عنبرہ سلام خالدی (4 اگست 1897ء – مئی 1986ء) لبنان کی ایک حقوق نسواں کی علمبردار، مترجمہ اور مصنفہ تھیں، جنھوں نے عرب خواتین کی قانونی، معاشرتی یا سیاسی پابندیوں سے آزاد کرانے کے لیے نمایاں طور پر اہم کردار ادا کیا۔[4]

عنبرہ سلام خالدی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 4 اگست 1897ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بیروت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1986ء (88–89 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بیروت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت لبنان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد طریف خالدی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد سلیم علی سلام   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
مادر علمی امریکن یونیورسٹی بیروت   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مترجم ،  شاعر ،  مصنفہ ،  حقوق نسوان کی کارکن   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [2]،  فرانسیسی ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل نسائیت [3]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

عنبرہ 1897ء میں لبنان کے شہر بیروت میں ایک مشہور خاندان میں پیدا ہوئیں۔[5][6] وہ سلیم علی سلام کی بیٹی تھیں جو عثمانی پارلیمنٹ میں ایک نائب تھے۔ عنبرہ لبنان کے سابق وزیر اعظم صائب سلام کی بہن تھیں۔[7] عنبرہ کے دو بھائیوں نے لبنان میں کابینہ کے وزرا کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے تھے۔[8]

1913ء میں پیرس میں پہلی عرب کانگریس کے دوران میں عنبرہ نے دو دیگر خواتین کے ساتھ مل کر کانگریس کو ایک ٹیلیگرام بھیجا تھا۔ یہ ٹیلیگرام پہلا پیغام تھا جو عرب کانگریس میں بلند آواز میں پڑھا گیا تھا۔[9]

عنبرہ نے جدید تعلیم حاصل کی اور فرانسیسی زبان سیکھی۔ وہ اور ان کے بہن بھائیوں نے راس بیروت کے انجلیکن سیرین کالج میں تعلیم حاصل کی، جو بیروت کی امریکی یونیورسٹی کا پیش رو ہے۔[10] 1925ء سے 1927ء تک انھوں نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی۔[10]

سرگرمیاں

ترمیم
 
1925ء[مردہ ربط] میں سلیم علی سلام، عراق کے شاہ فیصل اول اور بیٹے صائب سلام، بیٹیاں عنبرہ اور راشا کے ساتھ لندن کے رچمنڈ پارک میں۔ عنبرہ کو ایک خوبصورت ٹوپی پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

بیروت واپس آنے کے بعد، عنبرہ خواتین کی تحریک میں شامل ہوگئیں۔[10]

1927ء میں عنبرہ کو امریکی یونیورسٹی بیروت نے انگلینڈ میں اپنے وقت کے بارے میں بات کرنے کے لیے بلایا۔ عنبرہ کی تقریر کو "انگلینڈ میں ایک مشرقی عورت" کہا جاتا تھا۔ ایک بار جب وہ اسٹیج پر پہنچی تو اس نے اپنا پردہ ہٹا دیا۔[9] وہ لبنان کی پہلی مسلمان خاتون تھیں جنھوں نے سر عام پردہ چھوڑ دیا۔[5] [11]

علاوہ ازیں عنبرہ ہومر کے اوڈیسی اور ورجل کے عینیڈ کا عربی میں ترجمہ کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔[11][10]

عنبرہ سلام خالدی کی یادداشت 1978ء میں انگریزی میں "لبنان اور فلسطین کی یادوں کا سفر" (A Tour of Memories of Lebanon and Palestine in English) کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔[8] اپنی یادداشت میں عنبرہ نے شام کے عثمانی حکمران جمال پاشا کی سرگرمیوں سے ان کے کنبے اور ان کے بچپن پر منفی اثرات مرتب ہونے کا ذکر کیا ہے۔[12]

ذاتی زندگی اور موت

ترمیم

عنبرہ نے ایک فلسطینی معلم احمد سمیع الخالدی (سنہ 1951ء) سے 1929 میں شادی کی۔[10] [13] یہ احمد سمیع الخالدی کی دوسری شادی تھی۔[14] احمد سمیع انتداب فلسطین میں یروشلم میں واقع عرب کالج کے پرنسپل تھے۔ [14] احمد سمیع الخالدی اور عنبرہ سلام خالدی پہلے یروشلم اور پھر بیروت میں آباد رہے۔[10] عنبرہ کا مئی 1986ء میں بیروت میں انتقال ہوا۔[11] [13]

انتساب

ترمیم

عنبرہ سلام خالدی کو ان کی پیدائش کی 121 ویں سالگرہ پر یعنی 4 اگست 2018ء کو گوگل ڈوڈل کے ذریعہ یاد کیا گیا تھا۔[15]

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://www.theguardian.com/news/2000/feb/01/guardianobituaries1
  2. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo2015880437 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
  3. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo2015880437 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
  4. ""Why Lebanon Matters""۔ Now Lebanon۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 2014-08-11{{حوالہ ویب}}: صيانة الاستشهاد: BOT: original URL status unknown (link)
  5. ^ ا ب Khalidi، Anbara Salam (16 اپریل 2013)۔ Memoirs of An Early Arab Feminist۔ ISBN:978-0745333564 {{حوالہ کتاب}}: |work= تُجوهل (معاونت)
  6. Ussama Makdisi (22 جون 2010)۔ Faith Misplaced: The Broken Promise of U.S.-Arab Relations: 1820-2001۔ PublicAffairs۔ ص 149۔ ISBN:978-1-58648-856-7۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-06-12
  7. "Saeb Salam Breaking the mould in Lebanon"۔ the guardian {{حوالہ ویب}}: |title= میں 11 کی جگہ line feed character (معاونت)
  8. ^ ا ب "Memoir challenges stereotypes of Arab women"۔ Electronic Intifada
  9. ^ ا ب "Anbara Salam Khalidi". palestinian journeys (انگریزی میں). Archived from the original on 2019-11-07. Retrieved 2019-11-07.
  10. ^ ا ب پ ت ٹ ث "Lebanon's lady of mettle"۔ Gulf News
  11. ^ ا ب پ "Biographical data"۔ Salaam Knowledge۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-05
  12. Fruma Zachs۔ "Transformations of a Memory of Tyranny in Syria: From Jamal Pasha to 'Id al-Shuhada', 1914–2000" {{حوالہ رسالہ}}: الاستشهاد بدورية محكمة يطلب |دورية محكمة= (معاونت)
  13. ^ ا ب "Anbara Salam al Khalidi"۔ CAMES۔ 2013-02-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-06-12
  14. ^ ا ب Philip Mattar (2005)۔ Encyclopedia of the Palestinians۔ Infobase Publishing۔ ص 281۔ ISBN:978-0-8160-6986-6۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-06
  15. ""Anbara Salam Khalidi's 121st Birthday""۔ Google