المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

ایک بھارتی اسلامی تعلیمی ادارہ

المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد؛ حیدر آباد، دکن میں واقع ایک تعلیمی، تربیتی اور تحقیقی ادارہ ہے۔ جسے مشہور عالم دین حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے سنہ 2000ء میں قائم کیا تھا۔ یہ ادارہ ملک وبیرون ملک اپنی ایک منفرد سنجیدہ شناخت رکھتا ہے۔ ادارہ میں مختلف علمی وتعلیمی شعبے کارگر ہیں؛ لیکن ادارہ اپنے فقہی اختصاص کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ معہد کو مختلف موضوعات کی تدریس کے لیے قابل اور ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل ہیں۔

المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
قیام2000 (24 برس قبل) (2000)
بانیمولانا محمد خالد سیف اللہ رحمانی
مقامحیدر آباد، دکن تلنگانہ، ، بھارت
ویب سائٹhttps://www.almahad.org

قیام کا پس منظر

ترمیم

خالد سیف اللہ رحمانی فقہ سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں، ابتدائی عربی سے دورۂ حدیث تک کی ان کی پوری تعلیم وتربیت جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر بہار میں ہوئی،مولانا منت اللہ رحمانی کی خاص تربیت اور توجہ کی بنیاد پر ایک ہونہار اور قابل عالم دین بنے ، جامعہ رحمانی سے فراغت کے بعد انہوں

 
المعہد العالی الاسلابھیم ی، حیدحاصل ری ،اس کآباد ایک نظر میں

قیام کے مقاصد

ترمیم

معہد کا قیام جن بلند ترین مقاصد کے تحت ہوا ہے، ان کو مختصراً درج ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

  • دین و ملت کے مختلف میدانوں ـــ تدریس، تحقیق، دعوت، صحافت، تنظیم و تحریک ـــ کے لیے افراد سازی؛ تاکہ دینی و ملی خدمت کے ہر میدان کو با صلاحیت افراد مل سکیں۔
  • علوم قرآن، علوم حدیث اور فقہ اسلامی میں افراد کار کی تیاری؛ تاکہ اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی منشا کے مطابق امت کی رہنمائی ہو سکے۔
  • زمانہ شناس، اہل بصیرت اور دردمند داعیوں کی فراہمی؛ تاکہ خدا کی مخلوق تک خدا کا صحیح پیغام پہنچ سکے۔
  • علما کو انگریزی زبان، عصری تقاضوں اور جدید و عصری علوم سے واقف کرانا؛ تاکہ دعوتِ دین کے وسیع مواقع فراہم ہوں۔
  • فضلاء کی فکری اور قلمی تربیت کے ذریعہ انھیں تحقیق و تالیف کے لائق بنانا؛ تاکہ تشنۂ تحقیق اور سلگتے مسائل کے حل کی لیاقت پیدا ہو۔
  • عصری تعلیم یافتہ حضرات کے لیے دینی تعلیم کا نظم؛ تاکہ زندگی کے تمام شعبوں میں خدا اور رسول کے احکام پر چلنا آسان ہو۔[1]

شعبہ جات

ترمیم

اوپر ذکر کیے گئے مقاصد کی تکمیل کے لیے معہد میں مختلف شعبہ جات کام کرتے ہیں، ذیل میں ان شعبوں کا مختصر تعارف کیا جاتا ہے:

اختصاص فی علوم القرآن

اس شعبہ میں طلبہ کو حسب ذیل مضامین پڑھائے جاتے ہیں:

  • تاریخِ جمع و تدوینِ قرآن۔
  • مختلف عہد میں تفسیر قرآن مجید سے متعلق ہونے والی خدمات کا تعارف۔
  • مختلف جہتوں سے لکھی گئی اہم تفسیروں کا تعارف۔
  • اصولِ تفسیر، مشکلات القرآن، یعنی جو آیتیں؛ نحوی، صرفی، عقلی یا کسی اور جہت سے شبہ کا باعث بن سکتی ہوں؛ ان کی وضاحت۔
  • قرآن مجید سے متعلق اہل مغرب اور اعداء اسلام کے شبہات۔
  • تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی اور بعض دوسری تفسیروں سے قرآن مجید کی اہم سورتوں کی تعلیم۔
  • منتخب موضوعات پر تفسیر موضوعی کی تعلیم۔ طالب علم کو پہلے سال ہر سہ ماہی میں تفسیر یا علوم القرآن سے متعلق کسی مفوضہ موضوع پر کم سے کم تیس صفحات کا مقالہ لکھنا لازمی ہے، نیز دوسرے سال کسی اہم موضوعات پر؛ جو ادارہ کی طرف سے سپرد کیا جائے - دو تا تین سو صفحات عربی یا اردو یا کسی اور زبان میں مقالہ؛ کسی مخطوطہ کی تحقیق یا کسی مطبوعہ کتاب پر تعلیق ضروری ہے۔
اختصاص فی الحدیث

اس شعبہ میں درج ذیل مضامین پڑھائے جاتے ہیں:

  • تاریخ حدیث۔
  • اصطلاحات حدیث۔
  • تخریجِ حدیث کے اُصول ۔
  • فن اسماء الرجال اور اسانید کی تحقیق۔
  • احادیث میں ترجیح و تطبیق کے اُصول ۔
  • حدیث سے متعلق اہلِ مغرب کے شبہات۔
  • مشکلات الحدیث یعنی عقلی یا کسی اور جہت سے جو حدیث شبہ کا باعث بن سکتی ہو، اس کا حل۔ اس شعبہ میں بھی پہلے سال ہر سہ ماہی میں طالب علم کو حدیث کی مناسبت سے مفوضہ موضوع پر کم سے کم تیس صفحات کے مقالہ لکھنا ہوتا ہے اور دو سو احادیث کی تخریج لازم ہوتی ہے، جب کہ سالِ دوم میں کم سے کم پچاس اسناد کی تحقیق اور اس پر حکم لگانے کے علاوہ کسی مفوضہ موضوع پر دو تا تین سو صفحات کا مقالہ یا کسی مخطوطہ یا مطبوعہ پر تحقیق و تعلیق کا کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اختصاص فی الفقہ الاسلامی

معہد کا یہ بڑا اہم شعبہ ہے اور اس شعبہ میں نہ صرف بھارت؛ بلکہ بیرونِ ملک سے بھی ذہین طلبہ آکر استفادہ کرتے ہیں، اس شعبہ میں درج ذیل مضامین پڑھائے جاتے ہیں:

  • اصول فقہ۔
  • قواعدِ فقہ۔
  • اُصولِ افتا۔
  • قضا سے متعلق احکام۔
  • فقہ العبادات۔
  • فقہ الاحوال الشخصیہ۔
  • فقہ المعاملات۔
  • فرائض و میراث۔
  • مشقِ افتا؛ اس شعبہ میں بھی طالب علم پہلے سال ہر سہ ماہی میں فقہ سے مربوط مفوضہ موضوع پر کم سے کم تیس صفحات کا مقالہ پیش کرتا ہے، سال دوم میں کسی اہم موضوع پر دو سو تا تین سو صفحات کا مقالہ یا کسی مخطوطہ یا مطبوعہ کتاب پر تحقیق و تعلیق کا کام کرایا جاتا ہے، کم سے کم دو سو تا ڈھائی سو فتاویٰ بطور مشق کے لکھائے جاتے ہیں، جن میں جدید مسائل اور معاملات سے متعلق مسائل کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے، تربیتِ افتاء کے ساتھ ساتھ قضاء کی تربیت بھی دی جاتی ہے اور اس کے لیے ورکشاپ منعقد کیے جاتے ہیں۔
اختصاص فی الدعوہ

اس شعبہ کا مقصد برادرانِ وطن میں دعوت کے کام کے لیے افراد کار کی تیاری ہے، اسی بنا پر اس شعبہ میں انگریزی زبان کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے، اس شعبہ میں درج ذیل مضامین پڑھائے جاتے ہیں:

  • انگریزی زبان (چار گھنٹیاں)۔
  • ہندوستانی مذاہب ( سناتن دھرم، آریہ سماج، برہما کماری، بدھ مت، سکھ مت، جین مت
  • آسمانی مذاہب (یہودیت، مسیحیت
  • قادیانیت۔
  • اسلام کے خلاف اہل مغرب کے شبہات۔
  • اُصولِ دعوت۔ اس شعبہ میں بھی پہلے سال ہر سہ ماہی میں طالب علم پر ضروری ہوتا ہے کہ وہ دعوت سے مربوط مفوضہ موضوع پر کم سے کم بیس صفحات کا مقالہ کسی بھی زبان میں لکھے اور دوسرے سال کسی مفوضہ موضوع پر کم سے کم تیس صفحات کا مقالہ انگریزی زبان میں لکھے، اس شعبہ میں برادرانِ وطن میں دعوت کے کام کے لیے عملی مشق (فیلڈ ورک) بھی کرائی جاتی ہے ۔[2]
مذکورۂ بالا شعبوں کے مشترکہ مضامین

ان شعبوں میں کچھ مضامین مشترک ہیں، جو درج ذیل ہیں:

  • کمپیوٹر ( ورڈ پیڈ، ایم ایس ڈوز، ایم ایس آفس، ورڈ، ایکسل، پاور پوائنٹ، اُردو ان پیج، انٹر نیٹ اور دیگر بنیادی معلومات)
  • انگریزی زبان: شعبۂ دعوہ کے علاوہ دوسرے شعبوں میں بھی روزانہ ایک گھنٹی انگریزی زبان کے لیے ہوتی ہے۔
  • ہر شعبہ میں کم سے کم دو سو احادیث مع اسماء رواة و حوالۂ کتاب حفظ کرنا لازم ہے، یہ احادیث، ایمانیات، احکام، فضائل اور آداب سے متعلق ہیں، جن کا مجموعہ خود معہد نے شائع کیا ہے ۔
  • عالمی جغرافیہ، تاریخ ہند، دستور ہند سے بنیادی حقوق کا حصہ، مبادی معاشیات، مبادی علم شہریت اور جنرل نالج، یہ ہر شعبہ کے لیے لازمی ہیں، ان تمام مضامین کا باضابطہ امتحان ہوتا ہے اور ان کے نمبرات سالانہ امتحان میں شامل کیے جاتے ہیں۔[3]
شعبۂ اسلامک فائنانس

اس شعبہ میں درج ذیل مضامین پڑھائے جاتے ہیں:

کمپیوٹر ٹریننگ

معہد میں شروع ہی سے طلبہ کے لیے کمپیوٹر ٹریننگ کا بھی نظم رکھا گیا ہے؛ لیکن کمپیوٹرس کی کمی کی وجہ سے طلبہ کو شہر بھیجنا پڑتا تھا، چند سال پہلے اب تقریباً 30 کمپیوٹرز معہد میں موجود ہیں۔ طلبہ کو درج ذیل کمپیوٹر کورس کرایا جاتا ہے اور انھیں اپنے شعبہ کی اسناد کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کورس کی سند بھی دی جاتی ہے:

  1. محاضرات اور تربیتی کیمپ: عہد کے قیام کا مقصد مختلف علوم اسلامی میں علما کی نظر کو وسیع کرنا اور جدید علوم سے انھیں باخبر کرنا ہے؛ چناں چہ معہد میں وقتاً فوقتاً مختلف میدان کے ماہرین کے توسیعی خطبات اورمحاضرات ہوتے رہتے ہیں، اب تک یہاں جن موضوعات پر محاضرات اور ورکشاپ ہوئے ہیں، ان میں اُصولِ فقہ کی تدریس کا طریقہ، مقاصد شریعت، اسلامک بینکنگ، اُصول حدیث، تشریح الابدان، میڈیکل شرعی مسائل اور اسلامی تجارت وغیرہ خاص کر قابل ذکر ہیں، ان کے علاوہ دعوہ تربیتی کیمپ، تربیت قضاء کیمپ اور طریقۂ تدریس کیمپ کا انعقاد ہر سال عمل میں آتاہے۔
  2. سمپوزیم کا انعقاد: معہد میں طلبہ کے لیے وقفہ وقفہ سے سمپوزیم کا انعقاد بھی ہوتاہے، جس کے لیے پندرہ بیس دنوں قبل طلبہ کو کوئی موضوع سپرد کر دیا جاتا ہے، جس پر وہ مقالات لکھ کر پیش کرتے ہیں، پھر آپس میں مناقشہ اور اظہار رائے کا موقع دیا جاتا، اس پروگرام میں طلبہ ہی صدارت کرتے ہیں، وہی نظامت کرتے ہیں، وہی سوالات کے جوابات دیتے ہیں اور وہی تجاویز بھی پیش کرتے ہیں؛ البتہ یہ پورا پروگرام معہد کے بانی و ناظم حضرت الاستاذ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی راست نگرانی میں ہوتا ہے، حضرت الاستاذ محض اصلاح و تربیت کے لیے موجود رہتے ہیں اور اخیر میں پروگرام کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔
  3. عزائم اور منصوبے: معہد نے شوال 1433ـ 34ھ کے لیے حسب ذیل منصوبے بنائے تھے:
  • دینی و عصری تعلیم کی جامع درسگاہ معہد نے ایک ایسی درسگاہ کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں عالمیت کے ساتھ ساتھ بچے میٹرک بھی کر لیں اور اس کا ذریعۂ تعلیم عربی اور انگریزی ہو، اس دس سالہ نصاب کو پورا کرنے کے بعد جو طلبہ چاہیں وہ فضیلت اور افتاء وغیرہ کر لیں؛ تاکہ علما کی ایک ایسی ٹیم تیار ہو سکے جو اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ ضروری حد تک عصری علوم سے بھی آشنا ہو اور موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دے سکیں اور جو طلبہ چاہیں وہ عصری علوم میں آگے بڑھیں اور علوم اسلامی کی امانت اپنے ساتھ لے کر زندگی کے مختلف شعبوں میں قدم رکھیں؛ چنانچہ اسی مقصد کے لیے معہد کی موجودہ مرکزی عمارت کے پیچھے ایک چہار منزلہ عمارت کی بنیاد رکھی گئی ہے، جس کی پہلی منزل تقریباً مکمل ہو چکی ہے، جو ساڑھے سات ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل ہے، ان شاء اللہ اپریل 2013ء سے اس درسگاہ کا آغاز ہوگا۔ عرصہ سے اصحابِ ذوق کا مطالبہ تھا کہ معہد میں ادب عربی کا شعبہ بھی شروع کیا جائے؛ چنانچہ پرفیسر محسن عثمانی ندوی، پروفیسر سید جہانگیر نظامی اور معہد کے اساتذہ کے مشورہ سے تکمیل فی الادب العربی الحدیث کے لیے ایک سالہ نصاب بنایا گیا ہے، اس نصاب کا خاص مقصد ایسے اساتذہ کو تیار کرنا ہے، جو عربی زبان میں اسلامی علوم کی تدریس کا فریضہ انجام دے سکیں۔ معہد نے طے کیا ہے کہ مخطوطات پر کام کرنے کے لیے کچھ فضلاء کی تربیت کی جائے اور تربیت کے بعد انھیں تحقیق کے کام پر لگایا جائے۔ چناں چہ شوال 1433ھ سے ان شاء اللّٰہ اس مقصد کے لیے چھ فضلاء کا تقرر کیا جائے گا۔ ابھی معہد میں شعبۂ انگریزی اس طرح چل رہا ہے کہ ایک گروپ جب دو سال مکمل کرلیتا ہے تب نئے داخلے ہوتے ہیں، اُمید واروں کی کثرت اور نشستوں کے محدود ہونے کی وجہ سے طے کیا گیا ہے کہ شوال 1433ھ سے سال اول، سال دوم دونوں جماعتیں شروع کی جائیں، اس طرح ہرسال کچھ طلبہ انگریزی زبان میں تیار ہوسکیں گے اور دینی و دعوتی خدمات انجام دیں گے۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Mohd Khalid۔ "المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد"۔ Al Mahad۔ Al Mahad۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2021 
  2. FARHAN BAJRAI (4TH DECEMBER 2019)۔ "AL MAHADUL AALI AL ISLAMI, Hyderabad"۔ Bajrai Online Solutions۔ FARHANBAJRAI۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اگست 2020 
  3. JS Iftekhar (MAY 18, 2012)۔ "Seminary with a modern outlook"۔ The Hindu۔ The Hindu۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2021 
  4. "آرکائیو کاپی"۔ 02 جولا‎ئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مارچ 2014