عطاء الحق قاسمی

پاکستانی ادیب، سفرنامہ نگار اور مزاحیہ کالم نگار

عطاء الحق قاسمی (ولادت: 1 فروری 1943ء ) پاکستان میں ایک طرح دار ادیب، سفرنامہ نگار اور مزاحیہ کالم نگار ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے روزنامہ جنگ میں لکھ رہے ہیں۔ وہ 1 فروری 1943ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔نامور عالم دین اور تحریک پاکستان کے رہنما مولانا بہاء الحق قاسمی کے فرزندہیں۔ تدریس کے شعبے سے کیریئر کا آغاز کیا، ساتھ ہی ساتھ صحافت سے بھی وابستہ رہے اور ’’روزن دیوار سے‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیاجس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

عطاء الحق قاسمی
تفصیل=
تفصیل=

معلومات شخصیت
پیدائش 1 فروری 1943ء (81 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وزیر آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش لاہور, پاکستان
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
اولاد تین بیٹے: یاسر پیر زادہ, پیرزادہ عمر قاسمی, پیرزادہ علی عثمان قاسمی
عملی زندگی
پیشہ صحافی ،  سیاست دان ،  سفارت کار ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تصانیف

ترمیم

عطاء الحق قاسمی کی تصانیف میں

  • روزنِ دیوار سے،
  • عطایئے،
  • خند مکرر،
  • شوقِ آوارگی،
  • گوروں کے دیس میں،
  • سرگوشیاں،
  • حبس معمول،
  • جرمِ ظریفی،
  • دھول دھپا،
  • آپ بھی شرمسار ہو،
  • دلّی دور است،
  • کالم تمام،
  • بازیچۂ اعمال،
  • بارہ سنگھے،
  • ملاقاتیں ادھوری ہیں،
  • دنیا خوب صورت ہے،
  • مزید گنجے فرشتے،
  • شرگوشیاں،
  • ہنسنا رونا منع ہے،
  • اپنے پرائے،
  • علی بابا چالیس چور
  • ایک غیر ملکی کا سفرنامۂ لاہور

اعزاز و ایوارڈ

ترمیم

پاکستان ٹیلی وژن کے لیے کئی معروف ڈراما سیریل تحریر کیے جن میں خواجہ اینڈ سن، شب دیگ، حویلی اور شیدا ٹلی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ناروے اور تھائی لینڈ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ صدر پاکستان نے14اگست 1991ء کو تمغائے حسن کارکردگی [2]اور بعد ازاں ستارۂ امتیاز[3][4] اور ہلال امتیاز عطا کیا۔[5][6] آدم جی ادبی انعام اور اے پی این ایس ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ آج کل الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین ہیں۔[7][8]

انھیں ناروے اور تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارت خانوں میں بطور سفیر فرائض سر انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے۔ اب ان کا ایک بیٹا یاسر پیر زادہ بھی اردو کا لکھاری ہے۔

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://www.rekhta.org/authors/ata-ul-haq-qasmi
  2. Profile of Ata ul Haq Qasmi on Pakistan Press Foundation website اخذ شدہ 19 مئی 2019
  3. Profile of Ata ul Haq Qasmi on Pakistan Press Foundation website اخذ شدہ 19 مئی 2019
  4. Profile of Ata ul Haq Qasmi on hipinpakistan.com website آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hipinpakistan.com (Error: unknown archive URL) اخذ شدہ 19 مئی 2019
  5. Ata ul Haq Qasmi's Hilal-i-Imtiaz Award info listed on Dawn (newspaper) اخذ شدہ 19 مئی 2019
  6. Profile of Ata ul Haq Qasmi on hipinpakistan.com website آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hipinpakistan.com (Error: unknown archive URL) اخذ شدہ 19مئی 2019
  7. Profile of Ata ul Haq Qasmi on Pakistan Press Foundation website اخذ شدہ 19 مئی 2019
  8. "Lahore Arts Council ( Ata ul Haq Qasmi, chairman, Board of Governors and other Members)"۔ Lahore Arts Council website۔ اکتوبر 2013۔ 2 نومبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مئی 2019 
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔