ایلی ویزل
ایلی ویزل (عبرانی زبان אֱלִיעֶזֶר וִיזֶל، الیعزر ویزل)[24][25] رومن نژاد ایک یہودی لکھاری، پروفیسر اور سیاسی کارکن تھے ان کی امن کی خدمات کو دیکھ کر 1986ء میں انھیں نوبل امن انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔وہ مرگ انبوہ میں زندہ بچ گئے تھے۔ انھوں نے 57 کتابیں تصنیف کی ہیں، ان میں زیادہ انگریزی اور فرانسیسی میں ہیں۔ [26]
ایلی ویزل | |
---|---|
(انگریزی میں: Elie Wiesel) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عبرانی میں: Eliezer Wiesel) |
پیدائش | 30 ستمبر 1928ء [1][2][3][4][5][6][7] |
وفات | 2 جولائی 2016ء (88 سال)[8][3][4][5][6][7][9] نیویارک شہر |
مدفن | کینسیکو قبرستان، نیویارک |
مقام نظر بندی | آوشویتز حراستی کیمپ |
شہریت | ریاستہائے متحدہ امریکا (–2016)[10] مملکت رومانیہ (1928–1940)[11] |
رکن | امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف [12][13][14]، سیاسی کارکن ، ناول نگار ، آپ بیتی نگار ، استاد جامعہ ، مترجم ، صحافی ، فلسفی ، ڈراما نگار [15] |
مادری زبان | یدیش زبان [16][17] |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [18][19][20]، یدیش زبان [17]، عبرانی ، رومانیانی زبان [17]، فرانسیسی [21][19][20]، ہنگری زبان [17]، جرمن [17] |
ملازمت | جامعہ بوسٹن |
اعزازات | |
نیشنل ہیومنیٹیز میڈل (2009) گرینڈ کراس آف دی لیگون آف ہانر (2001) صدارتی تمغا آزادی (1992) گرینڈ آفیسر آف دی لیجن آف آنر (1990) فریڈم اعزاز (1987) نوبل امن انعام (1986)[22][23] نائٹ کمانڈر آف دی آرڈر آف دی برٹش امپائر کانگریشنل گولڈ میڈل |
|
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
ایک لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بوسٹن یونیورسٹی میں علوم انسانیات کے پروفیسر بھی تھے، جہاں ان کو یہودیت پر مطالعہ کی ترغیب ملی۔ وہ یہودی معاملات میں دلچسپی رکھتے تھے اور انھوں نے واشنگٹن ڈی سی میں یونائٹید اسٹیٹز ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کے قیام میں کافی تعاون دیا ہے۔ اپنے سیاسی اثر و سروخ کی بنیاد پر انھوں نے جنوبی افریقا، نکاراگوا، کوسووہ]] اور سوڈان میں ہو رہے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی اور متاثرین و مظلومین کے مہم چلائی۔ انھوں 1915ء ارمنی قتل عام کی علی الاعلان مذمت کی اور اپنی پوری زندگی میں وہ حقوق انسانی کے دفاع میں کھڑے رہے۔ لاس اینجلس ٹائمز نے ان کو “امریکا میں سب سے اچھا یہودی‘‘ کا خطاب دیا ہے۔ [27]
سنہ 1986ء میں ان کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا، جہاں نارویجن نوبل کمیٹی ان کو “ انسانیت کا پیغامبر ‘‘ کہا۔ وہ نیو یارک حقوق انسانی تنظیم کے بانیاں میں سے ہیں اور تا دم حیات اس کے رکن رہے۔ [28][29]
ابتدائی زندگی
ترمیمان کی ولادت رومانیہ کے ماراموریش کاؤنٹی میں ہوئی۔ [30] ان کے والدین کا نام سارہ فیگ اور شلومو ویشل ہے۔ گھر پر ان کے اہل خانہ زیادہ تر یدیش زبان بولتے ہیں مگر جرمن زبان، مجارستانی زبان اور رومانیائی زبان بھی بول لیتے ہیں۔ [31][32] ان کو انسان دوستی کی تعلیم والد سے ملی جنھوں نے ان کو عبرانی زبان سیکھنے کی ترغیب دی اور ادب کا مطالعہ کرنے پر ابھارا۔ ان کی والدہ نے ان کو تورات کے مطالعہ پر ابھارا۔ ان کی والدہ ایک حسیدی یہودی کی بیٹی تھی۔ ویزل کہتے ہیں کہ ان کے والد نے وجوہات کی وکالت کی جب کہ والدہ نے ایمان کی طرف توجہ دلائی۔ [33]
مرگ انبوہ کے دوران یتیمی اور جیل
ترمیمسنہ 1944ء میں جرمنی نے ہنگری پر قبضہ کر لیا اور یہیں سے اس ملک میں مرگ انبوہ کا آغاز ہو گیا۔ اس وقت ویزل کی عمر 15 سال تھی اور ان کو دیگر اہل قصبہ سے ساتھ اسی قصبہ کے کی ایکیہودی بستی میں ڈال دیا گیا، یہ وہی جگہ تھی جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اور پلے بڑھے تھے۔ 1944ء میں ان کو آؤشوِٹس حراستی کیمپ میں بھیجا گیا جہاں ان کی والدہ اور چھوٹی بہن کا قتل ہو گیا۔ [35] کیمپ سے آزاد ہونے سے قبل ان کے والد بھی چل بسے۔ [35] اپنی ناول “نائٹ“ میں اپنی شرمندگی کے ایام کو یاد کرتے ہیں جب ان کے والد کو پیٹا جا رہا تھا اور وہ بے بس و ناچار تھے جو اپنے باپ کی مدد بھی نہیں کر سکا۔ [35][36]
جنگ کے بعد
ترمیمفرانس
ترمیمدوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ویزل کو آزاد کر دیا گیا اور وہ فرانس آگئے جہاں نے انھوں نے ایک بحالی مرلز کا افتتاح کی۔ بعد ازاں وہ 90 سے 100 راسخ الاعتقاد افراد کے ایک گروپ میں شامل ہو گئے جو کشروت پر عمل کرنے کے خواہاں تھے اور مذہب پر مکمل عمل کی ازادی چاہتے تھے۔ پھت ویزل پیرس گئے اور فرانسیسی زبان سیکھی اور مارٹن بوبر اور ژاں پال سارتر کے لکچر سنے۔ انھوں نے اپنے ایام فیودر دوستوئیفسکی، فرانز کافکا اور تھامس مین کی کتابیں پڑھتے ہوئے بسر کیے۔ [37] 19 سال کی عمر میں صحافی بن گئے اور عبرانی کی تعلیم بھی دینے لگے۔ انھوں نے اسرائیلی اور فرانسیسی اخبارات میں لکھنا شروع کر دیا۔۔[37] جنگ کے دس برسوں انھوں نے مرگ انبوہ کے بارے میں بات کرنا یا کچھ لکھنا بند کر دیا۔ 1952ء میں نوبل انعام برائے ادب پانے والے فرانسیوس ماؤریک ویزل کے دوست بن گئے۔ وہ مسیحی تھے۔ انھوں نے ویزل کو بیت عیناہ کا لعزر سے تشبیہ دی۔ [38][39] انھوں نے ہی ویزل کو اپنے ڈراونے تجربے کو قلم زد کرنے کی صلاح دی۔ [37] انھوں نے یدیش زبان میں 900 صفحات کی ایک کتاب (اور جب دنیا خاموش رہی) لکھی۔[40] اس کے بعد 1955ء میں فرانسیسی زبان میں (لا نیوٹ) لکھی جس کا انگریزی میں نائٹ کے نام سے ترجمہ ہوا۔ [41]
ریاستہائے متحدہ امریکا
ترمیم1955ء میں ویزل نیو یارک چلے گئے جہاں ان کو متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا اور ان کی کئی کتابوں کا ترجمہ ہوا۔ انھوں نے ماریئر سے شادی کی جس نے ان کی کتابوں کا ترجمہ کیا تھا۔ [42][42] امریکا میں انھوں نے 40 سے زیادہ تصنیف کیں ان میں زیادہ غیر افسانوی ادب تھا اور مرگ انبوہ کے واقعات پر مبنی تھیں۔ اسی وجہ نے کئی مؤرخوں نے ان کو مرگ انبوہ کے واقعات کو تازہ کردینے والا بتایا۔ [43]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/11880975X — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w62b96wf — بنام: Elie Wiesel — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب انٹرنیٹ بروڈوے ڈیٹا بیس پرسن آئی ڈی: https://www.ibdb.com/broadway-cast-staff/5346 — بنام: Elie Wiesel — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/166354255 — بنام: Elie Wiesel — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب انٹرنیٹ سوپرلیٹیو فکشن ڈیٹا بیس آتھر آئی ڈی: https://www.isfdb.org/cgi-bin/ea.cgi?98597 — بنام: Elie Wiesel — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب بنام: Elie Wiesel — فلم پورٹل آئی ڈی: https://www.filmportal.de/5e1a6b30aea641cb85121ae1d8ef9a62 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb11929172k — بنام: Eliezer Wizl — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ http://www.haaretz.com/israel-news/1.575072
- ↑ Diamond Catalog ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/40812 — بنام: Elie Wiesel
- ↑ تاریخ اشاعت: 2 دسمبر 2016 — Libris-URI: https://libris.kb.se/katalogisering/jgvxtt7227ljp9l — اخذ شدہ بتاریخ: 24 اگست 2018
- ↑ https://www.hotnews.ro/stiri-arhiva-1247406-elie-wiesel-trimite-inapoi-lui-iliescu-steaua-romaniei.htm
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/11880975X — اخذ شدہ بتاریخ: 25 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ abART person ID: https://cs.isabart.org/person/79250 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
- ↑ BDRC Resource ID: https://library.bdrc.io/show/bdr:P8LS73756
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn19990009121 — اخذ شدہ بتاریخ: 15 دسمبر 2022
- ↑ https://achievement.org/achiever/elie-wiesel/
- ^ ا ب https://www.pbs.org/eliewiesel/life/index.html
- ↑ ناشر: پی بی ایس — http://www.pbs.org/eliewiesel/life/index.html — اخذ شدہ بتاریخ: 2 اپریل 2016 — اقتباس: Wiesel thinks in Yiddish, writes in French, and, with his wife Marion and his son Elisha, lives his life in English
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn19990009121 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/18609763
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb11929172k — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ http://www.nobelprize.org/nobel_prizes/peace/laureates/1986/
- ↑ https://www.nobelprize.org/nobel_prizes/about/amounts/
- ↑ Recording of Elie Wiesel saying his name at TeachingBooks.net
- ↑ National Library Service
- ↑ "Winfrey selects Wiesel's 'Night' for book club"۔ Associated Press۔ جنوری 16, 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی، 2011
- ↑
- ↑ "Elie Wiesl"۔ Human Rights Foundation۔ 18 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 3, 2016
- ↑ "Human Rights Foundation Lauds OAS Discussion on Venezuela"۔ Latin American Herald Tribune۔ 25 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 3, 2016
- ↑ Petri Liukkonen۔ "Elie Wiesel"۔ Books and Writers (kirjasto.sci.fi)۔ Finland: Kuusankoski Public Library۔ جنوری 7, 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "The Life and Work of Wiesel"۔ Public Broadcasting Service۔ 2002۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 15, 2010
- ↑ "Elie Wiesel Biography"۔ Academy of Achievement۔ اکتوبر 22, 2010۔ اکتوبر 5, 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 15, 2010
- ↑ Fine 1982:4.
- ↑ "Elie Wiesel — Photograph"۔ United States Holocaust Memorial Museum۔ جولائی 19, 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب پ "Elie Wiesel, Holocaust Survivor And Nobel Laureate, Dead At 87"، Huffington Post، جولائی 2, 2016
- ↑ Rachel Donadio (جنوری 20, 2008)۔ "The Story of 'Night'"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی، 2011
- ^ ا ب پ Snodgrass, Mary Ellen. Beating the Odds: A Teen Guide to 75 Superstars Who Overcame Adversity، ABC CLIO (2008) pp. 154–156
- ↑ Fine, Ellen S. Legacy of Night: The Literary Universe of Elie Wiesel، State Univ. of New York Press (1982) p. 28
- ↑ Wiesel, Elie. Night، Hill and Wang (2006) p. ix
- ↑ Naomi Seidman (Fall 1996)۔ "Elie Wiesel and the Scandal of Jewish Rage"۔ Jewish Social Studies۔ 3:1: 5
- ↑ Andrew Grabois (فروری 25, 2008)۔ "Elie Wiesel and the Holocaust"۔ Beneath The Cover۔ اپریل 30, 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 29, 2012
- ^ ا ب
- ↑ Wiesel:1999, 18.
علامتیہ نامکمل | پیش نظر صفحہ نوبل انعام یافتگان سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |