مرزا غلام احمد (13 فروری 1835ء تا 26 مئی 1908ء) ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما اور احمدیہ کے بانی تھے۔ مرزا غلام احمد نے دعویٰ کیا کہ وہ ہی مسیح موعود اور مہدی آخر الزمان ہے اور نبی ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔[4][5][6] 1888ء میں، مرزا نے اعلان کیا کہ انھیں بیعت لے کر ایک جماعت بنانے کا حکم ملا ہے اور اس طرح 23 مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں پہلی بیعت لے کر جماعت احمدیہ جسے قادیانیت اور مرزائیت بھی کہا جاتا ہے، کی بنیاد رکھی۔[7]

مرزا غلام احمد
 

معلومات شخصیت
پیدائش 13 فروری 1835ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قادیان دار الامان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 26 مئی 1908ء (73 سال)[2][1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن بہشتی مقبرہ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد مرزا بشیر الدین محمود   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد مرزا غلام مرتضیٰ   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مرزا غلام قادر   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ الٰہیات دان ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو [3]،  انگریزی ،  فارسی ،  عربی ،  پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک احمدیہ   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 

آبا و اجداد

مرزا غلام احمد کا تعلق ترک منگول قبیلہ مغل برلاس سے تھا۔ جد مرزا ہادی بیگ 1530ء میں اپنے خاندان سمیت سمرقند سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور پنجاب کے علاقہ میں اس جگہ آباد ہوئے جو اب قادیان کہلاتا ہے۔ اس وقت ہندوستان پر مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر حکمران تھا۔ مرزا ہادی بیگ کو اس علاقہ میں کئی سو دیہات پر مشتمل جاگیر عطا کی گئی۔[8]

تعلیم

مرزا نے تعلیم اپنے آبائی گاؤں قادیان ہی میں حاصل کی۔ اس میں قرآن کریم، عربی، فارسی اور طب کے ابتدائی سبق شامل تھے۔ جن کے لیے کچھ اساتذہ رکھے گئے۔ رائج الوقت طریق کے برخلاف مشہور علما سے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک و مدن کا سفر اختیار نہیں کیا۔

سیالکوٹ میں قیام

اپنے والد کی ہدایت پر کچھ عرصہ سیالکوٹ میں عدالت میں کام کیا۔ قیام سیالکوٹ ہی میں کچھ مسیحی مبلیغین سے مذہبی امور پر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔

تصنیف براہین احمدیہ

مرزا غلام احمد نے 1880ء میں اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ کے پہلے دو حصے شائع کیے۔ تیسرا حصہ 1882ء میں جب کہ چوتھا 1884ء میں شائع ہوا۔ کتاب کا آخری اور پانچواں حصہ 1905ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کتاب کا مقصد مصنف نے یہ بیان کیا کہ 300 دلائل سے مذہب اسلام کی سچائی اور تمام دوسرے ادیان پر برتری ثابت کی جائے۔ کتاب کے ساتھ ہی مرزا صاحب نے 10000 روپے انعام کا اشتہار بھی شائع کیا جو اس شخص کو دیا جانا تھا جو کتاب میں اسلام کی تائید میں دیے گئے دلائل میں سے پانچویں حصہ کو بھی غلط ثابت کر سکے۔ یہ رقم 1879 میں مرزا صاحب کی کل جائداد کی قیمت پر مشتمل تھی۔

احمدیہ کی بنیاد

مرزا غلام احمد نے 23 مارچ 1889 کو لدھیانہ میں حکیم احمد جان کے گھر پر بیعت لے کر احمدیہ کی بنیاد رکھی۔ پہلے دن چالیس افراد نے بیعت کی۔

دعوے

مامور من اللہ

1882 میں مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس دعویٰ کی بنیاد اپنا یہ عربی الہام بیان کیا ہے [9] :

یا احمد بارک اللہ فیک۔ ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ۔ الرحمن۔ علم القرآن۔ لتنذر قوما ما انذر اباوہم و لتستبین سبیل المجرمین۔ قل انی امرت و انا اول المسلمین۔قل جا الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ کل برکۃ من محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ فتبارک من علم و تعلم۔ قل ان افتریتہ فعلی اجرامی۔

ترجمہ: اے احمد اللہ نے تجھ میں برکت رکھی ہے۔ جو کچھ تو نے چلایا، تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔ رحمان ہے جس نے تجھے قرآن سکھایا تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے باپ دادا کو نہیں ڈرایا گیا اور تاکہ مجرموں کی راہ واضح ہو جائے۔ کہہ دے میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ کہہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کو بھاگنا ہی تھا۔ تمام برکتیں محمد کی طرف سے ہیں، اللہ کی برکتیں اور سلامتی ان پر ہو۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ کہہ اگر میں نے یہ جھوٹ بولا ہے تو اس جرم کا وبال مجھ پر ہے۔

مسیح موعود

1891 میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔[10]:

مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے

دعویٰ مسیح موعود مسلمان علما کی جانب سے سخت مخالفت پر منتج ہوا۔

عقائد و تعلیمات

مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے عقائد اور تعلیمات اپنی کتب و تقاریر میں جا بجا بتصریح بیان کیے ہیں۔ ان کی روشنی میں مختلف موضوعات پر ان کے عقائد و تعلیمات کو حسب موضوع بیان کیا جا سکتا ہے۔

خدا تعالیٰ کا تصور

خدا تعالیٰ کے متعلق[11]:

ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے جیسے پہلے زندہ تھا۔ اور اب بھی بولتا ہے جیسا کہ پہلے بولتا تھا۔ اور اب بھی سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا۔۔۔۔اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں۔کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہو گی۔ وہ وہی وحدہ لا شریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں۔ وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں۔ اور جس کا کوئی ہمتا نہیں۔ اور جس کا کوئی ہم صفات نہیں۔ اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں۔ وہ قریب ہے باوجود دور ہونے کے۔ اور دور ہے باوجود نزدیک ہونے کے۔۔۔اس کے لئے نہ کوئی جسم ہے اور نہ کوئی شکل۔ اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے۔ اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا۔ اور مظہر ہے تمام محامد حقہ کا۔ اور سرچشمہ ہے تمام خوبیوں کا۔ اور جامع ہے تمام طاقتوں کا۔ اور مبداء ہے تمام فیضوں کا۔اور مرجع ہے ہر ایک شئی کا۔اور مالک ہے ہر ایک ملک کا۔ اور متصف ہے ہر ایک کمال سے۔اور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے۔اور مخصوص ہے اس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اسی کی عبادت کریں۔اور اس کے آگے کوئی بات بھی انہونی نہیں۔۔۔وہ دیکھتا ہے بغیر جسمانی آنکھوں کے اور سنتا ہے بغیر جسمانی کانوں کےاور بولتا ہے بغیر جسمانی زبان کے۔اسی طرح نیستی سے ہستی کرنا اسی کا کام ہے۔

اسلام

اسلام کے متعلق مرزا غلام احمد نے مختلف کتب میں یہ واضح کیا کہ ان کے نزدیک اب احمدیہ اسلام ہی واحد سچا دین ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں[12]:

اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفٰی ﷺ ہے۔

اس کے مقابل پر دوسرے ادیان، جو بنیادی طور پر سچے تھے، اب سچائی پر قائم نہیں بلکہ ان کے عقائد بگڑ چکے ہیں۔ لکھتے ہیں[13]:

میں صرف اسلام کو سچامذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہٰیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے جو بجز سچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا۔۔۔اور مجھے دکھلایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بہ برکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء ﷺ تجھ کو ملا ہے

اسلام کی سچائی پر ان کے نزدیک سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس پر عمل کے نتیجہ میں انسان کا زندہ خدا سے زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ لکھتے ہیں[14]:

زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ زندہ خدا ملے۔ زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کرسکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلاواسطہ ملہم کودیکھ سکیں۔ سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے

بانی اسلام حضرت محمد ؐ

مرزا غلام احمد نے متعدد جگہ یہ واضح کیا ہے کہ ان کے نزدیک بانی اسلام محمد سب سے اعلیٰ و ارفع نبی ہیں۔ لکھتے ہیں[15]:

وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا تھا۔ یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا۔ یعنی انسان کامل میں۔ جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سید الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

خاتم النبیین

ان کے عقائد میں سے بانی اسلام کے متعلق سب سے زیادہ زیر بحث معاملہ خاتم النبیین کی تشریح کا ہے۔ مرزا کا اس بارہ میں موقف دو امور پر مشتمل ہے۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بانی اسلام محمدؐ خاتم النبیین ہیں۔ دوم ان کی اس ضمن میں تشریح موجودہ زمانہ کے علما کی تشریح سے مختلف ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں [16]

ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ چکتا ہے

مرزا غلام احمد کے نزدیک خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمدؐ اپنے مقام اور درجات کے لحاظ سے ترقی کے منتہا پر فائز، نیز آخری شریعت لانے والے نبی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں[17] :

چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیاء و صدق و صفاء و توکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و اعلیٰ و ارفع و اجلیٰ و اصفیٰ تھے اس لئے خدا جل شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ و دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ اور دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہو کر صفات الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف کشادہ اور وسیع تر آئینہ ہو

چنانچہ اسی کے موافق ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ خود بھی ایسے ہی ایک محمدؐ کے امتی ہیں جن کو حضرت محمد کی پیروی کی برکت سے تابع نبی کا مقام ملا ہے۔ یعنی ایک ایسا نبی جو خود کوئی نیا دین نہیں لایا بلکہ حضرت محمدؐ ہی کے دین پر قائم ہے۔

موجودہ زمانہ کے اکثر مسلمان علما حضرت محمد ؐ کو ہر لحاظ سے آخری نبی تسلیم کرتے ہیں۔ جبکہ مرزا غلام احمد کے نزدیک زمانی تاخر اہم نہیں بلکہ انتہائی مقام اور کمال تعلیم اہم ہیں۔ اس تعلیم کی رو سے حضرت محمدؐ کے بلند مرتبہ کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ اسلام کی تعلیم اور قرآن پر عمل کرنے والوں میں سے کوئی شخص حضرت محمد ؐ کا تابع نبی بن سکتا ہے۔اس کے مقابل پر موجودہ زمانہ کے علما کی اکثریت کے نزدیک ایسا خیال کرنا اسلام سے ارتداد اور کفر کے دائرہ میں داخل ہے۔

قرآن

مرزا کے نزدیک قرآن کریم آخری کتاب ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے اور جو ہمیشہ کے لیے غیر محرف و غیر مبدل ہے۔ لیکن عام مسلمان علما کے مسئلہ ناسخ و منسوخ کو رد کرتے ہوئے انھوں نے یہ کہا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی بھی آیت منسوخ نہیں اور اس کی تمام تعلیمات ابدی ہیں۔ قرآن کے متعلق وہ لکھتے ہیں[18]:

وہ خدا جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے وہ بجز قرآن شریف کی پیروی کے ہرگز نہیں مل سکتا۔ کاش جو میں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو میں نے سنا ہے وہ سنیں اور قصوں کو چھوڑ دیں اور حقیقت کی طرف دوڑیں

پھراپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں[19] :

تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن شریف کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔۔۔تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہوکیونکہ جیسا خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الخیر کلہ فی القرآن کہ تمام قسم کی بھلایاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے

وفات مسیح ؑ کا مسئلہ

مرزا غلام احمد نے یہ عقیدہ پیش کیا ہے کہ بانی عیسائیت عیسیٰ ؑ تمام دوسرے انبیا اور انسانوں کی طرف اپنی طبعی عمر پوری کر کے وفات پا چکے ہیں۔ ان کے اس عقیدہ کی بنیاد الہام پر ہے مثلا[20]

مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے

ان کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کی 30 آیات سے حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ جس نبی عیسیٰ نے مسلمانوں کے تنزل کے زمانہ میں آنا تھا وہ درحقیقت ایک تمثیلی نام ہے جو حالات اور مزاج کی مشابہت کی بنا پر خود مرزا غلام احمد کو دیا گیا ہے جیسا کہ کسی سورما کو اس کی طاقت کی بنا پر تمثیلا "رستم" کا نام دیا جاتا ہے۔ اس عقیدہ وفات مسیح اور دعویٰ نبوت پر مسلمان علما نے ان کی سخت مخالفت کی اور کفر کا فتویٰ دیا۔ چنانچہ ان دونوں عقائد، یعنی وفات مسیح اور تشریح ختم نبوت پر دونوں اطراف سے متعدد کتب لکھی گئی ہیں۔

جہاد کا تصور

جہاد کے متعلق مرزا غلام احمد نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ تلوار کا جہاد حضرت محمدؐ نے محض اپنے دفاع میں اس وقت کیا تھا جب 13 سال تک اہل مکہ کے مظالم سہنے اور حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد بھی اہل مکہ نے مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور ان کے خلاف تلوار اٹھائے رکھی۔ ایسی صورت حال میں اپنے دفاع کے سوا مسلمانوں کے پاس اور کچھ چارہ نہ تھا۔ ان کے نزدیک اسلام کو پھیلانے کے لیے کسی تلوار کی ضرورت نہیں بلکہ اسلام آزادی مذہب کا علمبردار ہے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اسلام پر حملے تلوار سے نہیں بلکہ اعتراضات کے ذریعہ کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس زمانہ میں تلوار کا دفاعی جہاد موقوف ہے اور اس کی بجائے قلم اور اشاعت دین کا جہاد فرض ہے۔ لکھتے ہیں[21]:

یہ مت خیال کرو کہ ابتداء میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا۔ کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن کو قائم کرنے کے لئےکھینچی گئی تھی۔مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا۔

مذہبی مباحثے اور دعوت مقابلہ

مرزا غلام احمد نے اپنے وقت کے متعدد مشہور مذہبی رہنماوں سے مباحثے کیے اور ان کو مقابلہ کی دعوت دی۔ ان میں سے چند کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔

پنڈت لیکھرام

پنڈت لیکھرام ایک ہندو مذہبی رہنما تھا جس کا تعلق آریہ سماج کی تنظیم سے تھا۔ اس نے اسلام اور بانی اسلام کے خلاف تقاریر کیں اور کتب لکھیں تو مرزا غلام احمد نے اسے دعوت مقابلہ دی۔ بحث تک نوبت نہ آئی لیکن مرزا غلام احمد نے اس کے متعلق اپنے الہمات پر مشتمل یہ پیشگوئی شائع کی کہ پنڈت لیکھرام 6 سال کے عرصہ میں عید سے متصل دن کو فوت ہو جائے گا۔

پادری عبد اللہ آثم

پادری عبد اللہ آثم یا آتہم ایک مسلمان تھا جس نے عیسائی دین اختیار کر لیا تھا اور اسلام پر تنقید کرتا تھا۔ مرزا غلام احمد نے اسے دعوت مقابلہ دی۔ اس پر ایک تحریری مباحثہ منعقد ہوا جسء مرزا غلام احمد نے جنگ مقدس کے نام سے شائع کر دیا۔ اس مباحثہ کے آخر پر انھوں نے پادری عبد اللہ کو مباہلہ کی دعوت دی اور خبردار کیا کہ اگر اس نے حق کو جان لینے کے باوجود اس کی مخالفت کی توسزا کا حقدار ہو گا۔

پادری ڈوئی

پادری جان الیگذنڈر ڈوئی امریکا کا مشہور عیسائی پادری تھا جس نے اپنا ایک الگ فرقہ بنایا تھا اور اپنے پیروکاروں کے لیے صحیون کے نام سے الگ شہر بھی بسایا تھا۔ مرزا غلام احمد نے ڈوئی کو مقابلہ کی دعوت دی۔ مرزا غلام احمد نے اس کے بارہ میں پیشگوئی کی کہ جھوٹ پر مبنی دعویٰ کی وجہ سے ڈوئی ان کی زندگی میں فوت ہو جائے گا۔

وفات

مرزا غلام احمد نے لاہور میں 26 مئی 1908 کو وفات پائی۔ میت کو بذریعہ ریل ان کے آبائی گاؤں قادیان لایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔

اثر

مرزا غلام احمد کی قائم کردہ احمدیہ اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ ان کی تبلیغی سر گرمیوں کی وجہ سے افریقا اور مغربی ممالک میں مشہور ہے۔ پاکستان میں ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے مشہور افراد میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ محمد ظفر اللہ خان، پہلے اور واحد سائنسی نوبل انعام یافتہ عبد السلام، سیکرٹری منصوبہ بندی میاں مظفر احمد شامل ہیں۔

مخالفت

مرزا غلام احمد کو ابتدا میں تو مسلمان مشاہیر کی جانب سے پزیرائی حاصل ہوئی جو ان کے دعویٰ مسیح موعود کے بعد سخت مخالفت میں تبدیل ہو گئی۔ مسلمان علما نے اس وقت ان پر کفر کا فتویٰ لگایا جن میں سر فہرست احمد رضا خان، مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی نذیر احمد، پیر مہر علی شاہ وغیرہ معروف علما شامل تھے۔

مولانا احمد رضا خان نے 1893ء میں پہلی بار ان کے دعوؤں پر گرفت کی۔ اور پھر انھوں نے حسام الحرمین کے نام سے علمائے مکہ و مدینہ سے مرزا غلام احمد پر فتویٰ کفر تصدیق کروا کر شائع کیا۔

مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد بھی ان کی تحریرات مسلمانوں میں بالخصوص اور مذہبی دنیا میں بالعموم بہت سی کتب اور بحثوں کا موضوع رہیں۔ رابطہ عالم اسلامی نے ان کی تعلیمات کو اسلام کے خلاف قرار دیا۔ اسی طرح 1974 میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ ان کے پیروکاروں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ متعدد مسلمان ممالک میں ان کی کتب اور ان کے پیروکاروں کی سرگرمیوں پر پابندی کے لیے تحریکات موجود ہیں۔

اولاد

مرزا غلام احمد صاحب نے دو شادیاں کیں۔ دونوں سے اولاد ہوئی۔ پہلی بیوی حرمت بی بی اور دوسری بیوی نصرت جہاں بیگم تھیں۔

پہلی بیوی سے :

  • مرزا سلطان احمد (1853–1931)
  • مرزا فضل احمد (1855–1904)

دوسری بیوی سے :

  • مرزا بشیر الدین محمود احمد (1889–1965)
  • مرزا بشیر احمد (1893–1963)
  • مرزا شریف احمد(1895–1961)
  • نواب مبارکہ بیگم (1897–1977)
  • امتہ الحفیظ بیگم (1904–1987)

جبکہ یہ بچے جلد ہی فوت ہو گئے:

  • عصمت (1886–1891)
  • بشیر اول (1887–1888)
  • شوکت (1891–1892)
  • مرزا مبارک احمد (1899–1907)
  • امتہ النصیر (1903–1903)

تصانیف

  • مجموعہ تصنیفات روحانی خزائن
  • مجموعہ تقاریر ملفوظات
  • مجموعہ اشتہارات

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/149854335 — بنام: Mirza Ghulam Ahmad — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Mirza-Ghulam-Ahmad — بنام: Mirza Ghulam Ahmad — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/08433911X — اخذ شدہ بتاریخ: 5 مارچ 2020
  4. Adil Hussain Khan. "From Sufism to Ahmadiyya: A Muslim Minority Movement in South Asia" Indiana University Press, 6 apr. 2015 p 42
  5. "Chapter Two – Claims of Hadhrat Ahmad"۔ Alislam.org۔ 24 جون 1904۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-05-20
  6. "The Fourteenth-Century's Reformer / Mujaddid"، from the "Call of Islam"، by محمد علی (احمدی)
  7. http://www.alislam.org/apps/cob/webapp/ Ten Conditions of Bai’at
  8. Adil Hussain Khan. "From Sufism to Ahmadiyya: A Muslim Minority Movement in South Asia" Indiana University Press, 6 apr. 2015 ISBN 978-0-253-01529-7
  9. براھین احمدیہ، حصہ سوم۔ صفحہ 238۔ بمطابق روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 265۔
  10. ازالہ اوہام صفحہ 561۔562۔ روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 402
  11. الوصیت، روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 309۔310
  12. تریاق القلوب، صفحہ 13
  13. آئینہ کمالات اسلام، صفحہ 275
  14. مجموعہ اشتہارات، جلد 2 صفحہ 311
  15. آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5، صفحہ 160
  16. ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 169۔170
  17. سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 71
  18. اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10، صفحہ 442
  19. کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 26۔27
  20. ازالہ اوہام صفحہ 561۔562۔ روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 402
  21. ستارہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 15، صفحہ 120۔121