مروان الثانی
مروان ثانی بنو امیہ کا آخری حکمران تھا۔ 740ء میں خلیفہ بنا۔ مروان عمر رسیدہ، تجربہ کار، مستقل مزاج اور بہادر خلیفہ تھا۔ جب تخت نشین ہوا اس وقت اموی حکومت درہم برہم ہو چکی تھی۔ خود اموی حکومت میں اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔ دربار شام مختلف گروہ بندیوں میں بٹ چکاتھا۔ مضری اور یمنی قبائل کی کش مکش نے خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ خارجی الگ سرگرم عمل تھے اور سب سے بڑھ کر دعوت عباسی سارے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور اس کے داعی ملک کے کونے کونے میں گھوم پھر کر عوامی جذبات کو امویوں کے خلاف بھڑکا کر اپنی کامیابی کے لیے راہ ہموار کر رہے تھے۔
| |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
تاریخ پیدائش | سنہ 688ء | ||||||
وفات | 6 اگست 750ء (61–62 سال) | ||||||
وجہ وفات | تیز دار ہتھیار کا گھاؤ | ||||||
طرز وفات | قتل | ||||||
شہریت | سلطنت امویہ | ||||||
والد | محمد بن مروان | ||||||
خاندان | خلافت امویہ | ||||||
مناصب | |||||||
خلیفہ سلطنت امویہ (14 ) | |||||||
برسر عہدہ 4 دسمبر 744 – 25 جنوری 750 |
|||||||
| |||||||
دیگر معلومات | |||||||
استاذ | الجعد بن درہم | ||||||
پیشہ | عسکری قائد ، سیاست دان ، گورنر ، خلیفہ | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
لڑائیاں اور جنگیں | تیسرا فتنہ ، عباسی انقلاب | ||||||
درستی - ترمیم |
اموی حکومت کی بنیاد اور اساس عرب تھے۔ ان کی ساری کامرانیاں فوج کی وفاداریاں اور اتحاد پر مبنی تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے اب عربوں کی قدیم قبائلی عصبیتں جاگ اٹھی تھیں اور وہ باہم دست و گریباں تھے۔ یمنی اور مضری ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے لٰہذا فوج کی وفاداریاں بھی بٹ چکی تھیں۔ مروان نے تخت نشین ہونے کے بعد دمشق کی بجائے حران کو دار الخلافہ بنایا۔ اس تبدیلی نے شامیوں کے حاسدانہ جذبات کو برانگیختہ کیا اور وہ مروان کے خلاف متحد ہو گئے۔ اس تفریق سے عباسی داعیوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اگر شامی اپنی وفاداری اور اطاعت سے روگردانی نہ کرتے مضری اور یمنی قبائل خانہ جنگی میں مبتلا نہ ہوتے تو مروان کو عباسی دعوت کچل چینے کے لیے وقت اور وقت دونوں حاصل ہو جاتے اور ایسی صورت میں خلافت بنو امیہ کے قائم رہنے کے امکانات ہو سکتے تھے لیکن چونکہ مروان اپنی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر عباسی تحریک کو بروقت نہ دبا سکا لٰہذا انھوں نے بڑھ کر اموی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
شامیوں کی بغاوت
ترمیمبنو امیہ |
خلفائے بنو امیہ |
---|
معاویہ بن ابو سفیان، 661-680 |
یزید بن معاویہ، 680-683 |
معاویہ بن یزید، 683-684 |
مروان بن حکم، 684-685 |
عبدالملک بن مروان، 685-705 |
ولید بن عبدالملک، 705-715 |
سلیمان بن عبدالملک، 715-717 |
عمر بن عبدالعزیز، 717-720 |
یزید بن عبدالملک، 720-724 |
ہشام بن عبدالملک، 724-743 |
ولید بن یزید، 743-744 |
یزید بن ولید، 744 |
ابراہیم بن ولید، 744 |
مروان بن محمد، 744-750 |
مروان کی سب سے پہلی مخالفت شامیوں نے کی۔ شام کے مضری اور یمنی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔ مروان کو مضریوں کی ہمدردیاں حاصل تھیں لیکن شام میں یمنیوں کی اکثریت تھی۔ حمص اور فلسطین کے باشندوں نے بھی مروان کی خلافت کو تسلیم نہ کیا اور اہل غوطہ نے شام پر حملہ کر دیا۔ سارے علاقے میں ابتری پھیل گئی۔ مروان نے حوصلہ سے کام لیا اور اہل حمص کو شکست دی۔ فلسطین کے باغیوں کو وہاں کے باشندوں اور بعد میں ابوالورد نے مطیع کیا لیکن اب شامیوں نے خلیفہ ہشام کے لڑکے سلیمان کو ساتھ لا کر بغاوت کر دی۔ سلیمان ستر ہزار فوج لے کر شام کی طرف بڑھا۔ دونوں افواج کا مقابلہ خساف کے مقام پر ہوا جس میں سلیمان کو شکست ہوئی اور شامی بغاوت دبا دی گئی۔ لیکن اب بغاوت نے اموی خلافت کی بنیادیں ہلا دیں۔
عبد اللہ بن معاویہ کی بغاوت
ترمیممروان کی مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنو ہاشم اور ان کے حامی میدان میں آ نکلے۔ عبد اللہ بن معاویہ حضرت جعفر طیار کے پوتے تھے۔ چنانچہ شعیان علی کے علاوہ یمن اور ربیعہ کے قبائل نے ان کا ساتھ دیا۔ کوفہ کے والی عبد اللہ بن عمر نے ان کو دبانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے۔ اس دوران انھوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ عبد اللہ بن عمر نے ان کی جاں بخشی کر دی وہ عراق سے نکل کر ہمدان رے اور وہاں سے اصفہان چلے گئے جہاں اپنی حکومت قائم کر لی ابومسلم خراسانی نے انھیں قتل کر دیا۔
خوارج کی بغاوتیں
ترمیممروان نے والی کوفہ عبد اللہ بن عمر کو معزول کرکے ان کی جگہ نصر بن سعید حرشی کو مقرر کیا۔ عبد اللہ نے نامزد گورنر کو چارج دینے سے انکار کر دیا جس پر دونوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔ اس باہمی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر ضحاک بن قیس شہبائی نے بغاوت کر دی۔ یہ خوارج کا رہنما تھا۔ حالات کے اس طرح بگڑنے پر نصر اور عبد اللہ دونوں نے صلح کر لی اور مل کر خوارج کا مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی اور خوارج نے کوفہ پر قبضہ کر لیا۔
اب عبد اللہ نے ضحاک سے صلح کر لی اور مروان سے مقابلہ کے لیے نصیبین کی طرف بڑھا لیکن شکست کھائی اور مارا گیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی دیگر لیڈروں کی قیادت میں خارجی کوفہ اور بصرہ میں لڑتے رہے۔ مروان نے ابن ہبیرہ کو ان کی بیخ کنی پر مامور کیا۔ اگرچہ اس نے کئی ایک مہمات میں کامیابی حاصل کی لیکن خوارج کی طاقت کو نہ توڑا جا سکا۔ لٰہذا مروان خود ان کے مقابلہ کے لیے موصل پہنچا اور خوارج کی مسلسل ہنگامہ آرائی کا خاتمہ کرکے سرزمین حجاز کی طرف متوجہ ہوا کینوکہ اب حجاز خوارج کی سرگرمیوں کی آماجگاہ بن چکا تھا
یمن کو بھی خارجی اپنا مرکز بنا چکے تھے۔ حج کے دنوں میں ایک خارجی سردار ابوحمزہ نے بغاوت کا آغاز کیا۔ والی مکہ عبد الواحد مدینہ بھاگ گیا۔ حج سے فراغت کے بعد خارجیوں نے مدینہ کا رخ گیا۔ عبد الواحد نے اہل مدینہ پر مشتمل ایک فوج مقابلہ کے لیے روانہ کی۔ دونوں کا مقابلہ مقام قدیر میں ہو جس میں اہل مدینہ کو زبردست شکست ہوئی۔ اس تباہی کی بنا پر مدینہ ماتم کدہ بن گیا۔ مدینہ پر قبضہ کرنے کے بعد فتح مند خارجی اب شام کی طرف بڑھے مگر وادی القریٰ میں اموی فوج کے ساتھ مقابلہ کے بعد شکست کھائی۔ اس جنگ میں خوارج کی کثیر تعداد ماری گئی جس کی وجہ سے ان میں مزید مقابلہ کی قوت باقی نہ رہی۔
عباسیوں کا ظہور
ترمیمان پریشان کن حالات میں جب کہ مروان کئی محاذوں پر مخالفین کے خلاف سرگرم عمل تھا عباسی تحریک کے داعیوں نے حالات کو سازگار محسوس کرتے ہوئے بنو ہاشم کے حامیوں کو کھلم کھلا بغاوت کی دعوت دی اور مئی 747ء کا دن مقرر کرکے باقاعدہ خروج کا اعلان بھی کر دیا۔ امام ابراہیم عباس کے سوگ میں باغیوں کے علم اور لباس کا رنگ سیاہ قرار دیا گیا۔ وقت مقرر پر خراسان کے کونہ کونہ سے ہزارہا انسان اپنے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے ڈنڈے لیے نکل کھڑے ہوئے جن کا نام انھوں نے کافر کوب رکھا ہوا تھا۔
مرو پر قبضہ
ترمیماس خوفناک صورت حال کی بنا پر والئی خراسان نصر سخت پریشان ہوا۔ اس نے عرب قوم کو متحد ہونے کی دعوت دی۔ اس درخواست کا خاطر خواہ اثر ہوا اور ربیعہ اور یمن کے قبائل نے اپنے دشمن کا متحد ہو کر مقابلہ کرنے کا عزم کیا لیکن ایک عباسی داعی کے غیرت دلانے پر قبیلہ ربیع کا رہنما علی بن جدیع کرمانی نصر سے الگ ہو گیا کیونکہ نصر نے علی کے باپ جدیع کرمانی کو دھوکا سے مروا دیا تھا۔ اب ابومسلم خرسانی نے کمال ہوشیاری سے قبائل کو اپنے ساتھ ملا لیا اور مرو پر فوج کشی کی اور اس پر 747ء / 129ھ میں قابض ہونے کے بعد عباسی خلافت کی بنیاد رکھی۔ ابو مسلم خراسانی کی عرب دشمنی مسلم تھی چنانچہ جب اس نے محسوس کیا کہ اب اسے ربیع یمنی قبائل کی امداد کی ضرورت نہیں تو ان کے بیشتر افراد اور سرداروں کو قتل کر دیا۔
دوسری طرف مروان اس دوران عباسی خلافت کے حقیقی باغیوں کا سراغ لگانے میں کوشاں تھا۔ اس دوران ابومسلم خراسانی کا ایک کارندہ خفیہ پیغام لے کر ابراہیم کے پاس جا رہا تھا کہ مروان کو اس کی خبر ملی۔ مروان نے اس قاصد کو گرفتار کر لیا۔ اسے دس ہزار کا لالچ دے کر ابراہیم کا جواب اسے واپس لا کر دینے پر رضا مند کر لیا۔
چنانچہ جاسوس ابراہیم کا جواب لے کر سیدھ مروان کے پاس پہنچا۔ اس خط میں ابومسلم کو ہدایات تھیں کہ وہ دشمنوں کا جلد خاتمہ کر دے اور کسی عربی بولنے والے کو زندہ نہ چھوڑے۔ یہ قطعی ثبوت پا کر مروان نے ابراہیم کو گرفتار کر لیا اور ان سے باز پرس کی لیکن ابراہیم نے کسی بات کے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اس پر مروان نے قید میں ڈال کر انھیں قتل کرا دیا۔ ابراہیم کی موت کے بعد ابومسلم خراسانی اور دیگر داعیوں نے مزید تیزی سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔
کوفہ پر قبضہ
ترمیممرو پر قبضہ کے بعد ابو مسلم خراسانی کے مشہور جرنیل قحطبہ نے طوس سوزقان، نیشاپور اور جرجان فتح کرتے ہوئے اپنی پیش قدمی جاری رکھی چناندہ رے، اصفہان، نہاوند اور حلوان کے علاقے بھی ان کے قبضہ میں آ گئے۔ اب ان فتح داعیوں نے کوفہ کارخ کیا۔ قحطبہ کے ساتھ خالد برمکی بھی تھا۔ عباسی داعیوں اور ابن ہبیرا والئی عراق کی افواج کے درمیان زبردست معرکہ آرائی ہوئی۔ قحطبہ جنگ کے دوران قتل ہوا لیکن اس کے بیٹے حسن نے کمان سنبھال لی اور ابن ہبیرہ کو شکست دینے میں کامیاب ہوا ابن ہبیرہ شکست کھا کر واسطہ پسپا ہو گیا۔
معرکہ زاب اور اموی خلافت کا خاتمہ
ترمیمابراہیم عباسی کے خط اور نصر کی بار بار کی یاد دہانی کی وجہ سے اموی خلیفہ مروان کی آنکھیں کھل چکی تھیں۔ خوارج سے نپٹنے کے بعد اب مروان ثانی ایک لاکھ بیس ہزار کا لشکر لے کر دریائے زاب کے کنارے خیمہ زن ہوا۔ عباسیوں اور امویوں کے درمیان آخری بار اس مقام پر زبردست معرکہ آرائی ہوئی جس میں مروان ثانی کو شکست ہوئی یہ تاریخ واقعہ 11 جمادی الثانی 132ھ 25 جنوری 750ء کو پیش آیا
وفات
ترمیماس شکست نے تاریخ اسلام کا رخ بدل دیا۔ اب قوت اقتدار امویوں کی بجائے عباسیوں کے ہاتھوں منتقل ہو گیا۔ مروان شکست کھا کر موصل میں پناہ گزین ہوا۔ عبد اللہ بن علی اس کے تعاقب میں وہاں پہنچا۔ مروان بھاگ کر حران اور شام ہوتا ہوا مصر جا نکلا۔ عباسیوں نے شام پر قبضہ کر لیا اور صالح بن عون کو مروان کے تعاقب میں روانہ کیا۔ اب مروان کے لیے نہ جائے رفتن اور نہ پائے رفتن کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ چنانچہ ذی الحجہ 132ھ کو اپنی مختصر سی جماعت کے ساتھ لڑتا ہو ابو صیر کے مقام پر مارا گیا اور اس کی وفات کے ساتھ ہی اموی اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔
سیرت و کردار
ترمیممروان ثانی بنو امیہ کا آخری تاجدار تھا۔ ہمت شجاعت اور مستقل مزاجی میں کسی بھی اعلی اموی حکمران سے کم نہ تھا۔ تخت نشینی کے بعد اس نے تمام مشکلات، مصائب اور پیچیدہ مسائل کا نہایت ہی خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ اگر وہ سازگار حالات میں حکمران بنتا تو شاید ایک بہتر اور کامیاب حکمران ثابت ہوتا۔ اس کی جسمانی طاقت، قوت برداشت اور مسلسل جدجہد کی بنا پر اسے الحمار (گدھا) کا لقب دیا گیا۔ وہ ایک تجربہ کار، معمر اور لائق خلیفہ تھا۔ لیکن زوال و انتشار اس حد تک پھیل چکے تھے کہ بنو امیہ کو تباہی سے روکنا تنہا مروان کے بس کی بات نہ تھی۔ اس ناکامی کا سبب سابقہ خلفاءکی کوتاہیاں اور غلطیاں اور عربوں کی باہمی پھوٹ تھی۔ اگر شامی بھی اسے دغا نہ دے جاتے تو انھیں معلوم تاریخ کون سا رخ اختیار کر لیتی ۔
اس کی زندگی سادگی کا اعلٰی نمونہ تھی۔ عیش و آرام سے اسے نفرت تھی۔ اپنی اکثر زندگی فوجی کیمپ میں گزاری اور اپنے فوجیوں کے ساتھ ہر دکھ سکھ میں ان کا برابر کا شریک رہا۔ بہادری اور شجاعت کی اس میں کمی نہ تھی لیکن جیسا کہ ابن تاثیر کا بیان ہے کہ چونکہ تقدیر کا فیصلہ اٹل تھا سی لیے اس کی بہادری اور دانائی اس کے کام نہ آسکی۔ ان سب خوبیوں کے باوجود قبائلی عصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہا اور اسی داخلی خانہ جنگی کی بدولت بالآخر اسے بنو عباس کے مقابلہ میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کا جھکاؤ مضری قبائل کی طرف تھا اس لیے یمنی قبائل کی ہمدردیاں حاسل نہ کر سکا۔ ابو مسلم خراسانی جیسے شاطر اور ذہین شخص نے عربوں کے اس باہمی انتشار سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اگر مروان وسعت نظر سے کام لیتا اور قبائلی عصبیت سے بالاتر رہ کر اپنی حکمت عملی اور پالیسی اختیار کرتا تو بنو عباس اتنی تیزی اور آسانی سے فتح یاب نہ ہوتے ۔
اموی شہزداے کا فرار
ترمیممروان ثانی کی شکست کے بعد بنو عباس نے چن چن کر بنو امیہ کے لوگوں کو قتل کیا۔ ان لوگوں میں سے بھاگ کر جان بچانے والے بچوں اور عورتوں کے سوا اموی خاندان کا کوئی فرد بھی زندہ نہ بچ سکا۔ شاہی خاندان کا صرف ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل افریقا جا کر جان بچا سکا۔ وہ وہاں سے بچتا بچاتا سپین جا پہنچا جہاں اس نے بنو امیہ کی مضبوط ہسپانوی حکومت قائم کی اور سپین میں عظیم الشان اسلامی دور کا آغاز ہوا۔