"مشتری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 124:
}}
 
'''مشتری''' {{دیگر نام|انگریزی=Jupiter}} ہمارے نظام شمسی کا [[سورج]] سے پانچواں اور سب سے بڑا سیارہ ہے۔ [[گیسی دیو]] ہونے کے باوجود اس کا وزن سورج کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم ہے لیکن [[نظام شمسی]] کے دیگر سیاروں کے مجموعی وزن سے زیادہ بھاری ہے۔ [[زحل]]، [[یورینس]] اور [[نیپچون]] کی مانند مشتری بھی گیسی دیو کی درجہ بندی میں آتا ہے۔ یہ سارے گیسی دیو ایک ساتھ مل کر جووین یعنی بیرونی سیارے کہلاتے ہیں<ref>{{cite web | last = De Crespigny | first = Rafe | title = Emperor Huan and Emperor Ling | url = http://www.anu.edu.au/asianstudies/decrespigny/HuanLing_part2.pdf | archiveurl = http://web.archive.org/web/20060907044624/http://www.anu.edu.au/asianstudies/decrespigny/HuanLing_part2.pdf | archivedate = September 7, 2006 | work = Asian studies, Online Publications | accessdate = May 1, 2012 | quote = Xu Huang apparently complained that the astronomy office had failed to give them proper emphasis to the eclipse and to other portents, including the movement of the planet Jupiter (taisui). At his instigation, Chen Shou/Yuan was summoned and questioned, and it was under this pressure that his advice implicated Liang Ji.}}</ref>۔
 
قدیم زمانے سے لوگ مشتری کو جانتے تھے اور مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں مشتری کو نمایاں حیثیت دی گئی تھی۔ رومنوں نے اس سیارے کو اپنے دیوتا جیوپیٹر کا نام دیا تھا<ref>{{cite book
سطر 130:
|year=2001|title=Solar system evolution: a new perspective : an inquiry into the chemical composition, origin, and evolution of the solar system
|edition=2nd, illus., revised|publisher=Cambridge University Press
|isbn=0-521-64130-6|page=208}}</ref>۔ زمین سے دیکھا جائے تو رات کے وقت آسمان پر چاند اور زہرہ کے بعد مشتری تیسرا روشن ترین [[اجرام فلکی]] ہے<ref>{{cite web|url=http://blogs.discovermagazine.com/badastronomy/2011/11/18/young-astronomer-captures-a-shadow-cast-by-jupiter/#.UaDO1UAoNAU |title=Young astronomer captures a shadow cast by Jupiter : Bad Astronomy |publisher=Blogs.discovermagazine.com |date=November 18, 2011 |accessdate=May 27, 2013}}</ref>۔
 
مشتری کا زیادہ تر حصہ [[ہائیڈروجن]] سے بنا ہے جبکہ ایک چوتھائی حصہ [[ہیلیئم]] پر بھی مشتمل ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس کے مرکزے میں بھاری دھاتیں بھی پائی جاتی ہوں<ref name=coreuncertainty>{{cite journal
سطر 139:
|issue=2|pages = 1170–1180|year = 2004
|bibcode = 2004ApJ...609.1170S |doi = 10.1086/421257
|arxiv = astro-ph/0403393}}</ref>۔ تیز محوری حرکت کی وجہ سے مشتری کی شکل بیضوی سی ہے۔ بیرونی فضاء مختلف پٹیوں پر مشتمل ہے۔ انہی پٹیوں کے سنگم پر طوفان جنم لیتے ہیں۔ عظیم سرخ دھبہ نامی بہت بڑا طوفان سترہویں صدی سے دوربین کی ایجاد کے بعد سے مسلسل دیکھا جا رہا ہے۔ مشتری کے گرد معمولی سا دائروی نظام بھی موجود ہے اور اس کا [[مقناطیسی میدان]] کافی طاقتور ہے۔
مشتری کے کم از کم 63 چاند ہیں جن میں چار وہ ہیں جو [[1610]] میں [[گلیلیو]] نے دریافت کئے تھے۔ ان میں سے سب سے بڑا چاند عطارد یعنی مرکری سے بھی بڑا ہے۔
 
سطر 145:
 
== بناوٹ ==
مشتری زیادہ تر گیسوں اور مائع جات سے بنا ہے۔ نہ صرف بیرونی چار سیاروں میں بلکہ پورے نظام شمسی میں سب سے بڑا سیارہ ہے۔ اس کے [[خط استوا]] پر اس کا قطر 1،42،984 کلومیٹر ہے۔ مشتری کی کثافت 1.326 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے جو گیسی سیاروں میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہے تاہم چار ارضی سیاروں کی نسبت یہ کثافت کم ہے۔
== ساخت ==
مشتری کی بالائی فضاء کا 88 سے 92 فیصد حصہ [[ہائیڈروجن]] سے جبکہ 8 سے 12 فیصد [[ہیلیئم]] سے بنا ہے۔ چونکہ ہیلیئم کے ایٹم کا وزن ہائیڈروجن کے ایٹم کی نسبت 4 گنا زیادہ ہوتا ہے اس لیے مختلف جگہوں پر یہ گیسیں مختلف مقداروں میں ملتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی فضاء کا 75 فیصد حصہ ہائیڈروجن جبکہ 24 فیصد ہیلئم سے بنا ہے۔ باقی کی ایک فیصد میں دیگر عناصر آ جاتے ہیں۔ اندرونی حصے میں زیادہ وزنی دھاتیں پائی جاتی ہیں اور ان میں 71 فیصد [[ہائیڈروجن]]، 24 فیصد [[ہیلیئم]] اور 5 فیصد دیگر عناصر بحساب وزن موجود ہیں۔ فضاء میں میتھین، آبی بخارات، امونیا اور سیلیکان پر مبنی مرکبات ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کاربن، ایتھین، ہائیڈروجن سلفائیڈ، نیون، آکسیجن، فاسفین اور گندھک بھی انتہائی معمولی مقدار میں ملتی ہیں۔ سب سے بیرونی تہہ میں جمی ہوئی امونیا کی قلمیں ملتی ہیں۔<ref name=voyager>{{cite journal
سطر 162:
|accessdate = April 4, 2007 |doi = 10.1126/science.1100240
|pmid=15319491 |bibcode=2004Sci...305.1582K
}}</ref> زیریں سرخ اور [[بالائے بنفشی]] شعاعوں کی مدد سے کی گئی پیمائشوں میں بینزین اور دیگر ہائیڈرو کاربن بھی دیکھی گئی ہیں۔<ref>{{cite journal
|journal = Icarus| volume = 64
|issue = 2| pages = 233–48|year = 1985
سطر 235:
|pmid=10506563|bibcode = 1999Sci...286...72G}}</ref>۔
 
اگرچہ مشتری کو ستارہ بننے کے لیے 75گنا زیادہ کمیت درکار ہوگی تاکہ وہ ہائیڈروجن کے ملاپ سے ستارہ بن سکے۔ سب سے چھوٹا [[سرخ بونا]] ستارہ دراصل مشتری کےقطر سے محض تیس فیصد بڑا ہے<ref>{{cite journal
|author = Burrows, A.; Hubbard, W. B.; Saumon, D.; Lunine, J. I.
|title=An expanded set of brown dwarf and very low mass star models
سطر 286:
=== بادلوں کی تہہ ===
[[فائل:Great Red Spot From Voyager 1.jpg|تصغیر|بائیں|دوائجر اول کی 25 فروری [[1979]] کو 92 لاکھ کلومیٹر کی دوری سے لی گئی اس تصویر میں عظیم سرخ دھبہ اور اس کے آس پاس کا علاقہ دکھائی دے رہا ہے۔ عظیم سرخ دھبے کے نیچے سفید گول طوفان کا حجم زمین کے تقریباً برابر ہے]]
مشتری پر امونیا کی قلموں یعنی کرسٹل اور ممکنہ طور پر امونیم ہائیڈرو سلفائیڈ کے بادل مستقل طور پر چھائے رہتے ہیں۔ بعض جگہوں پر 100 [[میٹر فی سیکنڈ]] یعنی 360 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی ہوا عام پائی جاتی ہے<ref>{{cite web
|author=Ingersoll, A. P.; Dowling, T. E.; Gierasch, P. J.; Orton, G. S.; Read, P. L.; Sanchez-Lavega, A.; Showman, A. P.; Simon-Miller, A. A.; Vasavada, A. R
|url = http://www.lpl.arizona.edu/~showman/publications/ingersolletal-2004.pdf
سطر 294:
 
[[فائل:PIA02863 - Jupiter surface motion animation thumbnail 300px 10fps.ogv|دائیں|تصغیر|اس متحرک تصویر میں مشتری پر گھڑیال موافق حرکت کرتے بادلوں کی پٹیاں دکھائی دے رہی ہیں: [[:File:PIA02863 - Jupiter surface motion animation thumbnail 720px 10fps.ogv|720 پکسل]]، [[:File:PIA02863 - Jupiter surface motion animation 1fps.ogv|1799 پکسل]].]]
بادلوں کی یہ تہہ تقریباً 50 کلومیٹر موٹی ہے اور اس میں دوتہیں ہیں۔ اوپری تہہ ہلکی جبکہ نچلی تہہ گہری اور بھاری ہے۔ مشتری پر چمکنے والی [[آسمانی بجلی]] سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان بادلوں کی تہہ کے نیچے پانی کے بادلوں کی بھی ہلکی تہہ موجود ہوگی<ref name="elkins-tanton">{{cite book
|first=Linda T.|last=Elkins-Tanton|year=2006
|title=Jupiter and Saturn|publisher=Chelsea House
سطر 394:
== تحقیق اور مہم جوئی ==
=== ماقبل دوربین ===
عہد بابل کے لوگوں نے 7ویں یا 8ویں صدی [[قبل مسیح]] میں مشتری کا مشاہدہ کیا تھا<ref>{{Cite journal|title=Babylonian Observational Astronomy|author=A. Sachs|journal=[[Philosophical Transactions of the Royal Society of London]]|volume=276|issue=1257|date=May 2, 1974|pages=43–50 (see p. 44)|publisher=[[Royal Society of London]]|jstor=74273|postscript=<!--None-->|doi=10.1098/rsta.1974.0008|bibcode = 1974RSPTA.276...43S}}</ref> ۔ چینی فلکیاتی تاریخ دان ژی زیزنگ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک چینی فلکیات دان نے مشتری کے ایک چاند کو 362 ق م میں بغیر کسی آلے کے دریافت کر لیا تھا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو یہ دریافت گلیلیو کی دریافت سے 2000 سال پہلے ہوئی ہوگی<ref>{{cite journal
|last=Xi|first=Z. Z.
|title=The Discovery of Jupiter's Satellite Made by Gan-De 2000 Years Before Galileo
سطر 409:
|publisher=Odense University Press
|pages=423, 428
}}</ref>۔ 499 عیسوی میں آریا بھاتا نامی ہندوستانی فلکیات دان اور [[ریاضی دان]] نے بھی لگ بھگ یہی نتیجہ نکالا تھا<ref>{{cite book
|author=tr. with notes by Walter Eugene Clark
|url=http://www.archive.org/download/The_Aryabhatiya_of_Aryabhata_Clark_1930/The_Aryabhatiya_of_Aryabhata_Clark_1930.pdf
سطر 418:
}}</ref>۔
=== ارضی دوربینی مشاہدات ===
[[1610]] میں [[گلیلیو گلیلی]] نے دوربین کی مد سے مشتری کے چار بڑے چاند آئی او، یوروپا، گائنامیڈ اور کالیسٹو (جنہیں گلیلین چاند بھی کہا جاتا ہے) دریافت کئے۔ دوربین کی مدد سے زمین کے علاوہ کسی بھی سیارے کے چاند کو پہلی بار تبھی دیکھا گیا تھا۔ گلیلیو کا یہ مشاہدہ ثابت کرتا تھا کہ کسی بھی اجرام فلکی کی حرکت اس حساب سے نہیں ہو رہی کہ زمین کو مرکز مانا جائے۔ کوپرنیکس کے نظریے کے حق میں یہ مشاہدہ بہت اہم ثابت ہوا۔ کوپرنیکس کے نظریے کی کھلی حمایت کی وجہ سے گلیلیو کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا<ref>{{cite web
|last = Westfall|first = Richard S
|url = http://galileo.rice.edu/Catalog/NewFiles/galilei_gal.html
سطر 506:
|accessdate = November 28, 2006}}</ref>۔
 
چھ سال بعد وائجر جہازوں کی وجہ سے مشتری کے چاندوں اور اس کے دائروں کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت ہوا کہ عظیم سرخ دھبہ اینٹی سائیکلونک ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں لی گئی تصاویر سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاینئر مشنز کے بعد سے اس دھبے کا رنگ بدل رہا ہے اور نارنجی سے گہرا بھورا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ آئی او پر [[آتش فشاں]] بھی موجود ہیں جن میں سے کئی لاوا اگل رہے ہیں۔ مشتری کے پیچھے جب خلائی جہاز گئے تو تاریک حصے میں چمکتی آسمانی بجلیاں بھی دکھائی دی ہیں<ref name="voyager">{{cite web |date= January 14, 2003|url = http://voyager.jpl.nasa.gov/science/jupiter.html|title = Jupiter|publisher = NASA Jet Propulsion Laboratory|accessdate = November 28, 2006}}</ref><ref name="burgess"/>۔
 
مشتری کو جانے والا اگلا مشن الائسیس کا سورج کو جانے والا خلائی جہاز سورج کے گرد اپنا مدار قائم کرنے کے لیے مشتری کے پاس سے گذرا۔ چونکہ اس پر کوئی کیمرہ نصب نہیں، اس لیے تصاویر نہیں لی جا سکیں۔ دوسری بار یہ خلائی جہاز چھ سال بعد بہت دور سے گذرا۔ پہلی بار گذرتے ہوئے اس خلائی جہاز نے مشتری کے مقناطیسی میدان پر کافی تحقیق کی<ref name="ulysses">{{cite web|author = Chan, K.; Paredes, E. S.; Ryne, M. S.|year = 2004|url = http://arc.aiaa.org/doi/abs/10.2514/6.2004-650-447 |title = Ulysses Attitude and Orbit Operations: 13+ Years of International Cooperation|publisher = American Institute of Aeronautics and Astronautics|accessdate = November 28, 2006}}</ref>۔
سطر 512:
زحل کو جانے والا کسینی خلائی جہاز [[2000]] میں مشتری کے پاس سے گذرا اور اب تک کی بہترین تصاویر بھیجیں۔ 19 دسمبر [[2000]] کو اس نے ہمالیہ نامی چاند کی تصاویر لیں لیکن دھندلے ہونے کی وجہ سے سطح کے بارے کچھ خاص معلومات نہیں مل سکیں<ref>{{cite journal|author=Hansen, C. J.; Bolton, S. J.; Matson, D. L.; Spilker, L. J.; Lebreton, J.-P.|title=The Cassini–Huygens flyby of Jupiter|bibcode=2004Icar..172....1H|journal=Icarus|year=2004|volume=172|issue=1|pages=1–8|doi = 10.1016/j.icarus.2004.06.018}}</ref>۔
 
نیو ہورائزنز خلائی جہاز جو پلوٹو کو جا رہا ہے، گریوٹی اسسٹ نامی تکنیک سے فائدہ اٹھانے مشتری کے قریب سے گذرا تھا۔ 28 فروری [[2007]] کو مشتری کے قریب سے گذرا<ref>{{cite web|url=http://www.planetary.org/explore/topics/space_missions/new_horizons/022807.html|archiveurl=http://web.archive.org/web/20070429113112/http://www.planetary.org/explore/topics/space_missions/new_horizons/022807.html|archivedate=April 29, 2007|title=Mission Update: At Closest Approach, a Fresh View of Jupiter|accessdate=July 27, 2007}}</ref> اور اس نے آئی او کے آتش فشانوں اور دیگر چار بڑے چاندوں پر تحقیق کی اور بہت دور سے ہمالیہ اور ایلارا کی بھی تصاویر کھینچیں<ref>{{cite web|url=http://www.nasa.gov/mission_pages/newhorizons/news/jupiter_system.html|title=Pluto-Bound New Horizons Provides New Look at Jupiter System|accessdate=July 27, 2007}}</ref>۔ چار بڑے چاندوں کی [[تصویر کشی]] 4 ستمبر [[2006]] میں شروع ہوئی<ref>{{cite news|date= January 19, 2007|url = http://news.bbc.co.uk/2/hi/science/nature/6279423.stm|title = New Horizons targets Jupiter kick|publisher = BBC News Online|accessdate = January 20, 2007}}</ref><ref>{{cite web|last = Alexander|first = Amir |date= September 27, 2006 | url = http://www.planetary.org/news/2006/0927_New_Horizons_Snaps_First_Picture_of.html| archiveurl = http://web.archive.org/web/20070221220556/http://www.planetary.org/news/2006/0927_New_Horizons_Snaps_First_Picture_of.html| archivedate = February 21, 2007|title = New Horizons Snaps First Picture of Jupiter|publisher = The Planetary Society|accessdate = December 19, 2006}}</ref>۔
 
=== گلیلیو مشن ===
تاحال مشتری کے مدار میں پہنچنے والا واحد خلائی جہاز گلیلیو ہے۔ یہ جہاز 7 دسمبر 1995 کو مدار میں پہنچا اور سات سال تک کام کرتا رہا۔ اس نے کئی بار تمام چاندوں کے گرد بھی چکر لگائے۔ اسی خلائی جہاز کی مدد سے شو میکرِلیوی 9 نامی دمدار ستارے کو مشتری پر گرتے دیکھا گیا جو ایک انتہائی نادر واقعہ ہے۔ اگرچہ گلیلیو سے بہت قیمتی معلومات ملیں لیکن ایک خرابی کی وجہ سے اس کا اصل اینٹینا کام نہیں کر سکا جس کی وجہ سے ڈیٹا بھیجنے کا عمل سخت متائثر ہوا<ref name="galileo">{{cite web|last = McConnell|first = Shannon |date= April 14, 2003|url = <!-- http://www2.jpl.nasa.gov/galileo/ -->http://solarsystem.nasa.gov/galileo/|title = Galileo: Journey to Jupiter|publisher = NASA Jet Propulsion Laboratory|accessdate = November 28, 2006}}</ref>۔
 
جولائی 1995 کو گلیلیو نے ایک مشین نیچے اتاری جو پیراشوٹ کی مدد سے 7 دسمبر کو مشتری کی فضاء میں اتری۔ اس نے کل 57.6 منٹ تک کام کیا اور 150 کلومیٹر نیچے اتری اور آخرکار انتہائی دباؤ کی وجہ سے ناکارہ ہو گئی۔ اس وقت اس پر پڑنے والا فضائی دباؤ زمین سے 22 گنا زیادہ اور [[درجہ حرارت]] 153 ڈگری سینٹی گریڈ تھا<ref>{{cite web|first = Julio|last = Magalhães|date = December 10, 1996|url = http://spaceprojects.arc.nasa.gov/Space_Projects/galileo_probe/htmls/probe_events.html|title = Galileo Probe Mission Events|publisher = NASA Space Projects Division|accessdate = February 2, 2007}}</ref>۔ اندازہ ہے کہ پگھلنے کے بعد شاید تبخیر کا شکار ہو گئی ہو۔ 21 ستمبر 2003 کو گلیلیو کو بھی اسی مقصد کے لیے مشتری کے مدار سے سطح کی طرف گرایا گیا۔ اس وقت اس کی رفتار 50 کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ناسا نے یوروپا کو کسی قسم کی ملاوٹ سے پاک رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا تاکہ خلائی جہاز راستے میں ہی تباہ ہو جائے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یوروپا پر زندگی کے امکانات ہیں<ref name="galileo"/>۔
=== مستقبل میں بھیجی جانے والی اور منسوخ شدہ مہمات ===
مشتری کے قطبین کے بہتر مطالعے کے لیے ناسا جونو نامی کلائی جہاز [[2011]] میں بھیجنے لگا تھا جو [[2016ء]] میں واپس آتا<ref>{{cite web
سطر 527:
یوروپا جیوپیٹر سسٹم مشن ناسا اور یورپی خلائی ادارے کا مشترکہ منصوبہ ہے جس میں مشتری اور اس کے چاندوں کے لیے مہم بھیجی جائے گی۔ فروری [[2009]] میں ناسا اور یورپی خلائی ادارے نے اعلان کیا کہ اس مہم کو ٹائٹن سیٹرن سسٹم مشن پر ترجیح دی ہے۔ یہ مہم [[2020]] کے آس پاس بھیجی جائے گی۔ اس مہم میں ناسا مشتری اور یوروپا کے لیے جبکہ یورپی خلائی ادارہ مشتری اور گینی میڈ کے گرد گردش کرنے والا خلائی جہاز بھیجے گا<ref>{{cite web|url=http://sci.esa.int/science-e/www/area/index.cfm?fareaid=107|title=Laplace: A mission to Europa &amp; Jupiter system|publisher=ESA|accessdate=January 23, 2009}}</ref>۔
 
چونکہ مشتری کے چاندوں یوروپا، گینی میڈ اور کالیسٹو کی سطح پر مائع سمندر پائے جانے کا امکان ہے اس لیے ان کے تفصیلی مشاہدے کا منصوبہ ہے۔ تاہم [[سرمایہ کاری]] کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبے رکے ہوئے ہیں۔ ناسا کا جیمو یعنی جیوپیٹر آئسی مون آربیٹر مشن [[2005]] میں منسوخ ہو گیا ہے<ref name=esaled>[http://sci.esa.int/science-e/www/object/index.cfm?fobjectid=48661 New approach for L-class mission candidates], ESA, April 19, 2011</ref>۔
 
== چاند ==
سطر 663:
|publisher=National Space Society|accessdate=February 26, 2007}}</ref>۔
 
زمین جیسی زندگی تو شاید مشتری پر ممکن نہ ہو کیونکہ وہاں پانی کی مقدار بہت کم ہے اور ممکنہ سطح پر بے پناہ دباؤ ہے۔ تاہم 1976 میں وائجر مہم سے قبل نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ امونیا اور پانی پر مبنی زندگی شاید مشتری کی بالائی فضاء میں موجود ہو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوپر کی سطح پر سادہ [[ضیائی تالیف]] کرنے والے پلانکٹون ہوں اور سطح کے نیچے مچھلیاں ہو جو پلانکٹون پر زندہ ہوں اور اس سے نیچے مچھلیاں کھانے والے شکاری۔
 
مشتری کے چاندوں پر زیرِ زمین سمندروں کی موجودگی سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہاں زندگی کے پائے جانے کے بہتر امکانات ہوں گے<ref>{{cite web|url=http://www.daviddarling.info/encyclopedia/J/Jupiterlife.html
سطر 738:
[[زمرہ:نظام شمسی]]
[[زمرہ:نظام شمسی کے سیارے]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]