پہلی جنگ عظیم

پہلی عالمی جنگ
(جنگ عظیم اول سے رجوع مکرر)

جنگِ عظیم اوّل جسے پہلی جنگِ عظیم، سب سے بڑی جنگ یا ایسی جنگ جو ساری جنگیں ختم کر دے کہ نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جنگِ عظیم ایک عالمی جنگ تھی جس کا اغاز یورپ میں ہوا۔ یہ جنگ 28 جولائی 1914ء سے 11 نومبر 1918ء تک جاری رہی۔

پہلی جنگ عظیم
 
عمومی معلومات
آغاز 28 جولا‎ئی 1914  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 11 نومبر 1918  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اسباب کئی وجوہات   ویکی ڈیٹا پر (P828) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بنیادی وجہ آرچڈیوک فرانز فرڈینینڈ کا قتل   ویکی ڈیٹا پر (P1478) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ اختتام پیرس امن کانفرنس 1919ء ،  پہلی جنگ عظیم کے اتحادی ،  جرمن سلطنت ،  سلطنت روس ،  سلطنت عثمانیہ ،  آسٹریا-مجارستان ،  انقلاب روس ،  روسی خانہ جنگی ،  سوویت اتحاد ،  جمہوریہ وایمار ،  ترک جنگ آزادی ،  یورپ ،  ایشیا ،  جمعیت الاقوام   ویکی ڈیٹا پر (P1542) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام یورپ ،  آسٹریلیا اور اوقیانوسیہ ،  مشرق وسطیٰ ،  افریقا ،  ایشیا ،  مشرق قریب ،  بحر الکاہل ،  عوامی جمہوریہ چین ،  بحر ہند ،  بحر اوقیانوس   ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
 روس
 فرانس
 برطانیہ
اٹلی
امریکہ
آسٹریا-ہنگری
جرمن سلطنت
سلطنت عثمانیہ
بلغاریہ
قائد
نکولس ثانی
الیکسی بروسیلوف
جورجس کلیمنکیو
جوزف جوفری
فرڈیننڈ فوش
رابرٹ نیویل
ہربرٹ ہنری ایسکوئتھ
سر ڈوگلس ہیگ
سر جون جیلیکو
وکٹر ایمانوئیل ثالث
لوگی کاڈورنا
ارمانڈو ڈیاز
ووڈرو ولسن
جون پیرشنگ
فرانز جوزف اول
کونراڈ وون ہوزینڈورف
ولہیم ثانی
ایرچ وون فالکنہین
پال وون ہنڈنبرگ
رینہارڈ شیر
ایرچ لوڈنڈورف
محمد خامس
محمد وحید الدین
تین پاشا
فرڈیننڈ اول
قوت
42,959,850 25,248,321
نقصانات
فوجی ہلاکتیں:
5،520،000
فوجی زخمی:
12،831،000
فوجی گمشدہ:
4،121،000
فوجی ہلاکتیں:
4،386،000
فوجی زخمی:
8،388،000
فوجی گمشدہ: 3،629،000
 
دوسری جنگ عظیم ،  بین جنگ دور   ویکی ڈیٹا پر (P156) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

واقعات

ترمیم

15 اگست 1914ء کو آسٹریا اور اس کے حلیف جرمنی کی جُیُوش ہالینڈ، بیلجیم کے ممالک کو روندتی ہوئی فرانس کی سرزمین تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ جرمنوں نے فرانس پر حملہ آور ہونے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس میں یہ قرار پایا تھا کہ فرانس کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ ہو کر فرانس کے دار الخلافہ پیرس پر اس طرح حملہ کیا جائے جیسے پھیلے ہوئے بازو کی درانتی وار کرتی ہے۔ فرانسیسی جیش کا اعلی کمان اس منصوبے کو بھانپ نہ سکا اور اس نے اپنی مشرقی سرحد پر سے جرمنوں پر 14 اگست کو حملہ کر دیا۔ یہ حملہ تدبیر و منصوبہ کے تحت نہیں ہوا تھا- لہٰذا جرمنوں نے جو پہلے ہی گھات لگائے بیٹھے تھے، ایک بھرپور وار کیا اور فرانسیسی واپس ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ اس جنگ کی ابتدا سے لے کر آج تک فرانسیسی جیش کو سب سے جلد ہتھیار ڈالنے والی جیش کہا جاتا ہے۔

فائل:Australian infantry.jpg
فرنگستان مٰیں خندق کی لڑائی

اس کے بعد جرمنوں نے اپنے حملے کی حکمت کو، جسے شلفن منصوبہ کہتے ہیں اور جو 1905ء سے تیار پڑا تھا۔ عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ جلد ہی فرانس کے دار الحکومت کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ فرانس کی بدقسمتی سے اس وقت اس کی بے نظیر افواج کی قیادت جافرے کے ہاتھوں میں تھی۔ جو مدبر سپہ سالار ثابت نہ ہوا۔ انگریزوں کا جرنیل ہیگ بھی جرمنوں کے جرنیلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا ایسا معلوم ہونے لگا کہ پیرس چند دنوں میں ہی ہار جائے گا۔ مگر عین اس وقت ایک ہوشمند فرانسیسی جرنیل گلینی نمودار ہوا۔ جس نے جرمنوں پر وہ کاری وار کیا کہ انھیں پریشانی کے عالم میں پیچھے ہٹتے ہی بنی۔ اس کے بعد جرمنوں کی پیش قدمی رک گئی اور آئندہ چار برسوں تک کبھی تھوڑا جرمن بڑھ آتے تو کبھی فرانسیسی۔ مگر انگریزوں نے کوئی خاص کار ہائے نمایاں انجام نہ دیے۔ نہ انھوں نے س وقت تک فاش جیسا جرنیل پیدا کیا تھا جس کے زیر قیادت اتحادیوں کو بالآخر فتح نصیب ہوئی۔ نہ ان کے سپاہیوں نے وردن جیسی خونریز لڑائی لڑی جس میں فرانس کے 3,15,000 آدمی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ جرمن جرنیلوں میں سب سے زیادہ نام جن اشخاص نے پایا وہ لوڈنڈارف اور ہنڈنبرگ تھے۔ فرانسیسی جرنیلوں میں فاش اور پتیان قابل ذکر ہیں۔ انگرزیوں میں لارڈ ایلن بائی ہے۔

پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازع تھا۔ اس تنازعے کی ابتدا ھبزبرگ آرکڈیوک ٖفرانز فرڈنینڈ کے قتل سے ہوئی جو اگست 1914 میں شروع ہوا اور اگلے چار برسوں تک مختلف محاذوں پر جاری رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں۔۔ برطانیہ، فرانس، سربیا اور روسی بادشاہت (بعد میں اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکا بھی شامل ہو گئے)۔۔ جرمنی اور آسٹریا اور ہنگری پر مشتمل مرکزی قوتوں کے خلاف لڑیں جن کے ساتھ بعد میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ترکی اور بلغاریہ بھی شامل ہو گئے۔ جنگ کا ابتدائی جوش و جذبہ اس وقت ماند پڑ گیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی جنگ جیسی شکل اختیار کر گئی۔ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا۔ مشرقی محاذ پر وسیع تر علاقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی ممکن نہ رہی لیکن تنازعے کی سطح مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ شمالی اٹلی، بالکن علاقے اور سلطنت عثمانیہ کے ترکی میں بھی شدید لڑائی ہوئی۔ لڑائی سمندر کے علاوہ پہلی مرتبہ ہوا میں بھی لڑی گئی۔

پہلی عالمی جنگ جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں تقریباً ایک کروڑ فوجی ہلاک ہو گئے۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے ایک سو برس میں ہونے والی لڑائیوں کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس جنگ میں دو کروڑ دس لاکھ کے لگھ بھگ افراد زخمی بھی ہوئے۔ ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ مشین گن جیسے نئے ہتھیاروں کو متعارف کرانا اور گیس کے ذریعے کی گئی ہلاکتیں تھی۔ جنگ کے دوران یکم جولائی 1916 کو ایک دن فوجی مارے گئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان جرمنی اور روس کو اُٹھانا پڑا جب جرمنی کے 17 لاکھ 73 ہزار 7 سو اور روس کے 17 لاکھ فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس کو اپنی متحرک جیش کے 16 فیصد سے محروم ہونا پڑا۔ محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ طور ہلاک ہونے والے غیر فوجی افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ اتنی بڑی ہلاکتوں کی وجہ سے "اسپینش فلو" پھیل گیا جو تاریخ کی سب سے موذی انفلوئنزا کی وباء ہے۔ لاکھوں کروڑوں افراد بے گھر ہو گئے یا اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے۔ جائداد اور صنعتوں کا نقصان بہت خطیر تھا، خاص طور پر فرانس اور بیلجیم میں، جہاں لڑائی خاص طور پر شدید تھی۔

نومبر 11, 1918ء کو صبح کے 11 بجے مغربی محاذ پر جنگ بند ہو گئی۔ اُس زمانے کے لوگ اس جنگ کو "جنگ عظیم" کے نام سے منسوب کرتے تھے۔ یہ بند ہو گئی لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی حلقوں میں، آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔

نتائج

ترمیم

اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا، خنگری سلطنت، ترکی اور بلغاریہ اور دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، پرتگال، جاپان اور امریکا تھے۔ 11 نومبر 1918ء کو جرمنی نے جنگ بند کردی۔ اور صلح کی درخواست کی۔28 جون 1919 کو فریقین کے مابین معاہدہ ورسائی ہوا۔

مسلمان دنیا پر اس کا بہت برا اثر پڑا۔ چونکہ سلطنتِ عثمانیہ جرمنی کا حلیف رہا اس لیے اسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ انگریزوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف عرب بغاوت کی جنگ پر اکسایا اس طرح مسلمانوں میں قومیت کی بنیاد پر جنگ لڑی گئی۔ اور ترکی کے بہت سے عرب صوبے عثمانی سلطان محمد وحیدالدین ششم کے ہاتھ سے چلے گئے۔ بعد میں انگریزوں نے ترکی پر بھی قبضہ کر لیا اور معاہدہ سیورے کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ لیکن کمال اتاترک نے برطانیہ اور یونان کو ایسا کرنے سے باز رکھا۔ اسی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کی عظیم خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔

جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کے تقریباً ایک کروڑ آدمی کام آئے اور دو کروڑ کے لگ بھگ مجروح و معذور ہو گئے۔

پہلی جنگ 104 برس پہلے نومبر کے مہینے میں ختم ھوئی تھی۔ مگر یہ جنگ آج بھی ظلم و برداشت کے داستانوں اور برداشت و رواداری کے جذبوں کو مزید کم سے کم تر کرتی چلی گئی۔ دنیا کے بیشتر اقوام اس جنگ میں آہستہ آہستہ حصہ بنتے گئے۔ اور یوں پوری دنیا اس جنگ کی آگ جھلستی چلی گئی۔ دنیا میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ پہلی بار دنیا نے کیمیائی اور زہریلی گیس کا استعمال دیکھا۔ یہ انسانی تاریخ کی تباہ کن جنگ تھی۔ جس میں تقریباً 90 لاکھ مرد میدان جنگ میں ہلاک ھوئے۔ اور اتنے ہی افراد غربت، بھوک اور بیماری کی نزر ھوگئے۔ تاریخ کے مطابق 19 ویں صدی کے آواخر میں یورپ میں اتحاد بننے لگے تھے۔ 1904 میں فرانس اور برطانیہ نے ایک معاہدہ کیا جو باقاعدہ اتحاد تو نہیں تھا۔ تاہم قریبی تعلقات کے لیے بے حد اہمیت کا حامل تھا۔ اسی طرح ایک معاہدہ برطانیہ اور روس کے مابین 1907 میں (TRIPLE ENTENTE) کے نام سے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ جس میں روس، فرانس اور برطانیہ شامل تھے۔ اب یورپ تقسیم ھوگیا۔ ایک طرف جرمنی، آسٹریا، ھنگری، سربیا اور اٹلی جبکہ دوسری طرف روس، فرانس اور برطانیہ تھے۔ جاپان بھی 1902ء میں برطانیہ سے معاہدہ کر چکا تھا۔ اس لیے اس نے برطانیہ کی طرفداری کرتے ھوئے اعلان جنگ کیا۔ اسی خوف اور طاقت کے نشے میں دنیا کے بیشتر ممالک اس جنگ کا حصہ بنتے چلے گئے۔ پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہلا بڑا تنازع تھا۔ اس تنازعے کی بظاہر ابتدا ایک قتل سے ھوئی۔ لیکن جنگ کے سائے کافی عرصے سے ان علاقوں پر منڈلا رہے تھے۔ لیکن اس کا باقاعدہ آغاز 1914ء میں قتل کے بعد ہوا۔ پہلی جنگ عظیم جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ ایک کروڑ فوجی بھی ہلاک ھوئے۔ ہلاکتوں کی اتنی تعداد اس وجہ سے تھی کیونکہ بری، بحری اور فضائی لحاظ سے جدید سے جدید تر ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ اس جنگ میں ایک طرف برطانیہ اوور اس کے حواری تھے۔ جبکہ دوسری طرف جرمنی اور ترکی کے آخری سلطان کی جُیُوش صف آرا تھیں۔ اس جنگ میں جانی اور مالی لحاظ سے اتنا نقصان ہوا۔ کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ بلکہ اگر یہ کھا جائے تو غلط نہ ھوگا۔ کہ دنیا میں اس جنگ سے پہلے کی جتنی اموات ھوئی تھیں، کو اگر ایک طرف رکھاجائے اور اس جنگ میں جتنی اموات ھوئیں۔ یہ اموات اُن تمام جنگوں سے زیادہ تھیں۔ پہلی عالمی جنگ میں دو کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک، لاکھوں غربت، بھوک، بیماریوں کی نزر ھوگئے تھے۔ ان تمام میں ہلاک فوجیوں کی تعداد الگ تھی۔ جو ایک کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ پہلی عالمگیر جنگ اس بات کی غمازھے۔ کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کرے۔ اور انسان جتنا بھی اپنے آپ کو مہذب کہلائے، وہ نظریے اور زہنیت سے اب بھی ایک وحشی درندے سے کم نہیں۔ اور اُس نے اکثر مواقع پر یہ بات ثابت کی ہے۔ پچھلی صدی کی یہ جنگ عالمی امن و برداشت کے لیے کام کرنے والے لوگوں اور اس نظریے کے لیے ایک زہرِ قاتل کی حثیت رکھتی ہے۔ انسان اب بھی اگر عالمی امن وبرداشت کے حوالے سے کوئی قدم اٹھاتا ہے۔ تو اُسے اپنے اسلاف اور آباواجداد کے ہاتھوں لڑی گئی اس جنگ کی طرف بھی ایک بار دیکھنا پڑتاھے۔ کیونکہ مہذب دنیا کے منہ پر یہ جنگ ایک زوردار طمانچہ ہے۔۔۔۔۔

مزید دیکھیے

ترمیم