دہلی میں 2020ء کا تبلیغی جماعت کووڈ 19 ہاٹ اسپاٹ
دہلی میں 2020ء کا تبلیغی جماعت کووڈ 19 ہاٹ اسپاٹ (انگریزی: 2020 Tablighi Jamaat COVID-19 hotspot in Delhi) ملک میں دہلی کے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے ایک اجتماع سے تعلق رکھنے والے واقعے کو کہا جاتا ہے جو مارچ 2020ء کی 13-15 میں پیش آیا۔ یہ ملک گیر تالابندی سے قریب 10 روز پہلے کا واقعہ تھا مگر تب تک یہ وائرس ملک اور بیرون ملک پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔ جماعت کے کئی افراد ان ملکوں سے شریک ہوئے جیسے کہ ملائشیا اور انڈونیشیا جو اس وبا کی شدید لپیٹ میں تھے۔ اجتماع کے کچھ وقت کے بعد ہی ملک گیر سطح پر ریاستی حکومتیں شرکا کی شناخت کرنے اور انھیں قرنطینہ میں میں رکھنے کی کوشش میں لگ گئیں۔ ایسے حالات میں کچھ بی جے پی قائدین نے ملک کی بگڑتی کووڈ 19 صورت حال کے لیے اس اجتماع کو نہ صرف مورد الزام ٹھہرایا بلکہ انھیں دہشت گرد، بموں کی طرح گھومنے والے اور اس اجتماع ہی کو ایک طالبانی جرم قرار دیا۔ اس کی وجہ سے ملک میں نفرت انگیز قرقہ وارانہ فضا تیار ہوئی۔ مزید یہ کہ حکومت نے 950 بیرونی شہریوں کو سیاہ فہرست میں شامل کرتے ہوئے وبا کے پھیلاؤ کا ملزم قرار دیا۔ 900 سے زائد نے "بدلے میں معافی" کے تحت خود کو ذمہ دار تسلیم بھی کر لیا تھا، جو اس وجہ سے کیا گیا کہ وہ عدالتی کار روائی کے جھمیلے سے بچنا چاہتے تھے۔ تاہم انھی شرکا میں سے 44 لوگوں نے مقدمے کا سامنا کیا۔ 24 اگست 2020ء کو دہلی کے ایک مجسٹریٹ نے کوئی بادی النظر ثبوت نہیں پایا (“no prima facie evidence”) کہ ان میں سے آٹھ پر اس وبا کے پھیلاؤ کا الزام عائد کیا جائے۔ اس کے بعد ایک میٹروپولیٹن عدالت نے 36 دیگر کو بھی بری کر دیا۔ اس سے بھی مزید سنگین عدالت کا تبصرہ تھا: "ان میں سے کوئی بھی مرکز متعلقہ دور میں تھا ہی نہیں اور یہ لوگ مختلف جگہوں سے وزیر داخلہ کے ایما پر پکڑے گئے تھے تاکہ کینہ پرور انداز میں ان پر مقدمہ چلایا جا سکے"۔[1]
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس پورے واقعے کو بنیاد بناکر ظاہری طور پر بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے مسلمان ہی واحد خاطی بنائے گئے تھے۔[2]
حالاںکہ بھارت میں کووڈ 19 کا پہلا مریض در حقیقت کیرالا کی ایک طالبہ تھی جو چین کے ووہان علاقے میں ایک ریاستی جامعہ میں زیر تعلیم بتائی گئی ہے۔[3] اس کے علاوہ ملک کے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کو پیش کردہ ایک رپورٹ میں بایوٹیکنالوجی محکمے نے جولائی 2020ء میں یہ دعوٰی کیا کہ ملک میں پایا جانے والا وائرس دراصل ایک مخصوص قسم ہے جو اصلًا یورپ سے آنے والے مسافرین سے یہاں منتقل ہوا اور یہ ملک بھر میں سب سے نمایاں طور پر پھیل چکا ہے۔[4]
تبلیغی رہنما محمد سعد کاندھلوی نے حکومت اور الیکٹرانک میڈیا کے مخالف جماعت رویے کے باوجود کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے تبلیغی افراد سے اپنے خون کے بلازما کا عطیہ دینے پر زور دیا تاکہ دیگر افراد کا علاج کیا جا سکے۔[5] سینکڑوں تبلیغی ارکان تلنگانہ، تمل ناڈو اور دہلی میں منظم انداز میں خون کا عطیہ دینے آئے۔[6][7][8][9][10] یکم مئی 2020ء تک 300 سے زیادہ شرکاء کا پلازما حاصل کیا گیا۔[11] چونکہ پلازما دن کے وقت لیا گیا تھا، اس لیے عطیہ کنندگان کو اس دوران میں اپنا روزہ توڑنا پڑا۔[12] کچھ قرنطینہ مراکز میں جماعت کی خواتین ارکان نے بھی اپنا پلازما دیا۔[13] کچھ جماعت کے ارکان نے ایک سے زیادہ بار عطیہ دیا۔[14] انھوں نے خون کے عطیے کو ملک کے لیے اپنے فرض کی ادائیگی قرار دیا۔ [15]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Say sorry: By flagging malice in handling of Tablighi episode, Delhi court upholds justice. The least government can do is to apologise.
- ↑ Opinion: Islamophobia taints India’s response to the coronavirus
- ↑ "Wasn't Easy To Remain Isolated," Recalls بھارت's 1st Coronavirus Patient
- ↑ Variant of coronavirus brought in by travellers from Europe most dominant in بھارت
- ↑ "Covid-19 survivors should donate blood plasma: Tablighi Jamaat leader Maulana Saad"۔ بھارت Today۔ 21 اپریل 2020
- ↑ "Tablighi Jamaat Attendees in TN Coordinate to Donate Plasma, Feel Struggles Should not go Unnoticed"۔ News18۔ 23 اپریل 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2020
- ↑ Satviki Sanjay (22 اپریل 2020)۔ "Recovered Tablighi Jamaat Members, Once a COVID-19 Cluster, Want to Donate Plasma to Help Infected People"۔ Vice۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2020
- ↑ Furquan Ameen (24 اپریل 2020)۔ "Plasma therapy trials in Delhi encouraging, says Kejriwal"۔ The Telegraph۔ Kolkota۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2020
- ↑ "After COVID-19 Recovery, 300 Tablighi Jamaat Members Sign Up To Donate Plasma"۔ این ڈی ٹی وی انڈیا۔ NDTV.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2020
- ↑ "Hundreds Of Recovered Tablighi Jamaat Members Donate Blood Plasma For COVID-19 Patients"۔ آؤٹ لک انڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2020
- ↑ "Karnataka Government Issues Notice to IAS Officer for Tweet on Tablighi Jamaat Members"۔ سی این این-نیوز 18۔ News18۔ مئی 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2020
- ↑ Qaiser Mohammad Ali۔ "150 Tablighi Jamaat Members Break Ramzan Fast To Donate Plasma For Covid Treatment"۔ آؤٹ لک انڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2020
- ↑ Poorvi Gupta (مئی 2020)۔ "Recovered Women Tablighis Donate Blood Plasma For COVID-19 Patients"۔ شی دی پیپل ڈاٹ ٹی وی۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مئی 2020
- ↑ "कोरोना हारेगा: तब्लीगी जमात के सदस्य ने कहा- दो बार प्लाज्मा डोनेट किया، 10 बार करना पड़ा तो भी पीछे नहीं हटूंगा"۔ دینک بھاسکر۔ Bhaskar.com۔ 2 مئی 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2020
- ↑ ‘It’s Only Blood, Ready to Die for Nation’: Tablighi Plasma Donor