اللہوف علی قتلی الطفوف کا موضوع کربلا کے مصائب اور امام حسینؑ کی شہادت ہے۔ اس کتاب کے مؤلف سید بن طاؤس حلی (متوفی 664ھ) ہیں۔ اہل تشیع کے نزدیک یہ مقتل کی مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب مسافروں اور سید الشہداؑ کے زائرین کے لیے لکھی گئی تھی اسی لیے اختصار کے پیش نظر اس کی روایات کے سلسلہ اسناد کو حذف کر کے صرف آخری راوی یا روایت کے ماخذ کو ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب کی غیر معمولی اہمیت اور مؤلف کے مقام و منزلت کی وجہ سے اس کتاب کا مختلف زبانوں میں بارہا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

اللہوف علی قتلی الطفوف
زبانعربی
موضوعمقتلِ واقعہ کربلا
صنفتاریخ نگاری
ناشراسوہ

مؤلف

ترمیم

مفصل مضمون: سید بن طاؤس

سید رضی الدین، علی بن موسی بن جعفر بن طاؤس، والد کی طرف سے امام حسن مجتبی اور والدہ کی طرف سے امام سجادؑ کی ذریت سے ہیں۔ آپ 15 محرم 589ھ کو عراق کے شہر حِلّہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد اور جدّ ورام بن ابی فراس سے حاصل کی۔

سید بن طاؤس حلہ کے اساتذہ سے ضروری تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیگر شہروں کے علما سے کسب فیض کرنے کی غرض سے سفر پر نکل پڑے۔

اپنے زمانے کے علما، اکابرین اور بزرگوں سے باقاعدگی کے ساتھ استفادہ کرتے ہوئے آپ علم و ادب اور معنویت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گئے۔ ایک مسلمہ استاد کے طور پر آپ نے بڑی تعداد میں شاگردوں کی تربیت کی۔

سید ابن طاؤس نے اپنے بعد 50 تالیفات بطور یادگار چھوڑی ہیں کہ جن میں سے زيادہ تر کا تعلق دعا اور زيارت سے ہے۔

سید علی بن طاؤوس نے 75 سال کی عمر میں سنہ 664ھ کو بغداد میں وفات پائی۔ آپ کا جسد خاکی نجف اشرف لے جایا گیا اور حرم امیرالمؤمنینؑ میں دفن ہوئے۔

کتاب کا نام

ترمیم

اس کتاب کے کئی نام منقول ہیں۔ نام کے اختلاف کا تعلق نسخوں کے اختلاف اور خود مؤلف سے ہے کیونکہ انھوں نے اس کتاب کو مختلف ناموں سے موسوم کیا تھایا ایک ہی نام میں مختلف تبدیلیاں کی ہیں۔ کتاب کے قلمی نسخوں کے حوالے سے اس کے نام حسب ذیل ہیں:

  1. اللھوف علی قتلی الطفوف
  2. الملھوف علی قتلی الطفوف
  3. الملھوف علی قتل الطفوف
  4. اللھوف فی قتلی الطفوف
  5. الملھوف علی أھل الطفوف

6. المسالک فی مقتل الحسین علیہ السّلام: اس نام کی وجہ، مؤلف کا کتاب کے مقدمے میں یہ جملہ ہے کہ "میں نے اس کو تین مسالک کی بنیاد پر وضع کیا ہے"۔[1]

آقا بزرگ تہرانی نے "الذریعہ" میں پہلے نام اللھوف علی قتلی الطفوف کو دوسرے ناموں سے مشہور تر گردانا ہے۔[2]

تألیف کا اسلوب

ترمیم

مؤلف نے اختصار کے ساتھ واقعۂ عاشورا بیان کرنے کی غرض سے احادیث کو اس طرح مرتّب کیا ہے کہ ایک منظم روداد کی تصویر کشی ہو۔ انھوں نے تکراری روایات اور متفرق روایات سے اجتناب کیا ہے تاکہ قاری ایک تاریخی روداد اور واقعے سے آگاہ ہو نہ کہ منقول روایات سے۔[3]

کتاب کے مندرجات

ترمیم

لہوف ذیل کے عناوین پر مشتمل ہے:

  • مقدمے یا دیباچے میں واقعۂ عاشورا کی عظمت، امام حسینؑ کی منزلت، آپؑ پر گریہ و عزاداری کے آثار و برکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
  • مسلک اول: کتاب کے اس حصے میں واقعۂ کربلا سے پہلے کے واقعات ’’ولادت امامؑ سے وقائع عاشورا تک‘‘ بیان کیے گئے ہیں۔
  • مسلک دوم: یہ حصہ روز عاشورا کے وقائع ـ صبح سے امامؑ کی شہادت تک ـ پر مشتمل ہے۔
  • مسلک سوم: اس حصے میں شہادت امامؑ کے بعد کے واقعات موضوع بنائے گئے ہیں جن کا آغاز شہداء کے سروں اور اسیران اہل بیتؑ کی کوفہ روانگی سے اور اختتام ان کی مدینہ واپسی پر ہوتا ہے۔[4]

کتاب کی خصوصیات

ترمیم

اس کے باوجود کے کتاب لہوف کو اسناد کے حذف کیے جانے اور داستانی شکل دیے جانے کی وجہ سے ضعیف کہا گیا ہے لیکن اس کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کتاب میں مبالغہ آرائی سے پرہیز کیا گیا ہے جبکہ اس موضوع پر لکھی گئی بعض کتابوں میں مبالغہ آرائیاں کی گئی ہیں۔

اس کتاب میں بہت اہم اور منفرد مسائل بیان کیے گئے ہیں جو سابقہ مقاتل میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔ منجملہ:

بنو ہاشم کے نام امام حسین کے خط میں، امامؑ کا یہ جملہ کہنا کہ ان اللہ شاء ان یرانی قتیلاً (خدا نے مجھے مقتول دیکھنا چاہا ہے) اور بہت سی دیگر روایات اور علاوہ ازیں شیعہ اعتقادات جیسے "امام کا علم غیب"، اس بات کا سبب بنے ہیں کہ سید نے ان روایات کو تاریخی قرار دیا اور انھیں اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔[5].[6]

فارسی اور اردو تراجم

ترمیم

کتاب کی مقبولیت کی بنا پر اس کا کئی بار ترجمہ ہو چکا ہے۔ بعض تراجم کے عناوین و مترجمین کے نام حسب ذیل ہیں:

  • فیض الدموع:، بقلم آقا محمد ابراہیم نواب تہرانی المعروف بہ بدائع نگار (ولادت 1240 وفات 1299 ھ)، سال ترجمہ: سنہ 1286 ھ۔
  • لجہ الألم فی حجہ الأمم: مترجم میرزا رضاقلی شقاقی تبریزی، سال 1311 ہجری۔[7]
  • اللھوف:، مترجم محمد طاہر بن محمد باقر موسوی دزفولی بسال 1321 ہجری۔
  • دمع ذروف:، ترجمہ بقلم سید محمد حسین ہندی (متوفٰی 1355 ھ) بزبان اردو۔
  • زندگانی ابا عبد اللہ:، مترجم سید محمد صحفی، سنہ 1375 ہجری شمسی۔
  • اللھوف:، مترجم: احمد بن سلامہ نجفی۔[8]
  • آہ سوزان بر مزار شہیدان:، مترجم سید احمد فہری۔
  • وجیزۃ المصائب:، مترجم: ضیاء الدین مہدی بن داؤد المتخلص بہ ذوقی۔
  • ترجمہ بقلم سید ابو الحسن میر ابو طالبی۔[9]

اللہوف کے قلمی نسخے

ترمیم

یہ کتاب اہمیت و اعتبار نیز روش تالیف کی لطافت کی وجہ سے نسخہ نگاروں کے نزدیک بہت مقبول ہوئی کیونکہ علما کو اس کی ضرورت تھی چنانچہ اس کے قلمی نسخے بکثرت دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں؛ منجملہ:

  1. قم کے کتب خانہ آیت اللہ مرعشی نجفی میں نمبر 6068، بعنوان رسالۂ سوم کاتب محمّد تقی بن آقا محمّد صالح، تاریخ کتابت 1303 ہجری، (کتاب) فہرست کتب خانہ ج16، ص70۔
  2. وہی کتب خانہ، مجموعہ نمبر 7520، رسالۂ سوم، کتابت بقلم طالب بن محمّد طالب مازندرانی، تاریخ کتابت 1119 ہجری، فہرست کتب خانہ ج19، ص327۔
  3. کتب خانۂ ملک، تہران نمبر 6069 تاریخ کتابت 1052۔
  4. کتب خانۂ مجلس شورائے اسلامی، تہران، مجموعہ نمبر 3815 کے ضمن میں مندرج، تاریخ کتابت 1101 ہجری۔
  5. کتب خانۂ مجلس شورائے اسلامی، تہران، مجموعہ نمبر 4826 تاریخ کتابت گیارہویں صدی ہجری۔
  6. کتب خانۂ امام رضا(ع)، مشہد، نمبر 6712 تاریخ تحریر: 1091 ہجری۔
  7. کتابخانہ رضوی ایضا نمبر 13671 تاریخ کتابت 1202 یا یا 1220 ہجری۔
  8. وہی کتب خانہ، مشہد، نمبر 2132 تاریخ کتابت 1233 ہجری۔
  9. وہی کتب خانہ، مشہد، نمبر 8874 تاریخ کے بغیر۔
  10. وہی کتب خانہ، مشہد، نمبر 8124 تاریخ کے بغیر۔
  11. وہی کتب خانہ، مشہد، نمبر 15317 بقلم ابو الحسن اصفہانی تاریخ کتابت 1117 ہجری۔
  12. نیز کتب خانہ برلن نمبر 912 تاریخ کتابت 1020 ہجری۔[10]

نشر و اشاعت

ترمیم

یہ کتاب بارہا تہران، لبنان کے شہروں صیدا و بیروت، ہندوستان کے شہر بمبئی، عراق کے شہر نجف اور ایران کے شہروں قم اور تبریز ميں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔[11]

لہوف کے بارے میں مشاہیر کے اقوال

ترمیم
  • شیخ جعفر شوشتری:
جان لو کہ مرثیوں کے نقل کے حوالے سے اس سے زیادہ معتبر کوئی کتاب نہیں ہے؛ جلالت قدر کے لحاظ سے اس کے مؤلف سید بن طاؤس جیسی شخصیات کم ہیں۔[12]
سید بن طاؤس کی منقولہ روایات بہت زيادہ قابل اعتماد ہیں؛ کتب مقاتل میں کوئی بھی کتاب اعتبار و اطمینان کے لحاظ سے ان کی کتاب لہوف کے پائے تک نہیں پہنچتی۔[13]
یہ بہت معتبر مقتل ہے، اس کے مؤلف فقیہ، عارف، بزرگ، بہت سچے، موثق اور سب کے نزدیک قابل احترام ہیں ... خود ادیب اور شاعر ہیں؛ اللھوف سے پہلے بھی مقاتل تھے؛ ان کے استاد شیخ نجم الدین جعفر بن نما، المعروف بہ ابن نما حلی کا بھی مقتل ہے، شیخ طوسی نے بھی مقتل لکھا ہے دوسروں نے بھی مقتل لکھے ہیں لیکن لہوف کے آنے کے بعد دوسرے مقاتل متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے؛ یہ بہت اچھا مقتل ہے۔ اس کی عبارات بہت اچھی، دقیق اور مختصر ہیں۔[14]
  • استاد علی دوانی:
لہوف، یا ملہوف فی قتلی الطفوف ایک مختصر سی کتاب ہے جس کے مؤلف سید رضي الدین علی بن طاؤس حلی ہیں۔ گویا انھوں نے یہ کتاب ایام شباب میں لکھی ہے؛ اس کے باوجود یہ بہت اہم مآخذ اور معتبر مقاتل میں سے ایک ہے۔[15]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ترجمہ لہوف، ص 63.
  2. الذریعہ، ج 22، ص 223.
  3. سافٹ ویئر، سیرت معصومین.(زبان: فارسی).
  4. فہرست کتاب.
  5. اللطيف في التصنيف في شرح السعادة بشہادة صاحب المقام الشريف[مردہ ربط].
  6. سافٹ ویئر، سیرت معصومین.
  7. الذریعہ، ج 18، ص 296.
  8. الذریعہ، ج 26، 201.
  9. ترجمہ لہوف، ص 65.
  10. ترجمہ لہوف، ص 63 و 64.
  11. ترجمہ لہوف، ص 64 و 65.
  12. دزفولی، مقدمہ بحوالہ مواعظ شیخ جعفر شوشتری، ص‏8۔
  13. سید محمد علی قاضی تبریزی، تحقيق دربارہ روز اربعين، ص8۔
  14. خامنہ ای، سید علی، خطبہ ہای نماز جمعہ، 18/2/1377 ہجری شمسی۔
  15. رجوع کریں: نقد و بررسی مقاتل موجود، علی دوانی.

مآخذ

ترمیم
  • سید بن طاووس، لھوف، تہران، جہان، 1348 ہجری شمسی.
  • سید بن طاووس، لھوف، ترجمہ سيد ابو الحسن مير ابوطالبى‏، قم، دلیل ما، 1380 ہجری شمسی.
  • مرکز تحقیقات علوم اسلامی، نرم افزار سیرہ معصومان.
  • موسوی دزفولی، محمد طاہر بن محمد باقر، ترجمہ لھوف، نشر مؤمنين، 1379‏ہجری شمسی.
  • قاضي تبريزي، سيد محمدعلي، تحقيق دربارہ روز اربعين، ، چاپ ميہن، تبريز.
  • خامنہ ای، سید علی، خطبہ ہاي نماز جمعہ، 18/2/1377 ہجری شمسی.
  • دواني، علي، نقد و بررسي مقاتل موجود، ، انتشارات دانشگاہ امام حسين علیہ السلام، تہران، 1374‏ہجری شمسی.