صادق محمد خان اول
نواب صادق محمد خان اول (وفات 1746ء) ریاست بہاولپور کے بانی اور پہلے نواب تھے۔ نواب نے ریاست کی بنیاد 1723ء میں رکھی۔ نواب کو ابتدا میں بہت مشکلات برداشت کرنی پڑی۔ نادر شاہ درانی سے آپ کو نواب کا خطاب ملا تھا۔
صادق محمد خان اول | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
نواب ریاست بہاولپور (1 ) | |||||||
برسر عہدہ 1723 – 11 اپریل 1746 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
تاریخ وفات | سنہ 1746ء | ||||||
شہریت | برطانوی ہند | ||||||
درستی - ترمیم |
سلسلہ نسب
ترمیمنواب آف بہاولپور عباس بن عبد المطلب کے خاندان سے ہیں اس لیے عباسی مشہور ہیں۔ ان کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے
- صادق محمد خان اول بن نواب مبارک خان اول بن بہادر خان دوم بن فیروز یا پیروج خان بن امیر محمد خان دوم بن بھکھر خان دوم بن بہادر خان بن بھکھر خان بن ہیبت خان بن امیر صالح خان بن امیر چندر خان بن داؤد خان دوم بن بن محمد خان بن محمود خان بن داؤد خان بن امیر چنی خان بن بہاءاللہ عرف بھلا خان بن امیر فتح اللہ خان بن سکندر خان بن عبد القدر یا قاہر خان بن امیر اِبان خان بن سلطان احمد ثانی بن شاہ مزمل بن شاہ عقیل بن سلطان سہیل بن سلطان یاسین بن احمد المستنصر باللہ الثانی بن الظاہر بامر اللہ بن الناصر لدین اللہ بن ابو محمد الحسن المستضی بامر اللہ بن المستنجد باللہ بن المقتفی لامر اللہ بن المستظہر باللہ بن المقتدی بامر اللہ بن القائم بامر اللہ بن القادر باللہ بن المقتدر باللہ بن المعتضد باللہ بن الموفق باللہ بن المتوکل علی اللہ بن المعتصم باللہ بن ہارون الرشید بن المہدی باللہ بن ابو جعفر المنصور بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبد المطلب۔ [1]
تخت نشینی
ترمیمنواب مبارک خان اول نے 1723ء میں اپنے بیٹے صادق محمد خان اول کے حق میں دست بردار ہو گئے۔ صادق محمد خان اول کی تخت نشینی کے موقع پر ایک ضیافت کا اہتمام کر کے تمام عباسیوں کو بلایا گیا۔
نور محمد کلہوڑا کے حملے
ترمیمنور محمد کلہوڑا نے صادق محمد خان اول کی تخت نشینی کے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا اور تقریبا 60000 گھوڑ سوار اور پیدل فوج جمع کر کے لاڑکانہ کی طرف کوچ کیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ اچانک حملہ کر کے شکار پور کو فتح کر لے گا۔ جب نور محمد کلہوڑا نے اپنے مقابلے میں عباسیوں کی تیاریوں کی اطلاع ملی تو اراده ترک کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد اچانک شکار پور کی طرف گیا اور چھ ماہ تک اسے محاصرے میں لیے رکھا۔ اس محاصرے کو ختم کرنے کے نتیجے میں ایک معاہدے طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت محصورین نے شکار پور و خان پور کے نصف محصولات نور محمد کلہوڑا کے نام منتقل کرنے پر رضامندی دے دی اور صلح ہو جانے پرمحاصرہ ختم کر دیا گیا۔ چھ ماہ بعد نور محمد کلہوڑا نے فتح خان کلہوڑا کو ایک بڑی فوج دے کر شکارپور کی طرف روانہ کیا۔ لشکر نے شکارپور پہنچ کر قلعے کو گھیرے میں لے لیا۔ معاصرے کے نتیجے میں جھڑپیں ہوتی رہی جس میں دونوں طرف کے متعدد افراد مارے گئے۔ فتح خان کلہوڑا بالآخر محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے اور لشکر لے کر واپس چلے گئے۔ نور محمد کلہوڑا کو اپنی شکست پر چین نہیں آیا اور صرف نو ماہ بعد ایک مرتبہ پھر اپنے بھائی محمد خان کلہوڑا کو ایک مضبوط فوج د ے کر روانہ کیا تا کہ شکارپور کو فتح کیا جا سکے۔ اس بار عباسی داؤد پوتروں نے شکارپور سے باہر نکل کر بہادری سے لڑے۔ داؤد پوتروں کی بہادری نے محمد خان کلہوڑا کے لشکر کو شکست دے دی۔ ان شکستوں نے نور محمد کلہوڑا بے چین کر دیا اس لیے اس نے اپنی تمام فوج کو خدا آباد میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ 1139ھ بمطابق 1726ء میں نور محمد کلہوڑا نے بہت بڑی فوج لے کر پانچویں مرتبہ بذات خود شکار پور پر چڑھائی کی۔ اس حملہ سے کچھ عرصہ قبل نواب مبارک خان اول فوت ہو گیا تھا۔ نواب صادق محمد خان اول نے دشمن کی وسیح افواج کے سامنے خود کو لا چار پایا اس لیے اس نے مقابلہ کرنے کی بجائے شکار پور کو چھوڑ دیا اور خان پور قلعے میں چلا گیا۔ نواب نے اس قلعہ کو بہت زیادہ مضبوط بنایا تھا اس لیے اس قلعہ میں رہائش رکھی۔ دوسری طرف نور محمد کلہوڑا جس نے شکاپور کو حاصل کرنے کے لیے چار حملے کیے لیکن کچھ نہ بنا اور اب کسی مدافعت کا سامنا کیے بغیر شکار پور میں داخل ہو گیا۔ نور محمد کلہوڑا خود شکار پور میں ٹھہر گیا اور ایک دستہ امیر صادق محمد خان اول کے تعاقب میں بھیجا۔ امیر صادق نے اتنی بڑی فوج کا مقابلہ کرنا غیر دانشمندانہ سمجھتے ہوئے خان پور خالی کر دیا اور اپنے قبیلے کے ہمراہ بیت ڈیلی میں چلا گیا (جواب ضلع ڈیرہ غازی خان میں ہے ) جو دریائے سندھ میں ایک زرخیز جزیرہ تھا۔ کلہوڑا سردار کی جانب سے ایک دستہ اس کے تعاقب میں بھیجا گیا لیکن اس نے شدید نقصان اٹھایا۔ اس دستے کے بہت سے سپاہی دریا کی نذر ہو گئے اور چند ایک ہی بچ کر خدا آباد پہنچ پائے۔
ریاست بہاولپور کی ابتدا
ترمیمامیر صادق محمد خان اول نے اُچ کے بخاری اور گیلانی مخدوموں کی دعوت پر بیت ڈیلی کو خیر باد کہا اور اچ آ گیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد 1141ھ بمطابق 1728ء میں اسے ملتان کے صوبہ دار نواب حیات اللہ سے چودھری کا علاقہ جاگیر میں ملا۔ وہ اس علاقے میں بہت سی بہتریاں لایا اور الہ آباد ( چودھری قصے سے تین میل دور ) کی بنیاد رکھی جو اب ایک امیر اور گنجان شہر ہے۔
نواب کا خطاب
ترمیم1142ھ بمطابق 1733ء میں نادر شاہ نے بنگش راستے سے ڈیرہ جات پر حملہ کیا اور تمام قبائل اس کے سامنے اظہار اطاعت کرتے گئے۔ امیر صادق محمد خان اول ڈیرہ غازی خان میں نادر شاہ سے ملنے گیا۔ نادر شاہ نے امیر صادق محمد خان کو نواب کا خطاب عطا کیا۔ جب نادر شاہ نے سندھ پر حملہ کیا تو خدا یار خان کلہوڑا گزرات کی طرف بھاگ گیا۔ بالآخر خدا یار خان کو عمرکوٹ میں گرفتار کر کے قیدی بنا لیا گیا۔ 20 ذو الحجہ 1142ھ بمطابق 1733ء کو رہا کر دیا۔
سندھ کی تقسیم
ترمیمنادر شاہ نے سندھ سے واپس جانے سے پہلے سندھ کے مختلف علاقے خدا یار کلہوڑا، نواب صادق محمد خان اول اور محبت خان کو عطا کیے۔
- خدا یار خان کلہوڑا کو ٹھٹھہ، سندھ کے دیگر علاقے اور محل عطا کیے اور ساتھ میں شاہ قلی خان کا خطاب عطا کیا۔
- نواب صادق محمد خان اول کو شکار پور، پرگنہ لاڑکانہ، سیوستان، چھتر مع چودھری اور دراوڑ وغیرہ کے علاقے عطا کیے اور ساتھ نادر شاہ نے آپ کو نواب کا خطاب پہلے سے عطا کر دیا تھا۔
- محبت خان کو سندھ کا بلوچستان سے ملحقہ مغربی علاقہ عطا کیا۔
ریاست میں وسعت
ترمیم1145ھ بمطابق 1732ء میں حیات اللہ خان کے اصرار پر اس نے فرید خان لکھویرا پر حملہ کیا جو آس پاس کے علاقے میں لوٹ مچا رہا تھا۔ امیر صادق محمد خان اول اور فرید خان لکھویرا کے درمیان لڑائی ہوئی جس میں فرید خان لکھویرا کو شکست ہوئی۔ امیر صادق خان اول کو اس فتح میں انعام کے طور پر شہر فرید کی حکومت مل گئی۔ 1146ھ بمطابق 1733ء میں نواب صادق محمد خان اول نے قلعہ دراوڑ بھی راول اکھی سنگھ سے چھین لیا۔
نواب کا قتل
ترمیمنادر شاہ کو سندھ سے واپس گئے ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ خدا یار خان کلہوڑا نے سوچا کہ وہ دور دراز علاقوں کی تسخیر میں مصروف ہے لہذا شکار پور پر حملہ کر دیا جائے۔ خدا یار خان نے ایک بڑے لشکر لے کر شکار پور کا رخ کیا۔ 10 ربیع الاول 1159ھ بمطابق 1746 کو اس کا محاصرہ کر لیا۔ خدا یار کلہوڑا اور نواب صادق محمد خان اول کے لشکر میں کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں نواب کا قتل ہو گیا اور نواب کے لشکر کو شکست ہوئی ساتھ میں شکارپور بھی ہاتھ سے نکل گیا تھا۔
اولاد
ترمیمنواب صادق محمد خان اول نے اپنے پیچھے تین بیٹے چھوڑے
- صاحبزادہ محمد بہاول خان اول
- صاحبزادہ مبارک خان دوم
- صاحبزادہ جعفر خان [2]