میر عثمان علی خان
(ایچ ای ایچ) نواب میر عثمان علی خان صدیقی، بیافانندی - (6 اپریل 1886ء-24 فروری 1967ء)، حیدرآباد، دکن اور برار کے آخری بادشاہ تھے۔ نظام ایک مؤثر منتظم اور ایک رعایا پرور بادشاہ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انھیں "نظام سرکار" اور "حضور نظام" جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا.[4] ان کی بادشاہت 86000 مربع میل (223000 کلو میٹر²) کے ایک علاقے میں تھی، یہ تقریبا موجودہ برطانیہ کا اندازہً رقبہ تھا.
| ||||
---|---|---|---|---|
نظام حیدرآباد MP GCSI GBE | ||||
دور حکومت | نظام: 1911–1948 نظام : 1948–1967 |
|||
تاج پوشی | 18 ستمبر1911 | |||
اردو | میر عثمان علی خان | |||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | 6 اپریل 1886 پرانی حویلی، حیدرآباد, حیدرآباد، دکن, حیدرآباد (فی الحال تلنگانہ, بھارت) |
|||
وفات | 24 فروری1967 (عمر80) کنگ کوٹھی پیلس, حیدرآباد، دکن |
|||
شہریت | ریاست حیدرآباد (18 ستمبر 1911–) | |||
مذہب | اسلام | |||
زوجہ | دلہن پاشا بیگم اور دیگر | |||
اولاد | اعظم جاہ ، معظم جاہ | |||
تعداد اولاد | 34 [1][2][3] | |||
والد | محبوب علی خان، آصف جاہ ششم | |||
والدہ | اماۃ-ال-زہرالنساء بیگم | |||
نسل | اعظم, معظم, اور 18 فرزندان اور 19 دختران | |||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | سیاست دان ، حاکم ، شاہی حکمران | |||
اعزازات | ||||
درستی - ترمیم |
حیدرآباد دکن نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع 1912ء میں تخت نشین ہوئے۔
ان کے دور میں انجمن ترقی اردو نے آپ کے مراحم خسروانہ سے بے حد ترقی کی اور بے شمار کتب شائع ہوئیں۔ علما، مشائخ ، مساجد و مدارس اور ہر مذہب کے عبادت خانوں کو آپ کے دربار سے معقول امداد ملتی تھی۔ آپ کے عہد میں شہر حیدرآباد کی ازسرنو تعمیر ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت نے ریاست حیدرآباد کے خلاف پولیس ایکشن کرکے اُسے ہندوستان میں مدغم کر لیا۔[5]
عثمانیہ جنرل ھاسپٹل، عثمان ساگر، ضلعاور شہر عثمان آباد، عثمانیہ یونیورسٹی، عثمانیہ بسکٹ یہ تمام چیزیں انھی کی بنائی ہوئی ہیں اور انھی کے نام سے منسوب ہیں۔
اہم پیش رفت
ترمیمانھوں نے حیدرآباد کی کئی اہم عمارتیں، جیسے، حیدرآباد ہائیکورٹ، اسمبلی ھال، پبلک گارڈنس، آصفیہ لائبریری، عثمانیہ جنرل ھاسپٹل، نظام کالج، حمایت ساگر، نظامس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس، نیلوفر ھاسپٹال نظام شوگر فیکٹری وغیرہ کی تعمیر کی.
تعلیمی اصلاحات
ترمیماپنے حکمرانی کے دوران انھوں نے بہت سے تعلیمی اصلاحات متعارف کرایا. نظام کے بجٹ کا تقریبا 11 فیصد حصہ تعلیمی اداروں پر خرچ کیا گیا تھا۔
انھوں نے ہندوستان اور بیرون ملک میں بہت سے اداروں کو بہت بڑا عطیہ دیا ہے جس میں تعلیمی اداروں جیسے جامعہ نظامیہ اور دار العلوم دوبند جیسے خصوصی اداروں پر زور دیا گیا تھا.[6]
انھوں نے بنارس ہندو یونیورسٹی کے لے 10 لاکھ روپے اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے 5 لاکھ روپے گ عطیہ دیا۔ تھا[7]
جامعہ عثمانیہ
ترمیممیر عثمان علی خان نے عثمانیہ یونیورسٹی قائم کیا، جو آج بھارت میں سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔
اسکولوں اور کالجوں کے لیے ترجمہ محکموں کو قائم کیا گیا تھا۔ ابتدائی تعلیم کو غریبوں کے لیے لازمی اور آزاد بنا دیا گیا.[8]
بھارت چین جنگ میں تعاون
ترمیمہندوستانی چینی تنازع کی وجہ سے، نظام کی طرف سے قائم قومی دفاعی فنڈ میں شراکت دینے کی درخواست کی گئی تھی. 'سال 1965 میں، میر عثمان علی خان نے جنگی فنڈ کو بڑھانے کے لیے "5000 کلوگرام کا گولڈ" دیا۔ مالیاتی شرائط میں، آج کی مارکیٹ کی قیمت کے مطابق نظام کا حصہ 1500 کروڑ روپہ بھارت میں کسی بھی فرد یا تنظیم کی طرف سے بنائے جانے کا سب سے بڑا حصہ ہے.[9]
جامع مسجد دلی کو عطیہ
ترمیمجامع مسجد دہلی کو 1948 کے دوران، نظام سرکار سے مسجد کے فرش کے پو حصے کی مرمت کے لیے ₹ 75000 عطیہ دینے کی گزارش کی گئی۔ اس کی بجائے نظام سرکار نے 3 لاکھ روپے کا عطیہ دیا اور کہا کہ مسجد کو نئی جیسی بنادی جائے۔
مسجد اقصیٰ کو عطیہ
ترمیم1940 کی دہائی میں ، عثمان علی پاشا نے مسجد اقصی کی خوبصورتی کے لیے رقم بھی دی۔ انھوں نے 1942 میں پیلسٹین پناہ گزینوں کے لیے 1 لاکھ روپے بھی دیے[10] [11][12]
موت اور جنازہ
ترمیممیر عثمان علی خان نے 24 فروری 1967ء کو کنگ کوٹھی پیالس میں اپنی آخری سانس لی. نظام سرکارکو مسجد جودی میں دفن کیا گیا، جسے آنھوں نے اپنے بیٹے جواد کی یاد میں 1936ء میں بنائی تھی.
نظام سرکار کی مقبولیت کا ثبوت یہ ہے کہ تقریبا "10 ملین افراد" نماز جنازہ میں شامل ہوئے. نظام میوزیم کے دستاویزات کے مطابق، نظام سرکارکا جنازہ سب سے بڑا غیر -مذہبی، غیر -سیاسی اجتماع تھا۔ جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی.[13]
آخری نظام کی وفات پر آندھرا پردیش کی حکومت نے خصوصی اخبار جاری کیا، جس میں نظام سرکار کی موت کا ذکر تھا۔ حکومت نے 25 فروری، 1967ء کونظام سرکار کی موت پر"ریاستی ماتم" کا اعلان کیا گیا۔ حکومتی دفاتر اعزاز کا نشان کے طور پر بند کیے گئے تھے۔ ریاست بھر میں تمام سرکاری عمارتوں میں پرچم آدھی اونچائی پر رکھے گئے تھے.[14]
ماتموں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ حیدرآباد کی گلیوں اور چوراہوں پر عورتوں کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں بکھری ہوئی ملیں. کیونکہ تیلنگانہ رواج کے مطابق، خواتین قریبی رشتہ داروں کی موت پر اپنی چوڑیاں توڑتی ہیں.[15]
پورا نام
ترمیممیر عثمان علی خان کا پورا نام، جس میں اُن کے اعزازات، القابات اور خطابت بھی شامل ہیں، بہت ہی طویل تھا۔ ہر جگہ ان کا مکمل نام لکھنا بہت مشکل تھا۔ یہ مکمل نام کچھ یوں تھا: رستم دوران، ارسطوئے زماں، وَل مملوک، آصف جاہ ہفتم، مظفرالملک، وَل ممیلاک، نظام الملک، نظام الدولہ نواب میر سر عثمان علی خان بہادر، سپاہ سالار، فتح جنگ، نظام آف حیدرآباد اینڈ برار، نائٹ گرینڈ کمانڈر آف دی موسٹ الگزالٹڈ آرڈر آف دی اسٹار آف انڈیا، نائٹ گرینڈ کراس آف دی موسٹ ایکسیلنٹ آرڈر اف دی برٹش ایمپائر، آنریبل جنرل اِن دی آرمی، فیتھ فل الائی آف دی برٹش گورنمنٹ (یہ انگریزوں کے دیے ہوئے خطابات اور اعزازت تھے)
مزید دیکھے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر میر عثمان علی خان سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
کتابیں
ترمیم- The Splendour of Hyderabad : The Last Phase of an Oriental Culture (1591–1948 A.D.) By M.A. Nayeem ISBN 81-85492-20-4
- The Nocturnal Court: The Life of a Prince of Hyderabad By Sidq Jaisi
- Developments in Administration Under H.E.H. the Nizam VII By Shamim Aleem, M. A. Aleem [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.ndtv.com/india-news/why-wealth-of-hyderabad-nizams-heirs-depends-on-pakistan-493417
- ↑ http://royalark.net/India/hyder11.htm
- ↑ https://www.fdaytalk.com/asafjahis-dynasty/
- ↑ https://www.thenewsminute.com/article/tracing-life-and-legacy-hyderabads-last-nizam-who-died-50-years-ago-57706
- ↑ https://archive.siasat.com/news/nizam-hyderabad-mir-osman-ali-khan-was-perfect-secular-ruler-812716/
- ↑ https://www.coursehero.com/file/p487l5m/Government-of-India-donated-Rs-15-Lakh-and-Nizam-of-Hyderabad-also-donated-Rs/
- ↑ missiontelangana.com/nizam-gave-funding-for-temples-and-hindu-educational-institutions/
- ↑ http://www.osmania.ac.in/aboutus-originandhistory.php
- ↑ https://www.deccanchronicle.com/140601/lifestyle-offbeat/article/rich-legacy-nizams
- ↑ https://www.thehansindia.com/posts/index/Hans/2015-05-14/First-Indian-star-of-Jerusalem/150999
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 2021-01-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-06-06
- ↑ "Indian Muslims and Palestinian Awqaf"[مردہ ربط]
- ↑ http://www.thehansindia.com/posts/index/Hyderabad-Tab/2017-02-25/Nizams-opulance-has-no-takers/283066
- ↑ https://www.deccanchronicle.com/lifestyle/books-and-art/200217/nizam-of-hyderabads-work-go-on-facebook.html
- ↑ https://timesofindia.indiatimes.com/city/hyderabad/modern-hyderabad-architect-and-statehood-icon-nizam-vii-fades-into-history/articleshow/57324957.cms
میر عثمان علی خان پیدائش: 8th April 1886 وفات: 24 February 1967
| ||
شاہی القاب | ||
---|---|---|
ماقبل | نظام حیدر آباد 1911–1948 |
Annexed by ڈومنین بھارت |
دعویدار | ||
' | — محض خطاب — نظام حیدر آباد 1948–1967 |
مابعد |
سرکاری عہدہ | ||
ماقبل | صدر المہام حیدرآباد 1914–1919 |
مابعد Sir Sayyid Ali Imam
|