دیپک مشرا
جسٹس دیپک مشرا (پیدائش: 3 اکتوبر 1953ء) بھارت کے چوالیس ویں چیف جسٹس جے ایس کھیہر کے جانشین اور پینتالیس ویں چیف جسٹس ہیں۔[2][3] قبل ازیں وہ پٹنہ اور دہلی کی عدالت ہائے عالیہ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں۔ دیپک مشرا اڑیسہ سے تعلق رکھتے ہیں اور بھارت کے اکیسویں چیف جسٹس رنگاناتھ مشرا کے قریبی عزیز ہیں۔[4][5]
دیپک مشرا | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
منصفِ اعظم | |||||||
برسر عہدہ 11 مئی 2008 – 12 فروری 2010 |
|||||||
در | دہلی عدالت عالیہ | ||||||
| |||||||
منصفِ اعظم | |||||||
برسر عہدہ 1 دسمبر 2009 – 1 مئی 2010 |
|||||||
در | پٹنہ عدالت عالیہ | ||||||
| |||||||
بھارت کے چیف جسٹس (45 ) | |||||||
برسر عہدہ 27 اگست 2017 – 2 اکتوبر 2018 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 3 اکتوبر 1953ء (71 سال)[1] کٹک |
||||||
شہریت | بھارت | ||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | منصف | ||||||
درستی - ترمیم |
پیشہ ورانہ زندگی
ترمیمدیپک مشرا 14 فروری 1977ء کو بار کے رکن بنے اور اڑیسہ ہائی کورٹ اور سروس ٹریبیونل میں کام کرتے رہے۔ سنہ 1996ء میں وہ اڑیسہ ہائی کورٹ کے عارضی جج بنے، پھر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں ان کی منتقلی ہو گئی جہاں 19 دسمبر 1997ء کو انھیں مستقل جج بنا دیا گیا۔ دسمبر 2009ء کو وہ پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے اور مئی 2010ء تک اس عہدے پر فائز رہے، بعد ازاں انھیں دہلی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا جہاں وہ عدالت عظمیٰ کے منصف اعظم بننے یعنی 10 اکتوبر 2011ء تک رہے۔[2][6]
عدالت عظمیٰ میں دیپک مشرا کی میعاد 28 اگست 2017ء سے 2 اکتوبر 2018ء تک تقریباً چودہ مہینے ہیں، وہ پینسٹھ برس کی عمر میں پینتالیس ویں چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوں گے۔[6][7]
قابل ذکر فیصلے
ترمیمجسٹس مشرا نے اپنے ایک فیصلے میں دہلی پولیس کو حکم دیا کہ وہ اپنی ویب گاہ پر ایف آئی آر اپلوڈ کریں تاکہ عدالت میں درست درخواستیں دی جا سکیں اور شکایتوں کی مناسب تلافی ہو۔[8]
ترقی منصب میں تحفظات کے کسی مقدمے میں جسٹس مشرا اور جسٹس دلویر بھنڈاری نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا کہ ترقی منصب میں تحفظات اسی وقت لاگو ہوں گے جب اس کی ضرورت کے پختہ شواہد موجود ہوں اور یوں حکومت اترپردیش کے تحفظات فراہم کرنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔[9][10][11]
جسٹس مشرا نے اس بنچ کی بھی سربراہی کی تھی جس نے 1993ء کے ممبئی بم دھماکوں کے مجرم یعقوب میمن کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا کہ اسے پھانسی نہ دی جائے۔ اس کے بعد انھیں ایک گمنام خط ملا جس میں درج تھا کہ "آپ کے گرد سخت حفاظتی پہرے کے باوجود ہم آپ کو ختم کر دیں گے"۔[12]
جسٹس مشرا اس تین رکنی بنچ کے بھی سربراہ تھے جس نے نربھیا کے زنا بالجبر معاملے کے چار مجرموں کی سزائے موت برقرار رکھی۔
جسٹس مشرا اس انقلابی فیصلے کے مصنف تھے جس میں انھوں نے دہلی میں پیش آمدہ اجتماعی جنسی زیادتی کے مجرموں کی سزائے موت کی تصدیق کی۔ اس کے بعد ہی زنا بالجبر کے خلاف سخت قانون سازی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس فیصلے میں انھوں نے مجرموں کو "اپنے لطف اور مزے کی خاطر اس بچی کو ایک پرزہ سمجھنے نیز اپنی سادیت پسند اور حیوانی خواہشوں کی تکمیل کے لیے انتہائی بدترین انداز میں بچی کی نجابت و شرافت اور اس کی شناخت سے کھیلنے والا کہا اور اس سانحے کو انسانی برادری کے لیے ناقابل فہم قرار دیا"۔[13]
دیپک مشرا اس سات رکنی بنچ کے بھی رکن تھے جس نے کلکتہ ہائی کورٹ کے جج سی ایس کرنن کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیا اور انھیں چھ ماہ کی سزا سنائی۔[14]
تنازع
ترمیم12 جنوری 2018ء کو عدالت عظمیٰ کے چار سینئر ججوں جستی چلمیشور، رنجن گوگوئی، مدن لوکر اور کورین جوزف نے ایک پریس کانفرنس طلب کی اور اس میں دیپک مشرا کے طرز و انداز نیز مقدمات کی تعیین کے طریقہ کار پر سخت تنقید کی۔ تاہم مشرا کے قریبی حلقوں نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔[15][16] 20 اپریل 2018ء کو سات حزب مخالف نے نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائڈو کے حضور ایک پٹیشن دائر کی جس میں دیپک مشرا کے مواخذے کا مطالبہ کیا۔ اس درخواست پر 71 ارکان پارلیمان کے دستخط تھے۔[17] 23 اپریل 2018ء کو وینکیا نائڈو نے اس پٹیشن کو خارج کر دیا۔[18]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.theweek.in/theweek/current/heavy-caseload.html — اخذ شدہ بتاریخ: 26 فروری 2021
- ^ ا ب "Hon'ble Mr. Justice Dipak Misra"۔ بھارتی عدالت عظمیٰ۔ 11 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2018
- ↑ Maneesh Chhibber (1 اکتوبر 2012)۔ "The courtrooom cast after presidential reference"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2018
- ↑ Samanwaya Rautray (9 اگست 2017)۔ "Dipak Misra, the Man behind Nation Anthem ruling to be next CJI"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 اگست 2017
- ↑ Swati Deshpande (15 مئی 2016)۔ "'He taught me that law needs to have a human face'"۔ دی ٹائمز آف انڈیا
- ^ ا ب Priyanka Mittal (8 August 2017)۔ "Justice Dipak Misra to be next Chief Justice of India"۔ Livemint۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2018
- ↑ "CHIEF JUSTICE OF INDIA AND SITTING HON'BLE JUDGES ARRANGED ACCORDING TO DATE OF APPOINTMENT AS ON ستمبر 29, 2012"۔ بھارتی عدالت عظمیٰ
- ↑ "Delhi HC bids farewell to CJ Dipak Misra"۔ زی نیوز۔ PTI۔ 5 اکتوبر 2011
- ↑ "Supreme Court upholds High court's decision to quash quota in promotion"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 28 Apr 2012۔ 10 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2012
- ↑ "SC quashes quota benefits in promotions"۔ دی ہندو۔ 28 اپریل 2012۔ 04 نومبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2012
- ↑ "U.P.Power Corp.Ltd. vs Rajesh Kumar & Ors. on 27 اپریل, 2012"۔ IndianKanoon.org۔ 10 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2012
- ↑ "SC judge who rejected Yakub Memon's plea gets threat letter"۔ ہندوستان ٹائمز۔ 8 اگست 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2018
- ↑ Krishnadas Rajagopal (5 May 2017)۔ "Delhi gang rape case: SC confirms death for four"۔ دی ہندو (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2018
- ↑ "Supreme Court sends Justice Karnan to jail for contempt, gags press on him"۔ دی انڈین ایکسپریس (بزبان انگریزی)۔ 10 May 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2018
- ↑ "Turmoil in Supreme Court as four judges speak out against Chief Justice Dipak Misra"۔ ہندوستان ٹائمز (بزبان انگریزی)۔ 12 January 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2018
- ↑ "SC crisis: Latest updates"۔ دی ٹائمز آف انڈیا (بزبان انگریزی)۔ 13 January 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2018
- ↑ "Chief Justice Dipak Misra Faces Impeachment Motion, 71 Have Signed: 10 Facts"۔ این ڈی ٹی وی۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2018
- ↑ Sandeep Phukan (23 April 2018)۔ "Venkaiah Naidu rejects impeachment motion against CJI"۔ دی ہندو (بزبان انگریزی)