اسلام میں مسجد حرام سب سے عظیم الشان اور مقدس مسجد سمجھی جاتی ہے، یہ مسجد سعودی عرب کے مغرب میں واقع شہر مکہ کے وسط میں واقع ہے۔ مسجد حرام کے وسط میں کعبہ ہے جو اسلامی عقیدہ کے مطابق، اللہ کی عبادت کے لیے زمین پر بنایا جانے والا پہلا گھر ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک یہ مقام دنیا میں سب سے زیادہ مقدس و متبرک اور ان کا قبلہ ہے۔ چونکہ فتح مکہ کے موقع پر اس مسجد کے احاطہ میں کسی کو مارنا یا قتل کرنا ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا گیا تھا، اس لیے اس کا نام مسجد حرام رکھا گیا۔ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام کی اسی اہمیت کے پیش نظر خلفاء راشدین اور بعد میں آنے والے مسلم حکام و خلفاء نے مسجد کی توسیع کا خصوصی اہتمام جاری رکھا۔ تاریخ اسلام میں اس مسجد کی سب سے پہلی توسیع عمر بن خطاب کے ہاتھوں سنہ 17ھ میں ہوئی، اس کے بعد سے توسیع کا عمل مستقل چلتا رہا اور آج بھی جاری ہے۔

حرم مکی کی توسیعات
مسجد حرام کا فضائی منظر، 2013ء
مسجد حرام کا فضائی منظر، 2013ء
مسجد حرام کا فضائی منظر، 2013ء

دور صحابہ کی توسیعات
عمر بن خطاب «17ھ» 560 میٹر
عثمان بن عفان «26ھ» 1710 میٹر
عبدالله بن زبير «65ھ» 3340 میٹر
وليد بن عبد الملك «91ھ» .......

دور عباسی کی توسیعات
ابو جعفر المنصور «137 - 140هـ» 5320 میٹر
محمد مہدی عباسی «160 - 164ھ» 15020 میٹر
معتضد بالله عباسی « 284ھ» 1320 میٹر
مقتدر بالله عباسی « 306ھ» 950 میٹر

سعودی دور کی توسیعات
عبد العزيز آل سعود «1375 - 1396ھ» 125900 میٹر
فہد بن عبد العزيز آل سعود «1406ھ» 42000 میٹر

دور صحابہ

ترمیم

عمر بن خطاب

ترمیم

تاریخ اسلام میں مسجد حرام کی سب سے پہلی توسیع حضرت عمر بن خطاب نے کی، انھوں نے مسجد کے رقبہ میں 560 میٹر کا اضافہ کیا۔ ان کے دور خلافت میں مسجد حرام میں ایک زبردست سیلاب آگیا تھا، اس سیلاب کا نام “ام نہشل“ ہے۔ اس سیلاب نے مقام ابراہیم کو اپنی جگہ سے ہٹا دیا تھا، بعد میں اس پتھر کو حضرت عمر نے واپس اپنی جگہ رکھا۔ اس وقت مسجد حرام کے ارد گرد احاطہ کی بجائے مکانات موجود تھے، جن کی وجہ سے لوگوں کو تنگی کا بھی سامنا تھا۔ چناں چہ حضرت عمر نے ان مکانات کو خرید کر انھیں منہدم کر دیا، بعض مالکین نے مکان کی قیمت لینا گوارا نہیں کی اور کچھ لوگوں نے مکانات فروخت کرنے سے انکار کر دیا، چناں چہ ان گھروں کی قیمت کو کعبہ کے خزانہ میں داخل کرا دیا تاکہ بعد میں کبھی یہ لوگ لے سکیں، پھر مسجد کے ارد گرد دیوار احاطہ تعمیر کی۔[1]

عثمان بن عفان

ترمیم

سنہ 26ھ میں حضرت عثمان بن عفان نے مسجد میں مزید توسیع کی، جس کے بعد مسجد کا رقبہ بڑھ کر 4390 میٹر ہو گیا، عثمان بن عفان کا اضافہ کردہ رقبہ تقریباً 2040 میٹر تھا۔[2] اس توسیع میں مسجد حرام کے گرد موجود گھروں کو منہدم کر کے ان کی زمین کو مسجد کے احاطہ میں شامل کر لیا گیا تھا۔ عثمان بن عفان پہلے شخص تھے جنھوں نے مسجد حرام کے کچھ حصوں پر چھت ڈالی اور مرمر کے ستون کھڑے کیے۔ توسیع کے دوران میں عثمان بن عفان کو بھی وہی مشکل پیش آئی جو ان سے قبل عمر بن خطاب کو پیش آچکی تھی، ارد گرد موجود گھروں کے مالکین انھیں فروخت کرنے پر راضی نہیں تھے، لیکن حضرت عثمان نے قیمت دینے اور گھروں کو منہدم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ ان لوگوں نے مخالفت میں آواز بلند کی تو حضرت عثمان نے کہا: " میری نرمی کی وجہ سے تمھیں میری مخالفت کی جرات ہوئی، عمر نے بھی اس قبل تمھارے ساتھ یہی کیا تھا لیکن اس وقت تو کسی نے کچھ نہیں کہا" اور ان لوگوں کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔ بعد ازاں امیر مکہ عبد اللہ بن خالد بن اسید کی سفارش پر انھیں رہا کیا اور ان کے گھروں کی قیمتیں عطا کر دیں۔

دور اموی

ترمیم

عبد اللہ بن زبیر

ترمیم

سنہ 60ھ میں عبد اللہ بن زبیر نے کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا۔ اس تعمیر نو کی وجہ یہ تھی کہ یزید بن معاویہ کے لشکر نے عبد اللہ بن زبیر کا محاصرہ کیا تھا، محاصرہ کے دوران یزید کے لشکر نے مسجد حرام میں جلتے ہوئے گولے داغے، جس کی وجہ سے کعبہ کو خاصا نقصان ہوا، اس محاصرہ کا اختتام یزید بن معاویہ کی وفات پر ہوا تھا۔

ولید بن عبد الملک

ترمیم

سنہ 91ھ میں ولید بن عبد الملک نے مسجد حرام کی چوتھی توسیع کی، اس توسیع کی وجہ یہ تھی کہ پانی کا زبردست ریلا مسجد میں داخل ہو گیا تھا جس کی وجہ سے مسجد کو نقصان پہنچا۔ ولید بن عبد الملک نے مسجد کے رقبہ میں بھی توسیع کی اور تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ولید پہلا شخص ہے جس نے مسجد حرام کی تعمیر میں مصر و شام سے درآمد شدہ ستونوں کو استعمال کیا اور مضبوط چھتیں تعمیر کیں تاکہ نمازیوں کو دھوپ سے پریشانی نہ ہو۔

دور عباسی

ترمیم

ابو جعفر منصور

ترمیم

ابو جعفر منصور نے رکن شامی کے رقبہ میں اضافہ کیا، اسی کے پاس دار الندوۃ اور دار النخلۃ ہوا کرتا تھا۔ منصور نے رکن شمالی اور رکن مغربی پر منارہ تعمیر کیا، نیز حجر اسماعیل کو مرمر سے مزین کرنے اور چاہ زمزم پر جالی لگانے کا حکم دیا۔ یہ توسیع سنہ 137ھ سے 140ھ تک جاری رہی۔

معتضد باللہ

ترمیم

سنہ 281ھ سے 284ھ تک معتضد باللہ نے مختلف ترامیم و توسیع کی۔ دار الندوۃ کو منہدم کرایا اور ایک غلام گردش تعمیر کرائی جو مسجد حرام کے چھ دروازوں پر محیط تھی۔ عمدہ ستون کھڑے کیے اور چھت میں ساگوان کی لکڑی لگائی، نیز مسجد کے اندر بارہ دروازے اور باہر تین دروازے بھی بنائے۔ یہ توسیع تین سال تک جاری رہی۔

مقتدر باللہ

ترمیم

سنہ 306ھ میں مقتدر باللہ نے زبیدہ بنت جعفر کے نام پر مسجد کے رقبہ میں اضافہ کیا اور ایک بڑا دروازہ تعمیرا کرایا جو اس وقت باب ابراہیم کے نام سے مشہور ہے۔

دور سعودی

ترمیم

عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود

ترمیم

مسجد حرام وسیع ہوتے ہوتے آس پاس موجود گھروں تک پہنچ گئی دوسری طرف دنیا میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی وجہ سے حجاج کی تعداد بڑھ رہی تھی۔ ایسی صورت میں مسجد کے رقبہ میں اضافہ ناگزیر ہو گیا، چناں چہ شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن نے مسجد حرام کے انتظام کے لیے ایک علاحدہ کمیٹی تشکیل دی جس کا نام مجلس إدارة الحرم رکھا گیا۔ اس کمیٹی کو مسجد حرام کے جملہ معاملات کا انتظام، نگہبانی اور خدمت سونپی گئی۔ نیز شاہ عبد العزیز نے ایک اہم کام یہ کیا کہ تمام مصلیان مسجد کو ایک امام کے پیچھے یکجا کر دیا، جبکہ اس سے پہلے چار فقہی مسالک کے مطابق چار جماعتیں ہوا کرتی تھیں۔

دیگر اہم خدمات:

  • سنہ 1344ھ تک مسجد حرام کی مرمت مکمل کی۔
  • 1346ھ میں غلام گردشوں میں ترمیم کی، دیواروں اور ستونوں پر سونے کا روغن چڑھایا اور قبہ زمزم کی مرمت کی۔
  • مصلیان مسجد کی دھوپ سے بچاؤ کے لیے چھتریاں بنائیں۔
  • صفا اور مروہ کے درمیان میں پتھروں کا فرش لگایا۔
  • شعبان 1347ھ، مسجد میں موجود آلات روشنی کی تجدید کی اور انھیں بڑھا کر ایک ہزار تک کر دیا۔
  • 14 صفر 1373ھ کو جب مکہ مکرمہ میں بجلی لائی گئی تو مسجد حرام بھی بقعہ نور بن گئی اور بجلی سے چلنے والے پنکھے رکھے گئے۔

سعود بن عبد العزیز آل سعود

ترمیم

شاہ سعود کے دور میں ربیع الآخر 1375ھ کو مسجد حرام کے توسیعی منصوبہ کا آغاز ہوا، اس کے بعد مسجد کا رقبہ تقریباً 28 ہزار میٹر ہو گیا جس میں پچاس ہزار مصلیان کی گنجائش تھی۔ یہ توسیع دس سال تک جاری رہی۔[3] جمعرات 23 شعبان 1375ھ بمطابق 5 اپریل 1956ء کو توسیع کی ابتدا ہوئی۔[4] یہ توسیع متعدد مرحلوں سے گذر کر مکمل ہوئی، ان کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

  • صفا کے پیچھے نئی سڑک نکالی گئی، تاکہ ٹریفک مقام سعی سے دور ہی گذر جائے۔ مقام سعی پر سیمنٹ کا فرش لگایا گیا اور سعی کرنے کے لیے دو منزلہ عمارت تعمیر ہوئی تاکہ کثیر تعداد کو بھی سعی کرنے میں آسانی ہو۔ چناں چہ اب مقام سعی کی لمبائی 394.5 میٹر، چوڑائی 20 میٹر، نچلی منزل کی بلندی 12 میٹر اور اوپری منزل کی بلندی 9 میٹر ہو گئی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ابو الولید ازرقی نے ابن جریج کی سند سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے
  2. كتاب الزيادات في الحرم المكي الشريف - از شريف محمد بن مساعد آل عبد الله
  3. "سعودی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ"۔ 18 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2013 
  4. "شاہ سعود کے دور کے واقعات"۔ 23 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2015