سید مظفر حسین برنی المعروف ایس ایم ایچ برنی (پیدائش: 14 اگست، 1923ء - وفات: 7 فروری، 2014ء) بھارت کے معروف سول سرونٹ، اردو زبان کے نامور محقق، اقبال شناس اور دانشور تھے۔ ان کی مرتب کردہ کتاب کلیاتِ مکاتیبِ اقبال ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ وہ بھارت کی ریاست اوڑیسہ کے چیف سیکریٹری، ناگالینڈ، تریپورہ، منی پور، ہریانہ اور ہماچل پردیش کے گورنر اور بھارت کی مرکزی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے چانسلر کے عہدوں پر خدمات انجام دیں۔مظفر حسین برنی قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین بھی رہے۔

مظفر حسین برنی
معلومات شخصیت
پیدائش 14 اگست 1923ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلند شہر،  اتر پردیش،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 فروری 2014ء (91 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نئی دہلی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
گورنر تری پورہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
14 اگست 1981  – 13 جون 1984 
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان،  غیر فکشن مصنف،  سرکاری ملازم،  محقق،  سربراہ ریاست،  وائس چانسلر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو،  ہندی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت حکومت اوڑیسہ،  حکومت ناگالینڈ،  حکومت تریپورہ،  حکومت منی پور،  حکومت ہماچل پردیش،  حکومت ہماچل پردیش،  قومی اقلیتی کمیشن،  جامعہ ملیہ اسلامیہ  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی ترمیم

مظفر حسین برنی 14 اگست 1923ء کو بلند شہر، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ اترپردیش کے بریلی کالج سے تعلیم حاصل کی[1] اور انڈین ایڈمنسڑیشن سروس میں شمولیت اختیار کی اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اوڑیسہ کے چیف سیکریٹری[2] کے عہدے تک پہنچے۔ دورانِ ملازمت 1981ء سے 1984ء تک ناگالینڈ، تریپورہ اور منی پور کے گورنر اور 1987ء سے 1988ء تک ہریانہ اور ہماچل پردیش کے گورنر رہے۔ مظفر حسین برنی 1988ء سے 1992ء تک چوتھے اور پانچویں قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین بھی رہے۔ مظفر برنی کو 1990ء سے 1995ء تک جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے چانسلر[3] کے عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انھیں علامہ اقبال کی شخصیت سے گہرا لگاؤ تھا۔ اقبالیات کے موضوع پر ان کی تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں خصوصاً چار جلدوں میں کلیاتِ مکاتیبِ اقبال ان کا بہت کارنامہ مانا جاتا ہے جس میں انھوں نے پہلے سے مختلف مجموعوں میں مرتبہ مکاتیب اقبال کو زمانی ترتیب سے یکجا کرنے کے علاوہ متعدد ایسے خطوط بھی شامل کیے ہیں جو کسی اور مجموعے میں شامل نہیں تھے اور بعض نئے خطوط بھی دریافت کیے۔ ان کی دیگر کتابوں میں محب وطن اقبال (1984ء)، اقبال اور قومی یکجہتی (1986ء) شامل ہیں۔ ان کی وفات 7 فروری 2014ء میں ہوئی۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. "بریلی کالج کے فارغ التحصیل"۔ 19 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  2. "1936ء سے اوڑیسہ کے چیف سیکریٹریز" (PDF) 
  3. "جامعہ ملیہ اسلامیہ - تاریخ"۔ 21 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2019 
  4. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ،ادبی مشاہیر کے خطوط، قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور، 2019ء، ص 255