حسن بن صالح ہمدانی
معلومات شخصیت
وجہ وفات طبعی موت
شہریت خلافت امویہ ، خلافت عباسیہ
کنیت ابو عبد اللہ
عملی زندگی
ابن حجر کی رائے ثقہ
ذہبی کی رائے ثقہ
استاد ابان ابن ابی عیاش ، شعبہ بن حجاج ، سماک بن حرب ، سدی ، بیان بن بشر احمسی ، عطاء بن سائب ، علی بن اقمر ، محمد بن اسحاق
نمایاں شاگرد اسود بن عامر شاذان ، جراح بن ملیح ، عبد اللہ بن مبارک ، عبد اللہ بن داؤد خریبی ، عبید اللہ بن موسیٰ ، عثمان بن حکیم ، وکیع بن جراح ، علی بن جعد ، ابو احمد زبیری ، یحیٰی بن آدم
پیشہ محدث ، فقیہ ، متکلم
شعبۂ عمل روایت حدیث

نام ونسب ترمیم

حسن نام اور ابو عبد اللہ کنیت تھی[1]نسب نامہ یہ ہے حسن بن صالح بن صالح بن مسلم بن حیان بن شفی بن ہنی بن رافع بن قملی بن عمرو بن ماتع بن صہلان بن زید بن ثور بن مالک بن معاویہ بن دومان بن کمبیل بن جشم بن ہمدان [2] ) جدِ امجد حیان کا لقب حی تھا، اس لیے ابنِ سعد اور بعض دوسرے محققین ان کا ذکر حسن بن حی کے نام سے بھی کرتے ہیں، وطن کی نسبت سے کوفی اور قبیلہ کی طرف منسوب ہوکر ہمدانی مشہور ہوئے ہمدان میں کا ایک قبیلہ ہے جو کوفہ آباد ہونے کے بعد وہاں آکر بس گیا تھا،اس قبیلہ کی بکثرت شاخیں ہیں۔ [3]

وطن اور پیدائش ترمیم

100ھ میں کوفہ کی مردم خیز سر زمین میں ولادت ہوئی حسن بن صالح اور ان کے بھائی (علی بن صالح) دونوں توام پیدا ہوئے تھے [4]ان دونوں کی ولادت میں صرف ایک گھنٹہ کا فصل ہوا تھا، یعنی علی کی ولادت حسن سے ایک گھنٹہ قبل ہو گئی تھی ظاہر ہے اس سے عمر میں کوئی نمایاں تفاوت واقع نہیں ہوتا، لیکن ابو نعیم کا بیان ہے کہ میں نے حسن کو کبھی اپنے بھائی کا نام لیتے نہیں سُنا جب اس کی ضرورت پیش آتی تو فرماتے قال ابو محمد ھکذا [5] [6]

علم و فضل ترمیم

علمی اعتبار سے وہ باکمال اتباع تابعین میں تھے، انھوں نے نہ صرف حدیث فقہ کی قندیلیں فروزاں کیں ؛بلکہ اخلاق و عمل کے چراغ بھی روشن کیے، اپنے زمانہ کے ممتاز عالم ،عابد اور زاہد شمار کیے جاتے تھے، تمام علما اور محققین ان پر کلام کے باوجود جملہ خصوصیات اور کمالات کا اعتراف بھی کرتے ہیں،ان کے شاگرد رشید ابو نعیم بیان کرتے ہیں کہ: کتبت عن ثمان،مائۃ محدث فما رایت افضل من حسن بن صالح [7] میں نے آٹھ سو محدثین سے حدیثیں لکھی ہیں لیکن حسن بن صالح سے زیادہ بلند مرتبہ میں نے کسی کو نہیں پایا اجتمع فیہ حفظ واتقان وفقہ وعبادۃ وہ حفظ واتقان اورفقہ وعبادت کا مجموعہ تھے۔

شیوخ وتلامذہ ترمیم

حسن بن صالح نے خیر القرون کا وہ پُر بہار زمانہ پایا تھا،جب قریہ قریہ اجلہ تابعین کی نواسنجیوں سے پُر شورتھا،پھر کوفہ تو ہمیشہ ہی سے علم کا مرکز اور علما کا منبع رہا ہے حسن بن صالح نے بھی اس عہدِ سعادت کی بہاروں سے اپنے دل و دماغ کو معطر کیا تابعین کرام کی ایک بڑی جماعت سے انھیں فیض صحبت حاصل ہوا، ممتاز اساتذہ میں ان کے والد صالح بن صالح کے علاوہ ابو اسحاق سبیعی، عمروبن دینار، عاصم الاحول، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، اسماعیل السدی، عبد العزیز بن رفیع، محمد بن عمرو بن علقمہ، لیث بن ابی سلیم، منصور بن المعتمر، سہیل بن ابی صالح، سلمہ بن کہیل، سعید بن ابی عروبہ، سماک بن حرب، عبد اللہ بن دینار [8] کے نام لائق ذکر ہیں۔ اسی طرح خود ان سے مستفید ہونے والوں کا حلقہ بھی بہت وسیع ہے،نامور تلامذہ میں عبد اللہ بن المبارک،حمید بن عبد الرحمن الرواسی،اسود بن عامر، شاذان ،وکیع بن الجراح، یحییٰ بن آدم ،جراح بن ملیح الرواسی،عبد اللہ بن داؤد الخریبی،ابو احمد الزبیری ،عبید اللہ بن موسیٰ ابو نعیم، طلق بن غنام ،قبیصہ بن عقبہ، احمد بن یونس، علی بن الجعد [9]جیسے یکتا ئے عصر علما شامل ہیں۔

حدیث وفقہ ترمیم

حسن بن صالح کو حدیث اور فقہ دونوں پر یکساں قدرت اور عبور حاصل تھا لیکن فقہ ان کی خصوصی جولا نگاہ تھی،اسی بنا پر فقیہ کوفہ کی حیثیت سے انھیں زیادہ شہرت اور قبولِ عام نصیب ہوا؛چنانچہ حافظ ذہبی اور علامہ خزری نے "فقیہ کوفہ"ہی کے الفاظ سے ان کے تذکرے کا آغاز کیا ہے، عجلی کا قول ہے کہ حسن بن صالح ، سفیان ثوری سے بھی بڑے فقیہ تھے۔ [10] لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حدیث میں ان کا کوئی مقام نہ تھا؛بلکہ اس میں بھی انھیں کامل دسترس حاصل تھی،تمام علمائے جرح و تعدیل ان کی ثقاہت ، عدالت ،صداقت اور اتقان پر متفق ہیں جو کچھ بھی کلام ان کے بارے میں کیا گیا ہے، وہ ان کے بعض دوسرے خیالات سے متعلق ہے (جس کی تفصیل آگے آئے گی)لیکن ان کی محدثانہ شان اور فقیہانہ جلالتِ قدر میں کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے،امام احمدؒ فرماتے ہیں،حسن اثبت فی حدیث من شریک دوسری جگہ فرماتے ہیں: الحسن بن صالح صحیح الروایۃ متفقۃ صائن لنفسہ فی الحدیث والورع [11] حسن بن صالح متفقہ طور پر صحیح الروایہ ہیں اورحدیث ورع میں بلند مرتبہ۔ ابنِ معین کا بیان ہے: یکتب رأی مالک والاوزاعی والحسن بن صالح وھولاء ثقات [12] امام مالک ،اوزاعی اور حسن بن صالح کی رائے لکھی جاتی ہے اوریہ سب ثقہ ہیں۔ ابو حاتم کا قول ہے: ثقۃ،حافظ متقن،ابن عدی کہتے ہیں: لم اجد لہ حدیثا منکراً وھو عندی من اھل الصدق [13] میں نے ان کی کوئی منکر حدیث نہیں پائی وہ میرے نزدیک اہلِ صدق میں سے ہیں۔ ابن سعد نے لکھا ہے ‘کان ثقۃ صحیح الحدیث کثیرہ’ [14] علاوہ ازیں امام نسائی،دار قطنی،بخاری اور ابن ابی خثیمہ وغیرہ دیگر محدثین وماہرینِ فن نے بھی حسن بن صالح کی ثقاہت وعدالت کو بصراحت تسلیم کیا ہے۔

دو الزامات اوران کے جوابات ترمیم

بایں ہمہ تبحر علمی اورفضائل وکمالات حسن کی ذات گرامی بھی فقہ و جرح کے غبار سے محفوظ نہیں رہی لیکن اس کا تعلق ان کے بعض معتقدات اور خیالات سے ہے۔ پہلا الزام ان پر یہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ علوم دینیہ سے مالا مال ہونے اوراپنے تما م تر مذہبی تقشف کے باوجود نمازِ جمعہ نہیں پڑھتے تھے،سفیان ثوری کا بیان ہے۔ الحسن بن صالح مع ماسمع من العلم وفقہ یترک الجمعۃ حسن بن صالح علم وفقہ کے باوجود نماز جمعہ ترک کردیتے تھے اس کمزوری کی بنا پر خود ان کے بہت سے تلامذہ ان کو سخت ناپسند کرتے اوران سے روایت کرنے میں محتاط رہتے تھے۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ وہ ظالم مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج بالسیف کے جواز کے قائل تھے،ان کے نزدیک اگر کوئی مسلم حکمران اورامام اپنے ظلم وجور سے خلقِ خدا پر مسلط ہو جائے تو از روئے شرع اس کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردنوں میں باقی رکھنا ضروری نہیں ہے؛بلکہ عامہ مسلمین اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے اس کی چیرہ دستیوں کو بقوت ختم کرنے کا حق رکھتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ قدیم ائمہ سلف کا مسلک یہی رہا ہے، لیکن اس کے نتیجہ کے طور پر گذشتہ زمانہ میں جو ہولناک خونریزیاں ہوئیں اس پر اوراقِ تاریخ شاہد ہیں،واقعہ حرّہ اور ابن الاشعث کے واقعہ میں جو کچھ ہوا، اس میں اربابِ بصیرت کے لیے کافی سامانِ عبرت موجود ہے، اس وجہ سے اب جمہور ائمہ نے اس قدیم مسلک کے یکسر ترک پر اتفاق کر لیا ہے،جس کی رو سے ظالم حکمران اور امام المسلمین کی اطاعت بھی بہرحال لازمی ہے،اس سے روگردانی کی گنجائش نہیں ۔ حسن بن صالح کے معاصر علما نے اسی بنا پر ان کے مسلک سے شدید اختلاف کیا اور اسے ان کے معائب میں شمار کیا، ابو نعیم بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سفیان ثوری کی مجلس میں حسن بن صالح کا ذکر آیا تو انھوں نے سخت ناگواری ظاہر کی اورفرمایا: ذلک یری السیف علی الامۃ یعنی الخروج علی الاولاۃ الظلمۃ [15] وہ امت (یعنی ظالم حکمرانوں)کے خلاف خروج بالسیف کے قائل تھے۔ لیکن علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے ان دونوں الزامات کی بہت شدومد کے ساتھ تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اولاً تو اس قسم کے شخصی مسلک کی بنیاد پر ایک ایسی شخصیت کے کردار کو مجروح نہیں کیا جائے گا جس کی عدالت،حفظ،اتقان اور زہد وتقویٰ مسلم ہو،ثانیاً ان کے اس مسلک میں تاویل کی بھی بڑی گنجائش موجود ہے؛ یعنی یہ کہ وہ کسی فاسق کے پیچھے نمازِ جمعہ کے قائل نہ ہوں گے، اوراسی طرح وہ کسی فاسق امام المسلمین کی اورنگ نشینی کو درست تسلیم نہیں کرتے ہوں گے اوراگر حسن کا مسلک بھی فی الواقع وہی رہا ہو، جو عام طور سے سمجھا گیا تو بھی ان کی ذات مطعون قرار نہیں دیجاسکتی،اس لیے کہ وہ مجتہد مطلق تھے۔ [16] پھر یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے وہ یہ کہ حسن بن صالح کے نزدیک ظالم حکمرانوں کے خلاف جہاد جائز ضرور تھا تاہم ایک بھی نظیر اس کی موجود نہیں کہ انھوں نے اپنے اس خیال کو عملی شکل دی ہو اور کسی مسلم حکمران کے جو روستم کے خلاف خروج کیا ہو،علاوہ ازیں ترک جمعہ کے الزام کی تردید خود ابو نعیم کے اس واضح بیان اورشہادت سے ہوتی ہے کہ : قال ابن المبارک کان ابن صالح لا یشھد الجمعۃ وانا رایتہ فی الجمعۃ قد شھد ھا مع الناس [17] ابن مبارک کا قول ہے کہ ابن صالح جمعہ کی نماز میں نہیں آتے تھے،درآنحا لیکہ میں نے خود انھیں دیکھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ نماز جمعہ میں تشریف لائے۔ اس شہادت کی روشنی میں حافظ ابن حجر کی مذکورہ بالاتاویل بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔

زہد وورع ترمیم

تقویٰ و پاک نفسی میں بھی حسن کا مرتبہ بہت بلند تھا، ان کی اس خصوصیت کا نمایاں طور سے ذکر کیا جاتا ہے،ابن حجر نے انھیں متقی کامل قرار دیا ہے [18] سمعانی نے ان کے تقشف کی حد تک زہد وورع کی صراحت کی ہے (کتاب الانساب السمعانی:591) ابو زرعہ کا یہ قول گذر چکا کہ حسن ، اتقان ،فقہ، عبادت اور زہد سب کے مجموعہ کمالات تھے۔ [19]

عبادت وریاضت ترمیم

حسن بن صالح زیورِ علم کے ساتھ عمل کی دولت سے بھی مالا مال تھے، عبادت کی کثرت اوراس میں غایت درجہ خشوع وخضوع ان کے صحیفۂ کمال کے بہت نمایاں ابواب ہیں؛چنانچہ امام وکیع علم و فضل اور ریاضت وعبادت میں انھیں شہرۂ آفاق تابعی سعید بن جبیرؓ سے تشبیہ دیتے تھے [20] ابن سعد لکھتے ہیں کان ناسکاً عابدا فقیھاً [21] ابن حبان کا قول ہے تجرد للعبادۃ۔ [22] حافظ ابن حجر،علامہ یافعی،امام ذہبی اور ابنِ سعد وغیرہ محققین نے حسن بن صالح کی کثرتِ عبادت کے بارے میں امام وکیع کا یہ بہت ہی حیرت انگیز بیان نقل کیا ہے کہ حسن،ان کے بھائی علی اور ان کی والدہ نے پوری رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا، ہر فرد اپنے حصہ شب (یعنی ثلث لیل) میں عبادت کرتا تھا، پھر جب ان کی والدہ کی رحلت ہو گئی تو دونوں بھائیوں نے رات کے دو حصے کرکے نصف نصف شب عبادت کرنا شروع کر دیا، پھر ایک عرصہ کے بعد علی بن صالح کا انتقال ہو گیا تو حسن اخیر عمر تک تمام شب عبادت کیا کرتے تھے۔ [23]

خشیتِ الہیٰ ترمیم

اپنے تمام تبحر علمی اور مجاہدوں و ریاضتوں کے باوجود حسن بن صالح خوفِ آخرت اور خشیتِ الہیٰ سے ہمہ وقت لرزاں رہتے تھے،جو بلاشبہ ان کے علوئے مرتبت اور جلالت شان کی روشن دلیل ہے، خاصانِ خدا ہمیشہ اس صفتِ عالیہ سے ضرور متصف ہوتے ہیں،ابو سلیمان دارانی راوی ہیں کہ میں نے حسن سے زیادہ کسی کو خوفِ خدا سے لرزاں نہیں دیکھا،وہ نماز میں ایک ہی سورہ پڑھنے میں صبح کردیتے تھے اوردرمیان میں فرطِ خشیت سے باربار بیہوش ہوجاتے تھے۔ مارایت احداً الخوف اظھر علی وجھہ من الحسن قام لیلۃ بعم یتساءلون فغشی علیہ فلم یختمھا الی الفجر [24] میں نے حسن بن صالح سے زیادہ کسی کو خدا سے خائف نہیں دیکھا،ایک شب نماز میں عَمَّ یَتَسَاءَ لُوْن شروع کی تو بے ہوش ہو گئے اوراس سورۃ کو نمازِ فجر تک بھی ختم نہ کرسکے۔

نیک نفسی ترمیم

ان تمام گوناگوں کمالات اور خصائل حمیدہ کے ساتھ وہ اخلاق ونیک طبعی کا بھی ایک اعلیٰ نمونہ تھے،ان کی معاشی حالت کچھ زیادہ اچھی نہ تھی،خود کہا کرتے تھے کہ بما اصبحت وما معی درھم ،تاہم جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا اس میں فیاضی اور سرچشمی سے کام لیتے تھے،کبھی کوئی سائل ان کے درسے تہی دست واپس نہیں ہوا، حتی کہ وقت پر اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو اپنے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء دے دیتے تھے،ابو نعیم فضل بن دکین بیان کرتے ہیں: جاہ یوماً سائل فسألہ فنزع جوربیہ فاعطاہ [25] ایک دن ان کے پاس ایک سائل نے آکر دستِ سوال پھیلا یا تو اپنے دونوں موزے اتار کر اس کو عطا کردئے۔

وفات ترمیم

باختلافِ روایت 167ھ یا 169ھ میں علم وعمل کا یہ روشن چراغ کوفہ میں گل ہو گیا، وفات سے سات سال قبل گوشہ گیر ہو گئے تھے،اس وقت خلیفہ مہدی کا آفتاب حکومت اوج اقبال پر تھا اورکوفہ میں اس کا والی روح بن حاتم تھا، کوفہ کے جس مکان میں حسن نے گوشہ نشینی اختیار کی تھی، اسی میں ان کے ساتھ عیسیٰ بن زید بھی کنارہ کش ہو گئے تھے،خلیفہ مہدی نے ان دونوں کو باہر لانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا،حتیٰ کہ اسی حالت میں دونوں نے جامِ اجل نوش کیا، ابو نعیم راوی ہیں کہ رایت حسن بن صالح یوم الجمعۃ قد شھد ھا مع الناس ثم اختفیٰ یوم الاحد الی ان مات ولہ یومئذ اثنتان اورثلاث وستون سنۃ میں نے حسن بن صالح کو جمعہ کے روز دیکھا کہ وہ عام لوگوں کے ساتھ جمعہ میں شریک ہوئے، پھر اس کے بعد اتوار کے دن گوشہ نشین ہو گئے اوروفات تک اسی حالت میں رہے انتقال کے وقت ان کی عمر 62 یا 63 سال تھی۔ اس بیان سے ان کی عمر 62 یا 63 سال معلوم ہوتی ہے، اس لحاظ سے ان کا سنہ ولادت 104ھ قرار پاتا ہے،کیونکہ 167ھ کے سنہ وفات ہونے پر خود ابو نعیم بھی متفق ہیں: واللہ تعالیٰ اعلم

حوالہ جات ترمیم

  1. (تذکرۃ الحفاظ:1/195)
  2. (طبقات ابن سعد:6/260)
  3. (کتاب الانساب اللسمعانی :591)
  4. (العبر فی خبر من عنبر:1/249)
  5. (طبقات ابن سعد:6/260)
  6. (علی بن صالح کی کنیت ابو محمد تھی)
  7. (العبر فی خیر من عنبر:1/249،وتذکرۃ الحفاظ:1/195)
  8. (العبر فی خبر من غیر :1/249،وخلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:76)
  9. (تذکرۃ الحفاظ:1/195)
  10. (تہذیب التہذیب:3/288)
  11. (تہذیب التہذیب:2/282)
  12. (العبر فی خبر من غبر:1/249)
  13. (میزان الاعتدال:1/231)
  14. (طبقات ابنِ سعد:6/260)
  15. (میزان الاعتدال:1/231)
  16. (تہذیب التہذیب:3/288)
  17. (طبقات ابن سعد:6/261)
  18. (تہذیب التہذیب:3/288)
  19. (میزان الاعتدال:1/231)
  20. (مراۃ الحجنان:1/353)
  21. (طبقات ابن سعد:6/261)
  22. (کتاب الانساب للسمعانی :591)
  23. (تہذیب التہذیب:2/288،میزان الاعتدال:1/230، العبر فی خبر من غبر، تذکرۃ الحفاظ:1/195،مراۃ الجنان :1/353،طبقات ابن سعد،:6/261)
  24. (تذکرہ الحفاظ:1/195)
  25. (طبقات ابن سعد:6/261)