كاتبين وحی

اسلامی اصطلاح

کاتب وحی یا کاتبین وحی ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کا اطلاق ان صحابہ کرام پر ہوتا ہے جنھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں وحی لکھا اور اسے مدون کیا۔

تعداد

ترمیم

کاتبین وحی کی تعداد کے حوالے سے کتب تاریخ میں مختلف عدد پایا جاتا ہے۔[1] بعض مورخین نے ان کی تعداد 16 بتائی ہے، جبکہ بعض نے 42 افراد کا بھی ذکر کیا ہے۔[2] ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی کتاب [3] میں اڑتالیس صحابہ کرام کا ذکر ہے اور المقری محمد طاہر رحیمی ملتانی کی کتاب [3] میں چھپن (56) صحابہ کرام کا ذکر ہے، اسی کتاب سے قاری ابو الحسن صاحب اعظمی نے [4] میں مواد فراہم کیا ہے، ان سب میں سے تکرار کو حذف کرنے کے بعد "کاتبین وحی" کی تعداد پچہتر ہو جاتی ہے، ان میں سے انچاس صحابہ کرام ایسے ہیں، جن کے بارے میں ان کے کاتب ہونے کی صراحت ملتی ہے۔ عہدِنبوی میں اصل مدار تو حفظِ قرآن مجید ہی پر تھا؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت قرآن کا بھی خاص اہتمام فرمایا، کتابت قرآن کا طریقہ کار حضرت زید نے اس طرح بیان فرمایا:

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ سخت بوجھ محسوس کرتے اور آپ کے جسمِ اطہر پر پسینہ کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے؛ پھرآپ سے یہ کیفیت ختم ہوجاتی تو میں مونڈھے کی کوئی ھڈّی یاکسی اور چیز کا ٹکڑا لے کر خدمتِ اقدس میں حاضرہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھواتے رہتے میں لکھتا جاتا یہاں تک کہ میں لکھ کر فارغ ہوجاتا تو قرآن کے نقل کرنے کے بوجھ سے مجھ کو ایسا محسوس ہوتا جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے اور میں کبھی چل نہیں سکوں گا؛ بہرحال جب میں فارغ ہوتا تو آپ فرماتے "پڑھو" میں پڑھ کر سناتا؛ اگر اس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپ اس کی اصلاح فرمادیتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے"۔[5]

کتابتِ وحی کا کام صرف حضرت زید بن ثابت ٗ ہی کے سپرد نہ تھا؛ بلکہ آپ نے بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس مقصد کے لیے مقرر فرمایا ہوا تھا، جو حسبِ ضرورت کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیتے تھے، کاتبینِ وحی کی تعداد چالیس تک شمار کی گئی ہے۔[6] ان میں زیادہ مشہور یہ حضرات ہیں:

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جب بھی وحی نازل ہوتی تھی تو آپ اپنے بعض کاتبین وحی کو بلواتے تھے اور ان کو نئی نازل شدہ آیتیں لکھواتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آپ جبرئیل کے بتانے پر[9] اس کی جگہ کی تعیین بھی فرما دیتے تھے کہ اسے کس سورت میں کس آیت کے بعد رکھنا ہے، حضرت عثمان ٗ فرماتے ہیں:

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جب آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپ اپنے بعض کاتبینِ وحی کو بلواتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ اس آیت کو اس سورت میں (اس مقام پر) رکھو جس میں فلاں فلاں شیٔ کا ذکر ہے"۔[10]

چنانچہ آپ کی ہدایت پر وہ لکھ لیا جاتا اور اس زمانہ میں عرب میں کاغذ کمیاب تھے اس لیے اسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھا جاتا تھا اور لکھ کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں رکھ دیا جاتا تھا [11] تو اس طرح عہد نبوی ہی میں پورا قرآن کریم آپ کی نگرانی میں لکھا ہوا محفوظ تھا؛ مگرکاغذ کی کمیابی کے سبب مختلف قسم کی چیزوں میں منتشر تھا؛ اسی طرح صحابہ میں سے بھی بعض قرآن کریم کے لکھنے کا اہتمام کرتے تھے، عمر بن خطاب کے اسلام لانے کا مشہور قصہ ہے جس میں آپ غصہ کی حالت میں اپنے بہن کے گھر گئے تو وہاں ان کی نظر ان پر پڑی جس میں قرآن کریم لکھا ہوا تھا [12] اسی طرح اللہ کے نبی نے دشمن کی سرزمین میں قرآن مجید کو لے جانے سے منع فرمایا تھا [13] جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے پاس اس وقت مکمل یانامکمل نسخے موجود تھے؛ ورنہ پھر اس ارشاد کا کوئی مطلب ہی نہ ہوگا، ان کے علاوہ اور بھی متعدد دلائل وشواہد ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام میں بھی اس کے لکھنے کا رواج تھا؛ لیکن ان میں کی اکثریت اپنے حافظہ ہی پر اعتماد کرتی تھی۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. کتاب التراتیب الإداریہ مراکش
  2. التاريخ الإسلامى ـ محمود شاكر، ص 937، 380
  3. ^ ا ب کاتبانِ وحی
  4. کاتبینِ وحی
  5. المعجم الکبیر للطبرانی:5/142، 4889
  6. ^ ا ب علوم القرآن:179، مصنف: مفتی تقی عثمانی
  7. فتح الباری:9/27
  8. طبقات ابن سعد مصنف محمد بن سعد اردو ترجمہ علامہ عبد اللہ العمادی جلد چہارم حصہ ہفتم صفحہ 266
  9. مسنداحمد:4/268۔ رقم:17941۔ کنزالعمال:2/9، 2957
  10. سنن ابوداؤد، صلوٰۃ، باب من جھربھا:786
  11. مناہل العرفان:178
  12. السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:150
  13. صحیح بخاری، جہاد، باب کراھیۃ السفر بالمصاحف: 2990