سید امتیاز الدین
سید امتیاز الدین (1940ء - 2023ء) حیدرآباد، تلنگانہ، بھارت سے تعلق رکھنے والے الیکٹریکل انجینئر، چار اردو کتابوں کے مؤلف، روزنامہ سیاست، حیدرآباد کے باضابطہ کالم نگار، کئی اخبارات و رسائل کے مضمون نگار، ماہنامہ سب رس، زیر طباعت ادارہ ادبیات اردو، حیدرآباد میں مختلف نو مطبوعہ کتابوں کے ناقد تھے۔ وہ اقبالیات سے کافی شغف رکھتے تھے اور شہر حیدرآباد میں قائم اقبال اکیڈمی کے معتمد بھی رہے اور کئی لیکچرز بھی دے چکے ہیں جن میں جدید دور میں انھوں نے اقبال کے خیالات کی معنویت پر زور دیا۔ وہ رفاہی ادارے حامد علی ٹرسٹ سے جڑے تھے جس کی مدد سے کئی مستحق مسلمان طلبہ کو تعلیمی اسکالرشپ دی جاتی ہے۔ اسی طرح سے وہ غیر سودی لین دین کے فروغ کے لیے قائم حیدرآباد کے ادارے طور بیت المال کے بورڈ کے بھی کئی سال رکن رہے اور اس دوران ادارے کی مالی امدادی اسکیم کے تحت وہ کئی مستحق اصحاب کو مالی رقم جاری کی۔
سید امتیاز الدین اپنے آٹو گراف بک کے کولاج کے ساتھ | |
پیدائش | 21 اگست 1940 حیدرآباد، دکن |
وفات | اپریل 25، 2023 حیدرآباد، دکن | (عمر 82 سال)
آخری آرام گاہ | قبرستان، تکیہ عند اللہ شاہ، بشیر باغ، حیدرآباد |
پیشہ | انجینئر، اردو کتابوں کے مؤلف، کالم نگار، مضمون نگار، ناقد اور ماہر اقبالیات، آٹو گراف جمع کنندہ |
زبان | اردو |
قومیت | بھارت |
تعلیم | بی ای الیکٹریکل، ایم بی اے |
مادر علمی | عثمانیہ یونیورسٹی |
شریک حیات | آمنہ شہناز |
اولاد | ڈاکٹر سید مزمل الدین |
رشتہ دار | شاذ تمكنت |
عملی خدمات
ترمیمچونکہ سید امتیاز الدین پیشے سے انجینئر تھے، اس لیے وہ 33 سال برقی سربراہی کی خدمات سے جڑے رہے اور 2000ء میں ریاستی حکومت کی پَوَر ٹرانسمیشن کارپوریشن لیمیٹیڈ سے بہ طور سپرانڈنڈنگ انجینئر وظیقہ حسن خدمت پر سبک دوش ہوئے۔ دوران خدمات ان کی ملاقات ظہیر الدین انجینئر سے ہوتی رہی جو ان سے سینئر بھی تھے۔ چونکہ سید امتیاز الدین دفتر میں کام کاج کے ساتھ ساتھ ادارے ہی کے اردو گو ملازمین کے ترجمان ذیلی تنظیم "بزمِ اردو" سے جڑے رہے اور اس کی چند مطبوعات / رسائل کے منظر عام میں لانے میں پیش پیش رہے، وظیفہ یابی کے بعد اقبال اکیڈمی حیدرآباد سے جڑنے کے لیے ظہیر الدین نے انھیں ترغیب دی۔ اس طرح سے امتیاز الدین کا اردو ادب کے لیے ایک باقاعدہ سفر کا آغاز ہوا۔
اقبال اکیڈمی، حیدرآباد
ترمیماقبال اکیڈمی، حیدرآباد سے جڑنے کے بعد سید امتیاز الدین ادارے کے معتمد بنے اور اقبالیات پر کئی لیکچرز پیش کیے جو آج بھی یوٹیوب [1] [2] پر اور کئی آڈیو سی ڈی کی شکل میں دست یاب ہیں۔ اکیڈمی کے ترجمان شش ماہی جریدے اقبال ریویو کے کئی شماروں کے وہ مدیر بھی رہے۔ [3]
تالیفی کام اور میدان صحافت سے وابستگی
ترمیمسید امتیاز الدین پدم شری مجتبی حسین کے ہم عصر رہے جو اپنے دور کے نامور مزاح نگار گذرے۔ فکر اقبال اور اردو سے والہانہ رغبت کی وجہ سے وہ ان سے وابستہ ہو گئے اور ان کی چار کتابوں کے مؤلف بنے جو اس طرح تھیں: آٌپ کی تعریف (خاکے)[4]، کالم میں انتخاب (منتخب کالم)[5] ، مہرباں کیسے کیسے (خاکے)[6] اور کالم برداشتہ (کالموں کا انتخاب)[7]۔
اسی کے ساتھ ساتھ اور روزنامہ سیاست کے مدیر زاہد علی خان کے ربط میں آئے جس کی وجہ سے انھیں اولًا "میرا کالم" لکھنے کا موقع ملا جس کے تحت وقتًا فوقتًا وہ حالات حاضرہ اور عوامی مسائل کا فکر انگیز مگر کچھ طنز و مزاح کے ساتھ تجزیہ کرتے تھے۔[8]
اس کے ساتھ ہی بعد میں انھیں ایک اور صحافتی منصوبہ ملا جس کے تحت وہ سابق نوابی ریاست حیدرآباد سے وابستہ کئی شخصیات کا انٹرویو لیے تھے۔ یہ سیریز کا نام "حیدرآباد جو کل تھا" رکھا گیا اور اس کے تحت امتیاز الدین نے متعدد زعمائے شہر کا دیرینہ شہر کے اپنے تاثرات پر مبنی انٹرویو لیا تھا اور نمایاں تبدیلیوں کو اجاگر کیا۔[9] [10]
شعر و شاعری
ترمیمسید امتیاز الدین اگر چیکہ اپنے سے بڑے بھائی شاذ تمکنت کی طرح شاعری کی دنیا میں ہمہ تن وابستہ نہیں ہوئے تھے، تاہم وہ کئی جان پہچان کے لوگوں کی شادی پر سہرا لکھا کرتے تھے۔ یہ نیک تمناؤں پر مبنی شاعری کا رواج جو کسی دور میں شہر میں بہت عام ہو چکا تھا، تاہم شہر سے اردو زبان کی باضابطگی سے تعلیم کے فقدان کی وجہ سے اب عملًا ختم ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ کئی اہم واقعات پر امتیاز الدین نظمیں لکھ چکے ہیں۔ مثلًًا 1990ء میں صدام حسین کی زیر قیادت عراق کی جانب سے کویت پر جارحآنہ قبضے اور اس کے جواب میں جارج ایچ ڈبلیو بش کی زیر قیادت ریاستہائے متحدہ کی جانب سے جنگ خلیج کے پس منظر میں انھوں نے ایک خیالی منظر کشی کے تحت نظم لکھی جس میں جارج بش نہ صرف اردو داں ظاہر کیا گیا ہے، بلکہ وہ مرزا غالب کا مداح بھی ہے۔ مگر چونکہ بش جنگی صورت حال سے پریشان ہے، اس لیے وہ غالب کے اشعار کو حالات حاضرہ کے مطابق ڈھال کر ایک مزاحیہ کلام پیش کر رہا ہے۔ اس طرح سے سید امتیاز الدین نے غالب کے کلام میں ایک منفرد انداز میں تضمین کا نمونہ پیش کیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے اپنے بھائی شاذ تمکنت کے سانحۂ ارتحال پر اور بھارت کے وزرائے اعظم اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے سیاسی قُتُول کے مواقع پر بھی اپنے خیالات کو شعری انداز میں پیش کیا۔ بھارت کی پہلی خاتون خلاء باز کلپنا چاولہ کے 2003ء میں خلائی حادثے میں ہلاک ہونے پر اپنے رنج کا اظہار کرنے کے لیے بھی انھوں نے اپنی شعری صلاحیتوں کا سہارا لیا تھا۔
عمومی مضامین
ترمیمسید امتیازالدین کئی شخصیات پر سوانحی مضامین لکھ چکے ہیں۔ ان میں پنجابی قلم کار خاتون امرتا پریتم [11] اور مزاحیہ شاعر حمایت اللہ[12] وغیرہ شامل ہیں۔
ادبی تنقید
ترمیمسید امتیاز الدین حیدرآباد سے شائع ماہنامے سب رس میں مختلف کتابوں کا جائزہ لے کر ان کا تنقیدی تجزیہ کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اردو دنیا، آج کل اردو اور کئی رسائل کے لیے قلم کبھی نہ کبھی قلم اٹھا چکے ہیں۔
آٹو گراف کا شوق
ترمیمسید امتیاز الدین کو مشاہیر کے آٹو گراف جمع کرنے کا شوق تھا۔ اس کی وجہ سے وہ کئی مشاہیر کے آٹو گراف جمع کر چکے تھے، جن میں پنڈت جواہر لعل نہرو، نیلز بوہر، یاسر عرفات، کپل دیو، عبد السلام، وغیرہ شامل ہیں۔[13]
انتقال
ترمیم25 اپریل، 2023ء کو سید امتیاز الدین کا انتقال ہو گیا۔ ان کی تدفین تکیہ عنداللہ شاہ قبرستان میں ہوئی جہاں 2019ء میں ان کی رفیقہ حیات کی بھی تدفین عمل میں آئی تھی۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.youtube.com/watch?v=rDoIcNb2B_s
- ↑ https://www.youtube.com/watch?v=z_Qt7_k9ks0
- ↑ https://www.rekhta.org/ebooks/detail/iqbal-review-hyderabad-shumara-number-001-syed-imtiyazuddin-magazines-4?lang=ur
- ↑ https://www.rekhta.org/ebooks/detail/aap-ki-tareef-mujtaba-husain-ebooks?lang=ur
- ↑ https://www.rekhta.org/ebooks/detail/column-mein-intikhab-mujtaba-husain-ebooks?lang=ur
- ↑ http://samt.bazmeurdu.net/article/%D9%85%D8%AC%D8%AA%D8%A8%DB%8C%D9%B0-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D8%A7%DA%A9%DB%81-%D9%86%DA%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2%DB%81-%DB%94%DB%94%DB%94/
- ↑ https://www.rekhta.org/ebooks/detail/column-bardashta-mujtaba-husain-ebooks?lang=ur
- ↑ https://archive.urdu.siasat.com/news/%d8%ad%db%8c%d8%af%d8%b1%d8%a2%d8%a8%d8%a7%d8%af-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%ad%db%8c%d8%af%d8%b1%d8%a2%d8%a8%d8%a7%d8%af%db%8c-808022/
- ↑ https://archive.urdu.siasat.com/news/%D8%AD%DB%8C%D8%AF%D8%B1%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D8%AC%D9%88-%DA%A9%D9%84-%D8%AA%DA%BE%D8%A7-660515/
- ↑ https://archive.urdu.siasat.com/news/%D8%AD%DB%8C%D8%AF%D8%B1%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D8%AC%D9%88-%DA%A9%D9%84-%D8%AA%DA%BE%D8%A7-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%AF%D8%A7%D8%A4%D8%AF-%D8%A7%D8%B4%D8%B1%D9%81-731148/
- ↑ http://samt.bazmeurdu.net/article/%D8%A7%D9%85%D9%90%D8%B1%D8%AA%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%AA%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%DB%8C%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D9%85%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%B2-%D8%A7%D9%84%D8%AF-2/
- ↑ https://archive.urdu.siasat.com/news/%D8%AD%D9%85%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%DA%A9%DB%8C-%DB%8C%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-874467/
- ↑ https://www.mpositive.in/tag/autograph-collector-syed-imtiazuddin/