بیعت عقبہ یہ بیعت سنہ 11 نبوی میں ہوئی جس میں چھ آدمیوں نے بیعت کی۔

مکہ مکرمہ میں رہ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تبلیغ اسلام کے لیے جدوجہد کرتے رہے لیکن قریش کی مخالفت میں کمی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے تیرہ سالوں کی شبانہ روز جدوجہد کے بعد تبلیغ کا کام سست تھا۔ ایسی حالت میں اسلام کی تبلیغ کا ایک نیا باب کھلا جس سے اسلام مکہ سے نکل کر مدینہ میں پھیلا۔

مدینہ کے دو قبائل اوس اور خزرج قحطانی نسل کے تھے جو ہر سال حج کے لیے آتے تھے۔ نبوت کے گیارہویں سال ان قبائل کے چند آدمی حج کے لیے آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے سامنے دعوت اسلام پیش کی۔ جس پر ان میں سے چھ آدمیوں نے عقبہ کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام قبول کر لیا۔ اسی مناسبت سے یہ بیعت عقبہ کہلاتی ہے۔ ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں۔

دوسرے سال یعنی بعثت کے بارہویں سال ان چھ میں سے پہلے پانچ افراد نے انہی قبائل کے 7 دیگر آدمیوں جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت توحید قبول کی کے ساتھ کل بارہ افراد نے اسی مقام پر بیعت کی جو بیعت عقبہ اولی کہلاتی ہے۔ تیسرے سال یعنی بعثت کے 13 ویں سال 72 افراد کو بیعت کا شرف حاصل ہوا یہ بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے۔ ان لوگوں نے جن باتوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بیعت کی تھی وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  1. ہم خدائے واحد کی عبادت کریں گے
  2. ہم چوری اور زنا کاری نہیں کریں گے
  3. ہم کسی پر جھوٹی تہمت نہیں لگائیں گے
  4. ہم اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے
  5. ہم نبی کی اطاعت کریں گے [2]

اس طرح تین سال تک اوس و خزرج کے افراد نے اسلام قبول کیا اور اسلام مکہ سے نکل کر مدینہ کی حدود میں داخل ہوا۔

اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشہور صحابی مصعب بن عمیر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ مصعب بن عمیر کو مدینہ میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی اور ان کی کوششوں سے مدینہ میں اسلام کافی پھلا پھولا۔ چند ہی دنوں میں قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ اسلام لے آئے۔ ایک سردار کے ایمان لانے کا مطلب تھا کہ ان کے پورے قبیلے سے جلد اسلام قبول کرنے کی توقع ہے۔ اس طرح مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا اور مدینہ میں مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت پیدا ہو گئی جو اسلام کے سچے شیدائی تھے۔

بیعت عقبہ تاریخ اسلام کا ایک اہم پہلو ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں جہاں اشاعت اسلام کو فروغ حاصل ہوا وہیں مدینے میں اوس اور خزرج قبائل کی صدیوں پرانی دشمنی کا بھی خاتمہ ہوا۔ اسی بیعت کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے بہتر مستقبل کی راہ ہموار ہوئی اور مدینہ پر یہودیوں کے سیاسی، مذہبی اور معاشی غلبے کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ بیعت دراصل تاریخ اسلام کے سب سے عظیم واقعے ہجرت کی تمہید بھی تھی جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے عرب میں پہلی بار تقویت حاصل کی اور مدینہ پہلی اسلامی ریاست بنا۔

متعلقہ مضامین ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. مدارج النبوۃ ج2 ص79شبیر برادرز لاہور
  2. رحمۃ اللعالمین جلد اول صفحہ 77

سانچے ترمیم