محمد ساجد کھجناوری

ہندوستانی عالم، مضمون نگار اور مصنف

محمد ساجد کُھجناوَری (پیدائش: 15 اگست 1983ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم دین، مفتی، قاری اور مصنف ہیں۔ وہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ کے استاذِ حدیث اور ماہنامہ صدائے حق، گنگوہ کے مدیرِ تحریر ہیں۔

محمد ساجد کھجناوری
معلومات شخصیت
پیدائش 15 اگست 1983ء (41 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کُھجناوَر، ضلع سہارنپور، اتر پردیش، بھارت
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند
مظاہر علوم سہارنپور
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ سعید احمد پالن پوری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  مفتی ،  کالم نگار ،  مضمون نگار ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ابتدائی و تعلیمی زندگی

ترمیم

محمد ساجد کُھجناوَری 6 ذی قعدہ 1403ھ مطابق 15 اگست 1983ء کو کُھجناوَر، ضلع سہارنپور، اترپردیش میں راؤ محمد ایوب اور سلمیٰ خاتون کے یہاں پیدا ہوئے۔[1][2]

انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے مدرسہ عزیز القرآن، کُھجناوَر میں حاصل کی اور وہیں حفظ قرآن کی تکمیل بھی کی۔[3] 1999ء میں دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تجوید و قراءت میں داخلہ لے کر عبد الرؤوف بلند شہری کے پاس دوسالہ نصاب مکمل کیا۔[3] انھیں کی تحریک پر الگ سے خارج اوقات میں فارسی کی کتابیں بھی پڑھیں، پھر 2001ء میں دار العلوم دیوبند میں عالمیت کے لیے امتحانِ داخلہ میں کامیابی حاصل کرکے عربی اول کے درجے میں داخل ہوئے اور سنہ 2008ء میں عالمیت کا نصاب مکمل کیا۔[3] ان کے اساتذۂ دار العلوم میں سعید احمد پالن پوری اور محمد سلمان بجنوری شامل ہیں۔[3]

عالمیت کے بعد 2009ء میں انھوں نے مظاہر علوم سہارنپور سے ایک سالہ نصاب پڑھ کر سندِ افتا حاصل کی۔[3] ساتھ میں فاصلاتی طور پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے بی اے (اردو) کیا۔[2]

تدریسی زندگی

ترمیم

تعلیم کی تکمیل کے بعد 2010ء سے ہی مدرسہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور کتبِ فقہ و حدیث بشمول مشکاۃ المصابیح کا درس بھی ان سے متعلق ہے۔[3]

قلمی و ادبی زندگی

ترمیم

محمد ساجد کُھجناوَری کے مطالعہ و کتب بینی کا سفر زمانۂ طالب علمی یعنی حفظِ قرآن کے زمانے ہی سے شروع ہو چکا تھا۔[3] نیز عربی کی تعلیم کے زمانے سے ہی مضمون نگاری اور اردو ادب سے ان کو خاص شغف رہا ہے۔[4] وہ ”ماہنامہ نقوش اسلام“، مظفرآباد، سہارنپور کے بانیوں میں سے ہیں اور اس کے پہلے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔[4]

اس وقت ماہنامہ ”صدائے حق“، گنگوہ اور سہ ماہی ”متاعِ کارواں“ کے مدیرِ تحریر ہیں۔[4] ان کے مضامین مذکورۂ بالا رسالوں کے علاوہ ”ماہنامہ دار العلوم“، ”ترجمانِ دیوبند“، ”محدثِ عصر“، ”ماہنامہ مظاہر علوم“، ”اذانِ بلال، آگرہ“، ”حِرا کا پیغام، مانک مئو“، سہ ماہی ”حُسنِ تحریر، دہلی“، ہفت روزہ ”الجمعیۃ“، سہ روزہ ”دعوت، دہلی“ جیسے رسائل اور مختلف روزناموں میں شائع ہوا کرتے ہیں۔[4]

ندیم الواجدی کُھجناوَری کے بارے میں لکھتے ہیں:[5][6]

مولانا ساجد کھجناوری نے ہر طرح کے مضامین لکھے ہیں، دینی بھی، علمی بھی، اصلاحی اور سیاسی بھی؛ مگر مرحوم شخصیات پر ان کی تحریروں میں جو بانکپن اور وارفتگی پائی جاتی ہے اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔

اسی طرح حقانی القاسمی نے اس طرح سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے:[5][6]

مفتی ساجد کی کتاب ’’بزم رفتگاں‘‘ میں خیالات کی کہکشاں ہے جس میں خوشبو جیسے لوگوں کی زندگی کے شب و روز اور ان کی شبنمی کردار سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے۔ یہ اس جہان روحانیت کی سیر کراتی ہے جہاں سے فکر کو نئی حرارت، احساس کو اشارت اور اظہار کو نئی عبارت ملتی ہے۔

کُھجناوَری اترپردیش اردو اکادمی، غالب اکیڈمی، بنگلور اور تسمیہ اکادمی، دہرادون کی طرف سے اعزازات سے نوازے جا چکے ہیں۔[7]

تصانیف

ترمیم

کُھجناوَری کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:[7][5]

  • بزمِ رفتگاں
  • نقوشِ دوام

حوالہ جات

ترمیم
  1. مختار، اسعد؛ مہتاب، احسن، المحررون (16–31 جنوری 2017)۔ "فکر انقلاب: اردو کے فروغ میں علمائے دیوبند کا ڈیڑھ سو سالہ کردار (اشاعت خصوصی)"۔ فکر انقلاب۔ دہلی: آل انڈیا تنظیم علماء حق فکر انقلاب۔ ج 5 ش 112: 724
  2. ^ ا ب عظیم، عمران (2022ء)۔ "جدید نثر کا اہم نام – مفتی محمد ساجد کُھجناوَری"۔ تنقیدی مضامین (ط. پہلا)۔ دہلی: عمران عظیم بہ تعاون دہلی اردو اکادمی۔ ص 134–137 {{حوالہ کتاب}}: يحتوي الاستشهاد على وسيط غير معروف وفارغ: |1= (مساعدة)
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج عباسی، ابن الحسن (المحرر)۔ "میرے آدھے ادھورے مطالعہ کی سرگزشت از مفتی محمد ساجد کھجناوری"۔ ماہنامہ النخیل (خصوصی شمارہ: یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ) (ط. اکتوبر 2020ء)۔ کراچی: مجلس تراث الاسلام: 647–653
  4. ^ ا ب پ ت قاسمی، نایاب حسن (1434ھ بہ مطابق 2013ء)۔ "مفتی محمد ساجد کُھجناوَری"۔ دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظر نامہ (ط. پہلا)۔ دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی۔ ص 226–227 {{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |date= (مساعدة) ويحتوي الاستشهاد على وسيط غير معروف وفارغ: |1= (مساعدة)
  5. ^ ا ب پ عبد اللہ سلمان ریاض (12 اپریل 2021ء)۔ "مفتی ساجد کھجناوری: ایک ہمہ جہت شخصیت"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2023ء 
  6. ^ ا ب کھجناوری، محمد ساجد (اکتوبر 2015ء)۔ "حرفِ تقدیم از حقانی القاسمی"، "حرفِ تحسین از مولانا ندیم الواجدی"۔ بزمِ رفتگاں (ط. پہلا)۔ بھگوان پور، اتراکھنڈ: ادارہ اسلامیات۔ ص 15–19، 23–26 {{حوالہ کتاب}}: يحتوي الاستشهاد على وسيط غير معروف وفارغ: |1= (مساعدة)
  7. ^ ا ب قاسمی، فاروق اعظم (2022ء)۔ "تحریر و قلم اور اخلاق کا سنگم– محمد ساجد قاسمی کُھجناوَری"۔ آسماں کیسے کیسے (خاکے) (ط. پہلا)۔ نئی دہلی: مرکزی پبلی کیشنز۔ ص 170–176 {{حوالہ کتاب}}: يحتوي الاستشهاد على وسيط غير معروف وفارغ: |1= (مساعدة)