سورہ التحریم

قرآن مجید کی 66 ویں سورت

قرآن مجید کی 66 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 12 آیات ہیں۔ اس میں واقعۂ تحریم کا ذکر ہے۔

التحریم
دور نزولمدنی
زمانۂ نزول7 یا 8ھ
اعداد و شمار
عددِ سورت66
عددِ پارہ28
تعداد آیات12

نام

پہلی ہی آیت کے الفاظ لم تحرم سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی اس کے مضامین کا عنوان نہیں ہے بلکہ اس نام سے مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں تحریم کے واقعہ کا ذکر آیا ہے۔ == زمانۂ نزول ==اس میں تحریم کے جس واقعے کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق احادیث کی روایات میں دو خواتین کا ذکر آیا ہے جو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حرم میں تھیں۔ ایک حضرت صفیہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا دوسری ماریہ قبطیہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا۔ ان میں سے ایک، یعنی حضرت صفیہ فتح خیبر کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور خیبر کی فتح بالاتفاق 7ھ میں ہوئی ہے۔ دوسری خاتون حضرت ماریہ کو 7ھ میں مصر کے فرمانروا مقوقس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور ان کے بطن سے ذی الحجہ 8ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ پیدا ہوئے تھے۔ ان تاریخی واقعات سے یہ بات قریب قریب متعین ہو جاتی ہے کہ اس سورت کا نزول 7ھ یا 8ھ کے دوران میں کسی وقت ہوا ہے۔ == موضوع اور مباحث ==یہ ایک بڑی اہم سورت ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے متعلق بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند مہمات مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک یہ کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنے کے اختیارات قطعی طور پر اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہیں اور عام انسان تو درکنار، خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف بھی ان کا کوئی حصہ منتقل نہیں کیا گیا ہے۔ نبی بحیثیت نبی اگر کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دے سکتا ہے تو وہ صرف اس صورت میں جبکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کا اشارہ ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ اشارہ قرآن مجید میں نازل ہوا ہو یا وحی خفی کے طور پر کیا گیا ہو۔ لیکن بطورِ خود اللہ کی مباح کی ہوئی کسی چیز کو حرام کر لینے کا مجاز نبی بھی نہیں ہے کجا کہ کوئی اور شخص ہو سکے۔ دوسرے یہ کہ انسانی معاشرے میں نبی کا مقام انتہائی نازک مقام ہے۔ ایک معمولی بات بھی، جو کسی دوسرے انسان کی زندگی میں پیش آئے چنداں اہمیت نہیں رکھتی، نبی کی زندگی میں اگر پیش آ جائے تو وہ قانون کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی کی طرف سے انبیا علیہم السلام کی زندگی پر ایسی کڑی نگرانی رکھی گئی ہے کہ ان کا کوئی ادنٰی اقدام بھی منشا الٰہی سے ہٹا ہوا نہ ہو۔ ایسا کوئی فعل بھی اگر نبی سے صادر ہوا ہے تو اس کی فوراً اصلاح کر دی گئی ہے تاکہ اسلامی قانون اور اس کے اصول اپنی بالکل صحیح صورت میں نہ صرف خدا کی کتاب، بلکہ نبی کے اسوۂ حسنہ کی صورت میں بھی خدا کے بندوں تک پہنچ جائیں اور ان میں ذرہ برابر بھی کوئی چیز ایسی شامل نہ ہونے پائے جو منشا الٰہی سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ تیسری بات جو مذکورۂ بالا نکتہ سے خود بخود نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ذرا سی بات پر جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ٹوک دیا گیا اور نہ صرف اس کی اصلاح کی گئی بلکہ اسے ریکارڈ پر بھی لے آیا گیا، تو یہ چیز قطعی طور پر ہمارے دل میں یہ اطمینان پیدا کر دیتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں جو اعمال و افعال اور جو احکام و ہدایات بھی ہمیں اب ملتے ہیں اور جن پر اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی گرفت یا اصلاح ریکارڈ پر موجود نہیں ہے، وہ سراسر برحق ہیں، اللہ کی مرضی سے پوری مطابقت رکھتے ہیں اور ہم پورے اعتماد کے ساتھ ان سے ہدایت و رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ چوتھی بات جو اس کلام میں ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے جس رسول مقدس کی عزت و حرمت کو اللہ تعالٰی خود اپنے بندوں کے حق میں لازمۂ ایمان قرار دیتا ہے اسی کے متعلق اس سورت میں بیان کیا گیا ہے کہ اس نے اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لیے ایک مرتبہ اللہ کی حلال کی ہوئی ایک چیز اپنے اوپر حرام کر لی۔ اور جن ازواج مطہرات کو اللہ تعالٰی خود تمام اہل ایمان کی ماں قرار دیتا ہے اور جن کے احترام کا اس نے خود مسلمانوں کو حکم دیا ہے انہی کو اس نے بعض غلطیوں پر اس سورت میں شدت سے تنبیہ فرمائی ہے۔ پھر نبی پر یہ گرفت اور ازواج مطہرات کو یہ تنبیہ بھی خفیہ طور پر نہیں کی گئی بلکہ اس کتاب میں درج کر دی گئی جسے تمام امت کو ہمیشہ ہمیشہ تلاوت کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ کتاب اللہ میں اس کا ذکر کا منشا یہ نہ تھا، نہ یہ ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالٰی اپنے رسول اور امہات المومنین کو اہل ایمان کی نگاہوں سے گرا دینا چاہتا تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن پاک کی یہ سورت پڑھ کر کسی مسلمان کے دل سے ان کا احترام اٹھ نہیں گیا ہے۔ اب قرآن میں یہ ذکر لانے کی مصلحت اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالٰی اہل ایمان کو اپنے بزرگوں کے احترام کی صحیح حدوں سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔ نبی، نبی ہے، خدا نہیں ہے کہ اس سے کوئی لغزش نہ ہو۔ نبی کا احترام اس بنا پر نہیں ہے کہ اس سے لغزش کا صدور ممکن نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ وہ مرضی الٰہی کا مکمل نمائندہ ہے اور اس کی ادنٰی سی لغزش کو بھی اللہ نے اصلاح کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے جس سے ہمیں یہ اطمینان نصیب ہو جاتا ہے کہ نبی کا چھوڑا ہوا اسوۂ حسنہ اللہ کی مرضی کی پوری نمائندگی کر رہا ہے۔ اسی طرح صحابۂ کرام یا ازواجِ مطہرات، یہ سب انسان تھے، فرشتے یا فوق البشر نہ تھے۔ ان سے غلطیوں کا صدور ہو سکتا تھا۔ ان کو جو مرتبہ حاصل ہوا اس وجہ سے ہوا کہ اللہ کی رہنمائی اور اللہ کے رسول کی تربیت نے ان کو انسانیت کا بہترین نمونہ بنا دیا تھا۔ ان کا جو کچھ بھی احترام ہے اسی بنا پر ہے، نہ کہ اس مفروضے پر کہ وہ کچھ ایسی ہستیاں تھیں جو غلطیوں سے بالکل مبرا تھیں۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد مبارک میں صحابہ یا ازواج مطہرات سے بشریت کی بنا پر جب بھی کسی غلطی کا صدور ہوا اس پر ٹوکا گیا۔ ان کی بعض غلطیوں کی اصلاح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی جس کا ذکر احادیث میں بکثرت مقامات پر آیا ہے۔ اور بعض غلطیوں کا ذکر قرآن مجید میں کر کے اللہ تعالٰی نے خود ان کی اصلاح کی تاکہ مسلمان کبھی بزرگوں کے احترام کا کوئی ایسا مبالغہ آمیز تصور نہ قائم کر لیں جو انھیں انسانیت کے مقام سے اٹھا کر دیویوں اور دیوتاؤں کے مقام پر پہنچا دے۔ قرآن پاک کا مطالعہ آنکھیں کھول کر کیا جائے تو اس کی پے در پے مثالیں سامنے آئیں گی۔ سورۂ آل عمران میں جنگ احد کا ذکر کرتے ہوئے صحابۂ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا:

اللہ نے (تائید و نصرت) کا جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اس نے پورا کر دیا جبکہ اس کے اذر سے تم اُن کو قتل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت) تم حکم کی نافرمانی کر بیٹھے، تم میں سے کوئی دنیا کا طالب تھا اور کوئی آخرت کا طلب گار، تب اللہ نے تمہیں ان کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں معاف کر دیا، اللہ مومنوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے

[1] سورۂ نور میں حضرت عائشہ پر تہمت (واقعۂ افک) کا ذکر کرتے ہوئے صحابہ سے فرمایا گیا:

ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جب تم لوگوں سے اسے سنا تھا اسی وقت مومن مرد اور عورتیں، سب اپنے آپ سے نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ تو صریح بہتان ہے؟ ۔۔۔۔۔ اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آ لیتا۔ ذرا غور کرو، جب تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس قصے کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔ کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتان عظیم ہے؟ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو

[2]سورۂ احزاب میں ازواج مطہرات کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا:

اے نبی اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کی طلبگار ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکوکار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے

[3]سورۂ جمعہ میں صحابہ کے متعلق فرمایا:

جب انہوں نے کاروبارِ تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو اس طرف دوڑ گئے اور (اے نبی) تم کو (خطبے میں) کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے

[4]سورۂ ممتحنہ میں ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی کہ انھوں نے فتح مکہ سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حملے کی خفیہ اطلاع کفار قریش کو بھیج دی تھی۔ یہ ساری مثالیں خود قرآن میں موجود ہیں، اسی قرآن میں جس میں اللہ تعالٰی نے صحابہ اور ازواج مطہرات کے فضل و شرف کو خود بیان فرمایا ہے اور انھیں رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا پروانۂ خوشنودی عطا فرمایا ہے۔ بزرگوں کے احترام کی یہی مبنی بر اعتدال تعلیم تھی جس نے مسلمانوں کو انسان پرستی کے اُس "ھاویہ" میں گرنے سے بچایا جس میں یہود و نصاریٰ گر گئے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ حدیث، تفسیر اور تاریخ کے موضوعات پر جن اکابر اہل سنت نے کتابیں مرتب کی ہیں ان میں جہاں صحابۂ کرام اور ازواج مطہرات اور دوسرے بزرگوں کے فضائل و کمالات بیان کیے گئے ہیں، ان کی کمزوریوں اور لغزشوں اور غلطیوں کے واقعات بیان کرنے میں بھی تامل نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ آج کے مدعیانِ احترام کی بہ نسبت وہ اِن بزرگوں کے زیادہ قدر شناس تھے اور ان سے زیادہ حدودِ احترام کو جانتے تھے۔ پانچویں بات جو اس سورت میں کھول کر بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا دین بالکل بے لاگ ہے۔ اس میں ہر شخص کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کا وہ اپنے ایمان اور اعمال کے لحاظ سے مستحق ہو۔ کسی بڑی سے بڑی ہستی کے ساتھ نسبت بھی اس کے لیے قطعاً نافع نہیں ہے اور کسی بری سے بری ہستی کے ساتھ نسبت بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس معاملے میں خاص طور پر ازواجِ مطہرات کے سامنے تین قسم کی عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ ایک مثال حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کی ہے، جو اگر ایمان لاتیں اور اپنے جلیل القدر شوہروں کا ساتھ دیتیں تو ان کا مقام امت مسلمہ میں وہی ہوتا جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات کا ہے لیکن چونکہ انھوں نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، اس لیے انبیا کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا اور وہ جہنم کی مستحق ہوئیں۔ دوسری مثال فرعون کی بیوی (آسیہ) کی ہے، جو اگرچہ ایک بدترین دشمن خدا کی بیوی تھیں، لیکن چونکہ وہ ایمان لے آئیں اور انھوں نے قومِ فرعون کے عمل سے اپنے عمل کا راستہ الگ کر لیا، اس لیے فرعون جیسے اکفر الکافرین کی بیوی ہونا بھی ان کے لیے کسی نقصان کا موجب نہ ہوا اور اللہ تعالٰی نے انھیں جنت کا مستحق بنا دیا۔ تیسری مثال حضرت مریم علیہا السلام کی ہے جنہیں یہ مرتبۂ عظیم اس لیے ملا کہ اللہ نے جس شدید آزمائش میں انھیں ڈالنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے لیے انھوں نے سر تسلیم خم کیا۔ حضرت مریم کے سوا دنیا میں کسی شریف اور نیک لڑکی کو کبھی ایسی سخت آزمائش میں نہیں ڈالا گیا کہ کنوار پنے کی حالت میں اللہ کے حکم سے اس کو معجزے کے طور پر حاملہ کر دیا گیا ہو اور اسے بتا دیا گیا ہو کہ اس کا رب اس سے کیا خدمت لینا چاہتا ہے۔ جب حضرت مریم نے اس پر کوئی واویلا نہ کیا بلکہ ایک سچی مومنہ کی حیثیت سے وہ سب کچھ برداشت کرنا قبول کر لیا جو اللہ کی مرضی پوری کرنے کے لیے برداشت کرنا ناگزیر تھا، تب اللہ نے ان کو "سیدۃ النسآء فی الجنۃ" [5] کے مرتبۂ عالی پر سرفراز فرمایا۔ ان امور کے علاوہ ایک اور اہم حقیقت جو اس سورت سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس صرف وہی علم نہیں آتا تھا جو قرآن میں درج ہوا ہے بلکہ آپ کے وحی کے ذریعے سے دوسری باتوں کا علم بھی دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی صریح دلیل اس سورت کی آیت 3 ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات میں سے ایک بیوی سے راز میں ایک بات کہی اور انھوں نے وہ کسی اور کو بتا دی۔ اس پر اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مطلع کیا۔ پھر جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس غلطی پر اپنی اُن بیوی کو تنبیہ فرمائی اور انھوں نے پوچھا کہ آپ کو میری یہ غلطی کس نے بتائی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا کہ مجھے علیم و خبیر ہستی نے اس کی خبر دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پورے قرآن میں کہاں وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہو کہ "اے نبی، تم نے اپنی بیوی سے راز میں جو بات کہی تھی وہ اس نے کسی اور پر یا فلاں شخص پر ظاہر کر دی ہے "؟ اگر ایسی کوئی آیت قرآن میں نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ اس سے منکرین حدیث کا یہ دعویٰ بالکل باطل ہو جاتا ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کے سوا اور کوئی وحی نہیں آتی تھی۔ == حوالہ جات ==

  1. سورہ آل عمران آیت 152
  2. سورۂ نور آیت 12 تا 17
  3. سورۂ احزاب آیت 28 تا 29
  4. سورۂ جمعہ آیت 11
  5. مسند احمد