس سے دوسرے بادشاہوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ سنا خریب کے متعلق معلوم ہے اس نے سامریہ کو برباد کر دیا اور بابل کی انیٹ سے اینٹ بجادی۔ اس طرح کے واقعات سے آشوری تاریخ بھری پڑی ہے۔ آشور ناصر بال کے کے ایک کتبہ پر یہ الفاظ ملتے ہیں، ’ان تمام سرداروں کو جنھوں نے میرے خلاف بغاوت کی، انھیں دار پر کھنچوادیا، ان کی کھالیں اڈھر والیں اور ان کھالوں سے اپنے ستونوں کو منڈھ دیا۔ ۔۔ بعض لوگوں کو شکنجے میں کس دیا اور بعض کو صلیب دی۔ ۔۔۔۔‘
آشوریوں کے نزدیک دشمن کو تکلیف دے کر مارنا، لاشوں کے اعضاء کاٹنا، زندہ جلا دینا، کھوپڑیوں کا انبار لگا دینا اور درختوں کو کاٹ دینا گناہ نہیں تھا۔ ان ظلم پسندیوں کے ساتھ ان میں دوسری اخلاقی بیماریاں بھی تھیں، شراب نوشی اور عیاشی عام تھی۔ طوائف کا پیشہ ان کے نذدیک معیوب نہیں تھا۔ بیویوں کی تعداد پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی۔ عورتوں کی خرید و فروخت بھی رائج تھی۔ مرد اپنی بیوی کو بیچنے کا حق رکھتا تھا۔ عورت کی حثیت بابل کی نسبت بہت گری ہوئی تھی۔ پھر بھی عیاشیوں کے جو طریقے بابلیوں نے ایجاد کیے تھے وہ آشوریہ میں نہیں تھے۔ وہاں مذہبی قبحہ گری نہ تھی اور نہ مردوں کے فیشن پر نسوانی طریقے رائج تھے۔
عدالتیں اور قوانین
ترمیممقدموں کے فیصلوں کے لیے آشوریہ میں میں بھی عدالتیں قائم تھیں، مگر ان میں عدالتی نظام بابل کی طرح منظم اور منضبط نہ تھا۔ محکمہ عدلیہ، انتظامہ میں مدغم تھا۔ بادشاہ عدلیہ کا بھی حاکم علیٰ تھا۔ چونکہ وہ مذہبی پیشوا اور دیوتا کا اوتار تھا، اس لیے اس کا ہر حکم اور خدائی ارادہ کا مظہر تھا، اس کی اطاعت بغیر کسی لیت و لعل کے قابل قبول تھی۔ اس کا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا تھا۔ شہروں میں بادشاہ کے مقرر کردہ حکام اور جاگیردار تھے، جو عدالتی فرائض بھی دیتے تھے، مذہبی نوعیت کے مقدمات فیصل کرنے کا حق پروہتوں کو حاصل تھا۔ بعض حالتوں میں ان کے قوانین زیادہ سخت تھے۔ آشوری قوانین سامری اور بابلی ضابطہ قوانین سے ماخوذ تھے، سزاؤں میں درے لگانا، ناک کان کانٹا، آنکھیں نکال لینا، زبان کھنچ لینا، صلیب پر چڑھانا، زندہ جلا دینا، پانی میں ڈبو دینا اور قتل کرنا شامل تھا۔ زنا بالجبر، چوری اور ڈاکہ زنی سنگین جرم سمجھے جاتے تھے۔ دوسری عسکری حکومتوں کی طرح آشوریہ نے بھی قانون کے ذریعہ افزائش نسل کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اسقاط حمل ان کے نذدیک سخت گناہ تھا۔ اس کوشش میں اگر کوئی عورت مر بھی جاتی تو اس کی لاش صلیب پر لٹکا دیتے تھے۔ بقیہ رسم و رواج عائلی اور ازواجی قوانین میں آشوریہ میں بابل کی تقلید کی جاتی تھی۔ وہی قانون وہاں بھی رائج تھے۔ بالعموم آشوری قوانین بابلی ضابطہ قانون کے مقابلے میں زیادہ فرسودہ اور غیر ترقی یافتہ تھا۔
علم و ادب
ترمیمآشوری عسکریت سفاکی، رزم و پیکار کے اس جوش و جنون میں سوائے جنگی سائنس کے دوسرے علوم و فنون، سائنس و ادب کی ترقی ممکن نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس میدان میں ان کا کوئی خاص کارنامہ نہیں ہے۔ سائنس و ادب، طب و علم نجوم میں جو کچھ وہاں نظر آتا ہے بابلیوں سے ماخوذ ہیں۔ ان میں فلسفیانہ تصورات و افکار کا بھی کوئی نشان نہیں ملتا ہے۔
آشور بنی پال ایک روشن خیال، بیدار مغز اور تعلیم یافتہ حکمران تھا۔ وہ علم و فن کا قدر دان اور مربی تھا۔ اس کے کتب خانے میں دو لاکھ بیس ہزار تختیاں موجود تھیں، جن میں بابل کی بڑی بڑی کتابوں کے ترجمے شامل تھے۔ یہ تختیاں ادب، سائنس، مذہبات اور تاریخ کے خزینے تھے۔ ان میں سے چند تختیاں برٹش میوزم میں موجود ہیں۔ آشور بنی پال کو اپنے اس کتب خانے پر بڑا فخر تھا۔ سچ تو یہ ہے اسی کے کتب خانے کی بدولت آج ہم آشوری اور بابلی تہذیبوں سے صحیح طور پر متعارف ہو سکے ہیں۔ آشور بنی پال نے اپنے کتبوں میں اکثر مقامات پر اپنی تعلیم کا حال بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے ’میں نے بنو کی حکمت حاصل کی، مٹی کی تختیوں پر لکھنے کا پورا فن سیکھا۔ ۔۔۔ میں نے تیر چلانا، سواری کرنا، ہانکنا اور لگام پکڑنا سیکھا۔ ۔۔۔۔ میں نے سومر کی خوبصورت گلی تختیوں کو اور اور اکادیوں کی اندھی تحریر کو جن پر عبور حاصل کرنا سخت دشوار ہے پڑھا۔ میں طوفان سے پہلے کے نوشتوں کو پڑھنے میں دلچسپی محسوس کرتا ہوں جو پتھر پر کندہ ہیں ‘۔
آشوریہ میں کتب خانے میں اس زمانے میں اتنی تختیوں کا اکھٹا کرنا خود علمی ذوق کا ثبوت ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ علمی ذوق ان میں بڑھتا جا رہا تھا، مگر اس سے ان کے علمی کارناموں پر کوئی روشنی نہیں پڑتی ہے۔ ان تختیوں میں اکثر دفتری ریکاڈ، پیشن گوئیوں، بد شگوئیوں، نسخہ جات، منتروں، ٹوٹکوں، دعاؤں اور بادشاہوں کے نسب نامے کے مطلق ہیں، جو حصے ادب، تاریخ و سائنس سے تعلق رکھتے ہیں وہ مختصر ہیں اور بابلی کتابوں کے ترجمے ہیں، پھر یہ ایک حقیقت ہے کہ آشوریوں کی بدولت بابل کے علمی خزانے کا ایک حصہ برباد ہونے سے بچ گیا ہے۔
گو علم و فنون کی ترقی میں آشوریوں کا کوئی خاص حصہ نہیں ہے، پھر بھی وہ علم و فن سے بالکل بے بہرہ نہ تھے، لکھنا پڑھنا جانتے تھے، لکھنے کا فن انھوں نے آرامیوں سے سیکھا تھا۔ آرامیوں کا مرکز دمشق تھا، انھوں نے یہ فن فنیقیوں سے حاصل کیا تھا، وہ مصریوں کی طرح قلم، روشنائی اور کاغذ استعمال کرنے لگے۔ ان کے تعلق کی وجہ سے آشوریوں میں بھی علم کا چرچا ہو گیا تھا۔ اور رفتہ رفتہ انھوں کی زبان اور تحریر کو انھوں نے اپنا لیا تھا۔ شاہی دفاتر میں بھی آرامی محرروں کو بھرتی کیا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ آشوری تختیوں پر آرامی تحریر میں حاشئے لکھے جانے لگے۔
سنگ تراشی
ترمیمفن حرب کے بعد دوسرا فن جس کو آشوریوں نے خاص طور پر ترقی دی، سنگ تراشی ہے۔ اس فن میں وہ مصریوں کے مد مقابل ہیں۔ ان کے سنگ تراشی کے نمونے بکثرت سے دستیاب ہوئے ہیں، جو فنکارانہ حثیت سے قابل تعریف ہیں اور ان کے کمال کا پتہ دیتے ہیں۔ بادشاہوں کے جنگی کارنامے وسیع سنگی تصاویر کے ذریعے دیکھائے گئے ہیں۔ تصاویر الباسٹرAlabastar پر کندہ ہیں اور محل کی دیواروں کے سامنے قطار در قطار نصب کی گئی ہیں۔ یہ فن بابل میں نہیں پایا جاتا تھا۔ دوسرے نمونوں میں جنگی رتھ، جانوروں اور انسانوں کے مجسمے، جنگ اور شکار کے مناظر شامل ہیں، جنگ اور شکار کے مناظر وسیع چٹانوں پر ابھرے ہوئے نقوش کے ذریعے پیش کیے گئے ہیں۔ ان کو دیکھنے سے پورا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ جانوروں میں شیر، گھوڑے، کتے، ہرن اور پرندوں کے مجسمے اور تصاویر ملتی ہیں، جو آشوریوں کے اس فن کے خاص نمونے ہیں، ان میں قابل تعریف صفائی اور زندگی پائی جاتی ہے۔ جانوروں کو مختلف حالتوں میں، کھڑے، بیٹھے، چڑتے، بھاگتے اور موت کی تکلیف میں دیکھایا گیا ہے۔ نقوش کے اندر انسانی شکلیں اتنی کامیاب نہیں ہیں۔ انسانی مجسمے بھی بھاری اور بھدے ہیں، ان میں نزاکت نہیں ہے۔ ممکن ہے ان میں عسکریت یہاں بھی اثر انداز ہوئی ہو اور طبعاً رومانی اور نسوانی نزاکت کو پسند نہ کرتے ہوں۔
بادشاہوں کے مجسموں میں آشور ناصر بال دوم کا مجسمہ سب سے دلکش ہے، اس فن کی تمام خوبیاں اس میں پائی جاتی ہیں، اس کے ہر حصہ سے شہنشاہیت ٹپکتی ہے، ہاتھ میں اس کے شاہی عصا ہے جس کو مظبوطی سے پکڑا ہوا ہے، موٹے موٹے ہونٹ ایک دوسرے سے پیوستہ عزم و ثبات کو ظاہر کرتے ہیں، آنکھیں کھلی ہوئی اور ڈراؤنی ہیں جن سے ہیبت برستی ہے۔ اس کے بھاری بھرکم پیر دنیا کی پیٹھ پر جمے ہوئے ہیں۔ آج کل یہ مجسمہ برطانیہ کے عجائب گھر میں رکھا ہوا ہے۔
تعمیرات
ترمیمآشوریوں نے تعمیرات کے فن کو بھی ترقی دی ہے۔ آشوری بادشاہوں نے بڑے بڑے محلات اور عمارتیں بنوائیں جن کے اب صرف ان کے نشانات ملتے ہیں۔ سرغون دوم نے ایک عظیم قلعہ نینواہ کے شمال و مشرق میں تعمیر کروایا تھا جو سرغون برج یا در شرقین یعنی ’سرغون‘ کا قلعہ کے نام سے مشہور تھا۔ اس قلعے کی نسبت سے شہر بھی در شرقینDur Shurrikin کہلاتا تھا۔ یہ عمارت پچیس ایکڑ قطہ ارض میں واقع تھی۔ اس کا احاطہ ایک میل مربع تھا اور اس میں اسی ہزار آدمی بفراغت رہے سکتے تھے، محل کے دروازے پر ایک بڑے بازو رکھنے والا بیل کا مجسمہ تھا۔ محل کی دیواریں چمکیلے اور جلا دیے ہوئی اینٹوں سے بنائی گئی تھیں۔ کمرے حسین نقش و نگار سے آرستہ تھے۔ مختلف حصوں میں سونا، چاندی سنگ مرمر اور لاجور استعمال کیے گئے تھے۔ محل کے ارد گرد مندروں کی قطاریں تھیں، ان کے پیچھے ایک سات منزلہ مینارہ تھا، جس کا سرا سونے اور چاندی کا بنا ہوا تھا۔
اس طرح ایک محل سناخریب نے بھی بنوایا تھا جس کو وہ بے نظیر کہا کرتا تھا، اس کی دیواریں۔ چھت اور فرش سونے اور چاندی اور قیمتی پتھروں سے مزین تھے۔ اس کی انیٹیں بہت چمکدار اور چمکیلی تھیں اور مختلف حصوں میں حسین حسین انسانوں اور جانوروں کے مجسمے نصب تھے۔
اسرحدون اور آشور بنی بال نے بھی محلات اور عبادت گاہیں تعمیر کروائیں تھیں، جن کے تذکرے کتبوں میں ملتے ہیں۔ آشور ناصر بال نے ایک عمارت کلاخ میں بنوائی تھی۔ مختلف کتبوں پر اور دوسرے بادشاہوں کے عہد کی تعمیر کا ذکر ملتا ہے۔ بادشاہوں کی تعمیرات میں محلات، قلعے اور عبادت گاہیں شامل ہیں، تلگت پلاسر سوم نے آشور میں ایک مندر تعمیر کریا تھا، جس کے متعلق وہ لکھتا ہے ’اس کا اندرونی حصہ آسمان کے گنبد کی طرح صاف اور شفاف ہے اس کی دیواریں نکلتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہے۔
دستکاری و ہنر
ترمیمدستکاری و ہنر آشوری اہل بابل سے پیچھے نہیں رہے۔ آشوریہ میں بڑے بڑے کاریگر، صناع اور اہل ہنر موجود تھے۔ وہ اینٹوں اور ضروف پر پالش کرنا، جلا دینا اور رنگ چڑھانا جانتے تھے۔ آبنوس اور ہاتھی دانت کے سامان تیار کرتے تھے۔ اس نوعیت کا فن انھوں نے مصریوں سے سیکھا تھا، نجاری اور زرگری کے فن سے واقف تھے۔ ان کے کاریگر ہر طرح کے چوبی سامان بناتے تھے جو سونے چاندی سے منڈے ہوئے اور جوہرات سے مزین ہوتے تھے۔ اس طرح کے قیمتی سامان شاہی محل اور روسا کے گھروں کی زینت بنتے تھے۔
صنعت و کارخانے
ترمیمآشوریہ میں دھات اور کپڑے کے بڑے بڑے کارخانے تھے۔ اوائل میں وہ صرف پیتل اور تانبے سے واقف تھے اور اسی کے ضروف اور اوزار استعمال کرتے تھے۔ بعد میں تقریباً 007 ق م میں انھوں نے لوہا دریافت کیا جو خود ان کے ملک میں پایا جاتا تھا۔ اس کی دریافت نے ان کی صنعت پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ دوسری دھاتوں کو چھوڑ کر زیادہ تر لوہے کے اسلحہ اور سامان بنانے لگے۔ ان میں ماہر آہنگر پیدا ہو گئے، یہی وجہ ہے ان کے خود، سپر اور دوسرے ہتیار لوہے کے ہوتے تھے۔ پیتل اور تانبے کے طروف مجسمے اور اوزار بھی کثرت سے بنتے تھے۔
آشوریہ میں روئی بھی کاشت ہوتی تھی، روئی کے پودے ہندوستان سے درآمد کیے گئے تھے۔ اس پیداوار نے کپڑے کے کارخانوں کو خاطر خواہ ترقی دی تھی۔ رفتہ رفتہ روئی کے بڑے بڑے کارخانے قائم ہو گئے۔ جہاں مختلف قسم کے کپڑے بنتے تھے، جو ملک سے باہر بھیجے جاتے تھے۔
زراعت
ترمیمآشوریہ کی معاشی حالت بابل سے مختلف نہ تھی بلکہ بعض حالتوں میں دونوں ریاستوں ایک ہی تہذیب کی جنوبی و شمالی شاخوں کی حثیت رکھتی تھیں، پھر بھی معاشی نقطہ نظر سے دونوں میں فرق یہ تھا کہ بابل زیادہ تجارتی اور آشوریہ زیادہ تجارتی ملک تھا۔ بابلی ریاست میں دولت مند طبقہ تاجروں کا اور آشوریہ میں زمینداروں کا۔ دونوں ریاستیں دریائے دجلہ اور فرات سے سیراب ہوتی تھیں۔ دونوں ملکوں میں ایک ہی طرح کی پیداوار گہیوں، جو باجرہ، تل اور دال ہوتی تھی۔ بابلیوں کی طرح انھوں نے بھی زراعت کے تمام اوزار ایجاد کر لیے تھے اور نہروں کے ذریعہ سیرابی کا پورا انتظام کر لیا تھا۔ روئی کی کاشت نے آشوری زراعت کو مزید ترقی دی تھی اور اس کی بدولت ملک میں دولت کھنچ کر آنے لگی تھی۔
تجارت
ترمیمزراعت اور صنعت کی ترقی سے قدرتی طور پر تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوا تھا۔ آشور و نینواہ تجارت کے مرکز تھے۔ جہاں بڑی بڑی منڈیاں تھیں۔ کپڑے، غلے، اسلحے اور چوبی سامان برآمد کیے جاتے تھے اور ان کے بدلے جوہراٹ ِ خوشبیویں قیمتی لکڑیاں اور دوسرے آرائشی سامان درآمد کیے جاتے تھے۔ مال زیادہ تر کشتیوں کے ذریعہ بھیجا جاتا تھا، خشکی کے راستہ بھی تجارت ہوتی تھی۔ رومی ممالک، چین ہندوستان اور مصر سے ان کے تجارتی تعلقات قائم تھے۔ سمیریوں کی طرح آشوریوں میں بھی سونا، چاندی اور دوسری دھات کو بطور سکہ تبادلہ میں دینے کا رواج تھا۔ سنا خریب نے اپنے عہد میں چاندی کا سکہ چلایا۔ اس کے بعد سکوں کا رواج عام ہو گیا۔ پھر بھی بابلی سکوں کی طرح ابتدائی مراحل سے آگے قدم نہ بڑھا سکے تھے۔ بابلی شہروں کی طرح آشوری شہروں میں بھی تجارتی کمپنیاں تھیں، جو بڑے پیمانے پر کاروبار کیا کرتی تھیں۔ انفرادی طور پر بھی لوگ تجارت کرتے تھے۔ وہاں بڑے بڑے ساہوکار تھے جو اپنا سرمایا سود پر لگاتے تھے۔
آشوری شہر
ترمیمآشوریوں نے چار بڑے شہر آباد کیے تھے، اربیلا، کلاخ آشور اور نینواہ۔ ان میں آشور اور نینواہ کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ اوائل میں آشوریوں کا دار الحکومت آشور رہا۔ اس کے بعد کلاخ اور آخر میں نینواہ۔ آشور بنی بال کے عہد میں نینواہ کی آبادی تقریباً تین لاکھ تھی۔ سناخریب نے اس کو پر رونق بنانے کے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کی تعمیرات کا سلسلہ برسوں جاری رہا۔ آشوری دور عروج میں یہ شہر صنعت و تجارت و ہنر کا مرکز بن گیا تھا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق۔ جلد اول