ننجا (忍者) یا شنوبی (忍び) نوابی دور کے جاپان میں خفیہ کارندے یا قاتل ہوتے تھے۔ ننجا کے کاموں میں جاسوسی، سبوتاژ، دشمن کی صفوں میں گھسنا، قتل اور گوریلا جنگیں شامل تھیں۔[1] یہ کارروائیاں سامورائی سے کمتر درجے کی سمجھی جاتی تھیں کیونکہ سامورائی لڑائی اور عزت کے حوالے سے انتہائی سخت اصولوں کی پابندی کرتے تھے۔[2] شنوبی جاسوسوں اور قاتلوں کے خصوصی تربیت یافتہ جتھوں کا ظہور پندرہویں صدی میں ہوا تاہم اس سے ایک سے تین صدیاں قبل بھی ایسے افراد کا وجود ممکن تھا۔[3]

ننجا

سینگوکو دور میں (پندرہویں سے سترہویں صدی تک) کرائے کے قاتل اور جاسوس جو ایگا صوبے اور کوگا دیہات [4] سے ملحقہ علاقوں میں سرگرم ہو گئے اور اسی علاقے کے قبائل کے پاس ننجا کے بارے میں زیادہ تر معلومات ہیں۔ توکوگاوا شوگون شاہی کے تحت جاپان کے اتحاد کے بعد (سترہویں صدی میں) ننجا گمنامی کا شکار ہو گئے۔[5] شنوبی ہدایات کا زیادہ تر حصہ چینی فوجی فلسفے سے لیا گیا ہے جنہیں سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں لکھا گیا جس میں بانسینشوکائی سب سے اہم ہے۔[6]

1868ء میں بحالی میجی کے بعد شنوبی کو قصے کہانیوں میں بہت اہمیت دی گئی۔ ننجا کے بارے بہت سی غلط باتیں مشہور ہو گئیں تھیں مثلاﹰ وہ غائب ہو سکتے تھے، پانی پر چل سکتے تھے اور قدرتی عناصر کو قابو میں کر سکتے تھے۔ چنانچہ اُس دور کے ننجا کے بارے میں بیشتر معلومات سینگوکو دور کی بجائے تخیل کی مدد سے اخذ کی گئی ہیں۔

وجہ تسمیہ ترمیم

 
لفظ "ننجا" کانجی متن میں

ننجا دو کانجی (چینی زبان کے حروف جو جاپانی حروفِ تہجی کا حصہ بن چکے ہیں) کو اونیومی انداز سے پڑھنے کا طریقہ ہے۔ اصل لفظ شنوبی ہے جو بذاتِ خود شینوبی نو مونو کی مختصر شکل ہے۔[7]

لفظ شنوبی پہلے پہل آٹھویں صدی کے اواخر پر لکھی گئی ایک نظم میں ملتا ہے۔ شنوبی سے مراد چھپنا، گھات لگانا وغیرہ تھا جس کی وجہ سے اسے خفیہ پن اور نظروں سے اوجھل ہونے سے منسلک کر دیا گیا۔ مونو کا مطلب شخص ہے۔

تاریخی طور پر ننجا کا لفظ عام استعمال میں نہیں ملتا تاہم مقامی طور پر مختلف انداز سے ان کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔ ان میں مونومی (دیکھنے والا)، نوکی زارو (چھت پر طوطا)، کُوسا (گھاس) اور ایگا مونو (ایگا والا) شامل ہیں۔[8] تاریخی دستاویزات میں تقریباً ہمیشہ ہی شنوبی استعمال ہوتا آیا ہے۔

خواتین ننجا کے لیے کونویچی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کُو، نو اور ایچی لکیروں کا مجموعہ ہے جو جاپانی زبان میں عورت کا لفظ لکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

مغرب میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد شنوبی کی بجائے ننجا زیادہ مشہور ہوا کہ شاید اہلِ مغرب کے لیے یہ لفظ بولنا آسان تھا۔ انگریزی میں ننجا کی جمع کو ننجا (جاپانی زبان میں واحد اور جمع کا فرق نہیں ہوتا) یا ننجاز (انگریزی میں جمع) سے ظاہر کیا جاتا ہے۔[9]

تاریخ ترمیم

عام کہانیوں کو چھوڑ کر ننجا کے متعلق تاریخی حقائق کم ملتے ہیں۔ مؤرخ سٹیفن ٹرنبل کے مطابق ننجا عموماً نچلی ذاتوں سے بھرتی کیے جاتے تھے جس کی وجہ سے انھیں ادب سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ لہذا یہ داستانیں عموماً امیر سامورائی پر ہوتی تھیں کہ ان کے بارے میں لوگ زیادہ متجسس ہوتے تھے۔ ایک مؤرخ کیوشی واتاتانی کے خیال میں ننجا کو خفیہ رہنے کی تربیت دی جاتی تھی جس کی وجہ سے ان کے بارے میں کم معلومات دستیاب ہیں:

ننجوتسو تکنیک دراصل شنوبی نو جوتسو اور شنوبی جوتسو پر مشتمل ہوتی تھیں اور ان کا مقصد اپنے مخالف کو اپنے وجود سے بھی بے خبر رکھنا ہوتا تھا اور اس لیے انھیں خصوصی تربیت دی جاتی تھی۔[10]

قبل از ننجا ترمیم

 
شہزادہ یاماتو تاکیرو، دوشیزہ کے بھیس میں

ننجا کو بسا اوقات چوتھی صدی کے شہزادے یاماتو تاکیرو سے بھی جوڑا جاتا ہے۔[11] کوجیکی کے مطابق جوان شہزادے یاماتو نے دوشیزہ کا بھیس بدل کر کماسو قبیلے کے دو سردار مار ڈالے تھے۔[1][12] تاہم یہ جاپانی تاریخ کے بالکل اوائل کا ذکر ہے اور اسے بعد میں شنوبی سے جوڑنا مناسب نہیں۔ جاسوسی کے بارے پہلا تذکرہ ہمیں شہزادہ شوٹوکو کے رکھے گئے جاسوس ملازمین سے ملتا ہے جو چھٹی صدی میں تھا۔ تاہم پرانے دور میں بھی ایسی باتیں بری سمجھی جاتی تھیں اور دسویں صدی کے شومونی کے مطابق ایک جاسوس لڑکے کو جاسوسی کی پاداش میں قتل کر دیا گیا تھا۔[13] چودہویں صدی سے ہمیں جنگی تاریخ میں تربیت یافتہ شنوبی کا تذکرہ ملتا ہے کہ ایک اعلیٰ تربیت یافتہ مگر گمنام شنوبی نے ایک قلعے کو آگ لگا کر تباہ کر دیا تھا۔[11][14]

ابتدائی تاریخ ترمیم

پندرہویں صدی میں جاسوسی کے لیے باقاعدہ تربیت دی جانے لگی۔[3] اس دور میں شنوبی کا لفظ متعارف ہوا اور اس سے مراد خفیہ گروہ کے ہرکارے ہوتے تھے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ شنوبی کا نام سینگوکو دور میں خفیہ سپاہیوں کو دیا جانے لگا۔ بعد میں ہدایات نامے چینی فوجی حکمتِ عملی کی بنیاد پر لکھے جانے لگے۔

پندرہویں صدی میں ننجا کرائے کے قاتل کے طور ابھرے اور انھیں جاسوسی، لوٹ مار، بلوائی اور دہشت گردی کے لیے بھرتی کیا جاتا تھا۔ سیمورائی لڑائی میں سخت اصولوں کے پابند تھے اور منصفانہ لڑائی اور ڈوئل کے قائل تھے۔ چنانچہ ایسے افراد کی ضرورت پیش آئی جو بوقتِ ضرورت ایسے کام کر سکتے ہوں جو عام فوجیوں کے لیے نامناسب سمجھے جاتے تھے۔ سینگوکو دور میں شنوبی کے کئی مختلف کام واضح ہو چکے تھے جن میں جاسوسی، نگرانی، شب خون اور فسادی شامل تھے۔[15] ننجا خاندان بڑے گروہوں میں منقسم ہو گئے تھے اور ہر ایک اپنے علاقے مخصوص کر چکا تھا اور ان میں حفظِ مراتب قائم ہو گیا تھا۔ جونین یعنی افسرِ اعلیٰ نہ صرف اپنے گروہ کی نمائندگی کرتا بلکہ کرائے کے لیے بندے بھی مہیا کرتا۔ اس کے بعد چونن یعنی دلال ہوتا تھا اور جونن کا نائب ہوتا تھا۔ سب سے نیچے جینن ہوتا تھا جسے نچلا آدمی کہتے تھے اور اصل کام یہی کرتا تھا اور اسے نچلی ذاتوں سے بھرتی کیا جاتا تھا۔[16]

ایگا اور کوگا قبائل ترمیم

 
ایگا کا میدانی علاقہ
 
جاپان میں ایگا صوبے کا محل وقوع

ایگا اور کوگا قبائل سے مراد ایگا صوبے میں آباد خاندان تھے اور یہ پاس والے کوگا علاقے (موجودہ میہ پریفیکچر) تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان علاقوں میں اولین ننجا کی تربیت والے گاؤں ظاہر ہوئے۔[17] دور افتادہ اور ناقابلِ رسائی کی وجہ سے یہاں ننجا رازداری سے تیار ہوئے۔ تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقے ننجا کے ظہور سے متعلق ہیں۔

ننجا کے حوالے سے ایگا میں کوائی آکی نو کامی خاندان شنوبی صلاحیتوں کی وجہ سے کافی مشہور تھا جس کی وجہ سے ایگا مشہور ہوا اور دوسرا انداز کوگا کہلایا۔[18]

تاہم ان علاقوں والے ننجا اور کرائے کے قاتل یا معاوضے پر جاسوسی کے لیے بھرتی کیے گئے سیمورائی میں فرق اہم ہے۔ ایگا اور کوگا قبائل پیشہ ور ننجا کو ان کے کردار کے حوالے سے تربیت دیتے تھے۔[15] انہی پیشہ ور ننجا کو 1485ء تا 1581ء باقاعدہ ملازم رکھا جاتا رہا تھا۔[15] 1581ء میں اودا نوبوناگا نے ایگا صوبے پر حملہ کر کے ان منظم قبائل کو ملیا میٹ کر دیا۔[19] باقی بچنے والے افراد میں سے کچھ کی پہاڑوں میں چھپ گئے تو کچھ نے ٹوکوگاوا کے سامنے خود کو پیش کیا اور قدر پائی۔[20] کچھ افراد بشمول ہتوری ہنزو ٹوکوگاوا کے محافظ بھی بنے۔[21]

اوکی ہزاما کی 1560ء والی جنگ کے بعد ٹؤکوگاوا نے 80 کوگا ننجا کے گروہ نے ٹومو سوکی ساڈا کی قیادت میں بھرتی کیا۔ ان کے ذمے اماگاوا قبیلے کی ایک بیرونی چوکی پر حملہ کرنا تھا۔ اس کی تفصیل ہمیں میکاوا گو فوڈوکی سے ملتی ہے کہ کیسے کوگا ننجا اس قلعے میں چھپ کر گھسے اور اس کے میناروں کو آگ لگا دی اور اہلِ قلعہ کو اور 200 فوجیوں کو بھی قتل کیا۔[22] کوگا ننجا نے 1600ء میں سیکی گاہارا کی جنگ میں بھی کردار ادا کیا تھا جہاں کئی سو کوگا نے ٹوری موٹو ٹاڈا کی قیادت میں فوشیمی قلعے کا دفاع کیا تھا۔[23] ٹوکوگاوا کی فتح کے بعد ایگا ننجا ایڈو قلعے کے اندرونی احاطے کے محافظ مقرر ہوئے اور کوگا نے بیرونی احاطے کی پولیس کا کام شروع کر دیا۔ 1614ء کی سرمائی مہم جو اوساکا کے محاصرے سے شروع ہوئی، ننجا پھر متحرک دکھائی دیے۔ میورا یومون نامی ننجا جو ایگا علاقے سے بھرتی کیا گیا شنوبی تھا، نے اوساکا قلعے کو دس ننجا بھیجے تاکہ مخالف کمانداروں کے درمیان میں لڑائی کرائی جا سکے۔ بعد ازاں گرمائی مہم میں تنوجی کی جنگ میں عام فوجیوں کے ساتھ ساتھ کرائے کے ننجا بھی شامل ہوئے۔ .[24]

شمابارا بغاوت ترمیم

 
ہارا قلعے کا کھنڈر

شمابارا بغاوت (1637ء–1638ء) کے دوران میں ننجا کو آخری بار عام جنگ میں دیکھا گیا۔ .[25] اس جنگ میں مسیحی باغیوں نے ہارا قلعے میں پناہ لی تو ان کے خلاف جنگ میں کوگا ننجا کو بھرتی کیا گیا۔ اس بارے لکھی گئی ایک دستاویز میں درج ہے کہ کوگا کے بندے جو اومی صوبے سے تھے، اپنی شناخت چھپا کر ہر رات جب چاہتے، قلعے میں داخل ہو جاتے۔[26]

کوگا کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ قلعے کی ساخت کا جائزہ لیں اور دفاعی خندق کی گہرائی، چوڑائی اور طوالت کا اندازہ لگائیں، سڑکوں کی حالت، دیوار کی اوناچئی اور دیگر تفصیلات کا جائزہ لیں۔[26]

جب محاصرے کے کماندار کو اندازہ ہوا کہ قلعے کی رسد کم ہو رہی ہوگی تو اس نے کمک روکنے کا حکم دے دیا۔ کوگا نے دشمن کی رسد کے تھیلوں پر قبضۃ کر لیا اور رات کو قلعے میں خفیہ رمز کی مدد سے داخل ہونے لگے۔[27] چند دن بعد پھر حکم ملا کہ دشمن کی رسد کو دیکھا جائے۔ اگرچہ ننجا کو بتا دیا گیا تھا کہ واپسی کے امکانات بہت کم ہیں، مگر بہت سے ننجا نے رضاکارانہ طور پر ہامی بھری۔[28]

محاصرہ جاری رہا اور خوراک کی کمی کی وجہ سے دشمن کو گھاس اور کائی پر گزارا کرنا پڑا۔ اس دوران میں وہ حملے کرتے رہے اور آخرکار شکست کھا گئے۔

ہارا قلعے پر قبضے کے بعد شمابارا بغاوت کا خاتمہ ہو گیا اور جاپان میں مسیحیت زیرِ زمین چلی گئی۔ جنگوں میں ننجا کی شراکت کے بارے ہمیں یہ آخری تحریر ملتی ہے۔[29]

اونی وابان ترمیم

اٹھارویں صدی کے اوائل میں ٹوکوگاوا یوشیمونے نے جاسوس اور خفیہ ادارہ اونیوابان قائم کیا۔ اس ادارے کے اراکین سرکاری افسران کے بارے معلومات جمع کرتے تھے۔[30] انھیں بعد میں ننجا کے ساتھ خلط ملط کیا گیا۔[31] تاہم دونوں کے مابین تعلق سے متعلق کوئی دستاویز نہیں ملتی۔

کردار ترمیم

 
ممکن بھیس بدلنے کی ایک فہرست کی تفصیلات

فوجی مؤرخ ہناوا ہوکینوچی کے مطابق: ننجا بھیس بدل کر دشمن کے علاقے کا جائزہ لیتے تھے اور دشمن کی صفوں میں خلا کی تاک میں رہتے تھے اور دشمن کے قلعوں میں گھس کر آتش زنی کرنے کے علاوہ قتل بھی کرتے تھے۔[32]

ننجا خفیہ فوجی اور کرائے کے قاتل تھے۔ ان کا بنیادی کردار جاسوسی اور سبوتاژ سے متعلق تھا مگر قتل بھی کرتے تھے۔ جنگ کے دوران میں ننجا کو دشمن کو الجھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔[33]

جاسوسی ترمیم

ننجا کا اصل کام جاسوسی تھا۔ روپ بدل کر ننجا نہ صرف دشمن کی سرزمین اور عمارتوں کی معلومات جمع کرتے بلکہ خفیہ رموز اور گفت و شنید کے بارے بھی سن گن لیتے۔[34]

سبوتاژ ترمیم

ننجا سبوتاژ کے لیے آتش زنی کا عام استعمال کرتے تھے جو دشمن کے خیموں اور قلعوں میں لگائی جاتی تھی۔[35]

1558ء میں روکاکو یوشی کاٹا نے ننجا کے ایک گروہ کو ساوایاما قلعے کو آگ لگانے کے لیے بھرتی کیا۔ بھیس بدل کر 49 ننجا قلعے میں گھس گئے۔ انھوں نے دشمن کی خاندانی علامت چاند والے ایک لالٹین کو چوری کیا اور اس کی نقلیں تیار کرنا شروع کر دیں۔ پھر ان نقلی لالٹینوں کو اٹھائے یہ لوگ بہ آسانی قلعے میں گھس گئے اور آگ لگا دی اور ان کی فوج کو فتح حاصل ہوئی۔[36] شنوبی کرائے کے قاتل ہونے کی وجہ سے 1561ء میں کیزاوا ناگاماسا نے تین ایگا ننجا ملازم رکھے اور مائی بارا قلعے کی فتح کو روانہ ہوا۔ روکاکو یوشی ٹاکا اس وقت نشانہ تھا جبکہ کچھ سال قبل اس نے یہ قلعہ اسی طرح ننجا بھرتی کر کے فتح کیا تھا۔ تاہم شنوبی احکامات سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ سو جب منصوبے کے مطابق حملہ نہ شروع ہوا تو ایگا لوگوں نے اپنے کمانداروں سے کہا کہ وہ چونکہ شنوبی علاقے سے نہیں، سو وہ ان کی تکنیک سے ناواقف ہوں گے۔ پھر انھوں نے ساتھ چھوڑ دینے کی دھمکی دے کر اپنی بات منوائی۔ سو آگ لگائی گئی اور ناگاماسا کی فوج نے بعجلت اور گڑبڑ کے بعد قلعے فتح کر لیا۔[37]

قتل ترمیم

 
اودا نوبوناگا

قتل کی کوششوں کا نشانہ بہت سی مشہور شخصیات رہی ہیں۔ اُس دور کے بہت سے مشہور افراد کا قتل بھی ننجا سے منسوب ہے مگر ان کے خفیہ کام کی نوعیت کی وجہ سے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔[38] بعد میں جب ننجا اعلان کرتے تو یہ کہنا دشوار ہوتا کہ آیا یہ کرائے کے قاتل تھے یا کہ اس کام کے لیے خصوصی تربیت یافتہ افراد۔

ایک جنگی سردار اودا نوبوناگا کی بدنامی کی وجہ سے اس پر کئی حملے ہوئے۔ 1571ء میں کوگا ننجا اسے مارنے کے لیے بھرتی کیا گیا۔ اس نے دو بندوقوں سے نوبوناگا پر گولیاں چلائیں مگر کاری زخم نہ آئے کہ نوبوناگا نے ڈھال پہنی ہوئی تھی۔[39] ننجا فرار ہو گیا مگر چار سال بعد پکڑا گیا اور تشدد کر کے اسے ہلاک کیا گیا۔ 1573ء میں مانابے روکورو نے قلعے میں گھسنے اور نوبوناگا کو قتل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اور گرفتاری پر خودکشی کر لی۔ اس کی لاش کو سرِ عام رکھ دیا گیا۔[39]

اوسوگی کنشن اچیگو صوبے کا سربراہ تھا جس کے بارے مشہور ہے کہ اسے ننجا نے قتل کیا تھا۔[40]

انسداد ترمیم

ننجا کو روکنے کے لیے کئی طریقے اپنائے جاتے تھے۔ قتل سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی تھیں مثلاً بیت الخلا اور کھوکھلے فرش میں بھی ہتھیار چھپا کر رکھے جاتے تھے۔[41] عمارتیں بناتے وقت ان میں پھندے اور گھنٹیاں وغیرہ چھپا دی جاتی تھیں۔[42]

جاپانی قلعے اس طرح سے بنائے جاتے تھے کہ ان میں گھومنا مشکل ہوتا تھا۔ جگہ جگہ دیواروں میں سوراخ ہوتے اور خفیہ جگہیں رکھی جاتیں جہاں سے نگرانی کا کام آسان ہوتا۔ فرش اس طرح بنائے جاتے کہ وہ فولادی چولوں پر رکھے جاتے اور ذرا سی حرکت پر کافی شور پیدا ہوتا۔[43] صحن میں بجری بچھائی جاتی جس پر چلتے ہوئے آہٹ پیدا ہوتی۔ اس کے علاوہ عمارتیں ایک دوسرے سے فاصلے پر بنائی جاتیں تاکہ آگ کو روکنا آسان ہو۔[44]

تربیت ترمیم

 
ایگا اور کوگا قبائل کی ننجا تربیت کی کتاب بانسینشوکائی سے ایک ورق

موجودہ دور میں ننجا کی تربیت کو ننجوتسو کہا جاتا ہے مگر ماضی میں یہ جاسوسی اور جدوجہد کی مختلف تکنیک اور مختلف ناموں سے مل کر بنتی تھی۔

ننجا کی باقاعدہ تربیت پندرہویں صدی کے وسط سے تب شروع ہوئی جب کئی سیمورائی خاندانوں نے خفیہ جنگی تکنیکوں جیسا کہ جاسوسی اور قتل وغیرہ پر توجہ مرکوز کی۔[45] سیمورائی کی طرح ننجا بھی پیدا ہوتے ہی اس کام پر لگ جاتے تھے اور ہر خاندان اپنے راز کو نسل در نسل خفیہ رکھتا تھا۔[46] سیمورائی کی طرح ننجا بھی بچپن سے تربیت پاتے تھے۔ عام مارشل آرٹس سے ہٹ کر نوجوانوں کو جدوجہد اور بقا کے علاوہ سکاؤٹنگ کی تکنیکیں بھی سکھائی جاتیں اور زہر اور دھماکا خیز مادوں کے بارے بھی بتایا جاتا۔[47] جسمانی تربیت بھی لازمی تھی جس میں طویل دوڑ، درخت یا دیوار پر چڑھنا، خفیہ رہ کر چلنا یا تیرنا شامل تھیں۔[48] اگر بھیس بدلنا ضروری ہوتا تو متعلقہ شعبے کی بنیادی معلومات بھی مہیا کی جاتیں۔[47] ایک جگہ بنیادی طبی معلومات بھی مہیا کرنے کا تذکرہ ہے۔[49]

ایگا اور کوگا قبائل کے زوال کے بعد تربیت یافتہ ننجا کی بھرتی کا کام رک گیا اور مقامی سرداروں تربیت خود دینا پڑی۔[50] شنوبی کو باقاعدہ پیشہ سمجھا جاتا تھا۔

موجودہ دور میں ننجوتسو سکھانے والے ادارے 1970ء کی دہائی سے شروع ہوئے۔ تاہم ان کی اصلیت کے بارے کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔

طریقے ترمیم

ننجا ہمیشہ تنہا کام نہیں کرتے تھے۔ گروہ کی شکل میں کام کی تکنیکیں بھی دکھائی دیتی ہیں جیسے دیوار پر چڑھنا ہو تو کیسے ایک ننجا دوسرے کو کمر پر اٹھا کر بلند کرے گا وغیرہ۔[51] اس کے علاوہ کارروائی کے دوران میں خفیہ رموز کا استعمال ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ دھوکا دینے کے لیے دشمن جیسا لباس پہن کر بھی حملہ کیا جاتا تھا۔[22] اوساکا کے محاصرے کے دوران میں جب پسپائی اختیار کی گئی تو ننجا نے حسبِ حکم پیچھے سے اپنی فوج پر گولیاں چلائیں تاکہ انھیں ایسا لگے کہ دشمن دوسری جانب آ گیا ہے اور وہ مڑ کر پھر حملہ کریں۔ بعد میں مجمع منتشر کرنے کے لیے یہ تکنیک استعمال ہوئی۔[24]

ان تکنیکوں کا بنیادی مقصد چھپنا اور بچاؤ کے طریقے اختیار کرنا تھا۔ ان کی کچھ مثالیں درج ہیں:

  • ہتسوکے: مطلوبہ جگہ گھسنے سے قبل دور کسی جگہ آگ لگا کر پہرے داروں کی توجہ ہٹانا [52]
  • تانوکی گاکورے: درخت پر چڑھ کر پتوں میں چھپ جانا [52]
  • اوکی گوسا کاکورے: پانی کے اندر ہونے والی حرکات کو چھپانے کے لیے سطح پر مخصوص گھاس بکھیرنا [52]
  • اوزورا گاکورے: گیند کی شکل میں بن کر ساکت ہو جانا، تاکہ پتھر سمجھ کر لوگ توجہ نہ دیں [52]

ننجا کو سکھائے جانے والے مارشل آرٹس کو شب خون اور تنگ جگہ کے حوالے سے مخصوص کر دیا جاتا تھا۔ ننجا کی جاسوسی کا مقصد اپنے سے طاقتور اور بڑے دشمن کو ناکارہ کرنا اور ناکام رہنے پر فرار ہونا تھا۔

بہروپ ترمیم

 
پجاری کے روپ میں

ننجا بھیس بدلنے کے ماہر ہوتے تھے اور بوقتِ ضرورت پجاری، شعبدہ باز، نجومی اور تاجر وغیرہ کا بہروپ بدل سکتے تھے۔[53] بوکے میوموکوشو (Buke Myōmokushō) لکھتا ہے کہ:

شنوبی مونومی لوگ خفیہ طریقے سے استعمال کرتے تھے، ان کے فرائض میں پہاڑوں پر لکڑہاروں کے بھیس میں جانا اور دشمن کے علاقے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا۔ وہ خاص طور پر بھیس بدل کر سفت کرنے میں ماہر تھے۔ [34]

ہتھیار ترمیم

ننجا کئی اقسام کے ہتھیار اور آلات استعمال کرتے تھے جن میں سے کچھ عام دستیاب ہوتے تو کچھ خصوصی طور پر تیار کیے جاتے جن میں دیوار یا درخت پر چڑھنے کے آلات، لمبے ہونے والے نیزے، راکٹ سے چلنے والے تیر اور تہ ہونے والے چھوٹی کشتیاں شامل ہیں۔ سترہویں صدی کی کتاب بانسینشوکائی میں ان خصوص آلات کی ایک وسیع رینج بیان کی گئی ہے۔[54]

لباس ترمیم

 
لباس

عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ننجا سر تا پا سیاہ لبادے میں ملبوس ہوتے تھے۔ تاہم اصل ننجا عام افراد جیسا لباس پہنتے تھے۔[55]

ان کے لباس سیمورائی سے مماثل مگر ڈھیلے نہیں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ بڑا رومال بھی ان کے پاس ہوتا جو کبھی منہ چھپانے کے کام آتا تو کبھی بیلٹ تو کبھی دیوار پر چڑھنے میں مدد دیتا۔[32]

اس کے علاوہ ننجا کے استعمال میں آنے والے دیگر اجزائے لباس جیسا کہ ڈھال، زرہ بکتر وغیرہ کے بارے سو فیصد یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔[56]

اوزار ترمیم

 
نینپیدین کا ایک صفحہ جس میں تالا توڑنے کی ہدایات درج ہیں

جاسوسی اور دشمن کی صفوں میں گھسنے کی خاطر ننجا کے پاس بہت سارے اوزار ہوتے تھے۔ رسیاں اور آنکڑے عام طور پر بیلٹ سے لٹکے ہوتے تھے۔[54] تہ ہونے والی سیڑھی کا بھی تذکرہ ملتا ہے جس کے دونوں سروں مڑے ہوئے ہوتے تھے۔[57] اس کے علاوہ ہاتھوں اور پیروں میں اوپر چڑھنے کے لیے مددگار چیزیں چڑھائی جاتی تھیں۔[58] اس کے علاوہ چھینی، سوراخ کرنے والے آلات وغیرہ بھی عام تھے۔

دیواروں میں سوراخ کے لیے نوکیلے بھاری اوزار ہوتے تھے۔ چاقو اور چھوٹی آریاں بھی استعمال ہوتی تھیں۔ دیوار کے پار سے آواز سننے کے لیے بھی دستی آلے ہمراہ ہوتے تھے۔[59]

ننجا کے لیے پانی پر چلنے کے لیے لکڑی سے بنے چوڑے جوتے بھی ہوتے تھے۔[60] ننجا کو زیرِ آب رکنے میں مدد دینے کے لیے مشکیں اور دیگر نالیاں بھی استعمال ہوتی تھیں۔[61]

ننجا عموماً بہت کم آلات سے کافی زیادہ کام کرنے کے قابل ہوتے تھے۔[62]

ہتھیار ترمیم

 
کوساریگاما

اگرچہ چھوٹی تلواریں اور خنجر بکثرت استعمال ہوتے تھے مگر ننجا کا پسندیدہ ہتھیار کاتانا تھا جو پیٹھ پر رکھی جاتی تھی۔[63] یہ تلوار لڑائی کے علاوہ بھی بہت جگہ کام آتی تھی مثلاً تاریکی میں اس کی نیام سے راستہ ٹٹولنے کا کام لیا جاتا تھا۔[64] اس تلوار کو دیوار سے ٹیک لگا کر اس کی مدد سے چڑھنے میں مدد لی جاتی تھی۔[65] اس کے علاوہ تلوار کو نیام میں رکھتے ہوئے اس میں مردچیں، مٹی، ریت یا لوہ چون بھر دیا جاتا تھا تاکہ تلوار نکالتے وقت یہ چیزیں نکل کر دشمن کی آنکھوں میں جا پڑیں۔ کاتانا سے قبل سیدھی تلواریں مستعمل تھیں۔[66]

ترشول، کانٹے، چاقو اور ستارہ نما طشتریاں مجموعی طور پر شوریکن کہلاتی تھیں۔ یہ ہتھیار ننجا کے علاوہ بھی دیگر لوگ استعمال کرتے تھے [67] اور انھیں کسی بھی سمت پھینکا جا سکتا تھا۔[68] کمان کی مدد سے تیزی سے تیر چلائے جا سکتے تھے اور بعض ننجا کی کمانیں معمول سے چھوٹی ہوتی تھیں۔[69] زنجیر اور درانتی بھی ننجا کے پاس ہوتی تھیں۔[70] اس میں زنجیر کے ایک جانب وزنی گولہ جبکہ دوسری جانب درانتی ہوتی تھی اسے کوساریگاما کہتے ہیں۔ درانتی وغیرہ پکڑے جانے پر ننجا بطور مالی انھیں اپنے اوزار ظاہر کرتے تھے۔

جاپان میں تیرہویں صدی میں منگولوں کے حملے کے ساتھ ہی بارود بھی چین سے پہنچ گیا تھا۔[71] بعد میں ننجا نے دستی بم وغیرہ بنانے شروع کر دیے [61] تاکہ اس سے زہریلی گیس یا دھویں کے علاوہ دھاتی چیزیں بھی پھینکی جا سکتی تھیں۔[51]

عام ہتھیاروں کے علاوہ ننجا کے پاس اور بھی بہت سے ہتھیار ہوتے تھے جن میں زہر، [54] گوکھرو، چوبی تلوار، [72] بارودی سرنگیں، [73] بلو گن، زہریلے تیر، تیزاب پھینکنے والی نلکیاں اور آتشیں اسلحہ [61] شامل ہے۔ فرار میں مدد کے لیے انڈے کے چھلکے میں بھرا سفوف بھی اہم تھا۔[74]

افسانوی صلاحیتیں ترمیم

مافوق الفطرت صلاحیتں اکثر ننجا سے منسوب کی جاتی ہیں۔ بعض روایات میں ہوا میں اڑنا، غائب ہونا، چہرہ بدل لینا، ایک سے کئی انسان بن جانا، جانوروں پر حکم چلانا اور پانچ روایتی عناصر پر قابو پانا بھی ننجا سے منسوب ملتے ہیں۔[50]

روایتی عناصر پر قابو پانا کسی حد تک ممکن ہے جیسا کہ آگ جلانا وغیرہ۔[75] تاہم یہ ننجا کی پسپائی یا فرار کو چھپانے کے لیے ہوتی تھی۔

پتنگ کی مدد سے ہوا میں اڑنا فرضی روایات ہیں کہ ننجا اس طرح اڑ کر دشمن کی صفوں میں اتر جاتے یا ان پر بم وغیرہ مارتے۔[42] حقیقت محض اتنی ہے کہ جنگوں کے دوران میں پتنگ سے پیغام رسانی کا کام لیا جاتا تھا۔[76][77]

کوجی کیری ترمیم

 
کوجی ان سے ایک دیو قامت چوہے میں تبدیل ہوتے ہوئے

کوجی کیری ایک ایسی مشق تھی جس کو دہرانے سے ننجا کو مافوق الفطرت کام کرنے کی صلاحیت مل جاتی تھی۔

کوجی تاؤ مت سے نکلی تھی کہ وہاں بھی نو الفاظ کو مخصوص ترتیب سے دہرانے سے جادو وغیرہ منسوب کیا جاتا تھا۔[78] چین میں بدھ مت کا بھی اس پر اثر ہے اور یہ نو الفاظ بدھ مت کے دیوتاؤں سے متعلق ہیں۔[79] کوجی کی جاپان میں آمد شاید بدھ مت کے ساتھ ہوئی تھ جہاں شوگینڈو میں یہ خوب پھلی پھولی۔[80] یہاں بھی کوجی کے الفاظ بدھ مت کے دیوتاؤں، تاؤ مت کی دیو مالا اور پھر شنٹو کامی سے منسوب ہوئے۔[81] مدرا جو مختلف بدھ افراد ہاتھوں کے اشاروں سے ادا کرتے ہیں۔[82] شوگینڈو کے یامابوشی نے اسے اپنایا اور یہ روحانی، شفا اور جادو اتارنے کے عمل میں استعمال ہوتے تھے۔[83] یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ان سے ہونے والے اثرات میں جادو ٹونا اہم تھا۔[84]

مشہور شخصیات ترمیم

 
کوماواکامارو فرار ہوتے ہوئے

جاپانی تاریخ میں بہت سارے مشہور افراد کو ننجا کہا گیا ہے مگر ان کی تصدیق آسان نہیں۔ مگر اہم مشہور شخصیات جو ننجا کہلاتی رہی ہیں، میں سے چند ایک درجِ ذیل ہیں:

  • کوماواکامارو (تیرہویں-چودہویں صدی): اپنے جلاوطن باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے اس نے باپ کے قاتل کو اس کے کمرے میں گھس کر سوئی ہوئی حالت میں اس کی اپنی تلوار سے قتل کیا۔[85]
  • یاگیو مونیتوشی (1529–1606): شنکیج رائی طرز کا مشہور شمشیر زن تھا۔[43]
  • ہاتوری ہانزؤ (1542–1596): ایگا سے تعلق ہونے کی وجہ سے اور اس کی اولاد کی طرف سے ننجا کے بارے دستاویزات لکھنے کی وجہ سے کئی لوگ اسے بھی ننجا سمجھتے ہیں۔[86] وہ سینگوکو دور کا معروف ننجا تھا جس نے توکوگاوا ائیاسو کی جان بچائی اور پھر متحدہ جاپان کے حکمران بننے میں اس کی مدد کی۔
  • اشیکاوا گوئےمون (1558–1594): اس کے بارے کافی کہانیاں مشہور ہیں جو مصدقہ نہیں۔[87]
  • فوما کوتارو (وفات 1603): اس کے بارے مشہور ہے کہ اس نے ہتوری ہنزو کو مارا تھا کہ یہ دونوں دشمن تھے۔
  • موچیزوکی چیومے (سولہویں صدی): یہ موچی زوکی موری ٹوکی کی بیوی تھی جس نے بچیوں کو گیشا بننے کے لیے تربیت کا اسکول کھولا تھا اور جاسوسی بھی سکھاتی تھی۔[88]
  • موموچی سینڈایو (سولہویں صدی): ایگا کے ننجا قبیلے کا ایک رہنما تھا جس کے بارے یقین کیا جاتا ہے کہ ایگا صوبے پر حملے کے دوران میں اپنی جان بچانے میں کامیاب رہا۔ موموچی کا تعلق ہتوری کے قبیلے سے تھا۔[89]
  • فیوجی بایاشی ناگاتو (سولہویں صدی): اسے ایگا قبیلے کے تین عظیم بڑوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ دیگر دو افراد ہتوری ہنزو اور موموچی ساڈایو تھے۔

مقبول ثقافت میں ترمیم

 
جرایا اپنے طلب کیے ہوئے ایک بڑے مینڈک کی مدد سے ایک اژدھے سے لڑ رہا ہے۔

ایڈو دور میں ننجا کو مقبول ثقافت میں شامل کیا گیا اور ننجا سے متعلق داستانیں وجود میں آئیں۔ یہ داستانیں عموماً کسی تاریخی شخصیت سے منسوب کی جاتی تھیں۔[90]

ننجا جاپانی اور مغربی مقبول میڈیا کی کئی قسموں میں شامل ہے جس میں کتابیں (کؤگا ننپوچؤ)، ٹیلی ویژن (ننجا واریر، پاور رینجرز ننجا سٹورم اور پاور رینجرز ننجا سٹیل)، فلمیں (یو اونلی لیو ٹوائس، ننجا اسیسن، دی لاسٹ سمورائی)، طنز (ریئل الٹیمیٹ پاور)، ویڈیو گیمز (تینچو، دی لاسٹ ننجا، شنوبی، مورٹل کامبیٹ)، اینیمے (ناروٹومانگا (باسیلیسک) کامک (ٹین ایج میوٹینٹ ننجا ٹرٹلز، جی ائی جو، آ رئیل امریکن ہیرو) شامل ہیں۔

تصاویر ترمیم

مزید دیکھیے ترمیم

حواشی ترمیم

  1. ^ ا ب رتی & ویسٹبروک 1991, p. 325
  2. ٹرنبل 2003, pp. 5–6
  3. ^ ا ب Stephen ٹرنبل (19 February 2003)۔ Ninja Ad 1460-1650۔ Osprey Publishing۔ صفحہ: 5۔ ISBN 978-1-84176-525-9۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2011 
  4. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  5. گرین 2001, p. 355
  6. گرین 2001, p. 358; based on different readings, Ninpiden is also known as Shinobi Hiden, and Bansenshukai can also be Mansenshukai.
  7. Origin of word Ninja آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ pakninjas.com (Error: unknown archive URL).
  8. Green 2001, p. 355
  9. Oxford English Dictionary, 2nd ed.; American Heritage Dictionary, 4th ed.; Dictionary.com Unabridged (v 1.1).
  10. ٹرنبل 2007, p. 144.
  11. ^ ا ب واٹر ہاؤس 1996, pp. 34
  12. Chamberlain 2005, pp. 249–253; Volume 2, section 80
  13. Friday 2007, pp. 58–60
  14. ٹرنبل 2003, p. 7
  15. ^ ا ب پ ٹرنبل 2003, p. 9
  16. Draeger & Smith 1981, p. 121
  17. Deal 2007, p. 165
  18. ٹرنبل 2003, p. 23
  19. گرین 2001, p. 357
  20. ٹرنبل 2003, pp. 9–10
  21. ایڈمز 1970, p. 43
  22. ^ ا ب ٹرنبل 2003, pp. 44–46
  23. ٹرنبل 2003, p. 47
  24. ^ ا ب ٹرنبل 2003, p. 50
  25. ٹرنبل 2003, p. 55
  26. ^ ا ب ٹرنبل 2003, p. 51
  27. ٹرنبل 2003, p. 52
  28. ٹرنبل 2003, p. 53
  29. Crowdy 2006, p. 52
  30. Tatsuya 1991, p. 443
  31. Kawaguchi 2008, p. 215
  32. ^ ا ب ٹرنبل 2003, p. 17; ٹرنبل uses the name Buke Meimokushō, an alternate reading for the same title. The Buke Myōmokushō cited here is a much more common reading.
  33. ٹرنبل 2007, p. 149
  34. ^ ا ب ٹرنبل 2003, p. 27
  35. ٹرنبل 2003, p. 28
  36. ٹرنبل 2003, p. 43
  37. ٹرنبل 2003, pp. 43–44
  38. ٹرنبل 2003, p. 5
  39. ^ ا ب ٹرنبل 2003, p. 31
  40. Nihon Hakugaku Kurabu 2006, p. 36
  41. ٹرنبل 2003, p. 26
  42. ^ ا ب Draeger & Smith 1981, pp. 128–129
  43. ^ ا ب ٹرنبل 2003, pp. 29–30
  44. Fiévé & Waley 2003, p. 116
  45. ٹرنبل 2003, p. 12
  46. رتی & ویسٹبروک 1991, p. 327
  47. ^ ا ب ٹرنبل 2003, pp. 14–15
  48. گرین 2001, pp. 359–360
  49. ٹرنبل 2003, p. 48
  50. ^ ا ب ٹرنبل 2003, p. 13
  51. ^ ا ب ٹرنبل 2003, p. 22
  52. ^ ا ب پ ت Draeger & Smith 1981, p. 125
  53. Crowdy 2006, p. 51
  54. ^ ا ب پ ٹرنبل 2003, p. 19
  55. ٹرنبل 2003, p. 16
  56. Howell 1999, p. 211
  57. ٹرنبل 2003, p. 20
  58. مول 2003, p. 121
  59. ٹرنبل 2003, p. 21
  60. ٹرنبل 2003, p. 62
  61. ^ ا ب پ رتی & ویسٹبروک 1991, p. 329
  62. گرین 2001, p. 359
  63. ٹرنبل 2003, p. 18
  64. ایڈمز 1970, p. 52
  65. ایڈمز 1970, p. 49
  66. Reed 1880, pp. 269–270
  67. مول 2003, p. 119
  68. رتی & ویسٹبروک 1991, pp. 328–329
  69. رتی & ویسٹبروک 1991, p. 328
  70. ایڈمز 1970, p. 55
  71. بنچ & ہیلیمانس 2004, p. 161
  72. مول 2003, p. 195
  73. Draeger & Smith 1981, p. 127
  74. مول 2003, p. 124
  75. مول 2003, p. 176
  76. Buckley 2002, p. 257
  77. ٹرنبل 2003, pp. 22–23
  78. واٹر ہاؤس 1996, pp. 2–3
  79. واٹر ہاؤس 1996, pp. 8–11
  80. واٹر ہاؤس 1996, p. 13
  81. واٹر ہاؤس 1996, pp. 24–27
  82. واٹر ہاؤس 1996, pp. 24–25
  83. Teeuwen & Rambelli 2002, p. 327
  84. ایڈمز 1970, p. 29; واٹر ہاؤس 1996, p. 31
  85. McCullough 2004, p. 48
  86. ایڈمز 1970, p. 34
  87. ایڈمز 1970, p. 160
  88. گرین 2001, p. 671
  89. ایڈمز 1970, p. 42
  90. ٹرنبل 2003, p. 14

حوالہ جات ترمیم

  • اینڈریو ایڈمز (1970)، ننجا: نظر نہ آنے والے قاتل، بلیک بیلٹ کیمونیکیشن، ISBN 978-0-89750-030-2 
  • Sandra Buckley (2002)، Encyclopedia of contemporary Japanese culture، Taylor & Francis، ISBN 978-0-415-14344-8 
  • Bryan H. Bunch، Alexander Hellemans (2004)، The history of science and technology: a browser's guide to the great discoveries, inventions, and the people who made them, from the dawn of time to today، Houghton Mifflin Harcourt، ISBN 978-0-618-22123-3 
  • Basil Hall Chamberlain (2005)، The Kojiki: records of ancient matters، Tuttle Publishing، ISBN 978-0-8048-3675-3 
  • Terry Crowdy (2006)، The enemy within: a history of espionage، Osprey Publishing، ISBN 978-1-84176-933-2 
  • William E. Deal (2007)، Handbook to Life in Medieval and Early Modern Japan، Oxford University Press، ISBN 978-0-19-533126-4 
  • ڈون ایف. ڈرائجر، رابرٹ ڈبلیو. سمتھ (1981)، Comprehensive Asian fighting arts، Kodansha، ISBN 978-0-87011-436-6 
  • Nicolas Fiévé، Paul Waley (2003)، Japanese capitals in historical perspective: place, power and memory in Kyoto, Edo and Tokyo، Routledge، ISBN 978-0-7007-1409-4 
  • Karl F. Friday (2007)، The first samurai: the life and legend of the warrior rebel, Taira Masakado، Wiley، ISBN 978-0-471-76082-5 
  • Anthony Howell (1999)، The analysis of performance art: a guide to its theory and practice، Routledge، ISBN 978-90-5755-085-0 
  • تھامس اے. گرین (2001)، Martial arts of the world: an encyclopedia, Volume 2: Ninjutsu، ABC-CLIO، ISBN 978-1-57607-150-2 
  • Sunao Kawaguchi (2008)، Super Ninja Retsuden، PHP Research Institute، ISBN 978-4-569-67073-7 
  • Helen Craig McCullough (2004)، The Taiheiki: A Chronicle of Medieval Japan، Tuttle Publishing، ISBN 978-0-8048-3538-1 
  • سرجی مول (2003)، Classical weaponry of Japan: special weapons and tactics of the martial arts، Kodansha، ISBN 978-4-7700-2941-6 
  • ولیم اسکاٹ مارٹن، J. Kenneth Olenik (2004)، Japan: its history and culture, fourth edition، McGraw-Hill Professional، ISBN 978-0-07-141280-3 
  • Nihon Hakugaku Kurabu (2006)، Unsolved Mysteries of Japanese History، PHP Research Institute، ISBN 978-4-569-65652-6 
  • Nihon Hakugaku Kurabu (2004)، Zuketsu Rekishi no Igai na Ketsumatsu، PHP Research Institute، ISBN 978-4-569-64061-7 
  • ڈورتھی پرکنس (1991)، Encyclopedia of Japan: Japanese History and Culture, from Abacus to Zori، Facts on File، ISBN 978-0-8160-1934-2 
  • آسکر رتی، ایڈلی ویسٹبروک (1991)، Secrets of the samurai: a survey of the martial arts of feudal Japan، Tuttle Publishing، ISBN 978-0-8048-1684-7 
  • Edward James Reed (1880)، Japan: its history, traditions, and religions: With the narrative of a visit in 1879, Volume 2، John Murray، OCLC 1309476 
  • Akihiro Satake، Hideo Yasumada، Rikio Kudō، Masao Ōtani، Yoshiyuki Yamazaki (2003)، Shin Nihon Koten Bungaku Taikei: Man'yōshū Volume 4، Iwanami Shoten، ISBN 4-00-240004-2 
  • Ichinosuke Takagi، Tomohide Gomi، Susumu Ōno (1962)، Nihon Koten Bungaku Taikei: Man'yōshū Volume 4، Iwanami Shoten، ISBN 4-00-060007-9 
  • Tsuji Tatsuya (1991)، The Cambridge history of Japan Volume 4: Early Modern Japan: Chapter 9، translated by Harold Bolitho, edited by John Whitney Hall، New York: Cambridge University Press، ISBN 978-0-521-22355-3 
  • Mark Teeuwen، Fabio Rambelli (2002)، Buddhas and kami in Japan: honji suijaku as a combinatory paradigm، RoutledgeCurzon، ISBN 978-0-415-29747-9 
  • اسٹیفن ٹرنبل (2003)، Ninja AD 1460–1650، Osprey Publishing، ISBN 978-1-84176-525-9 
  • اسٹیفن ٹرنبل (2007)، Warriors of Medieval Japan، Osprey Publishing، ISBN 978-1-84603-220-2 
  • David واٹر ہاؤس (1996)، جاپان میں مذہب: arrows to heaven and earth, article 1: Notes on the kuji، edited by Peter F. Kornicki and James McMullen، جامعہ کیمبرج پریس، ISBN 978-0-521-55028-4 

بیرونی روابط ترمیم