ابو البرکات منیر لاہوری جسے عام طور پر مولا منیر لاہوری (1610 – 1644) کے نام سے جانا جاتا ہے ایک پنجابی [1] فارسی زبان کا شاعر اور نثر نگار تھا جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور حکومت میں سرگرم تھا۔

منیر لاہوری
معلومات شخصیت
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابوالبرکات منیر لاہوری، معروف بہ ملا منیر لاہوری، 12 رمضان 1019 ہجری بمطابق 28 نومبر 1610 عیسوی کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ عموماً ان کا شمار عہدِ شاہجہانی کے دوران لاہور سے تعلق رکھنے والے تین بزرگ شعرا میں ہوتا ہے۔

پس منظر

ترمیم

28 نومبر 1610 کو ایک پنجابی خاندان میں پیدا ہوئے، منیر کا تعلق لاہور سے تھا۔ اس کے والد، عبد الجلیل حافظ ابو اسحاق، شہنشاہ اکبر کے ذریعہ ملازم ایک ماہر خطاطی تھے۔ اس کے دو بھائی، ابو الفیض (قلمی نام فیضا") اور ابو الفتح (قلمی نام دمیر) بھی شاعر تھے۔ [2]

خاندان

ترمیم

ابو البرکات منیر جس خاندان سے تعلق رکھتے تھے، وہ خاندان اپنے لطیف شعری ذوق، تہذیبی نفاست اور تقوے کے لیے مشہور تھا۔ اُن کے والد مشہور خطاط تھے جنہیں اکبر نے ملازمت میں رکھا تھا۔

ذاتی حالات

ترمیم

ابوالبرکات نے چودہ سال کی عمر میں منیر بطور تخلص منتخب کیا اور اپنی شاعر کے طور پر زندگی کا آغاز کیا۔ اُن کی ابتدائی تخلیقات زیادہ تر فلکی، سنائی اور انوری کے اشعار کی تقلید پر مشتمل تھیں۔ 1635ء میں وہ اکبرآباد کے حاکم اور ملکہ ممتاز محل کے برادرِ نسبتی سیف خان کی خدمت میں آئے۔ اُن کے اپنے مطابق، سیف خان کی ادبی مجالس کے علما نے اُن کا اچھا استقبال کیا۔

1639ء میں اپنے مربی کی وفات کے بعد منیر نے حاکمِ جونپور کے دربار سے وابستگی اختیار کی، لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہ اکبرآباد لوٹ گئے، جہاں کے درباری شعرا کے خصوصی حلقے میں وہ شامل کر لیے گئے۔ 7 رجب 1054ھ بمطابق 9 ستمبر 1644ء کو اُن کا جوانی ہی میں انتقال ہو گیا اور وہ لاہور میں دفنائے گئے۔

کیریئر

ترمیم

منیر نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور شاعر چودہ سال کی عمر میں کیا۔ 1635 میں، وہ اکبر آباد کے گورنر مرزا صافی سیف خان (آگرہ اور ملکہ ممتاز محل کے بہنوئی) کی خدمت میں شامل ہوئے۔ جب سیف خان کو بنگال کا گورنر مقرر کیا گیا تو وہ ان کے ساتھ تھے۔ 1639 میں سیف خان کی موت کے بعد، منیر نے جون پور کے گورنر شاپور مرزا اٹیکاد خان کے دربار میں شمولیت اختیار کی لیکن جلد ہی اکبر آباد واپس آ گئے، جہاں انہیں درباری شاعروں کے اندرونی حلقوں میں داخل کیا گیا۔ انہوں نے اپنے آخری سال آگرہ میں گزارے، جہاں 9 ستمبر 1644 کو ان کا بچپن میں انتقال ہوا اور انہیں لاہور میں دفن کیا گیا۔ [2][3]

ادبی کام

ترمیم

شاہ جہاں کے دور حکومت میں لاہور کے تین بڑے شاعروں میں سے ایک کے طور پر پہچانے جانے والے، منیر ایک نامور مصنف تھے اور انہوں نے ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کے جوڑے لکھنے کا دعوی کیا۔ [3] ان کے ہم عصر جیسے چندربھن برہمن اور محمد صالح کمبوہ انہیں اپنے دور کے سب سے ماہر شاعروں میں سے ایک سمجھتے تھے۔ ان کی مشہور متھنویوں میں سے ایک مظہر گل ہے جسے متنوی در صفت بنگال بھی کہا جاتا ہے، جو 1639 میں لکھی گئی تھی اور بنگال کے علاقے کے نباتات، حیوانات اور آب و ہوا کو بیان کرتی ہے۔ یہ 1889 سے کئی بار شائع ہو چکا ہے۔ ان کے خطوط کے مجموعے انشا ئے منیر اور نوباوا (فرسٹ فروٹ) کے نام سے شائع ہوئے۔ 1640 میں لکھی گئی اپنی مختصر تصنیف کرنامہ میں انہوں نے مغل شاعروں اورفی طالب امولی دھوہری اور ڈولالی کی شاعری میں سنگین ادبی نقائص کی طرف اشارہ کیا اور سبک ہندی پر کھراسانی طرز کی شاعری کا دفاع کیا۔ اس کام نے مغل ہندوستان میں ایک ادبی بحث کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں ہند-فارسی شاعر سراج الدین ارزو نے سراج منیر (شائننگ لیمپ) کے عنوان سے اس کی تردید کی۔ [2][3] منیر لاہور میں مقیم اسکالر محمد صالح کنبوہ اور انیات اللہ کمبوہ کے بچپن کے دوست تھے، اور انہوں نے دونوں بھائیوں کے انشا کے جمع کردہ جلدوں کا تعارف لکھا۔ ان کے بعد کے بیشتر کام، نصوص اور شاعری دونوں، لاہور، اس کے باغات اور ادبی مقامات کے لیے گھریلو پن سے بھرے ہوئے ہیں۔ [4]

شاعری

ترمیم

منیر کثیر گو شاعر تھے اور انھوں نے ایک لاکھ اشعار کہنے کا دعویٰ کیا ہے۔ انھوں نے شاعری کی تقریباً تمام اصناف پر طبع آزمائی کی ہے، لیکن اُن کی شہرت کا سبب بنیادی طور پر اُن کی مثنویاں ہیں، جن میں سوادِ اعظم، مظہرِ گل، آب و رنگ، ساز و برگ، میخانہ و مرآۃ الخیال اور بیت المعمور کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے سب سے مشہور مثنوی مظہرِ گل ہے، جسے مثنوی در صفات بنگالہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
1639ء میں ایک ہی ہفتے میں مکمل ہونے والی اس مثنوی میں بنگال کی آب و ہوا اور ماحول کا وضاحت سے نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس مثنوی میں بنگال کی تعریف کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں شاعر کی اس خطے سے ناپسندیدگی کے بھی لطیف اشارے ملتے ہیں۔ لکھنؤ میں یہ مثنوی 1889ء میں پہلی بار شائع ہونے کے بعد اب تک کئی بار شائع ہو چکی ہے۔
منیر کی اپنی اشعار کے بارے میں اعلیٰ رائے سے اُن کے معاصرین بھی متفق نظر آتے ہیں۔ چندربھان برہمن نہ صرف انھیں اُس دور کے سب سے زیادہ قابل شاعر سمجھتے تھے، بلکہ اُن سے اپنے اشعار کی اصلاح بھی لیا کرتے تھے۔ جبکہ محمد صالح کمبوہ نے منیر کی مدح سرائی یہ کہہ کر کی ہے کہ فیضی کے بعد منیر ہی وہ شاعر ہیں جنہیں تمام اصنافِ شاعری پر یکساں عبور حاصل ہے۔ منیر کی شاعرانہ مہارت اُن صنائعِ لفظی و معنوی کے عمدہ استعمال پر قائم ہے جو سبکِ ہندی کی خصوصیات سمجھے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ یامین خان نے اپنی کتاب تاریخِ شعر میں منیر کو سبکِ ہندی میں جدت لانے والا شاعر بتایا ہے۔

نثری نگارشات

ترمیم

اپنے نثری اسلوب میں منیر نے شعوری طور پر ابو الفضل کی تقلید کرنے کی کوشش کی، البتہ انھیں ابوالفضل جیسی کامیابی نہ مل سکی۔ اُن کی اہم نثری نگارشات مندرجہ ذیل ہیں:

  1. انشائے منیر؛ یہ کتاب مسجع و مقفیٰ نثر میں لکھے گئے منیر کے رقعات اور پچپن خطوط کا مجموعہ ہے۔
  2. رقعاتِ منیر
  3. نوبادہ
  4. کارستان؛ آراستہ نثر میں ایک رومانی داستان جس میں خیالی شہزادے والہ اختر اور اُس کے کارناموں کا احوال ہے۔ یہ کتاب 1640ء میں جونپور میں مکمل ہوئی تھی اور شاہجہاں کے نام منسوب کی گئی تھی۔
  5. تذکرۂ شعرا؛ اس میں شعرا کی سوانح اور اُن کی شاعری کا تنقیدی جائزہ ہے۔
  6. شرحِ قصائدِ عرفی
  7. کارنامہ؛ 1640ء میں لکھا گیا ایک رسالہ جس میں عرفی، ظہوری، زلالی اور طالب آملی کی شاعری میں نقص نکالے گئے ہیں۔

منیر لاہوری کی تصنیفات کی معاصرانہ اور مسلسل اہمیت کے باوجود اُن کی زیادہ تر کتب تا حال مخطوطوں کی شکل میں ہیں اور اشاعت کی منتظر ہیں۔

بیرونی روابط

ترمیم

ابوالبرکات لاہوری

حوالہ جات

ترمیم
  1. Dhavan 2019, p. 160.
  2. ^ ا ب پ Sharma 2009.
  3. ^ ا ب پ Memon 1983.
  4. Dhavan 2019, p. 163.

کتب خانہ

ترمیم
  •  
  •  
  • Purnima Dhavan (2019)۔ "Marking Boundaries and Building Bridges: Persian Scholarly Networks in Mughal Punjab"۔ $1 میں Nile Green۔ The Persianate World: The Frontiers of a Eurasian Lingua Franca (بزبان انگریزی)۔ University of California Press۔ صفحہ: 159–174۔ ISBN 978-0-520-97210-0۔ doi:10.1515/9780520972100-009