عبد الطیف زرگر شوق نیپالی
حاجی عبد الطیف زرگر تخلص شوق ؔ نیپالی کی پیدائش 1938ء[1] میں ملک نیپال کی بھارت سے جڑی سرحد پر واقع نیپالی شہر نیپال گنج [1] میں ہوئی تھی۔ آپ ملک نیپال میں اردو ادب کے بڑے ناموں میں سے ایک ہیں۔
حاجی عبد الطیف زرگر شوقؔ نیپالی | |
---|---|
[[File:|200px|alt=]] | |
پیدائش | عبد الطیف زرگر 1938ء شہر نیپال گنج ضلع بانکے نیپال |
رہائش | عیدگاہ روڈ شہر نیپال گنج ضلع بانکے نیپال |
اسمائے دیگر | عبد الطیف شوقؔ نیپالی |
پیشہ | ادب سے وابستگی، تجارت |
وجہِ شہرت | شاعری |
مذہب | اسلام |
حالات
ترمیمشوق ؔ نیپالی کے والد کا نام قربان علی اور والد ہ کا نام آمنہ [1] تھا۔ شوقؔ نیپالی اپنی کتاب سسکنے کی صدا میں لکھتے ہیں کہ میں چوتھی جماعت میں تھا، 1950ء بہ مطابق 2006 بکرمی سموت (نیپالی سال) کا زمانہ تھا کہ والد کی طبیعت اچانک زیادہ خراب ہو گئی ،وہ مجھے لے کر بہرائچ چلے گئے طبیعت طول کھینچ لے گئی تو مرا داخلہ امیر ماہ پرائمری اسکول نزد سید امیرماہ بہرائچی میں کرا دیا گیا ،داخلہ تیسری جماعت میں ہوا دو سال سے کچھ زیادہ گذرا تھا میں چوتھی جماعت پاس کر چکا تھا کہ والد صاحب کا من بدل گیا انھوں نے پڑھائی سے اٹھا کر کام سیکھنے کے لیے محترم جگناتھ جی کے پاس بٹھا دیا وہاں مجھے وقت لگ گیا والد صاحب ٹھیک ہو ئے تو گھر آ گئے۔ میں 1959 بمطابق بکرمی سموت میں ہی نیپال گنج آیا والد پر قرض کا بوجھ زیادہ تھا انھیں کا ساتھ دینا پڑا۔
ادبی خدمات
ترمیمشوقؔ نیپالی اپنی کتاب سسکنے کی صدا میں لکھتے ہیں کہ میری ملاقات عارف صاحب سے ہوئی انھو ں نے کہا یہاں اردو کے لیے کیا کیا جائے اس کی بہت ضرورت ہے ،مگر میں والد کے قرض کی وجہ سے مجبور تھا ،مگر 1951ء میں میں نے ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا میرے ’’الف‘‘ ’’ب‘‘ کے استاد سمیت 7 آدمیوں کی ایک تنظیم بزم ادب کے نام دوبارہ بن گئی ،بزم ادب ایک بار بن کر ٹوٹ چکی تھی ،مگر جب دوسری بار ہم لوگوں نے بنائی تو خوب چلی یہاں تک 1971ء مطابق 2027 بکرمی سموت(نیپالی سال) میں واصف القادری نانپاروی سے ملاقات ہو گئی ،شاعری کے بہت سے فن سیکھنے کو ملے ۔[1] 1977ء مطابق2033 بکرمی سموت(نیپالی سال) میں کچھ آپس میں ان بن ہو گئی ہماری ادب الگ ہو گئی دوسری ادب کا نام گلزار ادب رکھا گیا مجھے ادب کا صدر بنا دیا گیا اور میں اس کا ایک خادم ہو گیا جو ہو سکا میں آج تک کرتا رہا ۔ اصل پوچھا جائے تو فروغ ادب کے شوق نے ہمیں 1961ء میں شاعر بنا دیا تھا مگر 1971ء سے پہلے تک جب تک استاد محترم واصف القادری صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی کوئی تک بندی سے آگے نہیں جانتا تھا ،اصل شاعری جو جن کے علم میں آئی جس نے جیسی محنت کی وہ محترم سے حاصل کر لی انھیں سے دو لفظ جوڑ لینا میں نے بھی جانا ،علم کی کمی ہمیشہ ستاتی رہی استاد محترم کے ہر حکم کو مان کر بجا لانا اپنی ذمہ داری سمجھتا رہا۔[1] شوقؔ نیپالی اپنی کتاب سسکنے کی صدا میں لکھتے ہیں کہ شروع شروع میں میں یہ سوچ کر لگا تھا کہ علم تو ہے نہیں فروغ ادب کے نام پر کچھ شاعروں کی مدد کر سکوں کچھ مشاعرے کراسکوں تو زہے نصیب مگر وقت نے مجھے بھی شاعروں کی صف میں لاکر کھڑا کر دیا،اہل وطن میں میری محبتیں بڑھتی گئیں مشاعرے ہونے لگے، شہرتیں بڑھتی گئیں ،سب سے آخر ی بڑے حاکم نے بھی میری بہت مدد کی عزت دی اور پہلے انچلا دھیس جو ایک اچھے شاعر بھی تھے انھوں نے بہت ہی سہارے دیے انھیں کے زمانے سے راجا کا جنم دن رانی کا جنم دن سمبد ھان دیوس اور پرتھوی جینتی ضلع پنچایت سے ہمیں ملنے لگی تو راج تنتر تک ملتی رہی،ملک میں بھی مشاعرے ان گنت ہوئے۔[1]
ادبی شخصیات سے رابطہ
ترمیمشوقؔ نیپالی کا ادبی سفر تقریبًا 50 سالوں پر مشتمل ہیں۔ اس دوران آپ کے ملک نیپال کے علاوہ ہندوستان کے ادیبوں سے بھی آپ کے گہرے تعلق رہے جس کی ایک وجہ سے آپ بھارت میں ہونے والے ادبی مشاعروں میں شرکت کرتے رہتے تھے۔ آپ کو شرف تلمذ بھارت کے ضلع بہرائچ کے مشہور استاد شاعر واصف القادری نانپاروی سے حاصل تھا۔[1]
شوقؔ نیپالی اپنی کتاب سسکنے کی صدا میں لکھتے ہیں کہ میرے بیرون ملک کے بہت سے ساتھی ہوئے ملاقات تو ان لوگوں سے بھی ہوئی جن کا پیشہ شاعری نہیں تھا مگر میں ان لوگوں کی بات کرتا ہوں جن کا کام صرف شاعری تھا اور اچھے شاعر مانے جاتے تھے جیسے محمد امین خیالی ؔ صاحب،وصفی ؔ بہرائچی حاجی شفیع اللہ شفیع ؔ بہرائچی،حاجی لطیفؔ بہرائچی ،اظہار وارثی ،عبرت بہرائچی ،اطہر رحمانی بہرائچی، بابا جمال بہرائچی، صابر بہرائچی، سید خالد محمود، حبیب مکرانی بہرائچی ،ڈاکٹر خبیر نانپاروی، مجبور نانپاروی، شفا نانپاروی، طارق ربانی نانپاروی، شارق ربانی ،انقلاب نانپاروی، سعید نانپاروی، غوث نانپاروی، فنا نانپاروی[1] وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ اندرون ملک کے شاعر ساتھی کے بارے میں شوقؔ نیپالی اپنی کتاب سسکنے کی صدا[1] میں لکھتے ہیں کہ ہمارا ملک نیپال اردو کے معاملے میں ہمیشہ کمزور ثابت ہوا حالانکہ اردو کا جنم ہمارے پڑوس بھارت میں ہوا اور اس کو زیادہ چاہنے والے بھی ہوئے اور یہ زبان دنیا میں بہت دور تک پہنچی بھی ،بھارت کا پڑوسی جانے کیسے فائدہ اٹھانے سے رہ گیا یہی سوچ کر ہم جیسے نا اہل لوگ اس میں لگے کہ اردو کو ہم لوگ اپنے ملک میں زندہ کریں،میں ان کا ممنون ہوں کہ جیسے محترم پرکاش راجا پوری، زاہد آزاد جھنڈے نگری، ڈاکٹر وصی مکرانی ،امیر اللہ غور، معظم صاحب کاٹھمنڈوی ثاقب ہارونی کاٹھمنڈوی، امتیاز خان، وفاکاٹھمنڈوی وغیرہ سے ملاقات ہوئی میں ان کا ممنون بھی ہوں مشکور بھی ۔
گلزارِ ادب اور بزم ادب
ترمیممیرے ادب کے ساتھی بھی کم نہیں ہوئے ،غور صاحب، عارف صاحب، آرزو صاحب عادل صاحب، ادیب صاحب ،انجم صاحب اور یہ ناچیز جنھوں نے دوسری بار بزم ادب کی بنیاد رکھی واصف صاحب، انور صاحب ،اسلم صاحب، خمار صاحب، اثر بہرائچی ،ساقی صاحب،عاجز صاحب یہ سات آدمی ادب میں بزم ادب بن جانے کے بعد آئے مگر خاص رکن بن گئے، استاد محترم کو الگ رکھا گیا۔ 1977ء مطابق 2033 بکرمی سموت(نیپالی سال) میں جب ادب الگ ہو کر دوسری بنی تو گلزار ادب کی بنیاد استاد محترم غور صاحب ،ناچیز، عادل صاحب راہی صاحب، انجم صاحب ،عاجز صاحب ،اثر صاحب ،انور صاحب اور استاد سمیت 9؍ آدمی ایک طرف ہو گئے ساقی صاحب دونوں ادب سے الگ ہو گئے آرزو صاحب پھر گلزار ادب میں آ گئے باقی لوگ ایک طرف ہو گئے۔ جب گلزار ادب بنی تو سب سے اچھے شاعر جناب خیالی صاحب، مولانا شریف صاحب ،مولاناامیر اللہ صاحب ،ساحل صاحب ،حیات صاحب، جاوید صاحب، کیف صاحب، شوکت صاحب، احسن صاحب۔ جمیل ہاشمی صاحب، قیوم صاحب ،سحر صاحب، ساحر صاحب،اسماعیل صاحب جیسے ان گنت لوگ گلزار ادب میں بڑھے ،ایسے ہی بزم ادب میں زیادہ تو نہیں ہاں نثار صاحب ہاشمی جن کا نام سرور ہاشمی صاحب جیسے کچھ لوگ بڑھے مولانا نور عالم صاحب دونوں سے الگ رہ کر بھی شریک ہوتے رہے۔ اور دو سال بعد وہ زمانہ بھی آ گیا جب سب ایک ساتھ ہو کر پڑھنے لگے، مگر بعد میں دونوں ہی ادبیں قائم رہیں۔ آج 2017ء میں ادب کے ساتھی ہیں صرف مولانا خیالی صاحب، مولانا نور عالم صاحب، اشفاق رسول ہاشمی صاحب، مصطفے ٰ احسن صاحب، جمیل ہاشمی صاحب، یوسف عارف صاحب، معراج صاحب وغیرہ۔[1] میرے وہ ساتھی جو نیپالی زبان کے علاوہ اردو صرف سمجھتے تھے شعر نہیں کہہ سکتے تھے مگر میرے بہترین ساتھی تھے ،ہمارے ادب کے لیے فائدے مند تھے۔ غیر اردو ساتھی بہت ہیں مگر چند حضرات کے نام جو ہر طرح کے مددگار تھے انکا ذکر ضروری ہے کیونکہ میری نسبت ان سے ہمیشہ رہی جیسے محترم پیٹر صاحب 2052 کے آس پاس ان سے میری ملاقات ہوئی ان کی ایک ادب تھی پریاس سموہ جس میں مجھے ان گنت بار بلایا گیا میں بھی ادب کا ایک سدسیہ ہو گیا پھر نارائن گیرے سر نے ایک ادب بھیری ساہت سماج بنا لی مجھے بھی عزت دی گئی کہ میں نائب صدر ہو گیا ،وہی ادب شری ہری پرشاد تمل سینا کے ہاتھ میں آئی تو بھی میں نائب صدر ہی رہا ،آج مجبوری کی وجہ سے صلاح کار ہوں ۔[1] انھیں ادبوں کی وجہ سے میری تمام نیپالی شعرا میں جان پہچان بن گئی میں ملک میں جانا جانے لگا۔
تصانیف
ترمیم’’مہکے زخم ‘‘ جو اردو نیپالی غزلوں میں ہے مگر دیوناگری میں ہے۔
- متاعِ شوق یہ صرف اردو تحریر میں ہے۔
- لفظوں کے موتییہ اردو اور دیو ناگری دونوں میں ہے۔
- سسکنے کی صدا یہ اردو اور دیو ناگری دونوں میں ہے۔
انعامات
ترمیمآپ کو کئی انعامات سے نوازا گیا ہے جو اس طرح ہے ۔[1]
- نیپال پرگیہ ایوارڈز برائے مادری زبان اردو [2]
- اردو اکیڈمی نیپال کاٹھمنڈو
- بھیری ساہت سماج نیپال گنج
- نیپال یوتھ گلف بینک
- علی میاں لوک وانگ مے پرتشٹھان
- پرتبھا ساہت سماج
- اودھی سانسکرتک پرتشٹھان
- تری مورتی نکیشن
- اودھی سانسکرتک وکاس کیندر
- سدر پسچمانچل غزل منچ
- مدھیہ پسچمانچل غزل پرتشٹھان نیپال گنج
- مدھیہ پسچمانچل غزل پرتشٹھان سرکھیت
- تمل سینا وانگ مئے پرتشٹھان
نمونہ کلام
ترمیم1.
پھر سنور کر تو جو آیا کچھ تو ہے | اس خزاں میں پھول کھلنا کچھ تو ہے | |
چن رہا ہے آشیانہ کوئی پھر | بجلیاں کا یہ تڑپنا کچھ تو ہے | |
کوئی دامن سے ہوا دیتا ہے کیا | پھر بھڑک اٹھا ہے شعلہ کچھ تو ہے | |
چڑھتی دریا اور بھری برسات ہے | جل رہا ہے کوئی تنہا کچھ تو ہے | |
شوقؔ صاحب امتحاں مانا نہیں | مشکلوں میں بھی ہنسنا کچھ تو ہے |
2.
ہزاروں کی سنی تو نے تو مری بھی ذرا سن لے | کبھی تو بھی مرے دل کی سسکنے کی صدا سن لے | |
سنی ہو گی بہت سی داستانیں بے وفائی کی | رلا دے خوں جو آنکھوں کو وہ آواز وفا سن لے | |
مرا جی جان تو ہی ہے مرا سکھ چین تو ہی ہے | سنی اپنی جو تعریف تو تھوڑا سا گلہ سن لے | |
تو جاکے غیر کی محفل میں سب سنتا سنتا ہے | کبھی مری طلب سن لے کبھی مری دعا سن لے | |
کہاں ہے شوقؔدوور تجھ سے اپنی پارسائی کا | بھلا ہوں تو بھلا سن لے برا ہوں تو برا سن لے |