شہرستان سوادکوہ
شہرستان سوادکوہ صوبہ مازندران کے شہرستانوں میں سے ایک ہے کہ ایران کے شمال میں البرز مرکزی اور صوبہ سمنان کے پڑوس میں ہے۔ شہرستان سوادکوہ شمال میں شہرستان قائمشہر، جنوب میں صوبہ تہران کے شہرستان فیروزکوہ اور صوبہ سمنان کے شہرستان مہدیشہر، مغرب میں شہرستان بابل اور مشرق کی طرف سے شہرستان ساری اور مرتفع دودانگہ اور تحصیل چاشم، شہرستان مہدیشہر تک پھیلا ہوا ہے۔ سال 1395، (2016ء) کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی 43,913 نفوس اور 14,956 خاندانون پر مشتمل ہے۔ اس کا رقبہ 2078 مربع کلومیٹر ہے۔ اور رقبے کے اعتبار سے 9/32 نفوس فی مربع کلومیٹر پر آباد ہیں۔
شهرستان سوادکوه | |
---|---|
شہرستان ایران | |
سرکاری نام | |
Location of Savadkuh County in Mazandaran Province Location of Savadkuh County in Mazandaran Province | |
ملک | ایران |
صوبہ | صوبہ مازندران |
دارالحکومت | Zirab |
بخش (Districts) | Central District، Shirgah District |
رقبہ | |
• کل | 2,078.00 کلومیٹر2 (802.32 میل مربع) |
آبادی (2006) | |
• کل | 66,430 |
• کثافت | 32/کلومیٹر2 (83/میل مربع) |
منطقۂ وقت | ایران معیاری وقت (UTC+3:30) |
• گرما (گرمائی وقت) | ایران معیاری وقت (UTC+4:30) |
شہرستان سوادکوہ can be found at GEOnet Names Server, at this link, by opening the Advanced Search box, entering "9207257" in the "Unique Feature Id" form, and clicking on "Search Database". |
پہلوی خاندان کے بانی رضا شاہ پہلوی کی جائے پیدائش ساوادکھوح ہے۔
تاریخ اور وجہ تسمیہ
ترمیمسوادکوہ تاریخ کے مختلف ادوار میں طبیعی، اقتصادی اور سیاسی عوامل کی وجہ سے اپنی حدود بدلتا رہا ہے۔ تاریخی اسناد و مکتوبات اور آثار قدیمہ کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ طبرستان اور ایران کے قدیم نواحات میں سے ہے اور اس کی سماجی اور ثقافتی جڑیں اساطیر ایران کے عہد سے جا ملتی ہیں۔ یہ علاقہ طبرستان کی تاریخ کی سمت کا تعین کرنے کے لیے شروع سے مرکزی حکام کی توجہ کا حامل رہا ہے۔ ابن اسفندیار جیسے مؤرخوں نے اسے دسویں صدی ہجری سے پہلے تک ریاست فرشوادگر میں واقع تپورستان کا حصہ بتایا ہے۔ یہ ریاست مشرق میں جرجان تک، مغرب میں آذربائیجان اور جنوب میں رے، قومیس اور دامغان کے نواحات تک پھیلی ہوئی تھی۔
ریاست فرشوادگر جس کا یونانی مؤرخ استرابون، ابن اسفندیار، میر ظہیرالدین مرعشی کے آثار اور کتاب اوستا میں ذکر ملتا ہے، یہاں کی علاقائی زبان تبری (یا مازنی، مازرونی، گلکی) کے الفاظ فرش اور واد سے مل کر بنا ہے، فرش کا مطلب جنگل یا میدان ہے جبکہ واد کا معنی پہاڑ اور سمندر بتایا جاتا ہے۔ دوسرے تاریخی مآخذوں مثلاً التدوین میں لکھا ہے کہ سوادکوہ کا پرانا نام پتشخوارگر اور پتشخرگر ہے۔ بہت سے امرا اور سورمے اس جگہ پیدا ہوئے۔ پیشدادی بادشاہ فریدون نے یہاں آ کر سکونت اختیار کی، شاہنامۂ فردوسی کے دیوان مازندران میں مذکور رستم پہلوان کا مشہور دنگل اسی جگہ ہوا اور آخری ہخامنشی بادشاہ داریوش سوم سے جنگ کے لیے آتے ہوئے سکندر مقدونی کا گذر بھی یہاں سے ہوا۔ شاہنامۂ فردوسی اور زرتشتی مذہب کی مقدس کتاب اوستا میں آیا ہے کہ سوادکوہ متمدن لوگوں کا وطن تھا جو دیوسنائی مذہب کے پیروکار تھے۔ اس زمانے سے یادگار کئی الفاظ -مثلاً دیوا، دی، دوآزرک اور دا- اب بھی یہاں کے لوگوں کی زبان میں مستعمل ہیں۔ ابتدائی عیسوی صدیوں اور ساسانی بادشاہت کے وسطی زمانوں میں یہاں متھرا مت اور خاور پرستی کے آثار ملتے ہیں۔ آخری ساسانی بادشاہ یزدگر سوم کے زمانے میں سوادکوہ کا علاقہ بادشاہ بلاش کو مل گیا اور اس نے فرشواد جر شاہ کا لقب اختیار کیا۔
یہاں کے طبیعی حالات کی وجہ سے یہاں کے لوگ عرب فوج کی آمد کے بعد بھی ایک مدت تک اموی خلفاء کے خلاف مزاحم رہے اور یہاں تک کہ چوتھی صدی ہجری کے زمانے تک اس جگہ زبان پہلوی گفتگو کا ذریعہ رہی اور خط پہلوی میں لکھا پڑھا جاتا رہا۔ خط پہلوی ساسانی کا ایک کتبہ جو برج لاجیم کی پرانی بنیادوں سے ملا ہے، پانچویں صدی ہجری سے تعلق رکھتا ہے۔ بہت سے مؤرخین کا خیال ہے کہ چونکہ سوادکوہ کا ایک معنی کالا پہاڑ بھی ہے اور یہاں کی پرانے پیڑوں سے ڈھکی دشوار گزار مرتفع پہاڑیاں ایک عرصے تک عربوں کے لیے ایک ڈراؤنی جگہ بنی رہی اور اس جگہ کا نام سوادکوہ یعنی کالا پربت پڑ گیا۔
عباسی خلیفہ مامون کے زمانے میں جنگجو سردار مازیار کو جر شاہ یعنی پہاڑوں کے بادشاہ کا لقب ملا۔ آپارسن کے پہاڑوں کے اس حصے کا نام اوستا مقدس میں پامیری یسنا آیا ہے اور اس وجہ سے بھی اس جگہ کو سوادکوہ کہتے ہیں۔
تاریخی اسناد و مکتوبات جیسا کہ کتاب التدوین میں اسی جگہ کو فرشواد کے نام سے پکارا گیا ہے۔ مختلف تاریخی زمانوں میں اس جگہ کا نام فرشوادگر، پرشخوارگر، پتشخوارگر، پرخواتروس، فرشوادجر، پذشخوارگر وغیرہ بھی رہا ہے۔
اسی کتاب مین ذکر ملتا ہے کہ چھٹے پیشدادی بادشاہ فریدون کے زمانے تک سوادکوہ اقطار مازندران کا حصہ تھا اور فریدون بادشاہ یہاں کے علاقہ شیلاب یا تیلاب میں پلا بڑھا۔ کتاب اوستا میں یہ بھی آیا ہے کہ فرشوادگر بحیرۂ فرا فکرت کے جنوب میں ہے اور دیوان مازنی کا پایتخت ہے۔
اس علاقے کا نام ہند ایرانی لفظ سو، زؤ، دؤ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب اجالا ہے۔ اس سے ملتے جلتے الفاظ اب بھی یہاں کے مختلف لہجوں میں پائے جاتے ہیں۔ لفظ 'سات' بھی مازندران میں اجلے اور اجالے کے معنوں میں برتا جاتا ہے۔ یہاں کے مختلف دیہاتوں کے نام سات، روآر، مرتع سوتہ، رودخانہ ذبیر اور زیرآبو میں سؤ رؤیا آب روشن وغیرہ سے اسی قدیم لفظ کی جھلک ملتی ہے۔
اب بھی یہاں کے لوگ درختوں سے خالی پہاڑی علاقے کو ساکو کہتے ہیں جو سات کوہ یا کوہ صاف کا مخفف ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ سوادکوہ کا نام کوہ سوات سے نکلا ہے جو تحصیل ولوپی کے ایک جنوب مشرقی گاؤں چرات میں واقع ہے۔ یہاں پر سوادکوہ کے حاکموں سے منسوب قدیم تمدن کے آثار بھی ملتے ہیں۔
کچھ محققین کا خیال ہے کہ اس جگہ کا نام فرشوادکوہ سے بدل کر سوادکوہ ہوا ہے۔ دوسری کچھ تاریخی اسناد میں اس جگہ کا نام سواتہ کوہ اور کولاچی بھی ملتا ہے۔
ایک صدی پہلے تک یہاں کے لوگوں کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر مویشی پالنا تھا اور لوگ خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے اور ان لوگوں کی باقیات میں سے اب بھی کئی لوگ اس علاقے کے دور افتاد گوشوں میں ویسی ہی سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ تاہم ریل کی پٹڑی بچھنے اور پہاڑی کوئلے کے ذخائر کی دریافت اور اس کوئلے کی ریل کے ذریعے تہران تک آسان ترسیل کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئی ہے۔ یہاں کے کافی باشندے اب مزدوری اور کان کنی کے پیشوں سے وابستہ ہیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم
|
|