کلیم عاجز
کلیم عاجز (پیدائش: 1920ء – وفات: 14 فروری 2015ء) ایک ہندوستانی نژاد اردو شاعر جن کا تعلق اردو کے دبستان عظیم آباد سے تھا۔ کلیم عاجز کو ان کی ادبی خدمات پر حکومت ہند کی جانب سے 1982ء میں پدم شری اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
کلیم عاجز | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1920ء Telhara، نالندا ضلع، بہار، ہندوستان |
وفات | 14 فروری 2015ء (94–95 سال) ہزاری باغ، جھارکھنڈ، بھارت |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ پٹنہ |
پیشہ | اردو شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
وجہ شہرت | غزل گوئی |
اعزازات | |
پدم شری اعزاز | |
درستی - ترمیم |
مشاہیر کے اقوال
ترمیم- کلیم الدین احمد:
کلیم عاجز کے شعروں میں ایک مخصوص سادگی ہے. کلیم عاجز کے شعروں میں غم جاناں بھی ہے اور غم دوراں بھی اور دونوں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے الگ نہیں کیے جاسکتے۔
- کوثر مظہری:
کلیم عاجز سراپا سوز ہیں اسی لیے ان کی غزلوں میں سلگن کی کیفیت اور آواز میں لہجے اور درد کا رقص نظر آتا ہے۔
- نظام الدین اسیر ادروی نے فراق گورکھپوری کے الفاظ نقل کیے ہیں جس میں فراق نے یہ اظہار کیا ہے کہ انھیں کلیم کو کلیم کی زبانی سننے کا فخر حاصل ہے اور وہ کلیم کے سادہ کلام کی وجہ سے کلیم سے غصہ ہیں. [1]
حالات زندگی
ترمیمکلیم عاجز کی ولادت 1920ء میں پٹنہ کے موضع تیلہاڑہ میں ہوئی۔ تیلہاڑہ صوبہ بہار کے نالندہ ضلع کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں پرانے زمانے میں بدھ مت کے راہب رہا کرتے تھے۔ انھیں صوفیوں کی خانقاہوں سے بڑی عقیدت تھی، خاص طور پر خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے سجادہ نشیں حضرت شاہ محسن داناپوری سے گہرا لگاو تھا، کلیم عاجز نے پٹنہ یونیورسٹی سے بی اے کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ پھر اسی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری اور بعد ازاں 1956ء میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ انھوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ "بہار میں اردو ادب کا ارتقا" کے عنوان پر لکھا جو بعد میں کتابی شکل میں شائع بھی ہوا۔ طالب علمی سے فراغت کے بعد کلیم عاجز کا پٹنہ یونیورسٹی سی تعلق باقی رہا۔ وہ وہاں شعبہ اردو میں فیکلٹی ممبر کی حیثیت سے شامل ہوئے اور بحیثیت پروفیسر وظیفہ یاب ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ حکومت بہار کی اردو مشاورتی کمیٹی (Urdu Advisory Committee) کے صدر مقرر ہوئے اور تا دم حیات اس عہدے پر باقی رہے۔
کلیم عاجز نے اپنی پہلی غزل 17 برس کی عمر میں لکھی اور 1949ء سے مشاعروں میں شرکت شروع کی۔ انکا پہلا دیوان 1976ء میں شائع ہوا جس کی تقریب رونمائی اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند فخر الدین علی احمد کے ہاتھوں وگیان بھون میں ہوئی۔ اس کے بعد ان کے متعدد دیوان منظر عام پر آئے جن میں "جب فصل بہاراں آئی تھی"، "وہ جو شاعری کا سبب ہوا"، "جب فصل بہار آئی" اور "جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی" قابل ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں ڈلاس (امریکا) سمیت کئی ملکوں میں انھوں نے اردو کے مشاعروں میں شرکت کی اور اپنے کلام سے مستفیض کیا۔
شاعری
ترمیمکلیم عاجز میر کے انداز کے لیے بہت مشہور ہیں۔ وہ خود بھی اس کو محسوس کرتے تھے اور جا بجا اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ان کا ایک شعر ہے۔
اس قدر سوز کہاں کسی اور کے ساز میں ہے | کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے |
کلیم نئے زمانے کے کلاسیکی انداز کے شاعر تھے۔ ان کی غزلوں میں دو معنی ہوتے ہیں۔ انھوں نے درد، عشق، ہجر، زلف، خون و خنجر، شیخ و برہمن اور قتل و دامن کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ کلیم عاجز اپنی شاعری پر طنز کرنے میں ماہر تھے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ | تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو |
یہاں تک کہ ایک پوری غزل انھوں نے طنز کے لیے وقف کردی ہے۔ اس کا مطلع کچھ یوں ہے
تم گل تھے ہم نکھار ابھی کل کی بات ہے | ہم سے تھی سب بہار ابھی کل کی بات ہے |
کلیم عاجز نے کثرت سے غزلیں کہی ہیں۔ غزل کے علاوہ نظم اور سہرے بھی لکھے ہیں۔ ان کی نظم "رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے" بہت مقبول ہوئی تھی۔
وفات
ترمیم14 فروری 2015ء کو جھارکھنڈ کے شہر ہزاری باغ میں انھوں نے آخری سانسیں لیں۔ ان کی نماز جنازہ پٹنہ کے گاندھی میدان میں ادا کی گئی اور آبائی وطن تیلہاڑہ میں مدفون ہوئے۔[2][3][4]
اعزازات
ترمیمحکومت ہند نے ان کی شعری خدمات کے اعتراف میں 1989ء میں پدم شری اعزاز سے نوازا۔[5]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ نظام الدین اسیر ادروی، افکار عالم، جلد اول، دیوبند: شیخ الھند اکیڈمی
- ↑
- ↑ "Kalim Ajiz passes away"۔ Bihar GK website۔ 15 فروری 2015۔ 2020-03-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-04
- ↑ "Urdu Ghazals"۔ Ghalib Ayaz۔ 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-04
- ↑ "Padma Shri Awards List (!954 – 2013) (read under the year 1989)" (PDF)۔ Ministry of Home Affairs, Government of India website۔ 2015۔ 2014-11-15 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-04