کوریا میں اسلام
مسلمانوں کی کوریا میں آمد تاریخی اعتبار سے بہت پرانی ہے۔ کوریا میں اسلام چین کے راستے داخل ہوا تھا۔ کوریا میں اسلام کی پہلی شہادت چینی "تانگ سلطنت ( 907-617) کے دوران ہوئی ہے۔ جس میں "کوریو بادشاہت (918-1392) تک باقاعدہ کاروباری تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ بعض مورخین کے نزدیک 751 میں عباسی خلیفہ کی چینی بادشاہ کے ساتھ ایک جنگ ہوئی تھی جسے جنگ طلاس یا معرکہ نہر طلاس کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں چین کو شکست ہوئی اور مسلمان چین میں داخل ہو گئے۔ جہاں سے وہ جزیرہ نما کوریا تک پہنچ گئے۔ زیادہ معتبر مسلمان تاریخ دانوں کے نزدیک مسلمان پہلی بار نویں صدی میں کوریا آئے جب عرب اور ایرانی تاجر کورین شیلا بادشاہت کے ساتھ تجارت کرنے آئے۔ شیلا بادشاہت کا مرکز موجودہ دیگو کے قریب گیونگجو شہر تھا۔ جو آج بھی کوریا کا سب سے تاریخی شہر کہلاتا ہے۔ اس بات کے ثبوت کیلے گیونگجو کے کھنڈر سے کچھ ایسے مجسمے ملے ہیں جن کے نقش ونگار عربوں جیسے ہیں۔ اور کچھ پرانی لکھائی میں عربوں کی آمد کا ذکر ہے۔ نویں صدی کے مشہور عرب جغرافیہ دان عبد اللہ ابن خردادبہ نے اپنی کتاب "کتاب المسالک والممالک" میں کوریا کا زکر کیا۔ بعد میں ایک اور عرب محمد الادریس نے دنیا کا نقشہ تیار کیا۔ اس عالمی اٹلس میں پہلی بار کوریا کا نقشہ، تاریخ اور بادشاہت کے بارے معلومات لکھی گئی۔ کوریا میں آج بھی اس نقشے کو کوریا کا پہلا عالمی نقشہ مانا جاتا ہے۔ جبکہ کوریا نے اپنا پہلا مقامی نقشہ "کانگ نی دو" بہت بعد 1402 میں تیار کیا۔
کورین دستاویزات
ترمیمکورین دستاویزات کے مطابق کوریا میں مسلمانوں کا پہلا زکر تیرھویں صدی میں ملتا ہے۔ جب ایک بادشاہ "چھنگ نیول" (1274) نے ایک نظم لکھی جس میں مسلمانوں کا زکر ہے۔ بادشاہ اپنی نظم میں ایک کورین عورت کا احوال بیان کرتا ہے جو کوریا میں واقع ترکی کی ایک بیکری سے روٹی خریدا کرتی ہے۔ کوریو مخطوطوں کے مطابق چھنگ نیول منگول شاہی خاندان کا ایک فرد تھا جو کوریو کی شہزادی سے شادی کرکے بادشاہ بنا۔ اس کا کورین نام "جنگ سن نیونگ" تھا۔ اس نے ایک کورین عورت سے شادی کی اور کوریا کے مشہور "دوک سو جنگ" خاندان کا جد امجد بنا۔ اس خاندان نے سینکڑوں سال تک سکالر راہنما حکومتی امور کے ماہر اور کنفیوشش کے استاد پیدا کیے۔ آج بھی کوریا میں اس خاندان کے 30 ہزار سے زیادہ لوگ آباد ہیں جو جنگ سن نیونگ کو 25 ویں پشت میں اپنا باپ مانتے ہیں۔ بعض محققین کے نزدیک وہ منگول خاندان کا وہ شہزادہ تھا جو مسلمان ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے معتبر ثبوت نہیں مل سکے۔ کچھ تاریخ دان چینی مسلمان یغور "سن سول" کو ہی جنگ سن نیونگ مانتے ہی۔ جو گیونگ جو کی ایک شہزادی سے شادی کرکے یہاں آباد ہو گیا تھا۔ اور منگول سرخ تربان خاندان کا تھا۔
کورین شراب سوجو کا ماخذ اسلامی عرق ہے۔ مسلمان شراب نہیں پیتے پھر بھی کوریا میں مسلمانوں کی تاریخ پرکھنے کیلے کوریا میں شراب کی تاریخ دیکھنی ہوگی۔ کوریا کی مشہور شراب "سوجو Soju ہے۔ جو پچھلے 700 سال سے استعمال ہو رہی ہے۔ مسلمان تاجر کوریا میں اپنے ساتھ پھلوں اور سبزیوں کا عرق لے کر آئے جو مختلف دوائیوں میں استعمال ہوتا تھا۔ عرق نکالنے کی ٹیکنالوجی کورین نے سیکھی اور پھر مزید اضافہ کرکے کورین نے شراب بنائی جو کورین چاول سے بنائی جانے والی سوجو ہے۔ کورین زبان میں سوجو کو "عرق جو 아락주" کہا جاتا ہے۔ جو عربی لفظ عرق کا کورین نام ہے۔ موجودہ شمالی کوریا میں واقع تاریخی شہر "کھے سنگ " میں عرق جو کی لیبارٹریاں قائم تھیں جہاں سے پورے کوریا میں سپلائی دی جاتی تھی۔
مسلمان ماہر فلکیات و ریاضی دان
ترمیمکوریو بادشاہت میں استعمال ہونے والا کورین کیلنڈر میں بھی مسلمانوں کی باقیات ملتی ہیں۔ منگولوں نے چین پر قبضہ کرنے کے بعد مسلمان ماہر فلکیات اور ریاضی دانوں کو بیجنگ بلایا تاکہ وہ چینی کلینڈر میں واقع غلطیوں کو دور کرسکیں۔ مسلمان ماہرین اپنے ساتھ فلکیات اور ریاضی کے جدید آلات لے کر بیجنگ آئے۔ اور ان کی مدد سے انھوں نے سورج چاند پانچ سیاروں اور ستاروں کی رفتار فاصلہ ناپا اور چینی کلینڈر کو ازسر نو ترتیب دیا۔ کوریا کے بادشاہ نے اپنے ماہرین بھی بیجنگ بھیجے جنھوں نے مسلمان ماہرین سے یہ علم سیکھا۔ مسلمانوں کا تیارکردہ یہ کلینڈر چین اور کوریا میں سرکاری کلینڈر کے طور پر 16 ویں صدی کے آخر تک استعمال ہوتا رہا۔
پہلی مسلم کمیونٹی ( ہوئی ہوئی کمیونٹی)
ترمیممسلمان تاجروں کی آمد کے بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا اور بہت سے تاجر شادیاں کرکے یہی قیام پزیر ہو گئے۔ اپنے گاؤں آباد کیے اور ان کی نسلوں نے عربوں سے تعلقات بحال رکھے۔ اس دور میں مسلم کمیونٹی کو "ہوئی ہوئی" کہا جاتا تھا۔ ہوئی ہوئی لیفا" Huihui Lifa" مسلمانوں کا وہ آلہ تھا جس سے انھوں نے زمین سورج ستاروں کی پیمائش اور سفر کی دریافت کی تھی۔ پندرہویں صدی کے ابتدا تک مسلمانوں کی آبادیاں کوریا کے طول و عرض میں پھیل چکی تھیں۔ مسلمانوں نے اپنی بستیاں قائم کیں۔ مسجدیں اور اسکول بنائے۔ تحقیق کیلے لیبارٹریاں اور رصدگاہیں بنائیں۔ اسلامی کچھ کے تحت رہن سہن تھا۔ کپڑوں اور پگڑیوں کا پہناوا عام تھا۔ پھر کوریا کے سب سے مشہور بادشاہ سے جنگ Sejong نے 1427 میں ہوئی ہوئی مسلم کمیونٹی کے خلاف ایک حکم جاری کیا۔ جس مین مسلمانوں کو کورین کلچر کے مطابق رہنے یا کوریا چھوڑ دینے کا کہا گیا۔ اس حکم کے تحت مسلمانوں کو دیے گئے تمام حقوق واپس لے لیے۔ ان کے علاحدہ رہن سہن پر پابندی لگادی گئی۔ ان کے لباس اور کھانے ختم کردیے گئے۔ مسلم کمیونٹی کی مسجدیں اور اسکول ختم کردیے۔ بہت سے مسلمان سختی سے تنگ آکر کوریا چھوڑ گئے۔ اور جو باقی رہے وہ کورین کلچر میں ضم ہو گئے۔ اور 1430 تک کوریا سے پوری مسلم کمیونٹی ختم ہو گئی۔ اس کے بعد انیسویں صدی تک کوریا میں مسلمانوں کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔ چُوسن بادشاہت کو تنہا بادشاہت کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ہمسایہ ممالک سے تعلقات رکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پندرہویں صدی سے انیسویں صدی کے آخر تک کوریا میں دوسری قوموں کا نشان نہیں ملتا۔
اسلام کا دوبارہ آغاز
ترمیمیہاں تک کہ 1890 کے بعد جاپان اور امریکا نے چُوسن حکومت پر زور ڈالا کہ وہ دوسرے ممالک کے سرکاری اہلکار اور تاجروں کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دے۔ 1910 میں جاپان نے کوریا پر قبضہ کرکے چُوسن بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ جاپان ایک تجارتی ملک تھا۔ اس نے کوریا بھی تاجروں کے لیے کھول دیا۔ 1920 میں عرب ترک اور سنٹرل ایشیا کے مسلمان تاجروں نے کوریا سے تجارت شروع کردی تھی۔ ترک تاجروں نے سیول کے نواح میں رہائشیں اختیار کی اور درزی بیکری اور دوسرے چھوٹے کاروبار شروع کردیے۔ مسلمانوں کی تعداد بڑھنے پر انھوں نے حکومت کی اجازت سے 1934 میں سیول شہر میں ایک عمارت خریدی جس کی پہلی منزل پر کمیونٹی سنٹر بنایا گیا اور دوسری منزل پر مسجد قائم کی جس میں بچوں کا اسکول بھی شروع کیا گیا۔ یہ مسجد 1427 میں سے جنگ بادشاہ کے بعد کوریا میں پہلی مسجد تھی۔
پہلا کورین مسلمان
ترمیمشائد پارک جے سنگ Park Jaeseoung کورین ریکارڈ کے مطابق پہلا کورین ہے جو 1930 کے قریب مسلمان ہوا۔ وہ ایک ترک کپڑے کی دکان پر کام کرتا تھا اور وہیں مسلمان ہو گیا۔ جنگ عظیم دوم شروع ہونے پر بہت سے کورین چینی علاقے منچوریا میں ہجرت کر گئے جو روس کے قریب شمال مشرقی صوبہ تھا۔ یہ کورین وہاں مسلمان ہو گئے لیکن واپس نہیں آئے۔ یہاں تک کہ 1945 میں جاپان کوریا سے نکل گیا۔ جاپان کے جانے کے بعد آزاد متحدہ کوریا میں منچورین مسلمانوں کی واپسی شروع ہوئی۔ لیکن ان کی تعداد اتنی کم تھی کہ کوریا جنگ کے خاتمے کے بعد 1955 تک ہم کوریا میں مسلمانوں کا ذکر تو کرسکتے ہیں لیکن کورین مسلم سوسائٹی کا ذکر ممکن نہیں۔
جدید دور کے مسلمان اور کورین مسلم فیڈریشن
ترمیمکوریا میں مسلمانوں کی دوبارہ آبادکاری میں سب اہم کردار ترکی کا ہے۔ کوریا جنگ کے دوران اقوام متحدہ کے تحت ہزاروں ترک فوجی جنوبی کوریا کی طرف سے لڑنے آئے۔ ترک فوجیوں نے جنگ لڑنے کے علاوہ امدادی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ ترک فوج کے امام عبد الغفور قرہ اسماعیل اوغلو نے فوجی چھاؤنی کے اندر ایک مسجد قائم کی جہاں فوجی نماز پڑھتے تھے۔ اور ساتھ میں غریب کورین بچے جو اسکول نہیں جا سکتے تھے انھیں پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی دوران بہت سے کورین مسلمان ہو گئے۔ 10 جون 1955 کو امام عبد الغفور کے ایک لیکچر کو سن کر 57 کورین نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ جس نے کوریا میں اسلام کی راہیں ہموار کرنے میں اہم قرار ادا کیا۔ چند مقامی مسلمان اور منچورین مسلمان جو واپس آچُکے تھے اور ترک فوج کے مسلمانوں نے ملکر 1955 میں "کورین مسلم سوسائٹی" کے قیام پر کام شروع کیا اور ایک سال بعد 1956 میں پہلی "کورین مسلم سوسائٹی" کی بنیاد رکھی۔ اس سوسائٹی میں 200 کورین مسلمان ارکان تھے۔ جن کے سربراہ عمر کم جن اور محمد ین دو ینگ تھے۔ یہ دونوں منچوریا میں مسلمان ہوئے تھے۔ 1959 میں عمر کم اور صابری جنگ کل پہلے کورین مسلمان بنے جو حج کے لیے گئے۔
کوریا میں مسلمانوں کی تعداد اور مسجدیں
ترمیمتیل کی دریافت کے بعد کافی کورین مشرق وسطیٰ ملازمت کے لیے چلے گئے۔ بہت سے مسلمان ہوکر واپس آئے۔ یہ سوسائٹی جب بہت بڑی ہو گئی تو 1967 میں "کورین مسلم فیڈریشن" کا قیام ہوا۔ تب تک کورین مسلمانوں کی تعداد 3000 تک ہو چکی تھی۔ فیڈریشن کے صدر پارک چھنگ ہی نے مسلمان ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنائے اور انھیں سیول میں مسجد بنانے کی طرف متوجہ کیا۔ ملایشیائی حکومت نے 1962 میں مسجد بنانے کیلے 33000 ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔ فیڈریشن نے مزید فنڈ کا انتظام کرکے 1976 میں ایتیوان سیول میں مسجد بنائی۔ جسے سیول سینٹرل مسجد کہا جاتا ہے۔ مسجد بننے پر مسلمانوں کو ایک مرکزی جگہ مل گئی اور چند ہی سالوں میں کورین مسلمانوں کی تعداد 3000 سے بڑھکر 15000 ہو گئی جو 1990 تک 30000 ہو چکی تھی۔ اور سیول سنٹرل مسجد کے علاوہ پوسان انیانگ جون جو میں مسجدیں قائم ہو چکی تھیں۔ کوریا میں صنعت کے قیام کے ساتھ ہی پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا اور دوسرے مسلمان ممالک سے ہزاروں کارکن کام کے سلسلے میں آئے۔ 1997 تک کورین مسلمانوں کی تعداد 35000 اور غیر ملکی مسلمانوں کی تعداد 150,000 تک تھی۔ 2015 میں کورین مسلم فیڈریشن کے مطابق کوریا میں تقریباً 40000 کورین مسلمان ہیں۔ جن میں سے 10000 کسی نا کسی طرح رابطے میں رہتے ہیں۔ یہ تعداد بھی ایک محتاط اندازہ ہے کیونکہ کورین قانون کے مطابق اپنے مذہب کو ظاہر کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے تمام اعدادوشمار غیر سرکاری اور غیر حتمی ہیں۔ جبکہ تقریباً 120000 مسلمان ملکوں سے آنے والے صنعتی کارکنان اس کے علاوہ ہیں۔ جن کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ جن میں سے بہت سوں نے کورین سے شادیاں کررکھی ہیں۔ کوریا مسلم فیڈریشن نے 1990 میں سیول سینٹرل مسجد سے ملحق ایک مدرسہ سلطان بن عبد العزیز کھولا تھا۔ جسے 2009 میں سعودی حکومت کی طرف سے پانچ لاکھ ڈالر کی امداد ملنے پر بچوں کے لیے اسکول میں بدل دیا۔ جہاں بچوں کو اسلام اور اسلامی سوسائٹی کی تعلیم کورین انگریزی اور عربی میں دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگو کی مقامی پاکستانی کمیونٹی نے 2014 میں ایک اسکول اقرا کھولا ہے۔ جہاں اسلام کی تعلیم عربی انگریزی اور اردو میں دی جاتی ہے۔ آج کوریا میں 28 سے زیادہ مسجدیں اور 170 سے زیادہ مصلّے ہیں۔
کوریا میں اسلام کو درپیش مشکلات
ترمیماگرچہ کوریا میں مسیحیت غیر ملکی مذہب سمجھا جاتا تھا۔ اور 1960 میں مسیحی صرف 10 لاکھ تھے مگر 2005 تک ایک کروڑ 40 لاکھ ہو چکے تھے۔ اسی طرح کوریا میں اسلام کو بھی مقامی مذہب کی بجائے غیر ملکی اور درآمد مذاہب سمجھتا ہے۔ مگر مسیحیت کی طرح اسلام میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔
کوریا شروع سے ہی بہت زیادہ قوم پرست ملک رہا ہے جس کے دوسرے ممالک سے تعلقات نا ہونے کے برابر تھے۔ کوریا کی زبان، ثقافت، رہن سہن اسے دوسرے سے ملنے سے روکتا ہے۔ اور دوسرے ثقافت کے لوگ کوریا میں بہت مشکل سے رہ پاتے ہیں۔ کورین ثقافت بہت زیادہ یکساں اور نسل پرست ہے۔ ایسے میں کورین ثقافت اپنے لوگوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ وہی کام کریں جو دوسرے کورین کرتے ہیں۔ ایسے میں کورین صرف اسی ثقافت اور مذہب کو پسند کرتے یا اپناتے ہیں جو ان کے مقامی ثقافت کے قریب ہو اور اس پر عمل کرنے میں مشکل پیش نا آئے۔ اور دوسرے کورین اسے معیوب نا سمجھیں۔ ناکہ وہ کوئی ایسا کام کریں جو ان کے ثقافت سے مختلف ہو۔
کوریا میں مذہبی رسومات ادا کرنے کی پابندی نہیں ہے۔ اور مقامی مذہب ان کے رہن سہن پر بھی کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ اسی نقطے کو سامنے رکھتے ہوئے مسیحیوں نے تبلیغ کی۔ اور اپنی تعداد ایک تہائی آبادی کرلی۔ جبکہ اسلام میں کچھ ایسی ضروری پابندیاں ہیں جو کورین ثقافت سے یکسر مختلف ہیں۔ جن میں نماز کی پنج وقتی ادائیگی لازم ہے۔ جبکہ بدھ مت اور مسیحیت میں ہفتے میں ایک بار عبادت ہے اور وہ بھی ہر کسی پر لازم نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شراب اور سور کے گوشت سے پرہیز جو کورین ثقافت کا سب سے اہم جز ہے۔ کوریا کے روزمرہ کھانوں میں سور عام ہے اور دوسرے کھانوں میں بھی اس کے اجزا شامل کیے جاتے ہیں۔ بالغ کورین کی ہر محفل میں شراب عام ہے اور نا پینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں کورین کے مسلمان ہونے پر اسے جز وقتی یا کل وقتی اپنے خاندان اور دوست احباب کی بہت ساری مشترکہ محفلوں سے احتیاط برتنا پڑتا ہے۔ جو کورین سوسائٹی میں ایک مشکل کام ہے۔
کورین سوسائٹی شروع سے قدرے مشرکانہ عقائد پر مبنی ہے۔ کورین بدھ ازم میں صدیوں سے بت یا تصویروں کے سامنے عبادت کا تصور ہے۔ مسیحیت نے انہی سے ملتا ہوا ایک تصور دیا جیسے خدا تین میں سے ایک ہے۔ اور یسوع مسیح کی تصویر۔ جبکہ یہ چیزیں اسلام میں ناپید اور عبادت نہایت سادہ ہے۔ اور خدا کا تصور توحید پر ہے جو خدا ایک اور صرف ایک ہے۔ کوریا میں مقامی مسلمانوں کی بجائے غیر ملکی مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان کی ثقافت کوریا سے مختلف تو ہے مگر آپس میں بھی مماثل نہیں ہے۔ پاکستان ، انڈونیشیا ، ازبکستان کے مسلمان کوریا میں صرف عبادت کے وقت ہم زبان ہوتے ہیں مگر رہن سہن طعام و لباس میں جدا جدا ہیں۔
کیا اسلام مسیحیت اور بدھ مت کے لیے چیلنج بن سکتا ہے؟ یہاں دو بنیادی سوال زہن میں ابھرتے ہیں۔ پہلا سوال "کیا اسلام مستقبل میں مسیحیت اور بدھ ازم کیلے چیلنج بن سکتا ہے" تو اس کا جواب ہے "نہیں"۔ اور دوسرا سوال ہے "کیا کوریا میں اسلام کا مستقبل ہے" تو اس کا جواب ہے "جی ہاں" کوریا میں اسلام کا مستقبل روشن ہے۔ مسیحیت نے اپنے آپ کو کوریا میں مقبول کرنے کیلے مسیحیت کا کورین ورژن متعارف کروایا تھا۔ کوریا کے مقامی عبادت خانوں جیسے چرچ بنائے اور انھیں سے ملتی جلتی عبادت کا تصور دیا۔ آج کورین چرچ پوری دنیا کے چرچوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ اسی چیز نے مسیحیت کو کوریا میں مقبول کر دیا۔ لیکن ایک وقت آئے گا جب مسیحیوں کی تعداد مقررہ حد پر جاکر رک جائے گی۔ جس کی وجہ سے عیسائیت اور اسلام میں کبھی مقابلہ بازی کی فضا قائم نہیں ہوگی۔
اسلام کا مستقبل
ترمیماس کے مقابلے میں اسلام کا کورین ورژن ممکن نہیں ہے۔ جس کے باعث کورین کے مسلمان ہونے کی تعداد بہت کم اور آہستہ ہے مگر کورین میں قبول اسلام کی تبدیلی بہت مضبوط بنیادوں پر ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ کوریا میں اسلام کا مستقبل قدرے دور مگر بہت روشن نظر آتا ہے۔ بلبلِ ہند "سروجنی نائیڈو" نے ایک بار کہا تھا۔
” | اسلام کے نظریات بنیادی اور حتمی طور پر اتنے ترقی پسند نظریات ہیں کہ کوئی انسان جو ترقی سے محبت کرتا ہوں ان پر ایمان لانے سے انکار نہیں کر سکتا۔ | “ |
مشہور نومسلم کورین
ترمیم- داؤد کِم، (پرانا نام:جے کِم، کوریائی زبان:Jay Kim)، مشہور یوٹیوبر
- طیب محمد (کوریائی نام:Daeyeon Won، تلفظ:تھائیون وُون) پاکستان میں پلا بڑھا کوریائی نومسلم نوجوان
- عبد اللہ الکوری، یوٹیوبر
- کرم کِم
حوالہ جات
ترمیم- Hee-soo Lee, The Advent of Islam in Korea (Istanbul: Research Centre for Islamic History, Art and Culture (IRCICA), 1997), pp. 40–53.
- Peter Lee, ed., A History of Korean Literature (Cambridge, England: Cambridge University Press, 2003), pp. 104–05.
- Koreans name their clans after the place where the clan progenitor lived. Jang settled down in the town of Deoksu in central Korea.
- Lee, The Advent of Islam in Korea,
- Islam Struggles for a Toehold in Korea By Don Baker, Harvard Asia Quarterly