پاسبان (فلم)

پاکستانی فلم

پاسبان (انگریزی: Pasban) اردو زبان میں فلم کا آغاز کیا۔ اس فلم كو 5 مارچ، 1982ء كو پاکستان میں ریلیز ہوئى۔ پاکستانی اس فلم کا کریکٹر ایک محب وطن اور میوزکل فلموں کے بارے میں فلم کی تکمیل کی گی ہیں۔ یہ فلم باکس آفس میں (فلوپ) ہوئی تھی یہ فلم کراچی کے گلستان سنیما میں اس کی ایک ماہ تک کامیاب نمائش ہوئی تھی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر اقبال یوسف تھے۔ پروڈیوسر قوی خان تھے۔ کہانی رشید ساجد نے لکھی تھی اور موسیقی نذیر علی نے بنائی تھی۔ فلم میں سلطان راہی نے راجو کا بطور (پنجابی) کردار نبھایا ہے جبکہ مصطفیٰ قریشی نے ہاشو کا بطور (سندھی) کردار نبھایا ہے البتہ آصف خان نے خوش حال خان کا بطور (خیبر پختونخوا) کردار نبھایا ہے اور غلام محی الدین نے رحیمو کے بطور (بلوچی) کردار میں قابل قدر اداکاری کی۔ جب کہ دیگر اداکاروں میں نجمہ، چکوری، شیخ اقبال اور ادیب نے بھی اپنے کردار کو اچھے انداز میں پیش کیا۔ آپ کا شکر گزار محمد عاشق علی حجرہ شاہ مقیم سے۔

پاسبان
(Pasban)
ہدایت کاراقبال یوسف
پروڈیوسرقوی خان
تحریررشید ساجد
ستارے
راویوقار نذیر
موسیقینذیر علی
سنیماگرافیوقار بخاری
ایڈیٹرسہیل بٹ
پروڈکشن
کمپنی
تقسیم کاروقار ویڈیو
تاریخ نمائش
دورانیہ
140 دقیقہ
ملک پاکستان
زبانپنجابی، اردو

کہانی

ترمیم

بلوچستان کی سرسبز وادیوں میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس میں رہنے والی لڑکی شاہنو ایک نوجوان رحیمو سے پیار کرتی ہے۔ مگراس دیہات کا ایک ٹھیکیدار شاہنو کی عزت سے کھینا چاہتاہے اس کے لیے وہ ایک چال چلتا ہے اور اپنے ایک خاص آدمی کو اس کام کے لیے مقرر کرتا ہے وہ آدمی رجو سے ملتا ہے اور اسے اس کے باپ کی بیماری کے علاج کے لیے کچھ روپے دیتا ہے رحیمواس کا شکریہ ادا کر تا ہے۔ اور حکیم کے پاس جاتا ہے جہاں پولیس اسے جعلی لوٹ چلانے کے جرم میں گرفتار کرلیتی ہے۔ رحیمو بہت احتجاج کرتا ہے مگر پولیس نہیں مانتی اور پولیس اس کو پکڑ کر لے جاتی ہے ادھر رحیمو کے جیل چلے جانے مجھے بعد ٹھیکیدار کا راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ وہ بے سہا را شاہنو کو اٹھا کر اپنی حویلی میں لے آتا ہے۔ اور اس کی عزت لوٹ لیتا ہے ۔ صبح ہوتے ہی شاہنو خنجر سے خودکشی کرلیتی ہے دوسری طرف پہاڑیوں میں ایک جیپ جارہی ہے جس میں دو قیدی ہاشو اور خوش حال خان ایک ہتھکڑی میں بندیں راستے میں دونوں جیپ سے کو دکر فرار ہو جاتے ہیں۔ پولیس ان مفرور قیدیوں کا پیچھا کرتی ہے ادھرایک ریلوے لائن پر خو شحال خان لائن پرلیٹ جاتا ہے۔ اور ہاشو سے کہتا ہے وہ باہر لیٹے تاکہ ٹرین اس کی زنجیر سے گذر جائے اور وہ کٹ جائے مگر ہاشو کہتا ہے کہ وہ لائن کے اندر لیٹے گا اس جھگڑے میں ٹرین گذر جاتی ہے۔ اب ہا شو کہتا ہے کہ خوش حال خان سامنے ایک دیہات نظر آتا ہے وہاں کوئی لوہار ہو گا اس کے ذریعے زنجیر کٹواتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اسی دیہات میں جاتے ہیں جہاں چھپ کر وہ ایک لوہار ڈیوڈ کے پاس جاتے ہیں اور اسے زنجیر کاٹنے کے لیے کہتے ڈیوڈ کہتا ہے کہ ہے وہ یہ بتلائے کہ وہ کون ہیں انھوں نے جرم کیا ہے کسی کو لوٹا ہے، قتل کیا ہے۔ کسی کی عزت لوٹی ہے۔ غدار وطن تو نہیں دونوں ان جرموں سے انکار کرتے ہیں تو ڈیوڈ کہتا ہے کہ وہ ان کے مہمان ہیں اور پھر مجھے یقین ہے کہ تم نے اپنی عزت کی خاطر کوئی جرم کیا ہو گا۔ میں تمھاری رنجیراں ضرور کاٹوں گا چنانچہ وہ ان کی زنجیریں کاٹ دیتا ہے اور ان کی خوب خاطر وغیرہ بھی کرتا ہے اور کہا ہے کہ وہ ان کے مہمان ہیں رات کئی نہیں توڈ یوڈ کہتا ہے کہ دوستو تم اپنی کہانی سناؤ چنانچہ پہلے توشحال خان اپنی کہانی سناتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ سرحد کا رہنے والا ہے اور غریب کسان ہے اس کی زمین پر ایک امیرخان قبضہ کرنا چاہتا ہے وہ اسے دولت کالالچ دیتا ہے مگر خوش حال خان نہیں مانتا۔ خان اسے دھمکی دیتاہے تورات کے وقت خوش حال خان امیرخان کو قتل کرنے کے لیے اس کی حویلی پر جاتا ہے جہاں وہ اسے قتل کرنا چاہتا ہے مگر اتنے میں خان کے آدمی آجاتے ہیں اور خوش حال خان کو گرفتار کر لیا جاتا ہے ابھی خوش حال خان نے اپنی کہانی ختم ہی کی تھی کہ پولیس چھاپے مارتی ہے اور دونوں پھر فرار ہو جاتے ہیں اور پولیس سے چپ کر وہ ایک پنجابی راجو کے گھر پناہ لیتے ہیں پہلے ہاشو اندر جاتا ہے تو راجو اسے چور سمجھ کر خوب مرمت کرتا ہے۔ تو اتنے میں خوش حال خان آجاتا ہے وہ لڑائی چھڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ دوست ہم تو پہلے ہی مصیبت زدہ ہیں تم ہم سے کیوں لڑ تے ہو راجو یہ سنکر انھیں گلے لگا لیتا ہے۔ اور اپنے گھر میں چھپالیتا ہے پولیس آتی ہے تو راجو انھیں متعین کرکے بھیج دیتا ہے اور پھر ان کی خوب خاطر مدارت کرتا ہے پھر وہ حالات کا جائزہ لینے باہر جاتا ہے جہاں تھانے کے باہر خوش حال خان اور ہاشو کی گرفتاری کے لیے 15 ہزار روپے انعام مقرر کیا ہوا تھا را جو کی زمین وہاں کے ایک چوہدری کے ہاں گروی پڑی ہوئی تھی۔ چنانچہ راجو اپنی زمین کو چیڑانے ایک ترکیب سوچتا ہے وہ پہلے چوہدری کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہیں کہ روپوں کا بند وسبت ہو گیا ہے وہ اس کے کاغذت تیار رکھے۔ چنانچہ پر راجو صبح کو بندوق کی نالی کے ذریعے دونوں کو پکڑ کر تھانے لاتا ہے اور پولیس سے اپنا انعام مانگتا ہے تو پولیس کہتی ہے کہ وہ جلد انعام دے گئی چنانچہ را جومطمئن ہو کر چلا جاتا ہے بعد میں ڈیوڈ راجو سے ملتا ہے اوراسے غیرت دلاتا ہے کہ مسلمان ہو کر اپنے مہمانوں کو گرفتار کروا دیا اب را جو کی غیرت جاگتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ وہ اسے ضرور رہا کرائے گا۔ ادھر لولیس ڈیوڈ کو دونوں کی زنجیریں کاٹنے کے جرم میں گرفتار کر لیتی ہے اور بعد میں راجو دونوں کو رہا کراتا ہے اور بھاگ جاتا ہے اور پہلے تینوں مل کرچوہدری کے گھر میں جاتے ہیں جہاں راجو سارے کاغذات پھاڑ دیتا ہے اور چوہدری زخمی ہو جاتا ہے ادھر تینوں گاؤں کے ایک بزرگ کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج سے وہ آزادی اسے میں چوہدری پولیس لے کر آجاتا ہے اور تینوں گرفتار ہو جاتے ہیں اور جیل چلے جاتے ہیں جہاں ڈیوڈ کی پہلے ہی قید ہے وہ جب ڈیوڈ سے جرم پوچھتے ہیں تو ڈیوڈ کہتا ہے کہ وہ اپنی بہن سوراتہ کے لیے اداس ہے نہ جانے وہ کسی حال میں ہوگی۔ادھرا مجد جو عزار وطن ہے اس کے کلب سوراتہ نوکری کرتی ہے اور کلب میں ڈانس کرتی ہے محبت وطن ہے اس لیے وہ امجد سے نفرت کرتی ہے اس وقت بھی وہ کلب میں ڈانس کرتی ہے ایک غیر ملکی امجد سے ملتا ہے اور راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے سوراتہ یہ باتیں سن لیتی ہے پھر وہ امجد سے تنخواہ لیتی ہے ا دھر ایک ویرانے میں امجد اس غیر ملکی کو اپنا ٹھکانا دکھاتا ہے جہاں دھماکا ہوتا ہے سواد موجود ہے دونوں نہتے ہے ادھر سوراتہ اپنی بستی میں ایک عیسائی موٹے آدمی جوزف کو کچھ پیسے دیتی ہے جوزف گھر آتا ہے جہاں اس کے کئی بجے ہن ڈولی اس کی جو ان لڑکی ہے جو ڈیوڈ سے پیار کرتی ہے۔ امجد راجو اور خوش حال کو ایک چناریل پر بھیتجا ہے اور ماں کی سفارش کی وجہ سے وہ ہاشو اور۔ رحیمو کو بھی اپنے گروہ میں شامل کر لیتا ہے۔ ایک دن سوراتہ اکیلے میں آ کر ہاشو اور رحیمو کو بتلاتی ہے کہ امجد ملک کا دشمن ہے لہذا وہ انھیں ختم کرے ۔ ہاشوا ور رحیمو وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ضرور امجد کا خاتمہ کریں گے چنانچہ وہ امجد کے خاص آدمی کو پکڑ کر پہلے امجد کی ماں کے پاس لاتے ہیں اور ماں کوبتلاتے ہیں کہ ان کا بیٹا ملک کا دشمن ہے ۔ ماں کہتی ہے کہ پھر امجد کو ختم کردو وہ میرا بیٹا نہیں ہے۔ جو ملک کا دشمن ہے۔ ادھر راجو اور خوش حال خاں امجد کے اشارے پر چناریل کو اڑانے والے ہے منہ چھپایا ہوا ہے۔ اتنے میں ہاشو اور رحیمو بھی منہ چھپائے ہوئے آجاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے بے خبر آپس میں خوب لڑتے ہیں مگر تھوڑی دیر بعد وہ پہچان جاتے ہیں ہاشو اور رحیموبتلاتے ہیں کہ امجد ملک دشمن ہے تو چاروں کہتے ہیں کہ پھر اس کا خاتمہ ضرور ہے۔ چنانچہ چاروں جیب میں بیٹھ کر امجد کے پاس جا رہے ہیں اور ساتھ میں ایک ترانہ بھی گا رہے ہیں۔ ادھر امجد اپنی فتح کا جشن منا رہا ہے، چاروں پہنچ جاتے ہیں خوب لڑائی ہوتی ہے غیر ملکی ایجنٹ مارا جاتا سے امجد بھی فرار ہو جاتا ہے اور اپنے پرانے اڈے پر پہنچ جاتا ہے چاروں دوست پہنچ جاتے ہیں۔ ڈیوڈ بھی وہاں موجود ہے سوراتہ حبتی مشعل نے کو بارود کو اڑا دیتی ہے خود ما ری جاتی ہے مگر تمام بار و دختم ہو جاتا ہے۔ ڈیوڈ بھی مارا جاتا ہے۔ اب امجد اکیلا رہ جاتا ہے چاروں دوست اسے گھیر کر مار دیتے ہیں اس طرح دشمن وطن کا خاتمہ ہوجاتاہے ۔ ماں بھی آکر چاروں دوستوں کو مبارکباد دیتی ہے اتنے میں پولیس آ کر سب کو اپنی نگرانی میں لے لیتی ہے۔

اداکار

ترمیم

ساؤنڈ ٹریک

ترمیم

فلم کی موسیقی رشید ساجد نے ترتیب دی، فلم کے نغمات حزیں قادری نے گیت لکھے۔ فلم کی لسٹ ریکارڈنگ میں شامل ایم امین انھوں نے گیتوں کی بہترین ریکارڈنگ کی اور ناہید اختر، مہناز , رجب علی , اخلاق احمد , روشن اور شوکت علی نے گیت گائے۔

نمبر.عنوانپردہ پش گلوکاراںطوالت
1."دھڑک رہا ہے دل کسی قابل اگر سمجھ تولے لو"ناہید اختر5:21
2."ڈیڈی مجھے کلفی لے دونا"ناہید اختر اور ساتھی4:31
3."ہو سجنا آج تو گلابی میرا رنگ ہو گیا"رجب علی، مہناز بیگم3:44
4."روشنی بنوں گی منزلوں کو جگمگاؤں گی"ناہید اختر4:44
5."قسم ہے شہیدوں کے رنگین لہو کی قسم زندگی کی قسم آبرو کی"اخلاق احمد , روشن ، شوکت علی4:21
کل طوالت:22:01

بیرونی روابط

ترمیم