سید امیرماہ بہرائچی
سید سالار مسعود غازی علیہ الرحمہ کے نام نامی کی وجہ سے کون ہے جو بہرائچ کے نام سے واقف نہیں۔ تاریخ کے ہردور میں بہرائچ کا تذکرہ ملتا ہے۔ مہاتما بدھ کے زمانہ کے آثار کی گواہی آج بھی ضلع کے کچھ کھنڈر سے ملتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور سلطان محمود غزنوی کے حملوں کے بعد بہرائچکا نام تاریخ کے اوراق کی زینت بنتا ہے۔ سید سالار مسعود غازی ؒ اپنی فوجی طاقت کے ساتھ شمالی ہندوستان کی سیاسی طاقتوں سے مورچہ لیتے بہرائچ تک آکر گھر جاتے ہیں۔ یہاں قوم بھڑ کے راجاؤں نے متحد ہو کر ان سے جنگ کی اور 424 ھ مطابق 1033ء میں 14 ؍ماہ رجب روز یکشنبہ کو آپ یہاں شہید ہو گئے۔ آپ کا مزار بھی بعد کو یہاں بنا اور میلا بھی لگتا ہے۔ اسی زمانے سے بہرائچ کی شہرت برابر قائم ہے۔ محمد شاہ تغلق اور فیروز شاہ تغلق دونوں آپ کے مزار پر حاضر ی دینے آئے۔ فیروز شاہ تغلق کی آمد کے موقع پر سید امیر ماہ نامی بزرگ کا نام آتاہے ،اس نے انھی بزرگ کی معیت میں سید سالارمسعود غازیؒ کے مزار پر حاضری دی تھی۔ سید امیر ماہؒ کے روحانی اثرات سے متاثر ہوا تھا اور اس کی زندگی میں بعض تبدیلیاں ہوئی تھیں، فیروز شاہ کی آمد اور سید امیر ماہ صاحبؒ کی ملاقات کے متعلق تاریخ فیروز شاہی کی شہادت ہے کہ: ’’بسیار صحبت نیک دگرم برآمد‘‘ کتابوں کے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ سید امیر ماہؒ کے زمانے میں آپ کو سب نے خراج عقیدت پیش کیا ہے، اس دور کے جیتنے صوفی بزرگ ہیں سب نے کسی نہ کسی انداز میں آپ کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ملفوظات میں آپ کا نام نامی موجود ہے۔# آپ کا پورا نام سید افضل الدین ابو جعفر امیرؒ ماہ 1 بہرائچی ہے،فیروز شاہی عہد 752ھ 1351ء تا 790 ھ 1388ء کے مشہور بزرگ ہیں۔ تاریخ فیروز شاہی میں آپ کا تذکرہ ہے۔# حضرت شیخ شرف الدین یحیی منیریؒ (متوفی 782ھ) بہار کے مشہور صوفی بزرگ کے ملفوظات میں بھی آپ کا مختصر ذکر ہے۔# حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانیؒ (متوفی 808ھ )کے ملفوظات لطائف اشرفی وغیرہ میں جس کو ان کے مرید وخلیفہ شیخ نظام الدین غریب یمنی نے جمع کیاہے،آپ کا ذکر ان الفاظ میں ہے : ’’از سادات بہرائچ سید ابوجعفر امیر ماہ را دیدہ بودم ‘‘ بہرائچ کے سادات میں سے سید ابو جعفر امیر ماہ کو میں نے دیکھا ہے۔# حضرت امیر سید علی ہمدانی (متوفی 787ھ) کشمیرکے سب سے پہلے صوفی اور صاحب تصنیف اور مشہور بزرگ ہیں۔ اپنی کتاب عمدۃ المطالب میں ہندوستان کے اُن بارہ صحیح النسب خاندانوں کا حال لکھا ہے جو ولایت سے ہندوستان آئے، ان میں بھی سید امیر ماہؒ کا نام نامی ہے ۔# تاریخ فرشتہ نے فیروز شاہ کے سفر بہرائچ کے تذکرہ میں امیر ماہؒ کا تذکرہ کیا ہے، فیروز شاہ آپ کی بزرگی سے متاثر ہو کر آپ ہی کے ساتھ سید سالار مسعود غازیؒ کے مزار پر حاضر ہواتھا۔ راستہ میں سید صاحب سے حضرت سید سالار مسعود غازیؒ کی بزرگی وکرامات کے واقعات پوچھنے لگا۔ آپ نے فرمایا کہ’’ یہی کرامت کیا کم ہے کہ آپ کا ایسا بادشاہ اور میراایسا فقیر دونوں ان کی دربانی کر رہے ہیں ‘‘اس جواب پر بادشاہ جس کے دل میں عشق کی چاشنی تھی بہت محظوظ ہوا۔ # تاریخ فیروز شاہی کے سلسلے میں پروفیسر خلیق احمد نظامی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) اپنی کتاب ’’سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’میر سید امیر ماہ بہرائچ کے مشہور و معروف مشائخ طریقت میں تھے۔ سید علاء الدین المعروف بہ علی جاوری سے بیعت تھی۔ وحدت الوجود کے مختلف مسائل پر رسالہ المطلوب فی العشق المحبوب لکھا تھا فیروز شاہ جب بہرائچ گیا تھا توان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا اور ’’بسیار صحبت نیک دگرم برآمد‘‘۔ فیروز شاہ کے ذہن میں مزار (حضرت سید سالار مسعود غازیؒ ) سے متعلق کچھ شبہات بھی تھے ،جن کو سید امیر ماہ نے رفع کیا۔ عبد الرحمن چشتی (مصنف مرأۃ الاسرار) کا بیان ہے کہ اس ملاقات کے بعد فیروز شاہ کا دل دنیا کی طرف سے سرد پڑ گیا تھا اور اس نے باقی عمر یاد الٰہی میں کاٹ دی۔ یہ بیان مبالغہ آمیز ضرور ہے، لیکن غلط نہیں ،بہرائچ کے سفر کے بعد فیروز پر مذہب کاغلبہ ہو گیا تھا ۔# مصنف آئینہ اودھ نے حضرت سید احمد والد ماجد مولانا خواجگی ؒ کے ذکر کے سلسلے میں حضرت سید علی ہمدانی کی دوسری کتاب منبع الانساب سے یہ عبارت نقل کی ہے کہ’’حضرت میر سید مخدوم مولانا خواجگی صاحب کہ قبر او در کٹرہ است بسیار بزرگ و صاحب کمال از خلفائے میر سید علاء الدین جے پوری اند حضرت ابو جعفر امیر ماہ بہرائچی وحضرت مخدوم مذکور ہم تاش خواجہ بودند۔ ایں ہر دو بزرگان وخلیفہ کامل حضرت میر سید علاء الدین جے پوری اند‘‘ میر سید علاء الدینؒ کو مصنف بحر الانساب حضرت سید علی ہمدانی نے امام عالم، عالِم متدین قطب السادات فی وقتہٖ، استاذ الارادات اور سید السادات کے الفاظ سے یاد کیا ہے، آپ سلسلہ سہروردیہ کے مشہور رہنما ہیں۔ مصنف مرأۃالاسرار مولوی عبد الرحمن چشتی نے جو حضرت سید سالار مسعود غازیؒ کی روح پر فتوح سے فیضیاب ہوئے تھے اور عرصے تک بہرائچ میں مقیم رہے تھے اسی عقیدت میں مرأۃ مسعودی لکھی ہے،مرأۃ مداری بھی آپ کی تصنیف ہے، مرأۃ الاسرار میں مکتوبات حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانیؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ’’میر سید اشرف جہا نگیر سمنانی اپنے ایک مکتوب 32 میں (جس میں سادات بہرائچ کا تذکرہ ہے) لکھتے ہیں ’’سادات خطۂ بہرائچ کا نسب بہت مشہور ہے ،سادات بہرائچ میں سید ابو جعفر امیر ماہ کو میں نے دیکھا ہے ،وادی تفاوت میں بے نظیر تھے، سید شہید مسعود غازی کے مزار کی حاضری کے موقع پر میں اور سید ابو جعفر امیر ماہ اور حضرت خضر علیہ السلام ساتھ ساتھ تھے ان کی مشیخت کے اکثر حالات کے لیے میں نے حضرت خضر علیہ السلام کی روح سے استفادہ کیا ہے، سید امیر ماہ کا مزار زیارت گاہ خلق ہے‘‘۔ مرأۃ الاسرار کے بیسویں طبقہ میں میر سید علاء الدین کنتوری کے حالات کے بعد حضرت سید امیر ماہ رحمۃ اللہ علیہ کے نام کی علیٰحد ہ سرخی قائم کر کے تفصیل سے حالات لکھے ہیں: ’’عارف پیشوائے یقین‘‘، ’’مقتدائے وقت‘‘، ’’کاملان روزگار‘‘، بزرگانِ صاحب اسرار‘‘ کے القاب سے تذکرہ شروع کیا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’شانے عظیم وکراماتے وافر وحالے قوی وہمتے بلند داشت ‘‘ ’’صاحب عالی مقام بود ،عالمے از نعمت او فیض مند گشت‘‘ آپ کا زمانہ حضرت نصیر الدین محمود ؒ ’’چراغ دہلی‘‘ (متوفی 757ھ )کے زمانے سے لے کر حضرت میر سید اشرف جہانگیر ؒ (متوفی 808ھ )تک ہے۔ خزینۃ الاصفیاء کے مصنف مفتی غلام سرور لاہوری نے بھی معارج الولایت کے حوالے سے حالات لکھتے ہیں۔ تاریخ آئینہ اودھ کے مصنف مولانا شاہ ابو الحسن قطبی والحسامی مانکپوری نے افسران کمشنری کے ساتھ اپنی ملازمت کے دوران سفر کیا ،خود1875ء میں بہرائچ آئے اور یہاں کے لوگوں سے مل کر تحقیقات کر کے ایک پورے باب میں اس کی تفصیلات لکھی ہیں۔ اس کو ہم نقل کرتے ہیں ۔
سید افضل الدین ابو جعفر امیر ماہ بہرائچی | |
---|---|
آستانہ امیرماہ بہرائچی | |
پیدائش | بہرائچاتر پردیش ہندوستان |
وفات | 14جون 1371ء مطابق 29 ذو القعدہ 772 ھ ہفتہ کے دن |
اسمائے دیگر | سیدامیر ماہ بہرائچی |
وجہِ شہرت | سلسلہ سہروردیہ کے مشہور بزرگ |
مذہب | اسلام |
اولاد | (1) حضرت سعید ماہ عرف چاند ماہ (2) حضرت تاج ماہ۔ |
مضامین بسلسلہ |
سلسلۂ سہروردیہ
ترمیم’’ہلاکو خان کے ہنگامۂ بغداد سے پریشان ہو کر 657ھ مطابق 1258ء میں سید حسام الدین جد سید افضل الدین ابو جعفر امیر ماہ بہرائچی بغداد شریف سے جلا وطن ہو کر براہ غزنی لاہور آئے، بعد قیام چند ے لاہور سے دہلی آئے، اس وقت بادشاہ دہلی سلطان غیاث الدین بلبن تھا، اس نے آناآپ کا باعث یُمن سمجھ کر وظیفہ مقرر کر دیا ،743ھ میں جب محمد شاہ تغلق نے دہلی کو ویران کر کے دیو گڑھ دولت آباد دکن لیجانا چاہا اس وقت سید نظام الدین والد ماجد حضرت کے وہاں نہ گئے ور جانب اودھ متو جہ ہوئے 744ھ میں سواد مقام بہرائچ پسند مزاج ہوا اور طرح اقامت ڈالی۔ 754ھ مطابق 1353ء میں جب فیروز شاہ تغلق سفر بنگالہ سے وارد بہرائچ ہوا تو سید افضل الدین ابو جعفر امیر ماہ کا معتقد ہو کر چنددیہات واسطے صرف خانقاہ کے عطا ومعاف کیے، ان کے بیٹے سید تاج الدین ان کے سید مسعود ان کے سید احمد اللہ ،ان کے سید محمود ،ان کے سید مبارک، ان کے سید ناصر الدین، ان کے سید نظام الدین ،ان کے سید رکن الدین، ان کے سید علی الدین، ان کے سید غلام حسین، ان کے سید غلام رسول، اس وقت تک سب لوگ محی سنت آبائی کے رہ کر طریقۂ رشد وارشاد جاری رکھتے تھے۔ اور اہتمام اعراس کا کرتے رہے، جب ان کے بیٹے سید غلام حسین ثانی ہوئے، ان کو ویسا فضل وکمال حاصل نہ تھا، وہ طریقہ آبائی رشدو ارشاد ضعیف ہو گیا، ان کے دو پسر غلام محمد وغلام رسول ثانی۔ یہ معاصر تھے، نواب شجاع الدولہ بہادر کے، بعد صلح بکسر 1 کے جب صلح نامہ گورنمنٹ انگلشیہ سے ہوا تونواب ممدوح الذکر نے حکم ضبطی کل معافیات صوبۂ اودھ کا صادر کیا، یہ دونوں بھائی بطمع بحالی معافی بہ تبدیل مذہب آبائی پابند مذہب امامیہ ہو گئے، اس قدر فائدہ تبدیل مذہب سے ہوا کہ نصف معافی بحال اور نصف ضبط ہو گئی ،اس وقت سے بجائے اعراس کے تعزیہ داری کرنے لگے‘‘۔
خاندانی شجرہ کے بعد سید صاحب کے روحانی شجرہ کو جو سہروردیہ تھا پچیس واسطوں سے حضرت علیؓ تک اس طرح لکھا ہے۔ ذکر سید افضل الدین ابو جعفر امیر ماہ بہرائچی۔ یہ مرید وخلیفہ حضرت علاء الدین جے پوری اور وہ حضرت قوام الدین اور وہ اپنے باپ امیر کبیر سید قطب الدین محمد مدنی اور وہ سید نجم الدین کبریٰ اور وہ حضرت عمار یاسر اور وہ حضرت ابو نجیب سہروردی اور وہ شیخ احمد غزالی اور وہ حضرت ابو بکر نسّاج اور وہ ابو القاسم گر گانی اور وہ حضرت ابو عثمان مغربی اور وہ ابو علی کاتب اور وہ حضرت علی رودباری اور وہ حضرت ابو القاسم قشیری اور وہ ابو علی دقاق اور وہ حضرت ابو القاسم نصیرآبادی اور وہ حضرت ابوبکر شبلی اور وہ حضرت جنید بغدادی اور وہ حضرت سری سقطی اور وہ حضرت معروف کرخی اور وہ حضرت علی بن موسی الرضا اور وہ حضرت موسیٰ کاظم اور وہ حضرتامام جعفر صادق اور وہ حضرت امام باقر اور وہ حضرت امام زین العابدین اور وہ حضرت امام حسین اور وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے تھے۔ سلسلہ انساب پدری یہ ہے۔ سید ابو جعفر امیر ماہ بہرائچی بن سید نظام الدین بن سید حسام الدین بن سید فخر الدین ابن سید یحییٰ ابن سید ابو طالب بن سید محمود بن سید حمزہ بن سید حسن بن سید عباس بن سید محمد ابن سید علی بن سید ابو محمد اسماعیل بن حضرت امام جعفر صادق تا حضرت علیؓ۔# مرأۃ الاسرار کے مصنف سید احمد ماہ سے خود ملے تھے، وہ لکھتے ہیں :۔ ’’میر سید احمد رادر سلطنت جہانگیر بادشاہ مکرر دیدہ بودم مردے نیک بود‘‘# بہرائچ کے ایک پرانے خاندان کے معزز فرد ڈاکٹر خطیب صاحب کی ملکیت تاریخ آئینہ اودھ کے حاشیہ پر ایک عبارت لکھی ہوئی ہے، یہ تحریر مولوی حکیم محمد فاروق صاحب ؒ کی ہے جنھوں نے 29؍ شوال 1365ھ (26؍ستمبر 1946ء) روز پنجشنبہ میں انتقال کیا اپنے وقت کے ذی علم ہستی تھے۔ تاریخ آئینہ اودھ کے ص 155 پر میر ماہ صاحب کے حالات میں اس خاندان کے ایک بزرگ مولوی علی الدین صاحب کا تذکرہ آیا ہے، ان کے نام پر مولوی محمد فاروق صاحب نے ذیل کا حاشیہ لکھا ہے۔ ’’یہ حضرت مولانا شاہ نعیم اللہ صاحب (متوفی 1218ھ) کے مرید تھے اور حضرت مظہر جانجاناں سے بہت عقیدت رکھتے تھے، انھی کی فرمائش سے بشارات مظہریہ حضرت نے لکھی ہے، اس میں ان کا ذکر محمد ماہ کے نام سے ہے ،بہت سے شاہی کا غذات میں میں نے جب محمد ماہ صاحب کی مہر دیکھی تو حضرت نانا صاحب سے سوال کیا ،انھوں نے جواب دیا کہ یہ خاندان میر ماہ ہے، سجادہ محمد ماہ کے نام سے موسوم ہوتاتھا اور شہر بھر میں جب تک قاضی کی مہر کے ساتھ ان کی مہر نہ ہوتی تھی وہ کاغذ معتبر نہ سمجھا جاتا تھا۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ ان کے خاندان کے شیعہ ہوجانے سے اہل علم میں بڑا ہیجان پیدا ہوا، اس سے صاحب 1 ازالۃ الغین ا ودھی تعلق رکھتے تھے ،انھوں نے ازالۃ الغین لکھی،اس خاندان کے بہت سے لوگ اودھ میں تھے۔ سید شائق حسین صاحب ماہ کلیم نگروروی نے (جواسی خاندان کے معتبر اور ذی علم فرد ہیں) جو شجرے ہم کو دیکھنے کو عنایت فرمائے، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خاندان کی اچھی خاصی آبادی اودھ (اجودھیا) ضلع فیض آباد میں اب بھی ہے اور اس سے سلسلہ مناکحت برابر قائم ہے،تاج ماہ کا خاندان مشہور ہے۔ مرزا خدادادبیگ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بہرائچ اپنی کتاب ’ترنم خداداددر ذکر مسعود‘‘ (مطبوعہ 1888ء )کے ص 23 پر میر ماہ صاحب کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت کے بھائی سید علاء الدین ماہر و اودھی اجودھیا میں مقیم رہے اور وہاں کے صاحب ولایت ہوئے۔ مصنف آئینہ اودھ لکھتے ہیں ’’طہارتِ نسب میں ان لوگوں کے کچھ شک نہیں وصلت اور مصاہرت ان کی ساتھ سادات جرول کے ہے۔ شاہ تقی حیدر قلندرکا کوکروی اپنی کتاب تذکرۃ الابرار میں ص 115پر لکھتے ہیں کہ میر ماہ صاحب کے خاندان کی ایک صاحبزادی حضرت شاہ مجا قلندر لاہرپوری کے خاندان میں حضرت عبد الرحمنجانباز قلندر کو منسوب تھیں، ان کی دوسری بیوی تھی، حضرت عبد الرحمن جانباز قلندرؒ نے 976ھ میں وصال فرمایا۔
اولاد وامجاد
ترمیماولاد کے سلسلہ میں صرف دو صاحبزادوں کاتذکرہ ملتا ہے ،جن سے خاندان پھیلا۔# حضرت سعید ماہ عرف چاند ماہ (2) حضرت تاج ماہ۔ حضرت سعید ماہ کی اولاد قصبہ نگرور ضلع بہرائچ میں آباد ہے جوبہرائچ سے گونڈہ جانے والی سڑک پر عین اس جگہ واقع ہے جہاں سے بلرام پور کو سڑک جاتی ہے(بہرائچ سے غالباً تیسرے میل پر) حضرت سعید ماہ کی زوجہ اولیٰ مدنی تھیں،ان کے چار بیٹے ہوئے، سید علی ماہ ،سید جان ماہ، سید عالم ماہ ،سید بڑے ماہ۔ سید علی ماہ اور سید جان ماہ کی اولاد نگرور میں آباد ہے، موجودہ زمانہ میں سید شائق حسین صاحب کلیم نگروروی اور سید افتخار حسین صاحب عرف علن میاں اور سید ضرغام حسین صاحب مشہور اور باعزت ہستیاں ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ شیخ صاحبان کی آبادی بھی ہے جو اسی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسرے بیٹے حضرت تاج ماہ کا تذکرہ متعدد کتابوں میں ملتا ہے جن کے نام اوپرلکھے جا چکے ہیں، اب موجودہ زمانے میں سید محمد جعفر عرف جانی میاں (اکبر پورہ) اور سید ناظم جعفری ساکن محلہ ناظر پورہ اس خاندان کے افراد میں ہیں ۔# مرأۃ الاسرار کے مصنف نے بھی میر ماہ کے ایک صاحبزادہ سید تاج ماہ کا تذکرہ کیا ہے جو عمر میں سب سے چھوٹے تھے، لکھتے ہیں: ’’عجب حالے قوی داشت ،دائم الخمر بود بطریق ملامتیہ رفتے وجمال ولایت خود رااز نظر اغیار پوشیدہ داشتے‘‘ اس کے بعد یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ’’کسی زمانہ میں سید امیر ماہ بیمار پڑے تو بیٹے نے والد کی زندگی سے ناامید ہو کر بیماری سلب کر کے اپنے اوپر اوڑھ لی اور ’’جان در مشاہدۂ حق تسلیم کرد‘‘ میر محمد ماہ صاحب کو تو صحت ہو گئی ،مگر غمگین باپ کو لڑکے کی استعداد باطنی کا احساس ہوا اور فکر مند رہنے لگے، اتفاقاً ایک دن ان کی قبر پر گئے تو دیکھا کہ ایک مجاور کی ہتھیلی پر ’’بخط سبز‘‘ یہ شعر لکھا تھا، جب تک وہ زندہ رہا مٹا نہیں۔
” | بگو اے مرغ زیرک حمد مولیٰ
کہ جانِ تاج مہ بر عرش بروند |
“ |
روحانی سلسلہ
ترمیمحضرت کے روحانی سلسلہ کے لیے ہم کو آپ کے چھوٹے بیٹے کے مزید حالات مرأۃالاسرار میں شیخ محمد متوکل کنتوری کے حالات میں ملے ،جو حضرت نصیر الدین محمود اودھی ’’چراغ دہلی‘‘ کے مرید اور خلیفہ تھے،اور بہرائچ میں حضرت امیر ماہؒ سے مستفید ہوئے تھے اور ان کی خانقاہ میں مدتوں چلہ کش رہے،ان کے بیٹے اور خلیفۂ بر حق شیخ سعد اللہ کیسہ دار نے آپ کے ملفوظات جمع کیے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ میر سید امیر ماہؒ بہرائچی اور شیخ محمد متوکل کنتوری میں بڑی محبت اور یگانگت تھی ،ان کی خاطر آپ بہرائچ جاتے تھے اپنے صاحبزادہ شیخ سعد اللہ کیسہ دار کو میر سید امیر ماہؒ کی خدمت میں ارادت کے لیے پیش کیا ،سید صاحب نے فرمایاکہ’’اس لڑکے کی پشت سے ایک لڑکا ہوگا جو میر امر ید ہوگا۔ چنانچہ شیخ سعد اللہ دہلی میں حضرت چراغ دہلی کے مرید ہوئے، ان کے متعلق مرأۃ الاسرار میں آگے چل کر لکھتے ہیں:شیخ سعد اللہ کے صاحبزادہ شیخ عین الدین قتا ل ابن شیخ سعد اللہ کیسہ دار بڑے عالی مقام تھے ،حضرت میر سید امیر ماہ بہرائچی کے مرید تھے، بڑے صاحب استغراق ،نیک نفس اور نفس قاطع کے مالک تھے،اپنے پیر کی خدمت میں رہ کر بڑی ریاضتیں کیں اور تکمیل کے بعد اپنے والد کے پاس کنتور پہنچے ،یہاں اپنے حال کو پردۂ ملامت میں چھپائے رکھا، شراب کا شغل اختیا کیا ۔ شیخ سعد اللہ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو ان کے بڑے بیٹے شیخ معین الدین سلطان ابراہیم شرقی کی طرف سے جنگ پر گئے ہوئے تھے، شیخ سعد اللہ نے فرمایا کہ اسی خراباتی کو لاؤ ،کوئی شخص شیخ عین الدین کو بلانے گیا تو یہ شراب خانے میں بیٹھے آسمان کی طرف منہ کیے کہہ رہے تھے کہ ایک پیالہ میرے نصیب میں اور ہے اور لا، وہ پیالہ پیا اور زمین پر دے مارا، باپ کے پاس پہنچے اور خرقۂ خلافت خواجگان چشت کل امانتوں کے ساتھ آپ کو عنایت ہوا، شیخ عین الدین قتال نے مسند سجادہ پر بیٹھ کر بڑی شہرت پائی ،آپ کا مزار کنتور میں زیارت گاہِ خلق ہے،آپ کی اولاد میں صاحب احوال بزرگ ہوئے ہیں۔ مصنف مرأۃ الاسرار نے مشیخت پناہ شیخ محمد مصطفے ٰ کے متعلق لکھا ہے کہ یکے از فرزندان شیخ عین الدین سے شہاب الدین شاہ جہاں بادشاہ نے فیض حاصل کیا، یہ بابرکت شخص مرتاض، شگفتہ رو اور پسندیدہ اخلاق شخصیت کی مالک تھے،1040ھ میں انتقال کیا۔ حضرت تاج ماہ کا مزار اپنے والد میر سید امیر ماہؒ کے مزار کی چہاردیواری کے باہر شمال جانب ہوجود ہے جس کے متعلق معلوم ہوا کہ عوام میں کسی کو پتہ نہ تھا اور نہ کوئی نشان تھا ،ایک قبر کے سلسلہ میں1933ء میں کھدائی ہونے لگی تو یہ مزار برآمد ہوا ،اس پر ایک بوسیدہ پتھر لگا ہوا تھا وہ پتھر 1947ء تک محفوظ تھا،بد قسمتی سے پڑھے لکھے لوگوں کی بے توجہی اور عوام کی ناواقفیت کی نذر ہو گیا، معتبر عقیدت مندوں کی زبانی معلوم ہوا کہ 1953ء میں ایک عقیدت مند نے قبر پختہ کرا کے نام لکھدیا اور پتھر ضائع کر دیا۔ تاج ماہؒ کی اولاد شہر بہرائچ محلہ اکبر پورہ اور محلہ ناظر پورہ میں آباد ہے۔ مرأۃ الاسرار، تاریخ آئینۂ اودھ اور شاہ نعیم اللہ بہرائچی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے جن جن بزرگوں کے نام سامنے آئے وہ سب سید صاحب کے شجرہ سے ملتے ہیں، یہ شجرہ مصنف آئینۂ اودھ نے تفصیل سے نقل کیا ہے، کتاب کے شروع میں اس کا تذکرہ کیا جاچکا ہے۔# تاریخ آئینۂ اودھ کے مصنف خود بہرائچ آئے ہیں اور فرداً فرداً اس خاندان کے لوگوں سے مل کر حالات قلمبند کیے ہیں، انھوں نے میر سید امیر ماہؒ کی اولاد میں گیارہویں پشت کے حوالہ سے غلام محمد سے چوتھی پشت میں میر سید محمد محسن ومحمد حسن اور اولاد غلام رسول سے خورشید حسن تیسری پشت کا تذکرہ کیا ہے۔ نواب سعادت علی خاں (1210فصلی) کے زمانہ میں ان لوگوں کی نصف معافیاں بھی ضبط ہوگئیں، اب مثل زمینداروں کے ان کی اولاد ہو گئی، وہ خالصہ بھی زیادہ تر بیع ورہن کرڈالا اور جو کچھ دیہات باقی رہے اس کو بخوف سنگینی جمع شامل تعلقہ ایکونہ وپیاگپور کر دیا بالفعل چار چکیں مقصلۂ باقی ہیں ۔# اکبر پورہ (2) متولی پورہ (3) علی پورہ (4) قاضی پورہ۔ 1901ء میں یہ جائداد بھی ریاست نانپارہ میں شامل ہو گئی، 1947ء کی آزادی کے بعد قانون خاتمہ زمینداری نے رہا سہا باقی کا بھی خاتمہ کر دیا۔ معافی زمینداری کے پرانے پروانہ جات کی جوتاریخیں مکرمی سید شایق حسین صاحب کلیم نگروروی نے عطا فرمائی ہیں،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آصف الدولہ نواب وزیر اودھ کے وقت میں بھی کچھ جائداد اس خاندان کو عطا ہوئی، پروانہ جات کی تاریخیں مندرجہ ذیل ہیں:# پروانہ نواب آصف الدولہ (1755ء۔ 1797ء) مورخہ 16؍ ربیع الثانی 1199ھ# پروانہ نواب سعادت علی خاں مورخہ چہاردہم ربیع الثانی 1250ھ # صلح نامہ سلطان بمہر قاضی مورخہ 25؍ محرم 1256ھ (4 حکم نامہ عدالت بمہر قاضی مورخہ 6؍ ربیع الثانی 1256ھ مکرمی کلیم صاحب نگروروی کا کہنا ہے کہ یہ کاغذات عاشق علی صاحب نمبر دار نے ایک مقدمہ کے سلسلہ میں 25؍ مئی 1850ء کو داخل عدالت کر دیے تھے۔
وفات
ترمیم|
مرأۃ الاسرار کے مصنف نے لکھا ہے کہ ان کی تاریخ وفات نظر سے نہیں گذری ،انھوں نے عمر بہت پائی، سید امیر ماہ سلطان فیروز شاہ کے زمانہ میں تھے، سلطان مذکور 752ء میں 45 سال کی عمر میں تخت نشین ہوا میں بہرائچ سلطان الشہداء سید سالار مسعود غازی قدس سرہٗ کے مزار پر حاضری دینے آیا ،اور سید امیر ماہؒ سے فیض حاصل کیا ،ا سی ملاقات کا تذکرہ شمس سراج عفیف کی تاریخ فیروز شاہی میں ہے۔ سلطان فیروز شاہ نے 790ھ (1388ء) میں انتقال کیا۔ خزینۃ الاصفیاء نے معارج الولایت کے حوالہ سے لکھا ہے کہ میرسید امیرماہؒ نے772ھ میں انتقال کیا، ان کا مزار پر انوار بہرائچ میں خلق کی زیارت گاہ ہے، انھوں نے لمبی عمر پائی، حضرت شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلیؒ کے زمانہ سے حضرت میر سید اشرف جہانگیر کچھوچھویؒ کے زمانہ تک زندہ رہے، حضرت کچھوچھویؒ نے 808ھ میں وصال فرمایا اور حضرت سید نصیر الدین محمود چراغ دہلیؒ کی تاریخ وفات 18؍رمضان 757ھ ہے آخرمیں ذیل کا قطعہ تاریخ بھی ہے :حضرت سالارمسعودغازی رحمۃ اللہ علیہ کا خاندان:
سالارمسعودغازی قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ کتاب نسب قریش عربی تالیف لابی عبد اللہ مصعب بن عبد اللہ بن المصعب بن زبیرجو156ہجری میں پیداہوئے اور236ہجری میں وفات پائی کے صفحپہ77پرلکھتے ہیں وولدعون بن علی بن محمد بن علی بن ابی طالب محمداً؛ رقیہ و علیہ بنی عون۔ منبع الانساب فارسی تالیف سید معین الحق جھونسوی فارسی مخطوطہ کا اردو ترجمہ علامہ ڈاکٹرارشاد حسین ساحل شاہسرامی علی گڑھ انڈیا نے 2012ء میں کیا ہے کے صفحہ363پر لکھتے ہیں:۔ حضرت شاہ ابو القاسم محمدحنیف بن علی مرتضیٰ بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہما محمدحنفیہ کے نام سے مشہورہیں اآپ کی ولادت 16ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ عمر مبارک پنسٹھ سال تھی 81ہجری میں عبد الملک بن مروان کے عہدحکومت میں پیر کے دن وصال ہواکتابیوں کا ایک گرو دعویٰ کرتا ہے کہ آپ قریب قیامت ظہورفرمائیں گے اسی طرح کی اور بھی بعض بے سروپا حکایات اآپ سے منسوب ہیں۔ اآپ کے تین صاحبزادے 1-ابوھاشم 2۔علی عبد المنان۔3۔جعفر اآپ کی چودھ صاحبزادے اور دس صاحبزادیاں تھیں لیکن نسل تین صاحبزادوں سے چلی: ابوہاشم جعفر علی قدست اسراہم۔حضرت کا وصال مدینہ طیبہ یا طائف میں ھوا۔ حضرت جعفر کے ایک صاحبزادے عبد اللہ تھے۔ حضرت علی عبد المنان کے ایک صاحبزادے عون عرف قطب شاہ غازی تھے۔حضرت عون عرف قطب شاہ غازی کے ایک صاحبزادے محمداآصف غازی تھے اور محمداآصف غازی کے ایک صاحبزادے شاہ علی غازی تھے شاہ علی غازی دو صاحبزادشاہ محمدغازی اور شاہ احمدغازی(بحرلانساب عربی اور تہذیب الانساب عربی کے مطابق سات صاحبزادے محمد،احمد،علی،موسیٰ،عیسیٰ، حسن و حسین)تھے شاہ احمدغازی نے سبزاوارکو اپنا وطن بنایا چنانچہ سادات سبزواری آپ ہی کی نسل سے ہیں اسی طرح سید حامد خان سبزاواری بھی شاہ احمدغازی کی نسل سے ہیں جن کا مزارمبارک قلعہ مانک پور میں ہے۔ حجرت سید احمدغازی کی اولاد بہت ہے۔سید شاہ احمدغازی کے بڑے بھائی سید شاہ محمدغازی کے ایک صاحبزادے سید طیب غازی ہیں جن کے ایک صاحبزادے سئد طاہر غازی ہیں سید طاہرغازی کے ایک صاحبزادے سید عطااللہ غازی اور ان کے صاحبزادے سیدساھوغازی ہیں(مرات مسعودی فارسی تالیف عبد الرحمن چشتی 1037ھ ،مرات الاسرار فارسی 1065ھ اور تاریخ حیدری و تحقیق الاعوان کے مطابق آپ عطااللہ غازی کے تین صاحبزادے سالارساھوغازی، سالارقطب حیدرالمعروف قطب شاہ و سالارسیف الدین غازی تھے)سید ساھو غازی کی شادی سلطان محمودغزنوی کی ہمشیرہ کے ساتھ ہوئی تھی ان سے ایک صاحبزادے سید سعید الدین سالارمسعود غازی ہیں۔۔آپ سادات علوی سے ہیں ۔ اکثرسادات حضرت سید سالارمسعود غازی کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے ہیں۔ مندرج دغازی کاخاندان: ہ بالا کتب کے علاوہ دیگر بے شمار کتب میں سید سالارمسعودغازی قطب شاہی علوی کاتذکرہ موجود ہے۔ قدیم کتاب نسب قریش عربی میں بنی عون تحری رہے اور عون ، اعوان کی واحدہے اور اس کی مزید تصدیق منبع الانساب فارسی سے عون قطب شاہ غازی بن علی عبد المنان سے ہوتی ہے کہ سیدسالارمسعودغازی شہید 424ہجری کا نسبی تعلق قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ سے ہے آپ کامزارمبارک بہرائچ میں ہے سلطان فیروزشاہ تغلق نے آپ کا روضہ مبارک تعمیر کروایاتھا۔
” | چو شد میر مہ در بہشت بلند
بترحیل آن شاہِ روشن یقین یکے نیز مہتاب سید بگو دگر کن رقم ماہِ روشن یقین |
“ |
مولوی احمد کبیر صاحب حیرتؔ وکیل عدالت ساکن قصبہ پھلواری ولد حاجی مولوی فرید کی ایک کتاب میں جس میں تمام مشاہیر کی تاریخہائے وفات کے قطعات ہیں،مندرجہ ذیل قطعہ
” | نظر سے گذرا
ایں میر ماہ عارف بد اخترشہادت بیں نام والد او حضرت نظام دین بود بغداد بود اصلش بہرائچ ست مسکن علم دوکون حاصل از اہل درد بنمو د بعد از وصال آں مہ حورے ہمیں دعارا بادایں جناں منوراز میر ماہ فرسود |
“ |
772ھ
تصانیف
ترمیمتصانیف کے سلسلہ میں صرف ایک کتاب المطلوب فی عشق المحبوب نامی رسالہ کا ذکر ملتا ہے، اس رسالہ کے پہلے باب در بیان عشق کا کچھ حصہ مصنف مرأۃ الاسرار نے نقل کیا ہے اور کچھ حصہ حضرت مولانا شاہ نعیم اللہ صاحب بہرائچی نے اپنی کتاب معمولات مظہریہ میں نقل کر کے سالک کے کچھ درجے اور مقامات بتائے ہیں۔ پروفیسر خلیق احمد نظا می (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) نے اپنی کتاب ’’تاریخ مشائخ چشت‘‘ میں ص 254 پر تفصیل سے اس رسالہ پر روشنی ڈالی ہے جس کو نقل کیا جاتا ہے۔ ’’قلب صوفیہ کے نزدیک کیا چیز ہے اور کس طرح بیدار ہو سکتا ہے‘‘ کے عنوان پر لکھتے ہوئے خلیق صاحب لکھتے ہیں۔ اس عنوان پر صوفیہ نے تفصیل سے لکھا ہے، روح الارواح، احیاء العلوم،عوارف المعارف وغیرہ میں اس پر کافی معلومات درج ہیں،قرون وسطیٰ کی دو مشہور کتابیں فوائد الفواد (دل کے فائدے) اور قوت القلوب (دل کی غذا) کے نام سے مرتب کی گئی تھیں اس عنوان پر سب سے زیادہ دلچسپ اور مکمل کتاب رسالہ المطلوب فی عشق المحبوب ہے جس کو فیروز شاہ کے عہد میں سید محمد امیر ماہ بہرائچی نے تصنیف کیا ہے، یہ رسالہ ایک سو اڑتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں چار باب ہیں جن کے عنوانات یہ ہیں : (1) عنوان اول در بیان عشق (2) عنوان دوم در بیان دل (3) عنوان سوم در بیان حجابہائے دل (4) عنوان چہارم در بیان وصول الی اللہ۔ صفحہ 35 7 پر پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ اس کا قلمی نسخہ میرے ذاتی کتب خانہ میں ہے ،میں نے اس رسالہ سے استفادہ کیا ہے۔# دوسری کتاب شیخ محی الدین ابن عربی کی فصول الحکم کی شرح کا بھی تذکرہ بعض ثقہ لوگوں نے کیا ہے، لیکن کسی کتاب میں نہیں ملا، کہا جاتا ہے کہ حکیم صدیق احمد صاحب بریلوی (نزد سٹی پوسٹ آفس بریلی) کے کتب خانہ میں ہے ،باوجود کوشش کے ابھی تک تصدیق نہ ہو سکی۔ فصول الحکم ہر زمانہ میں مقبول ومعروف رہی،یہی وجہ ہے کہ متعدد اکابر نے اس کی دو درجن سے زیادہ شرحیں لکھیں، خود ہندوستان میں اس کی 12۔13 شرحیں لکھی گئیں۔ رسالۂ المطلوب فی عشق المحبوب کے جن حصوں کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے ،ان کو نقل کیا جاتا ہے۔
مرأۃ الاسرار ترجمہ
ترمیممیر سید امیر ماہ کے حالات کی بلندی کا اندازہ ان کی تصانیف سے ظاہر ہے ،جیسا کہ وہ اپنے ایک رسالہ میں فرماتے ہیں، اہل بیت رسول اللہ کے خادم فقیر محمد امیر ماہ علوی نے چند کلمے عشق کے بارے میں وصل کی سنتوں کے طریقہ پر سلطان فیروز شاہ گیتی پناہ کے زمانہ میں جمع کیے ہیں، اس رسالہ کا نام المطلوب فی عشق المحبوب رکھا ہے اور اس رسالہ میں یہ بھی فرماتے ہیں : اے عزیز آدم صفی علیہ السلام کے اندر عشق کی لگن اس دن پیدا ہوئی جس دن وہ بہشت سے باہر لاکر دنیا میں تنہا بے یارو مددگار چھوڑدیئے گئے اور نوح علیہ السلام پر سلطان عشق اس وقت غالب آیا جب ان کی کشتی طوفان سے دوچار تھی ،اور یونس علیہ السلام پر اس وقت اثر انداز ہوا جب وہ مچھلی کے پیٹ میں محبوس تھے اور ابراہیم علیہ السلام کو اس وقت نوازا جب وہ آگ میں پھینکے گئے اور یعقوب علیہ السلام پر اس دن جلوہ فرمایا جب سچ بولنے والے یوسف علیہ السلام ان سے جدا کیے گئے ،اور یوسف علیہ السلام نے اس کی لذت اس دن پائی جب وہ مصر کے بازار میں ستر درم کی قیمت پر بیچے گئے، موسیٰ علیہ السلام پر اس وقت رنگ لایا جب مصر سے باہر آئے اور فرعون نے دنبال کیا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس وقت لذت پائی جب انگوٹھی چلی گئی اور وہ ملک سے جدا ہوئے ،حضرت زکریا علیہ السلام نے اس وقت عشق کی چاشنی پائی جب ان کے سر پر آرا چلایا گیا۔ اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اس دن لذت آشنا ہوئے جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی ،حسین بن منصور جب پھانسی پر لٹکائے گئے اور عین القضاء ہمدانی جب بورہ میں ڈال کر آگ میں ڈالے گئے اور اس رسالہ کے جمع کرنے والے پر خطہ بہرائچ میں مزار حضرت سید سالار مسعود غازی ؒ کے قدموں کے نیچے عشق جلوہ فرما ہوا ۔ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ فرحت العاشقین کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اسی درمیان میں حضرت خضر علیہ السلام کو ایک دانشمند کی صورت میں سامنے کھڑے دیکھا، وہ فرمانے لگے:(ترجمہ)’’اے فرزند ہوشیار ہو جا کہ لشکر عشق تجھ کو بر باد کرنے آ رہا ہے‘‘۔ اسی ہفتہ میں نے دیکھا کہ اہل کفر نے جمع ہو کر بہرائچ پر حملہ کیا ،گھر جلا دیا، ایسا کہ خانقاہ کے چند آدمی شہید ہوئے اور اس فقیر کی بیوی کو شہید کر دیا اور مجھے اکیلا چھوڑ دیا، یہی نہیں بلکہ عشق نے مجھ پر بھی وار کیا جس کا نشان چہرہ پر چاند کی طرح ہے، میں نے شکر ادا کیا کہ عشق کی چاشنی مجھے بھی مل گئی اور اسی سبب سے میں نے یہاں کی ا بجائے خطۂ اودھ میں سکونت اختیار کی ۔ موجودہ زمانہ میں بھی اس خاندان کے لوگ اجودھیا میں آباد ہیں، میر سید علاء الدین ماہرو متوفی 977ھ اسی خاندان سے تھے۔ ’’اے عارف خدا‘‘ ماوہ تاریخ وفات ہے
مزار مبارک
ترمیمآئینۂ اودھ کا بیان ہے کہ’’ مزار شریف آپ کا جانب اتر کنارے آبادی بہرائچ اندر گنبد خشتی واقع ہے ،حوالی اس کے چاردیواری پختہ ہے اور چار دیواری کے دروازہ پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے انوارو برکات مزار شریف سے اس وقت تک پائی جاتی ہیں،اور اہل باطن مالا مال فیض نسبت سے ہوتے ہیں‘‘ موجودہ زمانہ میں بھی زیارت گاہ خلق ہے ،محلہ کا نام بھی عرف عام میں امیر ماہ کے نام سے مشہور ہے، فرق اتنا ہوا ہے کہ اب یہ جگہ قلب شہر بن گئی ہے ،بازار مزار شریف تک پھیل گیا ہے، چاروں طرف آبادی ہی آبادی ہے ،شمال مشرق جانب پرانے سر کاری اسپتال کی عمارتیں ہیں۔ جنوب ودکھن سے شمال کو ایک سڑک جاتی ہوئی پچھم جانب سرحد بناتی ہے ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میونسپلٹی کی عنایت سے کسی وقت میں یہ سڑک قبرستان سے نکالی گئی ہے کیونکہ سڑک کے دوسری جانب بھی کافی قبر یں ہیں،کچھ فٹ پاتھ سے متصل دکھائی دیتی ہیں، کچھ مکانات میں آگئی ہیں۔ سڑک کے پچھم جانب گنج شہیداں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں، موجودہ احاطہ کے اندر قدیم مسجد ہے، اسی سے ملحق قدیمی کنواں ہے، اسپتال کی عمارتوں سے ملی ہوئی زمین پر خاندانی قبرستان ہے۔ عرس آپ کا 29؍ ماہ ذیقعدہ کو ہو تاہے، صبح قرآن خوانی کے بعد قل ہوتا ہے، شام کو قوالی کی محفل ہوتی ہے اور مغرب کے قریب گاگر اٹھ کر مزار پر نذرانہ عقیدت پیش کیا جاتا ہے، دوپہر سے رات گئے تک میلہ لگتا ہے، تقریباً 11 بجے شب میں مجمع شباب پر ہوتا ہے جس میں عورتیں بکثرت نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہیں۔ ایک خاص بات دیکھنے میں یہ آئی کہ اکثر وبیشتر مزار سے ملحق قبرستان کے صحن میں رات میں عوام کی پنچائتیں ہوتی رہتی ہیں،لوگوں کے دلوں میں اب بھی تقدس کا یہ عالم ہے کہ سچائی کے ثبوت یا ضمانت کے طور پر جب پنچائت کے سامنے قسم کھاتے ہیں تو مزار پر قسم کھا کر اینٹ الٹ دیتے ہیں۔ تب پنچایت کو یقین کامل ہوتا ہے، عوام کا عقیدہ یہ ہے کہ سید صاحب کے مزار پر جھوٹی قسم پھلتی نہیں ہے۔ مزار شریف کی دیکھ بھال میاں محمد شفیع صاحب چونا مرچنٹ متوفی 1973ء نہایت خلوص و عقیدت کے ساتھ خاموشی سے کرتے رہتے تھے، 1960ء سے اب تک آپ نے رفتہ رفتہ مزار شریف کے احاطہ کی حالت سدھاردی کچھ دوکانیں بنواکر مزار کو خود کفیل کر دیا ہے، پھاٹک وغیرہ بھی بنوادیا ہے،جس سے درگاہ شریف کی حفاظت ہو گئی ہے، بجلی بھی لگوادی ہے، مسجد بھی بحمداللہ خوب آباد رہتی ہے،ایک پیش امام مولوی محمد علی صاحب ساکن مہسی بہرائچ مسجد میں مستقل قیام پزیر ہیں، بحمداللہ صاحب ذوق ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- معارف (فروری 1972)
- میرسید امیر ماہ بہرائچی از معین احمد علوی (کاکوروی) جولائی 1972ء
- تاریخ فیروز شاہی ص 373
- تاریخ آئنہ اودھ ص59 مطبوعہ نظامی۔
- حیات مسعودی ،مرتبہ عباس خاں شیروانی ص 143