نظام الدین اسیر ادروی

بھارتی مسلمان مؤرخ
(اسیر ادروی سے رجوع مکرر)

نظام الدین اسیر ادروی (معروف بہ: اسیر ادروی) (1926ء – 20 مئی 2021ء)؛ ایک بھارتی سیرت نگار، مصنف، مؤرخ، دیوبندی مکتب فکر کے عالم اور اردو زبان کے مصنف تھے۔ انھوں نے ادری میں مدرسہ "دار السلام" قائم کیا اور 1974ء سے 1978ء تک لکھنؤ میں جمعیت علمائے ہند کے آفیسر سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔

نظام الدین اسیر ادروی

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1926ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ادری، ضلع مئو، یوپی، برطانوی دور حکومت
وفات 20 مئی 2021ء (94–95 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اداری   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
عملی زندگی
ادبی تحریک دیوبندی
مادر علمی جامعہ مفتاح العلوم مئو، مدرسہ شاہی، مرادآباد
استاذ محمد میاں دیوبندی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سوانح نگار ،  مورخ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں تاریخِ جمعیت علمائے ہند، تاریخِ آزادی اور مسلمان، کاروانِ رفتہ
باب ادب

سوانحِ زندگی

ترمیم

اسیر ادروی 1926ء میں ادری، مئو ( اس وقت کے برطانوی ہند کے متحدہ صوبہ) کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے۔[1] ابتدائی تعلیم کے لیے مدرسہ فیض الغرباء ادری میں داخل ہوئے اور پھر جامعہ مفتاح العلوم کا رخ کیا اور حبیب الرحمن اعظمی، ظہیر الحق نشاط سیمابی اور مولانا عبد اللطیف نعمانی کی نگرانی میں تعلیم حاصل کی۔[1] پھر اسیر ادروی احیاء العلوم مبارکپور گئے اور وہاں شکر اللہ مبارکپوری، بشیر احمد مظاہری، محمد عمر مظاہری اور مفتی محمد یاسین سے کسب فیض کیا۔ پھر آپ دار العلوم مئو چلے گئے، جہاں آپ نے مشکاۃ المصابیح مولانا عبد الرشید الحسینی اور تفسیر جلالین قاری ریاست علی سے پڑھی۔[1] اسیر ادروی دارالعلوم دیوبند میں داخلہ نہیں لے پائے جس کی وجہ سے ان کو جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی کا رخ کرنا پڑا اور وہیں سے 1942ء دورہ حدیث کی تکمیل کی۔[2][3] آپ نے صحیح بخاری مولانا سید فخر الدین احمد، صحیح مسلم مولانا اسماعیل سنبھلی اور ترمذی مولانا محمد میاں دیوبندی سے پڑھی۔[4]

اسیر ادروی نے بھارت چھوڑ دو تحریک میں حصہ لیا[2] وہ 1948ء تک انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ رہے، پھر کانگریس سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔[4]انھوں نے 1954ء میں ادری مئو میں مدرسہ دار السلام کی بنیاد ڈالی اور وہاں آپ نے تقریباً سولہ سال تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔[1]اور 1974ء سے 1978ء تک لکھنؤ میں جمعیت علمائے ہند ، اتر پردیش کے آفس سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں انھوں نے 4 فروری 1978ء سے عرصۂ دراز تک جامعہ اسلامیہ، ریوڑی تالاب بنارس میں تدریسی خدمات انجام دیے۔[4][5] ادروی نے اپنی اکثر تصانیف؛ بنارس کے دورِ قیام ہی میں لکھے۔[1]

اسیر سہ ماہی ”ترجمان الاسلام“ کے مدیر بھی رہے اور جس کے لیے بے شمار مضامین بھی لکھے ۔ وہ ”ہفت روزہ الجمعیت“ اور ”روزنامہ الجمعیت“ کے کالم نگار و مضمون نگار بھی رہے ہیں۔[6] وہ اپنی مختصر کہانیوں کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے کئی افسانے بھی لکھے، جن میں ”اتنا“ ، ”دو لاشیں“ ، ”نشیب و فراز“ اور ”اعترافِ شکست“ شامل ہیں۔[4] ان کے افسانے جیسے ”ہینڈ بیگ“ اور ”اسپتال“ ”نوائے پاکستان ، لاہور“ میں شائع ہوئے۔[4] ”کامیاب ، دہلی“ اور دارالعلوم دیوبند کے ماہنامہ ”رسالہ دار العلوم“ میں بھی آپ کی شراکتیں رہی ہیں۔[4] دار العلوم دیوبند کی تاریخ سے متعلق؛ اسیر ادروی کی کئی تصانیف کو بھی ماخذی و مصدری حیثیت حاصل ہے۔[2]

اسیر ادروی کا انتقال 20 مئی 2021ء کو ادری، مئو میں ہوا۔[1][7] مولانا ارشد مدنی نے بھی ان کے انتقال پر غم کا اظہار کیا۔[3] امارت شرعیہ کے ناظم ثناء الہدی قاسمی نے بھی اسیر ادروی کے انتقال پر گہرے صدمہ کا اظہار کیا۔

قلمی خدمات

ترمیم

اسیر ادروی نے محمد قاسم نانوتوی، محمود حسن دیوبندی، امام الدین پنجابی، رحمت اللہ کیرانوی، رشید احمد گنگوہی اور حسین احمد مدنی وغیرہ کی سوانحات لکھی ہیں۔[6] ان کی معروف تصانیف درج ذیل ہیں:[1][8]

  • افکارِ عالم
  • دبستانِ دیوبند کی علمی خدمات
  • دار العلوم دیوبند: احیائے اسلام کی عظیم تحریک
  • فنِ اسماء الرجال
  • مآثر شیخ الاسلام
  • تفسیر میں اسرائیلی روایات
  • تحریکِ آزادی اور مسلمان
  • تاریخِ جمعیت علمائے ہند
  • تاریخِ طَبری کا تحقیقی جائزہ
  • اردو شرح دیوانِ متنبی

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج سید انعام الحسن (21 مئی 2021)۔ "مولانا اسیر ادروی: ایک تعارف"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-21
  2. ^ ا ب پ نایاب حسن۔ "مولانا نظام الدین اسیر ادروی:اسیرِ علم و قلم"۔ قندیل آنلائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-20
  3. ^ ا ب "مولانا نظام الدین اسیر ادروی کا انتقال ناقابلِ تلافی خسارہ:مولانا ارشدمدنی"۔ قندیل آنلائن۔ 20 مئی 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-20
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث عاقب انجم عافی۔ "مولانا نظام الدین اسیر ادروی، حیات اور کارنامے"۔ ہندوستان اردو ٹائمز.کام۔ 2020-10-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-09-20
  5. اسیر ادروی۔ داستانِ ناتمام (نومبر 2009 ایڈیشن)۔ کتب خانہ حسینیہ، دیوبند۔ ص 13,21–28,331
  6. ^ ا ب "اردو کے فروغ میں علمائے دیوبند کا 150 سالہ کردار"۔ فکر انقلاب۔ آل انڈیا تنظیم علمائے حق۔ ج 5 شمارہ 112: 533۔ جنوری 2017
  7. "مشہور مؤرخ اور درجنوں کتابوں کے مصنف مولانا اسیر ادروی نہیں رہے"۔ بصیرت آنلائن۔ 20 مئی 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-20
  8. "مولانا نظام الدین اسیر ادروی کی تصانیف"۔ viaf.org۔ مجازی عالمی فائل مقتدرہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-05-27