عبد الرحمن بن ابو بکر
عبد الرحمن بن ابو بكر رضی اللہ عنہ(27ق.ھ / 53ھ) عبد اللہ بن ابو قحافہ کے بیٹے تھے۔آپ کا نام عبد مناف تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نام عبد الرحمن رکھ دیا۔آپ کے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خاندان کے لوگوں نے ابتدا ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا لیکن آپ اپنے سابقہ مذہب پر قائم رہے اور فتح مکہ سے پہلے صلح حدیبیہ کے نزدیک اسلام قبول کیا۔اس کے بعد آپ نے ہجرت بھی کی اور ہجرت کے بعد آپ اپنے والد اور خاندان کے ساتھ رہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد جتنے غزوات آئے سب میں سب میں شانۂ بشانہ لڑتے رہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جنگ یمامہ میں شرکت کی۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگوں میں شریک ہوئے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کی خلافت کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد جب یزید تخت پر بیٹھا آپ نے اس کی بیعت نہیں کی۔ آپ مدینہ چھوڑ کر مکہ چلے آئے مکہ میں سنہ 53ھ میں آپ نے وفات پائی ۔
عبد الرحمن بن ابو بکر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مکہ |
تاریخ وفات | سنہ 675ء |
زوجہ | قريبہ بنت ابی اميہ امیمہ بنت عدی |
اولاد | ابو عتیق محمد بن عبد الرحمن ، حفصہ بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکر |
والد | ابوبکر صدیق |
والدہ | فاطمہ بنت زید |
بہن/بھائی | محمد بن ابی بکر ، عبد اللہ بن ابو بکر ، طفیل بن عبد اللہ الازدی ، عائشہ بنت ابوبکر ، اسماء بنت ابی بکر ، ام کلثوم بنت ابو بکر |
عملی زندگی | |
پیشہ | سائنس دان |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمعبد الرحمن نام ، ابو عبد اللہ کنیت ، اسلام لانے سے پہلے نام عبد العزیٰ تھا خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے، والدہ کا نام ام رومان تھا، ام المومنین حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور یہ دونوں حقیقی بھائی بہن تھے۔
ابتدائی حالات
ترمیمحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تمام خاندان ابتداہی میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوا، لیکن عبد الرحمن اس سے مستثنیٰ تھے، وہ عرصہ تک اپنے قدیم مذہب کے حامی رہے، غزوۂ بدر میں مشرکین قریش کے ساتھ تھے، اثنائے جنگ میں انھوں نے آگے بڑھ کر"ھل من مبارز" کا نعرہ لگایا، تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا، انھوں نے خود بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا، لیکن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اجازت نہ دی[1] غزوۂ اُحد میں بھی وہ مشرکین مکہ کے ساتھ تھے۔فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا اور ہجرت بھی کی۔
اسلام
ترمیمعبد الرحمن صلح حدیبیہ کے موقع پر ایمان لائے اور مدینہ پہنچ کر اپنے والد کے ساتھ رہنے لگے، ابوبکر کے گھر کے تمام کام اور ذاتی کاروبار زیادہ تر یہی انجام دیتے تھے۔تھے اور نہایت اطاعت شعاری کے ساتھ ان کے غیظ وغضب کو برداشت کرتے تھے، ایک مرتبہ شب کے وقت چند اصحابؓ صفہ حضرت ابوبکرؓ صدیق کے یہاں مہمان تھے، انھوں نے حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر صدیق ؓ کو ہدایت فرمائی کہ: "میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جاتا ہوں تم میرے واپس آنے سے پہلے ان کی مہمان نوازی سے فارغ ہو جانا " حضرت عبد الرحمنؓ نے حسب ہدایت وقت پر مہمانوں کے سامنے محاضر پیش کیا ؛لیکن انھوں نے صاحب خانہ کی غیر موجودگی میں کھانے سے انکار کر دیا، اتفاق سے حضرت ابوبکر صدیقؓ بہت دیر کے بعد تشریف لائے اور یہ معلوم کرکے کہ مہمان اب تک بھوکے بیٹھے ہیں ، حضرت عبد الرحمنؓ پر نہایت برہم ہوئے اور گالی دے کر کہا"خدا کی قسم!اس کو کھانے میں شریک نہیں کروں گا" حضرت عبد الرحمن ؓ ڈر سے مکان کے ایک گوشہ میں چھپ رہے تھے ، وہ کسی قدر جرأت کرکے سامنے آئے اور بولے، آپ مہمانوں سے پوچھ لیجئے کہ میں نے کھانے کے لیے اصرار کیا تھا، انھوں نے تصدیق کی اور کہا، واللہ! جب تک آپ عبد الرحمن کو نہ کھلائیں گے ہم لوگ بھی نہ کھائیں گے، غرض اسی طرح ان کا غصہ ختم ہوا اور دسترخوان بچھایا گیا، حضرت عبد الرحمن ؓ فرماتے ہیں کہ اس روز کھانے میں اس قدر برکت ہوئی کہ ہم لوگ کھاتے جاتے تھے، لیکن وہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ میں اس میں سے کچھ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھی لے کر حاضر ہوا جس کو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے بہت سے اصحاب نے تناول فرمایا۔ [2] [3][4]
غزوات
ترمیمحضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فطرۃ نہایت شجاع و بہادر تھے، خصوصاً تیر اندازی میں کمال رکھتے تھے، واقعہ حدیبیہ کے بعد عہدِ نبوت میں جس قدر معرکے پیش آئے وہ ان میں سے اکثر میں جانبازی و پامردی کے ساتھ سرگرمِ کار زار تھے۔ [5]
جنگ یمامہ
ترمیمجنگ یمامہ کی خونریز جنگ میں عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی تیراندازی کا غیر معمولی کمال دکھایا ، انھوں نے اس جنگ میں دشمن کے ساتھ بڑے جانباز افسروں کو نشانہ بنا کر واصلِ جہنم کیا۔ قلعہ یمامہ کی دیوار ایک جگہ سے شق ہو گئی تھی ، مسلمان اسی راستہ سے اندر گھسنا چاہتے تھے، لیکن دشمن کا ایک سردار محکم بن طفیل نہایت جانبازی کے ساتھ اس جگہ اڑا ہوا تھا عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تاک کر اس کے سینہ پر ایک ایسا تیر مارا کہ وہیں تڑپ کر ڈھیر ہو گیا اور مسلمان اس کے ساتھیوں کو لیتے ہوئے اندر گھس گئے۔[6]
یزید کی بیعت سے انکار
ترمیمحضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید کی جانشینی کے لیے اپنی زندگی ہی میں کوشش شروع کردی تھی، ایک دفعہ ان کے ایما سے مروان بن حکم والی مدینہ نے مسجد نبوی ﷺ میں لوگوں کو جمع کرکے یزید بن معاویہ کے لیے بیعت لینا چاہا، اس وقت جن لوگوں نے اس کی مخالفت میں صدا بلند کی ان میں ایک حضرت عبد الرحمنؓ بن ابی بکر بھی تھے، انھوں نے مروان سے غضب آلود لہجہ میں کہا، کیا تم لوگ خلافت کو موروثی بادشاہت بنادینا چاہتے ہو، مروان نے برہم ہوکر کہا، صاحبو! یہ وہی ہے جس کی نسبت قرآن میں آیا ہے، والذی قال لوالدیہ اف لکما (یعنی والدین کی اطاعت نہ کرنے پر خدانے ان کی مذمت کی ہے) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرہ میں یہ گفتگو سن رہی تھی ، وہ غضبناک ہوکر بے اختیار بول اٹھیں ، نہیں ! واللہ نہیں !! عبد الرحمنؓ کے متعلق نہیں ہے، اگر چاہو تو میں اس کا نام لے سکتی ہوں جس کی نسبت یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ [7] امیر معاویہ ؓ کو حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر ؓ کی مخالفت کا حال معلوم ہوا تو انھوں نے ان کو خوش کرنے کے لیے ان کے پاس ایک لاکھ درہم کے توڑے بھیج دیے، لیکن حضرت عبد الرحمن بن ابوؓبکر نے غایت بے نیازی کے ساتھ واپس کر دیا اور فرمایا "واللہ ! میں دین کو دنیا کے عوض فروخت نہیں کرسکتا " [8]
وفات
ترمیمحضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ اس واقعہ کے بعد مدینہ چھوڑ کر مکہ چلے آئے اور شہر سے تقریبا 10 میل کے فاصلہ پر "حبشی" نام ایک مکان میں اقامت پزیر ہوئے ، یہاں تک کہ 53ھ میں ایک روز ناگہانی طور پر گوشہ عزلت میں واصل بحق ہوئے، بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے سے ان کو اپنی صحت کے متعلق کسی قسم کی کوئی شکایت نہ تھی، وفات کے دن حسب معمول سوئے مگر ایسی نیند سوئے کہ پھر نہ اُٹھ سکے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دل میں اس ناگہانی حادثہ کے باعث شبہ ہوا کہ کسی نے زہر وغیرہ دے کر مارڈالا، لیکن کچھ دنوں کے بعد ایک عورت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئی، بظاہر توانا و تنددرست تھی ، ایک مرتبہ سجدہ کیا اور ایسا سجدہ کیا پھر اس سے سرنہ اُٹھایا، اس واقعہ کے بعد سے ان کا شک جاتا رہا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ان کے انتقال کی خبر ملی تو وہ حج کی نیت سے مکہ آئیں اور بھائی کی قبر پر کھڑی ہو کر بے اختیار روئیں، اس وقت ان کی زبان پر یہ اشعار تھے:
- وکنا لندمانی جذیمۃ حقبۃ من الدھر حتی قیل لن یتصدعا
- فلما تفرقنا کانی ومالکا لطول اجتماع لم بنت لیلۃ معا
پھر مرحوم بھائی کہ روح سے مخاطب ہو کر بولیں ، بخدا، اگر میں تمھاری وفات کے وقت موجود ہوتی تو اس قدر نہ روتی اور تم کو اسی جگہ دفن کرتی جہاں تم نے وفات پائی تھی۔[9][10] [11]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ۔(مستدرک حاکم:3/4
- ↑ (بخاری :2/906)
- ↑ رجال حول الرسول لخالد محمد خالد بيروت : دار الفكر ص 662 - 666.
- ↑ عبد الرحمن بن أبي بكر، موقع قصة الإسلام. آرکائیو شدہ 2016-12-26 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ Hadrat 'Umar Faroo By prof. Masud-ul-Hassan Published by AshfaqMmirza, MD, Islamic Publications Ltd 13-E, Shah Alam Market, Lahore, Pakistan Published by Syed Afzal-ul-Haqq Quddusi, Quddusi Printers, Nasir Park, Bilal Gunj, Lahore, Pakistan
- ↑ اصابہ:1/168
- ↑ (اسد الغابہ جلد 3،یہ واقعہ بخاری میں بھی مذکور ہے )
- ↑ (استیعاب :2/405)
- ↑ مستدرک حاکم :2/476
- ↑ مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد5صفحہ319نعیمی کتب خانہ گجرات
- ↑ Siddiq-e-Akbar Hazrat Abu Bakr by prof. Masud ul Hassan Printed and Published by A. Salam, Ferozsons Ltd 60, Shahrah-e-Quaid-e-Azam, Lahore, Pakistan OCLC 3478821