واقعۂ حرہ

63ھ میں پیش آنے والا ایک تاریخی واقعہ

واقعہ حرہ یزید بن معاویہ کے دور میں سانحۂ کربلا کے بعد دوسرا بڑا شرمناک سانحہ تھا۔ مدینہ پر شامی افواج نے چڑھائی کی تھی جس میں انھوں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کیں اور مدینہ میں قتل عام کیا گیا۔ یہ افسوسناک واقعہ 63ھ میں پیش آیا اور واقعۂ حرہ کہلاتا ہے۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے دس ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا جس میں بہت سے صحابی، صحابیوں کی اولاد، تابعین اور حفاظ قرآن و حدیث کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور تین دن تک مسجد نبوی میں نماز نہ ہو سکی۔[1]

"حرہ" پتھریلی زمین کو کہتے ہیں؛ چونکہ مدینہ کا ایک حصہ پتھریلا اور آتش فشانی پتھروں سے ڈھکا ہوا ہے، اسی لیے "حرہ" کہلاتا ہے "حرہ واقم" کے راستے افواج یزید کی آمد پر یہ واقعہ "واقعۂ حرہ" کہلایا۔[2]

پس منظر ترمیم

سانحۂ کربلا کے بعد حجاز میں یزید کے خلاف غم و غصہ اور نفرت اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا اور وہاں سے ایک انقلاب اٹھ رہا تھا۔ اہل مکہ نے عبد اللہ بن زبیر کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اہل مدینہ نے بھی یزید کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ اس صورت حال میں یزید نے اہل مدینہ کو سمجھانے کے لیے وفد بلوایا اور یزید کے گماشتہ امیر مدینہ عثمان بن محمد نے ایک وفد صحابی رسول عبد اللہ بن حنظلہ کے ہمراہ دار الحکومت دمشق روانہ کیا۔[3] یزید کے وفد سے نرم سلوک اور انعام و اکرام سے نوازنے کے باوجود سانحۂ کربلا سے پیدا ہونے والا خلا برقرار رہا اور وفد مطمئن نہ ہوا۔ صحابی نے واپس آ کے بتایا کہ یزید شراب پیتا ہے اور نشے کی وجہ سے نماز میں سستی کرتا ہے۔ اہل مدینہ سب منبر نبی کے پاس جمع ہوئے اور عثمان بن محمد کو معزول کر کے یزید کو بیعت کے قابل نہ جانا اہل مدینہ مزید یزید کے جرائم سن کر امویوں کے مقابلے میں کھلم کھلا مخالفت اختیار کر گئے۔[4] اور سب نے اجماع کر کے یزید کو خلافت سے خلع کر دیا۔ اس نفرت کے نتیجے میں اموی خاندان کے افراد (جو یزید جیسے ظالم کے در پردہ حامی تھے اور بعد میں اہل مدینہ پر ہونے والے مظالم میں اموی لشکر کا ساتھ بھی دیا) کو مدینہ سے نکال دیا گیا۔[5]

مدینہ پر چڑھائی ترمیم

ان واقعات کا علم جب یزید کو ہوا تو وہ غصے میں آ گیا اور اس نے مسلم بن عقبہ کو مدینہ منورہ پر فوج کشی کا حکم دیا۔ مسلم بن عقبہ یزید کے حکم پر بارہ ہزار آدمیوں کے لے کر مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ لشکر کی روانگی کے وقت یزید نے بذات خود چند احکامات کی پابندی کا حکم دیا۔ وہ احکامات یہ تھے:

  1. اہل مدینہ کو تین دن کی مہلت دینا تاکہ وہ اس عرصے میں کوئی فیصلہ کر لیں
  2. تین دن کے بعد اگر وہ اطاعت قبول نہ کریں تو جنگ کرنا
  3. جنگ میں کامیابی کی صورت میں تین روز تک قتل عام جاری رکھنا اور مال و اسباب لوٹنا
  4. علی بن حسین علیہ السلام کو کوئی نقصان نہ پہنچانا۔

ان احکامات پر عمل کرنے کا وعدہ کر کے مسلم اپنے لشکر کے ہمراہ مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر مسلم نے اہل مدینہ کو مصالحت کی دعوت دی اور ساتھ ہی تین دن کی میعاد مقرر کی۔ لیکن اس عرصے میں اہل مدینہ خاموش رہے۔ تین دن کے بعد مسلم بن عقبہ نے اہل مدینہ کو جنگ یا صلح میں سے ایک راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اہل مدینہ یزید کی اطاعت قبول کرنے پر تیار نہ تھے، انھوں نے جنگ کو ترجیح دی۔[6]

جنگ میں مدنی لشکر کی قیادت صحابی رسول عبد اللہ بن حنظلہ نے کی لیکن اہل مدینہ کو شکست ہوئی اور عبدالرحمن بن عوف اور عبد اللہ بن نوفل سمیت کئی اکابرین شہید ہوئے۔[1] مسلم نے فتح حاصل کرنے کے بعد یزید کے حکم کے مطابق قتل و غارت گری کی اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا۔ اس واقعے میں سینکڑوں شرفائے قریش و انصار اور ہزاروں دیگر قبائل کے آدمی کام آئے۔ تین دن کے بعد باقی ماندہ لوگوں سے بیعت کرنے پر اصرار کیا گیا۔ ان سے یزید کی غلامی اور جان و مال کا مالک یزید کو بنانے کے کے عنوان سے جبراً بیعت لی گئی اور انکار کی صورت میں یا یہ کہنے پر کہ میں قرآن و سنت پر بیعت کرتا ہوں شہیدکر دیا گیا۔ امام زین العابدین بھی پیش ہوئے لیکن یزید کی ہدایت کے مطابق ان سے کوئی سختی نہ کی گئی۔ مدینۃ النبی پر حملہ 63ھ میں ہوا جو واقعۂ حرہ کہلاتا ہے۔ یہ یزیدی عہد کا ایک بہت بڑا شرمناک المیہ تھا۔

تاریخی مستندات ترمیم

یزید بن معاویہ کا تاریخی بدترین جرم حرہ کا واقعہ ہے جو ذو الحجہ 63ھ میں رونما ہوا۔[7][8] تاریخ کے اوراق اس رسوائی سے بھرے پڑے ہیں کوئی مورخ ایسا نہیں جس نے اسے بیان نہ کیا ہو۔

واقعہ کربلا کے بعد یزید کے جرائم اور مظالم کے خلاف تحریکوں کا آغاز ہوا؛ مدینہ میں صحابی رسول عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ اور کئی بااثر افراد نے بھی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اہل مدینہ نے ابن حنظلہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر والی مدینہ عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو نکال باہر کیا؛ بنو امیہ یزید کے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے اہل مدینہ صحابہ اور تابعین کے نزدیک مورد نفرت اور پرخاش قرار پاتے تھے تو ڈر کر مروان بن حکم کے گھر میں جمع ہوئے اور انھیں وہیں قید کر لیا گیا۔ اہل مدینہ نے یزید کو معزول کیا اور جب اس کو خبر ملی تو باپ کی وصیت پر عمل کرکے مسلم بن عقبہ کو لشکر دے کر مدینہ روانہ کیا۔ معاویہ نے یزید کو وصیت کی تھی کہ "مدنی بیعت نہ کریں تو انھیں مسلم بن عقبہ کے ذریعے کچل دینا!۔[9][10]

ابن عقبہ نے تحریک کو کچل دیا اور مدینہ میں بے شمار مسلمانوں اور صحابہ و تابعین کو تہ تیغ کیا۔ ابن اثیر لکھتا ہے: مسلم بن عقبہ نے مدینہ کو تین دن تک اپنے لشکروالوں کے لیے مباح کر دیا اور انھوں نے جو چاہا کیا۔[11]

ابن قتیبہ لکھتا ہے: ایک شامی سپاہی ایک گھر میں داخل ہوا اور مال و دولت کے بارے میں پوچھا، گھر کی خاتون نے کہا: جو کچھ تھا وہ تمھارے سپاہی لوٹ کر لے گئے۔ یزیدی سپاہی نے اس کی گود سے شیر خوار بچہ چھین کر دیوار پر دے مارا جس کی وجہ سے بچے کا مغز باہر آگیا۔[12] جھوٹ

مسلم بن عقبہ نے مدینہ پر مسلط ہونے کے بعد ان سے یزید کے غلاموں کے طور بیعت لی اور ان سے ان کے مال و جان اور اولاد پر یزید کے حق تصرف کا عہد لیا۔ اور جس نے ایسا نہ کیا وہ شہید کر دیا گیا۔[13][14][15]

کربلا کے واقعے میں یزید کو سماجی حوالے سے بھی شکست ہوئی تھی چنانچہ اس نے ابن عقبہ سے کہا تھا امام زین العابدین علیہ السلام کو نہ چھيڑے۔ اس درد ناک واقعے میں مہاجر و انصار سے سترہ سو افراد اور دوسرے مسلمانوں میں سے دس ہزار لوگ قتل ہوئے۔[16] جھوٹ

ابن ابی الحدید لکھتا ہے: یزیدی فوج نے مدینہ کے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا؛ زمین پر گرے ہوئے خون کی فراوانی تھی اور قدم رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ مہاجرین و انصار اور ان کی اولادوں اور مجاہدین بدر کو قتل کیا اور باقیماندہ لوگوں سے یزید کے غلاموں کی حیثیت سے بیعت لی۔[17] جھوٹ

تمام مؤرخین لکھتے ہیں: مسلم بن عقبہ نے اس قدر بے گناہ لوگوں کا خون بہایا کہ وہ مسرف کہلایا۔[18][19]

اس واقعے میں ہزاروں خواتین کو جبری زنا کا نشانہ بنایا گیا جس سے بن باپ کے بے شمار بچے پیدا ہوئے۔[20] یہ بات محض جھوٹ ہے کیونکہ کتاب الامامہ و السیاسہ کی نسبت اس کے مصنف سے ثابت نہیں۔[21] جھوٹ

حموی لکھتا ہے: مسلم بن عقبہ نے خواتین کو اپنے فوجیوں کے لیے مباح کر دیا تھا۔[22]

سیوطی لکھتے ہیں: حسن بصری نے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم! اس واقعے میں کسی کو بھی نجات نہیں ملی؛ زیادہ تر صحابہ اور دوسرے مسلمان مارے گئے، مدینہ کو لوٹا گیا اور ایک ہزار کنواری لڑکیوں کے ساتھ زنا کیا گیا!!۔جھوٹ

اس کے بعد حسن بصری نے آیت استرجاع "انا للہ و انا الیہ راجعون" کی تلاوت کرتے ہوئے کہا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا: "جس نے اہلیان مدینہ کو ہراساں کیا اس پر خدا، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔[23][24][25][26] کسی مورخ نے ان تمام باتوں سے اختلاف نہیں کیا۔ حتی کہ صحابہ کرام نے اس کی مذمت کی اور تابعین نے ان واقعات کو اسی طرح افسوس و دکھ کے ساتھ بیان کیا ہے۔

یزید اور بنو امیہ کے کچھ حامیوں کا خیال ہے کہ : طبری میں واقعہ حرہ کی تمام تر روایات ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایت کردہ ہیں جن کا بنو امیہ سے بغض اور تعصب مشہور ہے۔ اس وجہ سے ان کی بیان کردہ ان تفصیلات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جن میں انھوں نے ظلم کو بنو امیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ لوگ بیان کرتے ہیں کہ بغاوت پر قابو پا لینے کے بعد مدینہ منورہ کو تین دن تک کے لیے مباح کر دیا گیا، شہریوں کا مال لوٹا گیا اور لوگوں کو بے جا قتل کیا گیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ پھر اس کا بیان کرنے والا اکیلا ابو مخنف نہ ہوتا بلکہ اور بھی بہت سے لوگ اسے بیان کر رہے ہوتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفصیلات بھی بنو امیہ کے خلاف اس پراپیگنڈے کا حصہ تھیں جو ان کی حکومت کو گرانے کے لیے کیا گیا۔ ممکن ہے کہ سرکاری فوجیوں نے کچھ زیادتیاں کی ہوں لیکن اس بارے میں یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جا سکتی ہے کیونکہ ان روایات کا راوی صرف ایک ہی شخص ہے اور وہ ناقابل اعتماد ہے۔[حوالہ درکار]

مزید یہ لوگ کہتے ہیں: رہی یہ بات کہ تین دن کے لیے مدینہ شہر میں فوجیوں نے ہزاروں خواتین کو ریپ کیا  اور  اس کے نتیجے میں ایک ہزار خواتین حاملہ ہوئیں، ایسی بے بنیاد بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس کا خیال نہیں آیا۔ اگر اس میں کچھ بھی حقیقت ہوتی، تو جہاں ابو مخنف نے ڈھیروں دوسری روایتیں وضع کی ہیں، وہاں اس کو وہ کیسے چھوڑ دیتا؟ پھر اگر یہ واقعہ ہوا ہوتا تو ہر ہر شہر میں یزید کے خلاف بغاوت اٹھتی جاتی۔ عربوں کے بارے میں تو دور جاہلیت میں بھی یہ گمان مشکل ہے کہ ان کی خواتین پر کوئی ہاتھ ڈالے تو وہ خاموشی سے دیکھتے رہیں کجا یہ کہ دور اسلام میں ایسا ہو اور سب لوگ تماشا دیکھتے رہیں۔ کیا ان سب نے چوڑیاں پہن رکھی تھیں یا ان کی غیرت گھاس چرنے چلی گئی تھی؟[حوالہ درکار]

ان حامیان بنو امیہ کا کہنا ہے: ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور صرف ابو مخنف نے ہی اس ظلم اور بربریت کو بیان کیا ہے۔ یہ روایت ابن کثیر[27] نے مدائنی[28] کے حوالے سے البدایہ و النہایہ میں درج کی ہے اور ساتھ واللہ اعلم لکھ کر اس واقعے سے متعلق شک کا اظہار کیا ہے۔  مدائنی نے بھی اس کی سند یہ بیان کی ہے: قال المدائني عن ابي قرہ قال۔ اب معلوم نہیں کہ یہ ابو قرہ کون صاحب ہیں اور کس درجے میں قابل اعتماد ہیں۔ اور وہ خود واقعہ حرہ کے ساٹھ سال بعد پیدا ہوئے۔ وہ واقعے کے عینی شاہد نہیں تھے۔ اگر یہ خواتین اس طرح ریپ ہوئی ہوتیں اور اس کے نتیجے میں ایک ہزار ولد الحرام پیدا ہوئے ہوتے تو انساب کی کتابوں میں تو اس کا ذکر ملتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے باپ کا نام معلوم نہیں ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو محض نقل کیا ہے اور اس پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔[حوالہ درکار]

لیکن ان یزید کے حامیوں کا جواب یہ ہے کہ یزید کے بے پناہ مظالم اور انسانیت اور اسلام کو شرمندہ کرنے والے یہ تمام واقعات طبری سے پہلے سب قدیم ترین مورخین نے اسی طرح بیان کیے ہیں۔ یزید کی حکومت ظلم و بربریت کی وہ داستانیں رقم کر چکی تھی کہ بہت کم لوگوں نے اس کے خلاف بغاوت کی کوشش کی۔ دیگر آنکہ بچے کھچے افراد سے ایسی غیر شرعی بیعت لی گئی تھی کہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اور تاریخ نویسوں کی بھی مجال نہ تھی کہ بنو امیہ کے خلاف کچھ لکھ سکیں۔

حملہ کرنے والے ترمیم

دفاع کرنے والے لیڈر ترمیم

مدنی شہدائے حرہ ترمیم

واقعہ حرہ کے شرم ناک واقعے میں صحابہ و تابعین جن میں حفاظ قرآن و حدیث تھے نہایت مظلومانہ انداز میں مدینۃ النبی میں مجبور اور ناچار کر کے شہید کیے گئے۔ تمام کتب نے صحابہ کرام اور تابعین عظام شہداء کی بڑی بڑی تعداد نقل کی ہے۔

حرہ کے دن عبداللہ بن حنظلہ کی آل میں سے آٹھ افراد بھی شامیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ اور عبد اللہ بن زمعہ کے سات بیٹے یا پوتے شہید ہوئے۔[30]

حرہ کی کہانی میں نہ صرف انصار بلکہ متعدد مہاجر خاندانوں پر بھی امویوں نے حملہ کر کے انھیں قتل کیا تھا۔

سانحہ حرہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں مختلف رپورٹس بیان کی گئی ہیں۔ جیسے:

  • ۔ سات سو (700) شخصیات اور بزرگ۔
  • ۔ اسی (80) صحابہ۔
  • ۔ دس ہزار (10000) دوسرے لوگ۔

سانحہ حرہ کے بعد میں ایک بھی بدری صحابی باقی نہیں بچا تھا![31]

کتاب "وقعہ حرہ" کے مصنف نے چند ہلاک ہونے والوں کے ناموں کے ساتھ ساتھ ان کے قبائل کے ناموں پر بھی ایک دلچسپ تحقیق کی ہے۔ صرف قبیلے کے نام اور ان میں 439 ہلاک ہونے والوں کی ترتیب مندرجہ ذیل ہے:

1- مہاجرین: قریش: 145 افراد،

2- انصار: اوس قبیلہ: 66 افراد،

3- انصار: قبیلہ خزرج: 137 افراد،

4- عدنانی قبائل: 25 افراد،

5- قحطانی قبائل: 22 افراد،

6- قریش کے اتحادی: 16 افراد،

7- انصار کے اتحادی: 10 افراد،

8- غلام: 8 افراد۔[32]

تابعی مورخ خلیفہ بن خیاط نے اپنی کتاب تاریخ خلیفہ بن خیاط میں صرف مدنی صحابہ اور تابعین کی فہرست بیان کی ہے۔[33]

شہدائے قریش ترمیم

بنو ہاشم ترمیم

بنو سلیم بن منصور ترمیم

بنو مطلب بن عبد مناف ترمیم

بنو نوفل بن عبد مناف ترمیم

بنو مازن بن منصور ترمیم

بنو امیہ بن عبد شمس ترمیم

بنو اسد بن عبد العزى ترمیم

بنو عبد الدار بن قصی ترمیم

بنو زہرہ ترمیم

بنو تیم بن مرہ ترمیم

بنو مخزوم ترمیم

بنو عدی بن كعب ترمیم

بنو سهم بن عمرو ترمیم

بنو جمح بن عمرو ترمیم

بنو عامر بن لؤی ترمیم

بنو حجیر بن معیص ترمیم

بنو حارث بن فهر ترمیم

بنو قیس بن حارث بن فهر ترمیم

بنو محارب بن فهر ترمیم

شہدائے انصار ترمیم

اوس ترمیم

بنو عوف ترمیم
بنو حنش بن عوف بن عمرو ترمیم
بنو ثعلبہ ترمیم
بنو جحجبا بن كلفہ ترمیم
بنو عجلان ترمیم
بنو معاویہ بن مالك ترمیم
بنو عبد الاشهل ترمیم
بنو زعوراء ترمیم
بنو نبیت عمرو بن مالك ترمیم
بنو حارثہ بن حارث ترمیم
بنو ظفر ترمیم

خزرج ترمیم

بنو مالك بن نجار ترمیم
بنو عدی بن نجار ترمیم
بنو دینار بن نجار ترمیم
بنو مازن بن نجار ترمیم
بنو حرث بن خزرج ترمیم
بنو عوف بن خزرج ترمیم
بنو سالم بن عوف ترمیم
بنو سلمہ ترمیم
بنو بیاضہ ترمیم
بنو زریق ترمیم
آل المعلى ترمیم

دیگر شہدائے حرہ ترمیم

ہزاروں کی تعداد میں دیگر مسلمان (جن میں بہت سے حافظ قرآن، راویان حدیث صحابہ کرام اور تابعین عظام تھے) بھی اس واقعہ میں شہید ہوئے جن کی تعداد 11000 تک بیان کی گئی ہے۔ ان کے نام تاریخ کے صفحات میں گم کر دیے گئے۔ تاکہ بنی امیہ کے مظالم چھپ جائیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب ابن کثیر، تاریخ الخلفاء
  2. ابن منظور، لسان العرب، لفظ حرہ
  3. تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص 136
  4. البدایہ و النہایہ ج 8 ص 218
  5. Hawting 2000, pp. 47-48
  6. ابن‌کثیر۔البدایہ و النهایہ جلد8۔صفحہ218۔219۔224
  7. ابن اثیر، کامل، ج4، ص120
  8. طبری، تاریخ طبری، ج4، ص374
  9. ابن اثیر، الکامل، ج4، ص112
  10. مسلم بن قتيبۃ، الامامۃ والسیاسۃ، ج 1، ص 231
  11. كامل ابن اثير، ج 4، ص 117
  12. مسلم بن قتيبۃ، الامامۃ والسیاسۃ، ج1، ص832
  13. تاريخ طبرى، ج 4، ص 381-384
  14. كامل ابن اثير، ج 4، ص 123-124
  15. مروج الذہب، ج 3، ص 70
  16. مسلم بن قتيبۃ، الامامۃ والسياسۃ، ج 1، ص 239 و ج 2، ص 19
  17. شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 3، ص 952
  18. مسعودی۔ مروج الذہب، ج 3، ص 96
  19. کامل ابن اثیر، ج 4، ص 120
  20. مسلم بن قتيبۃ، الامامۃ و السياسۃ، ج 2، ص 15
  21. مشهور حسن سلمان (1995)۔ (المجموعة الأولى) كتب حذر منها العلماء۔ 2۔ دار العصيمي۔ صفحہ: 298 
  22. یاقوت حمودی معجم البلدان، ج 2، ص 942، لفظ حرہ
  23. تاریخ الخلفاء، ص 233
  24. مسلم، صحیح، کتاب الحج، باب فضل المدینہ، حدیث 10 و 16
  25. مسند احمد، ج 4، ص 55
  26. کنز العمال، ج 12، ص 246 تا 247
  27. 701-774/1301-1372
  28. 135-225/752-840
  29. یہ صحابی رسول عبدالرحمن بن عوف بن عبد عوف کے چچیرے بھائی تھے۔
  30. اسد الغابه ، ج1 ، ص600
  31. الإمامة والسیاسه، ج1 ، ص 243 ؛ البدایة والنهایه ، ج8 ، ص221
  32. فاضل عبد الجلیل الزاکی، وقعة الحرة، ص 446 ـ 355
  33. كتاب تاریخ خلیفہ بن خیاط، الصفحات 240-250 آرکائیو شدہ 2017-05-13 بذریعہ وے بیک مشین
  34. حسب كتاب تاریخ خلیفہ بن خیاط بن ابی ہبیرہ۔ واضح نہیں ہے کہ کیا یہ وہی مشہور سعید بن جبیر ہیں یا کوئی اورشخص ہیں۔