علی گڑھ تحریک

تحریک
(تحریک علیگڑھ سے رجوع مکرر)

برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبودگی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور انھی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
لیکن سب سے بڑا واقعہ سقوطِ دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یا رد عمل تو مایوسی، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا۔ علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا۔ چنانچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔
ابتدا میں سرسید احمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبودگی میں مصروف ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔
1869 ءمیں سرسید احمد خان کو انگلستان جانے کا موقع ملا۔ یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات اسپکٹیٹر اور گارڈین سے متاثر ہو کر سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اسی قسم کا اخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجرا اس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں۔

سر سید احمد خان
جامعہ علی گڑھ

مقاصد

ترمیم

اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں سب اہل الرائے حضرات متفق ہیں اور ان کی آراء میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا مثلاً احتشام حسین اس تحریک کے مقاصدکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے کئی پہلوئوں میں نئے علوم کا حصول، مذہب کی عقل سے تفہیم، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں۔ جبکہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے مقاصد میں مذہب، اردو ہندو مسلم تعلقات، انگریز اور انگریزی حکومت، انگریزی زبان، مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں۔ ان آرا ء سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تحریک کے مقاصد کے تین زاویے ہیں۔

سیاسی زاویہ

ترمیم

جہاں تک سیاسی زاویے کا تعلق ہے۔ تو اگر دیکھا جائے تو جنگ آزادی کے بعد چونکہ اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد مسلمان قوم جمود اور اضمحلال کا شکار ہو چکی تھی۔ جبکہ ہندوئوں نے انگریزوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کر لی اور حکومت میں اہم خدمت انجام دے رہے تھے اوران کے برعکس مسلمان قوم جو ایک صدی پہلے تک ساری حکومت کی اجارہ دار تھی اب حکومتی شعبوں میں اس کا تناسب کم ہوتے ہوتے ایک اور تیس کا رہ گیا۔ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کی اس پسماندگی کو سیاسی انداز میں دور کرنے کی کوشش کی۔ کالج اور تہذیب اخلاق نے مسلمانوں کی سیاسی اور تمدنی زندگی میں ایک انقلاب برپا کیا۔ اور انھیں سیاسی طور پرایک علاحدہ قوم کا درجہ دیا۔

مذہبی زاویہ
مذہبی حوالے سے سرسید احمد خان نے مذہب کا خول توڑنے کی بجائے فعال بنانے کی کوشش کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کے روایتی تصور نے ذہن کو زنگ آلود کر دیا تھا۔ سرسید احمد خان نے عقل سلیم کے ذریعے اسلام کی مدافعت کی اور ثابت کر دیا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ نئے حقائق کی عقلی توضیح کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

ادبی زاویہ

ترمیم

علی گڑھ تحریک کا تیسرا فعال زوایہ ادبی ہے اور اس کے تحت نہ صرف اردو زبان کو وسعت ملی بلکہ اردو ادب کے اسالیب ِ بیان اور روح معانی بھی متاثر ہوئے۔ اور اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع تر ہو گیا۔ سرسید سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ تصوف، تاریخ اور تذکرہ نگاری تک محدود تھا۔ طبعی علوم، ریاضیات اور فنون لطیفہ کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی تھی۔ سرسید کااثر اسلوب بیان پر بھی ہوا اور موضوع پر بھی۔ اگرچہ سرسید سے پہلے فورٹ ولیم کالج کی سلیس افسانوی نثر، دہلی کی علمی نثر اور مرزا غالب کی نجی نثر جس میں ادبیت اعلی درجے کی ہے۔ نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ان سب کوششوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہیں تھا۔ سرسید احمد خان کی بدولت نثر میں موضوعات کا تنوع اور سادگی پید اہوئی۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ سرسید تحریک نے اردو ادب کے کون کون سے شعبوں کو متاثر کیا۔

اردو نثر

ترمیم

چونکہ علی گڑھ تحریک نے قومی مقاصد کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور ان کا روئے سخن خواص سے کہیں زیادہ عوام کی طرف تھا اس لیے صرف شاعری اس تحریک کی ضرورت کی کفیل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے علی گڑھ تحریک نے سستی جذباتیت کو فروغ دینے کی بجائے گہرے تعقل تدبر اور شعور کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور صرف اردو نثر ان مقاصد میں زیادہ معاونت کر سکتی تھی۔ چنانچہ ادبی سطح پر علی گڑھ تحریک نے اردو نثر کا ایک باوقار، سنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا اور اُسے شاعری کے مقفٰی اور مسجع اسلوب سے نجات دلا کر سادگی اور متانت کی کشادہ ڈگر پر ڈال دیا اور یوں ادب کی افادی اور مقصدی حیثیت اُبھر کر سامنے آئی۔

سوانح اور سیرت نگاری

ترمیم

علی گڑھ تحریک نے سائنسی نقطہ نظر اور اظہار کی صداقت کو اہمیت دی تھی اور اس کا سب سے زیادہ اثر سوانح اور سیرت نگاری کی صنف پر پڑا۔ اٹھارویں صدی میں مسیحی مبلغین نے ہادی اسلام حضرت محمدؐ اور دیگر نامور مسلمانوں کے غلط سوانحی کوائف شائع کرکے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ مسیحی مبلغین کی ان کوششوں میں کبھی کبھی ہندو مورخ بھی شامل ہو جاتے تھے۔ علی گڑھ تحریک چونکہ مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کو فروغ دے رہی تھی اس لیے اسلام اور بانی اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ سرسید کی ”خطبات احمدیہ “ مولوی چراغ علی کے دورسالے ”بی بی حاجرہ“ اور ”ماریہ قبطیہ“ڈپٹی نذیر احمد کی ”امہات الا“ میں تاریخی صداقتوں کو پیش کیا گیا۔
لیکن اس دور کے سب سے بڑے سوانح نگار شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی تھے۔ مولانا شبلی نے نامور ان اسلام کوسوانح نگاری کا موضوع بنایا اور ان کی زندگی اور کارناموں کو تاریخ کے تناظر میں پیش کرکے عوام کو اسلام کی مثالی شخصیتوں سے روشناس کرایا جبکہ مولانا حالی نے اپنے عہد کی عظیم شخصیات کا سوانحی خاکہ مرتب کیا۔ چنانچہ ”یادگار غالب“ ”حیات جاوید“ اور ”حیات سعدی“ اس سلسلے کی کڑیا ں ہیں۔ اس عہد کے دیگر لوگ جنھوں نے سوانح عمریا ں لکھیں ان میں ڈپٹی نذیر احمد، مولوی چراغ علی اور عبدالحلیم شرر شامل ہیں۔

تاریخ نگاری

ترمیم

سرسید احمد خان نئی تعلیم کے حامی اور جدیدیت کے علمبردار تھے انھوں نے حضور نبیؐ کریم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کے لیے اخلاقیات کی خالص قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک نے قومی زندگی میں جو ولولہ پیدا کیا تھا اسے بیدار رکھنے کے لیے ملی تاریخ سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس تحریک نے تاریخ کو سپاٹ بیانیہ نہیں بنایا بلکہ اس فلسفے کو جنم دیا کہ تاریخ کے اوراق میں قوم اور معاشرے کا دھڑکتا ہوا دل محفوظ ہوتا ہے۔ جس کا آہنگ دریافت کرلینے سے مستقبل کو سنوارا اور ارتقاءکے تسلسل کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے سرسید احمد خان نے ”آئین اکبری“ ”تزک جہانگیری“ اور تاریخ فیروز شاہی دوبارہ مرتب کیں۔ شبلی نعمانی نے ”الفاروق“، ”المامون“ اور اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر لکھیں۔ جبکہ مولوی ذکا اللہ نے ”تاریخ ہندوستان “ مرتب کی۔

علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ اسلاف کی عظمت سے قوم کو مسحور کیا بلکہ سرسید احمد خان کا ایمان تھا کہ بزرگوں کے یادگار کارناموں کو یاد رکھنا اچھی اور برا دونوں طرح کا پھل دیتا ہے۔ چنانچہ اس تحریک نے تاریخ کے برے پھل سے عوام کو بچانے کی کوشش کی اور ماضی کے تذکرہ جمیل سے صرف اتنی توانائی حاصل کی کہ قوم مستقبل کی مایوسی ختم کرنے کے لیے ایک معیار مقرر کر سکے۔ علی گڑھ تحریک نے تاریخ نگاری کے ایک الگ اسلوب کی بنیاد رکھی بقول سرسید
” ہر فن کے لیے زبان کا طرز بیان جداگانہ ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ناول اور ناول میں تاریخانہ طرز کو کیسی ہی فصاحت و بلاغت سے برتا گیا ہو دونوں کو برباد کر دیتا ہے۔“

اس لیے علی گڑھ تحرے ک نے تاریخ نگاری میں غیر شخصی اسلوب کو مروج کیا اور اسے غیر جانبداری سے تاریخ نگاری میں استعمال کیا۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ کا بیانیہ انداز نثر کی بیشتر رعنائیوں کو زائل کر دیتا ہے۔ تاہم سرسید احمد خان تاریخ کو افسانہ یا ناول بنانے کے حق میں ہرگز نہیں تھے اور وہ شخصی تعصبات سے الگ رہ کر واقعات کی سچی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے تاریخ کے لیے سادہ اور بیانیہ نثر استعمال کرنے پر زور دیا۔ اور اس نقطہ نظر کے تحت آثار الصنادید کی بوجھل نثر کو سادہ بنایا۔

علی گڑھ تحریک اور تنقید

ترمیم

علی گڑھ تحریک نے زندگی کے جمال کو اجاگر کرنے کی بجائے مادی قدروں کو اہمیت دی۔ چنانچہ ادب کو بے غرضانہ مسرت کا ذریعہ سمجھنے کی بجائے ایک ایسا مفید وسیلہ قرار دیا گیا جو مادی زندگی کو بدلنے اور اسے مائل بہ ارتقاءرکھنے کی صلاحیت رکھتاتھا۔ ادب کا یہ افادی پہلو بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ تاہم یہ اعزاز علی گڑھ تحریک کو حاصل ہے کہ اردو زبان کے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس ی عملی حیثیت کو اس تحریک نے قبول کیا اور ادب کو عین زندگی بنا دیا۔ اس اعتبار سے بقول سید عبد اللہ سرسید سب پہلے ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے۔ اول الذکر حیثیت سے سرسید احمد خان نے ادب کو تنقید حیات کا فریضہ سر انجام دینے پر آمادہ کیا اور موخر الذکر حیثیت سے ادب کی تنقید کے موقر اصول وضع کرکے اپنے رفقاءکو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی۔
اگرچہ سرسید احمد خان نے خودفن تنقید کی کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن اُن کے خیالات نے تنقیدی رجحانا ت پر بڑا اثر ڈالا۔ ان کا یہ بنیادی تصور کہ اعلیٰ تحریر وہی ہے جس میں سچائی ہو، جو دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے بعد میں آنے والے تمام تنقیدی تصورات کی اساس ہے۔ سرسید احمد خان نے قبل عبا ت آرائی اور قافیہ پیمائی کو اعلیٰ نثر کی ضروری شرط خیا ل کیا جاتاتھا لیکن سرسید احمد خان نے مضمون کا ایک صاف اور سیدھا طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے انداز بیان کی بجائے مضمون کو مرکزی اہمیت دی اور طریق ادا کو اس کے تابع کر دیا۔ سرسید احمد خان کے یہ تنقیدی نظریات ان کے متعدد مضامین میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں اور ان سے سرسید احمد خان کا جامع نقطہ نظر مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ علی گڑھ تحریک نے ایک ان لکھی کتاب پر عمل کیا۔
علی گڑھ تحریک سے اگر پہلے کی تنقیدی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ علی گڑھ تحریک سے قبل کی تنقید صرف ذاتی تاثرات کے اظہار تک محدود تھی۔ لیکن سرسید احمد خان نے ادب کو بھی زندگی کے مماثل قرار دیا۔ اور اس پر نظری اور عملی زاویوں سے تنقیدی کی۔ گو کہ سرسید احمد خان نے خود تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی۔ تاہم ان کے رفقاءمیں سے الطاف حسین حالی نے ”مقدمہ شعر و شاعری“ جیسی اردو تنقید کی باقاعدہ کتاب لکھی اور اس کا عملی اطلاق ”یادگار غالب “ میں کیا۔ مولانا حالی کے علاوہ شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات ان کی متعدد کتابوں میں موجود ہیں۔ ان نظریات کی عملی تقلید ”شعر العجم “ ہے۔
سرسید نے صرف ادب اور اس کی تخلیق کو ہی اہمیت نہیں دی بلکہ انھوں نے قار ی کو اساسی حیثیت کو بھی تسلیم کیا۔ انھوں نے مضمون کو طرزادا پر فوقیت دی۔ لیکن انشاءکے بنیادی تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ طرز ادا میں مناسب لطف پیدا کرکے قاری کو سحر اسلوب میں لینے کی تلقین بھی کی۔ چنانچہ ان کے رفقاءمیں سے مولانا شبلی اور ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں مضمون اور اسلوب کی ہم آہنگی فطری طور پرعمل میں آتی ہے اور اثر و تاثیر کی ضامن بن جاتی ہے۔ اگرچہ ان کے مقابلے میں حالی کے ہاں تشبیہ اور استعارے کی شیرینی کم ہے تاہم وہ موضوع کا فکری زاویہ ابھارتے ہیں او ر قاری ان کے دلائل میں کھو جاتا ہے۔ اس طرح مولوی ذکاءاللہ کا بیانیہ سادہ ہے لیکن خلوص سے عاری نہیں جبکہ نواب محسن الملک کا اسلوب تمثیلی ہے اور ان کی سادگی میں بھی حلاوت موجود ہے۔

علی گڑھ تحریک اور مضمون نویسی

ترمیم

اصناف نثر میں علی گڑھ تحریک کا ایک اور اہم کارنامہ مضمون نویسی یا مقالہ نگاری ہے۔ اردو نثر میں مضمون نویسی کے اولین نمونے بھی علی گڑھ تحریک نے ہی فراہم کیے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سفر یورپ کے دوران سرسید احمد خان وہاں کے بعض اخبارات مثلاً سپکٹیڑ، ٹیٹلر اور گارڈین وغیر ہ کی خدمات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور سرسید احمد خان نے انہی اخباروں کے انداز میں ہندوستان سے بھی ایک اخبار کا اجراءکا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ وطن واپسی کے بعد سرسید احمد خان نے ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ جاری کیا۔ اس رسالے میں سرسید احمد خان نے مسائل زندگی کو اُسی فرحت بخش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جو مذکورہ بالا رسائل کا تھا۔
سرسید احمد خان کے پیش نظر چونکہ ایک اصلاحی مقصد تھا اس لیے ان کے مضامین اگرچہ انگریزی Essayکی پوری روح بیدار نہ ہو سکی تاہم علی گڑھ تحریک اور تہذیب الاخلاق کی بدولت اردو ادب کا تعارف ایک ایسی صنف سے ہو گیا جس کی جہتیں بے شمار تھیں اور جس میں اظہار کے رنگا رنگ قرینے موجود تھے۔
تہذیب الاخلاق کے مضمون نگاروں میں سرسید احمد خان، محسن الملک اور مولوی پیر بخش کے علاوہ دیگر کئی حضرات شامل تھے۔ ان بزرگوں کے زیر اثر کچھ مدت بعد اردو میں مقالہ نگاری کے فن نے ہمارے ہاں بڑے فنون ادبی کا درجہ حاصل کر لیا۔ چنانچہ محسن الملک، وقار الملک، مولوی چراغ علی، مولانا شبلی اور حالی کے مقالے ادب میں بلند مقام رکھتے ہیں۔

علی گڑھ تحریک اور ناول نگاری

ترمیم

علی گڑھ تحریک میں اصلاحی اور منطقی نقطہ نظر کو تمثیل میں بیان کرنے کا رجحان سرسید احمد خان، مولانا حالی اور محسن الملک کے ہاں نمایاں ہے۔ تاہم مولوی نذیر احمد نے اسے فن کا درجہ دیا اور تحریک کے عقلی زاویے اور فکری نظریے کے گرد جیتے جاگتے اور سوچتے ہوئے کرداروں کاجمگھٹاکھڑا کر دیا۔ چنانچہ وہ تما م باتیں جنہیں سرسید احمد خان نسبتاً بے رنگ ناصحانہ لہجے میں کہتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے انھیں کرداروں کی زبا ن میں کہلوایا ہے اور ان میں زندگی کی حقیقی رمق پیدا کر دی ہے۔
اگرچہ زندگی کی یہ تصویریں بلاشبہ یک رخی ہیں اور نذیر احمد نے اپنا سارا زور بیان کرداروں کے مثالی نمونے کی تخلیق میں صرف کیا۔ لیکن یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ سکوت دہلی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی کے پیش نظر اس وقت مثالی کرداروں کو پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ صاف اور واضح نظرآتا ہے کہ مولانا شبلی اور مولانا حالی نے جو قوت اسلاف کے تذکروں سے حاصل کی تھی وہی قوت نذیر احمد مثالی کرداروں کی تخلیق سے حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ مولوی نذیر احمد کے ناول چونکہ داستانوں کے تخیلی اسلوب سے ہٹ کر لکھے گئے تھے اور ان میں حقیقی زندگی کی جھلکیاں بھی موجود تھیں اس لیے انھیں وسیع طبقے میں قبولیت حاصل ہوئی اور ان ناولوں کے ذریعے علی گڑھ تحریک کی معتدل اور متوازن عقلیت کو زیادہ فروغ حاصل ہوا اس طرح نذیر احمد کی کاوشوں سے نہ صرف تحریک کے مقاصد حاصل ہوئے بلکہ ناول کی صنف کو بے پایاں ترقی ملی۔

علی گڑھ تحریک اور نظم

ترمیم

علی گڑھ تحریک نے غزل کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی کوشش کی۔ اس کا سبب خود سرسید احمد خان یہ بتاتے ہیں کہ
” ہماری زبان کے علم و ادب میں بڑا نقصان یہ تھا کہ نظم پوری نہ تھی۔ شاعروں نے اپنی ہمت عاشقانہ غزلوں اور واسوختوں اور مدحیہ قصوں اور ہجر کے قطعوں اور قصہ کہانی کی مثنویوں میں صرف کی تھی۔“ اس بناءپر سرسید احمد خان نے غزل کی ریزہ خیالی کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی سعی کی۔ نظم کے فروغ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مولانا الطاف حسین حالی سے ”مسدس حالی“ لکھوائی اور پھر اُسے اپنے اعمال حسنہ میں شمار کیا۔
سرسید احمد خان شاعری کے مخالف نہ تھے لیکن وہ شاعری کو نیچرل شاعری کے قریب لانا چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے محمد حسین آزاد کے نے چر مشاعرے کی داد دی اور ان کی مثنوی ”خواب امن“ کو دل کھول کر سراہا۔ سرسید احمد خان کی جدیدیت نے اس حقیقت کو بھی پالیا تھا کہ قافیہ اور ردیف کی پابندی خیالات کے فطری بہائو میں رکاوٹ ہے۔ چنانچہ انھوں نے بے قافیہ نظم کی حمایت کی اور لکھا کہ
”ردیف اور قافیہ کی پابندی گویا ذات شعر میں داخل تھی۔ رجز اور بے قافیہ شعر گوئی کا رواج نہیں تھا اور اب بھی شروع نہیں ہوا۔ ان باتوں کے نہ ہونے سے ہماری نظم صرف ناقص ہی نہ تھی بلکہ غیر مفید بھی تھی۔“ چنانچہ سرسیداحمد خان کے ان نظریات کااثر یہ ہو ا کہ اردو نظم میں فطرت نگاری کی ایک موثر تحریک پیداہوئی۔ نظم جدید کے تشکیلی دور میں علی گڑھ تحریک کے ایک رکن عبد الحلیم شرر نے سرگرم حصہ لیا اور ”رسالہ دلگداز“ میں کئی ایسی نظمیں شائع کیں جن میں جامد قواعد و ضوابط سے انحراف برت کر تخلیقی رو کو اظہار کی آزادی عطا کی گئی تھی۔

مجموعی جائزہ

ترمیم

علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی۔ خصوصا ادبی لحاظ سے اس کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ثابت ہوا۔ اس تحریک کی بدولت نہ صرف اسلوب بیان اور روح مضمون میں بلکہ ادبی انواع کے معاملے میں بھی نامور ان علی گڑھ کی توسیعی کوششوں نے بڑا کام کیا۔ اور بعض ایسی اصناف ادب کو رواج دیا جو مغرب سے حاصل کردہ تھیں۔ ان میں سے بعض رجحانات خاص توجہ کے لائق ہیں۔ مثلاً نیچرل شاعری کی تحریک جس میں محمد حسین آزاد کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی بھی برابر کے شریک تھے۔ قدیم طرز شاعری سے انحراف بھی اسی تحریک کا ایک جزو ہے۔ اردو تنقید جدید کا آغاز بھی سرسید احمد خان اور اُن کے رفقاءسے ہوتا ہے۔ سوانح نگار، سیرت نگاری، ناول اردو نظم اور مضمون نگاری سب کچھ ہی سرسید تحریک کے زیر اثر پروان چڑھا۔

علی گڑھ مسلم طلبہ کا سب سے بڑا مرکز تھا اور قومی معاملات میں مرکزی کردار ادا کرنے کی استعداد رکھتا تھا۔ پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو بہت سے طلبہ جو برصغیر کے مختلف حصوں سے آئے تھے شامل ہونے لگے۔ جلد ہی علی گڑھ میں مسلمان طلبہ کا ایک کیمپ منعقد ہوا جس میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر راجا صاحب محمود آباد بھی شریک ہوئے۔ وہیں پر مولانا محسن علی عمرانی (ڈیرہ اسماعیل خان) کی ملاقات علامہ راغب احسن سے ہوئی۔ دونوں کی ملاقاتوں اور ایک جیسی فکر و سوچ کی بدولت جلد ہی یہ تعلق دوستی میں تبدیل ہو گیا۔ بتاتا چلوں کہ علامہ راغب احسن وہ عہد ساز شخصیت تھیں کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح 1935ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلی کی سرز مین پر تین اہم شخصیتوں محمد علی جناح، علامہ اقبال اور علامہ راغب احسن نے ایک کمرے میں بیٹھ کر گھنٹوں ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار اور عالمی حالات و واقعات پر باتیں کیں۔ 1940 میں تعلیم مکمل کرنے بعد جب ڈیرہ اسماعیل خان واپس آئے تو لکھنؤ اور علی گڑھ میں تحریک پاکستان اور مختلف شخصیات خصوصا علامہ راغب احسن سے متاثر ہو کر مقامی نوجوانوں کو جمع کر کے علامہ راغب احسن کے حکم پر اور شہزادہ فضل داد خان جو بحیثیت صدر مسلم لیگ، محمد نواز خان اور جنرل سیکریٹری مولا داد خان بلوچ کام کر رہے تھے کہ مکمل تعاون اور سرپرستی کے نوجوانان ِمسلم لیگ کی بنیاد ڈالی اور سب سے پہلے جنرل سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور جوانوں کو یکجا کر کے بزرگوں کے ہاتھ مضبوط کیے۔

حوالہ جات

ترمیم