لاہوت لامکاں

لاہوت لامکاں: ایک سحر انگیز مقام

لاہوت لامکاں (انگریزی: Lahoot La Makan) پاکستان کے ضلع خضدار کی تحصل وڈھ میں ایک حسین ترین اور قدیم ترین زیارت گاہ اور صوفی بزرگوں، یوگیوں اور اللہ لوک ولیوں کے چلہ کشی کا متبرک مکان اور غار ہے۔ غار تک پہنچنے اور غار میں جا کر واپس آنے والا لاہوتی کہلاتا ہے۔ لاہوت کراچی سے شمال مغرب کی جانب تقریباً ایک سو پچیس (125) میل کے فاصلے پر بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقہ ”سارونہ “ میں ایک بلند پہاڑی کے اندر واقع ہے۔ فقیروں کے قریب لاہوت ایک بہت بلند منزل کا نام ہے جس تک پہنچنے کے لیے انھیں مرشد کی رہنمائی میں مختلف ریاضتیں اور عبادات کرنی پڑتی ہیں۔[1]

لاہوت لامکاں
(Lahoot Lamakan)
لاہوت لامکاں (بلوچی، اردو)
لاہوت لامکاں (ایک مقام)--سید بلاول شاہ نورانی
لاہوت لامکاں (ایک مقام)--سید بلاول شاہ نورانی
متبادل ناملاہوت،
مقامبلوچستان، ضلع خضدار، تحصیل وڈھ
پاکستان
متناسقات25°45′26″N 67°2′46″E / 25.75722°N 67.04611°E / 25.75722; 67.04611
قسمغار
تاریخ
ادوارپیغمبر،اولیاء کرام و صوفیا کرام
ثقافتیںبلوچی، براہوی اور سندھی
اہم معلومات
ملکیتمخلوط، سرکاری اور نجی
عوامی رسائیجزوی

محل وقوع ترمیم

لاہوت لامکاں ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کے جنوب میں سارونہ کے علاقے میں واقع ہے۔ لاہوت لامکاں کا پہاڑ ایک بڑا حسین ترین آبشار معلوم ہوتا ہے۔ لاہوت لامکاں کا پہاڑ کراچی سے آنے والے روڈ سے مغرب میں اور سید بلاول شاہ نورانی اور محبت فقیر کے مزارات سے جنوب میں واقع ہے۔ لاہوت لامکاں کا خوبصورت ترین پہاڑ بہت بلندہے۔ یہ بہاڑ سطح سمندر سے اندازہ 4000 ہزار فٹ بلند ہے۔ لاہوت کا پہاڑ پیدل عبور ہی کیا جاتا ہے۔ لاہوت لا مکاں کا پہاڑ دو اطراف سے عبور کیا جا سکتا ہے۔ ایک راستہ سید بلاول شاہ نورانی کے مزار سے پہاڑیاں سر کرتے ہوئے لاہوت لامکاں کی طرف جاتا ہے جو کچھ زیادہ مشکل ہے۔ دوسرا راستہ محبت فقیر کے مزار تک پہچنے سے پہلے روڈ سے نکلتا ہے جہاں لاہوت لامکاں کا سائن بورڈ نصب ہے۔ یہاں روڈ کے قریب ایک چھوٹا سا ہوٹل اور مسجد ہے جہاں سے سفر شروع ہوتاہے۔ یہ راستہ بھی آسان نہیں مگر اکثر لاہوتی اسی راستے سے جاتے ہیں۔ لاہوت لامکان کی غار کی طرف یہ راستہ پہاڑیوں میں سے بل کھاتا ہوا اوپر غار کی طرف جاتا ہے۔ اس خطرناک راستے میں کہیں کہیں لوہے کی سیڑھیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ لاہوت لامکاں کی غار سے پہلے ایک ہوٹل ہے جہاں کچھ لمحے جانے والے بیٹھ کر چائے پیتے ہیں اور تھکن دور کرتے ہیں۔ راستے میں ایک دکان بھی ہے جہاں سے لوگ تبرک کے طور پر چیزیں لیتے ہیں۔ پھر لاہوت لامکاں کی زیارت گاہیں شروع ہوتی ہیں۔

لاہوت لامکاں کی جگہ ترمیم

سجدہ گاہ کے بعد لاہوت لامکاں کی چٹان آتی ہے جہاں چھوٹی سی جگہ یا پلاٹ ہے۔ اوپر پہاڑ چھت کی طرح ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ اوپر چھت نما پہاڑ میں نوکدار پتھر ایسے نظر آ رہے ہیں جیسے بھینس یا گائے کے تھن ہوں۔ ان میں سے پانی کی بوندیں ٹپکی رہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پہلے ان میں سے دودھ ٹپکتا تھا۔ لوگوں نے وہ دودھ بیچنا شروع کیا تو پھر وہ پانی ہو گیا۔ لوگ تبرک کے طور پر وہ ٹپکتی بوندیں جھپک کر ہاتھوں، بازؤوں اور منہ کو لگاتے ہیں۔ ایک عجیب سا سحر انگیز ماحول ہوتا ہے۔ علی علی کے نعروں سے لاہوت لامکاں کی پہاڑی گونج اٹھتی ہے۔ اس جگہ سے ایک لوہے کی سیڑھی ہے جو غار کے منہ تک جاتی ہے۔[2][3][4][5]

لاہوت ترمیم

لاہوت کے لغوی معنی یہ ہیں: ”وہ جگہ جو فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ (اولیاء کرام) والے لوگوں کا آستانہ ہو“ اسے لاہوت کہتے ہیں۔

روحانی لاہوت (ایک صوفی اصطلاح) ترمیم

شیخ عبد الرحمنٰ چشتی کے بیان کے مطابق اس لاہوت کا روحانی لاہوت سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ چند صوفیائے کرام نے اس مقام پر آکر سخت چلہ کشی اور مجاہدے کیے، جس کے بعد مقامی افراد نے ان چلہ گاہوں کا نام لاہوت لامکاں رکھ دیا۔[6]

لاہوت کے راستے ترمیم

لاہوت لامکاں تک جانے کے لیے دو راستے اہم ہیں پہلا راستہ لی مارکیٹ، کراچی سے ہے۔ اور دوسرا راستہ سیہون شریف سے پیدل محبت فقیر تک ہے۔(یعنی سندھ سے بلوچستان تک پیدل سفر)۔[7]

پہلا راستہ ترمیم

لی مارکیٹ سے محبت فقیر تک:
شاہ نورانی کے مزار تک جانے کے لیے منگھو پیر والے راستے سے نکل کر سید صاحب ڈیم والی سڑک کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ حب چوکی کے راستے سے نکل کر حب ڈیم والی سڑک کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

اس راستہ سے دو یا تین کلومیٹر آگے چل کر تمام راستہ کچا اور دشوار گزارش ہے۔ اور تمام راستہ پہاڑوں کے درمیان میں سے طے کرنا پڑتا ہے۔ محبت فقیر پر پہنچ کر اگلا تمام راستہ پیدل کرنا پڑتا ہے یا مخصوص امریکی گاڑیاں جس کو مقامی افراد ”کیکڑا“ کہتے ہیں۔ کیکڑے پر کرایہ دے کر سفر کرنا پڑتا ہے۔ اور شاہ نورانی درگاہ پہنچنے کے بعد درگاہ شاہ نورانی سے پیدل سفر کیا جاتا ہے[8]

دوسرا راستہ ترمیم

سیہون سے محبت فقیر تک:
سیہون میں جب شہباز قلندر کے عرس کا اختتام ہوتا ہے تو زائرین قافلے کی شکل میں ”لال باغ“ میں آکر جمع ہوتے ہیں۔ اور ہر قافلہ وقفہ وقفہ سے لاہوت کے لیے روانگی اختیار کرتا ہے۔ سیہون سے چل کر پہلی منزل ”جھانگارا باجارا“ آتی ہے دوسری منزل ”صالح شاہ“، تیسری منزل ”باغ پنج تن پاک“، چوتھی منزل ”چھنگھن“۔ اس کے علاوہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کچھ دیر آرام کرنے کی منزلیں ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں؛

  1. سید آری پیر ۔
  2. علی کا کنواں: جہاں انسان کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن جب زائرین ”مولا علی“ کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو پانی تیزی سے اوپر آ جاتا ہے تمام زائرین حاجت کے مطابق پانی پی لیتے ہیں۔ بعد میں پھر پانی اپنی نچلی سطح پر واپس چلا جاتا ہے۔
  3. آہوت جبل
  4. بہلول دیوانے کا آستانہ: اس کے مطابق کہا جاتا ہے کے ایک شخص حضرت علیؓ کے شیدائی تھے وہ کچھ اشیاء بیچ کر پیسہ جمع کر کے لوگوں کو کہتے تھے علی کا نعرہ بلند کرو جب لوگ ایسا کرتے تو وہ اپنی کمائی ہوئی رقم ان لوگوں کو تقسیم کر دیتے تھے اس لیے ان کو بہلول دیوانہ کہا جاتا ہے۔
  5. مسجد لطیف
  6. بولالک
  7. لطیف جی کھوئی۔ اس کے بعد زائرین محبت فقیر پر حاضری دیتے ہیں۔ اور شاہ نورانی درگاہ پہنچ کر قافلہ کی شکل میں لاہوت کا سفر شروع کرتے ہیں[9]

نورانی سے لاہوت کا راستہ ترمیم

نورانی سے لاہوت لامکاں جانے کے لیے تمام پہاڑی سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ جن میں مندرجہ ذیل پہاڑیاں شامل ہیں۔[10]

  1. چار پائی پہاڑ
  2. کشتی نما پہاڑ
  3. پیالہ یا لوٹا نما پہاڑ
  4. دال پہاڑ
  5. مزید تین اور پہاڑیں ہیں جن کا کوئی نام نہیں۔ یہ سفر طے کرکے لاہوت کی منزل آجاتی ہے۔[11]

غارِ لاہوت کا اندرونی نظارا ترمیم

 
لاہوت لامکاں سے زائرین آتے ہوئے

غار کے منہ سے اندر کی جانب رسے کی مدد سے اترنا پڑتا ہے۔ غار میں اترتے وقت سب سے پہلا پاؤں ”پتھر کے دیو قامت شیر“ پر پڑتا ہے مقامی روایت کہ مطابق، یہ شیر حضرت علیؓ کی سواری ہوا کرتا جب آپؓ یہاں سے ہجرت کر گئے تو یہ پتھر کا بن گیا۔ (حضرت علی جب خلیفہ تھے تو وہ اپنے عہد میں سفر طے کرتے رہتے تھے جس کا ثبوت مختلف روایات سے ملتا ہے) پھر اس کے بعد غار کے اندر داخل ہونے پر کچھ دکھائی نہیں دیتا تو زائرین فرش پر جمع ہوئے پانی سے منہ کو دھوتے ہیں جس کے بعد ان کو سب کچھ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس غار نما ہال یا ہال نما غار کی چھت چودہ فٹ اونچی ہے۔ غار میں ہوا اور روشنی کے لیے ایک ہی سوراخ ہے جس سے زائرین داخل ہوتے ہیں اور باہر جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ مقامی راویات کے مطابق، حضرت علی کا تخت، پنجتن پاک کی چلہ گاہ۔ حضرت علی کی پتھر کی شکل میں اونٹنی بھی موجود ہے جس کو لعل شہباز قلندر نے 21 دن کے استخارہ کرنے کے بعد ثابت کیا کہ یہ حضرت علی کی اونٹنی ہے جو ادھر آئی اور پتھر کی بن گئی۔۔[12](دوسری روایات کے مطابق، حضرت علی کی ایک اونٹنی تھی جو اپ کی وفات کے بعد کہیں غائب ہو گئی تھی اس کا کسی کو علم نہیں کہ وہ اونٹنی کہاں گئی)۔

 
علی بن ابی طالب سے منسوب اونٹنی

اس کے علاوہ مقامی روایات کے مطابق خاتون جنت کی چکی اور بی بی فاطمہ سے منسوب صابن پتھر کی شکل میں موجود ہے جس صابن نما پتھر سے آج بھی خوشبو آتی ہے۔ اور حضرت علی کی اونٹنی کے اردگرد چھوٹے چھوٹے پیروں کے نشانات بھی موجود ہیں۔ یہاں کہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امام حسن و حسین کے پیر ہیں۔ جو اپنے والد ماجد کے ساتھ اونٹنی پر گھوما کرتے تھے۔ (حضرت علی سفر طے کرتے رہتے تھے جس کا ثبوت مختلف روایات سے ملتا ہے)۔ اس کے ساتھ ہی پنجتن پاک کی چلہ گاہ موجود ہے۔ آپ کی چلہ گاہ کے قریب ایک سرنگ بنی ہوئی جس میں ایک راستہ بنا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ راستے سات دن کے سفر کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں نکلتا ہے۔
اس کے متعلق صاحب تحفۃ الکرام کے مصنف نے صفحہ نمبر 781 پر کچھ یوں لکھا ہے؛

اس کمرے کے اندر ایک غار ہے جس میں راستہ بنا ہوا ہے اور اس کی کوئی انتہا یا حد نہیں۔ کہتے ہیں کہ اس راہ سے ڈھائی دن کے عرصے میں حجاز کی سرزمین پر پہنچا جا سکتا ہے کچھ لوگ سات دن کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں درویشوں نے اس راستے سے سیر کی۔
اس کمرے میں ایک طشت کا سا پتھر بھی رکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ قدیمی زمانے میں اہل اللہ میں سے چالیس فقرا کا ایک دانہ اس میں پس کر سب کے سب شکم سیر ہوئے تھے[13]


لاہوت کے متعلق لوگ ورثہ اسلام آباد سے۔ جناب عبد الغفور دوش صاحب کی فیلڈ رپورٹ ”لاہوت لامکاں کے عنوان“ شائع کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ؛

لاہوت دراصل ایک گلاس کی شکل کا نہایت تنگ اور گہرا گڑھا ہے۔ اس کے نیچے اترنا گویا ایک آتش فشانی دہانے میں اترنے کے مترادف ہے۔ دونوں ہاتوں کو پتھر پر لٹکا کر ایک سال کے بچے کی طرح گھسیٹ گھسیٹ کر اور پھسل پھسل کر نیچے اترنا پڑتا ہے۔ بعض جگہوں پر لوہے کی سیڑھیاں لگی ہوئی ہیں لیکن وہ بھی انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ان سیڑھیوں کے ڈنڈے ریل کی پٹری کے بنے ہوئے ہیں۔ زائرین کے لیے اپنے ہمراہ معمولی سامان لے کر نیچے اترنا مشکل ہے، میں اپنے ٹیپ ریکارڈ کی ڈوری کو دانتوں میں پکڑ کر نیچے اترا (مصنف)۔ جب میں اندر اترا تو ایک عجیب سی روحانیت کا منظر تھا۔ میں نے جیسے ہی منہ پانی سے دھویا مجھے لاہوت کی تمام چیزیں دکھائی دیں۔ ان پتھر کے مجسموں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے اوپر والی ذات نے ان ما فوق الفطرت اشیاء کو تھوڑی دیر کے لیے روکے رکھا ہے مگر وہ پتھر کے ہی تھے۔[14]


جناب عبد الغفور دوش صاحب نے فیلڈ رپورٹ سے مزید لکھا ہے کہ؛

 
آدم و اماں حوا کی مسجد
ملنگ کی گدی کے بالکل سامنے جس پتھر پر جھرنا گر رہا ہے وہ پتھر ایک بہت بڑے سانپ کی شکل کا ہے جس نے اپنے پھن کو اوپر کو اٹھایا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے ایک چھوٹا سا سانپ ہے جسے وہ اس بڑے سانپ کی مادہ بتاتے ہیں۔ مقامی ملنگوں کا کہنا ہے کہ 'اس جگہ امام حسین اور حسن کھیل رہے تھے ان سانپوں نے انہیں ڈسنے کی کوشش کی لہٰذا یہ پتھر کے ہو گئے'۔ پتھر کے سانپوں اور ملنگ بابا کی گدی کے درمیان میں عین ملنگ کے سامنے ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہے جس کے اوپر ”مسجد آدم اور حوا“ کی تختی لگی ہوئی ہے، کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آدم و حوا کو دنیا میں سب سے پہلے اتارا گیا۔ اس مسجد میں، میں نے اکثر زائرین کو نفل ادا کرتے دیکھا۔[15]

سجدہ گاہ لاہوت لامکاں کی غار کے طرف جانے والے راستے میں ہے۔ کہتے ہیں کہ لاہوت لامکاں کائنات میں پہلی جگہ ہے جو زمین پر رونما ہوئی۔ اس کا ثبوت یہاں سجدہ گاہ کی جگہ سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام جب زمین پر یہاں اتارے گئے تھے تو انھوں نے اللہ کی بارگاہ میں یہاں پہلا سجدہ کیا تھا۔ وہ جگہ سجدہ گاہ کہلاتی ہے۔ یہاں تعمیر کی گئی چھوٹی سی مسجد یا سجدہ گاہ آدم علیہ السلام سے منسوب ہے۔

لاہوت کے مقامی لوگ ترمیم

لاہوت، شاہ نورانی اور اس کے آس پاس مقامی آبادی براہوئیوں کی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر خانہ بدوش ہیں۔ بھیڑ، بکریاں چرانا اور اونٹوں پر باربرداری کرنا ان کا آبائی پیشہ ہے۔ یہ لوگ انتہائی محنت کش، طاقتور، بہادر اور ایماندار ہیں۔ انتہائی غریب ہیں۔ یہ لوگ چھوٹے موٹے کاروبار اور مزدوری کے علاوہ اور کسی چیز میں دلچسپی نہیں لیتے مقامی لوگوں کے اس رویہ کی وجہ سے انھیں بیرونِ بلوچستان سے آئے ہوئے لوگ ”مکے کے بدو“ کہتے ہیں۔ کئی مقامی لوگ دیہات سے لائے ہوئے بکری کے بچے، دودھ، خالص شہد، گھی اور کھجور کے پتوں کی بنی چٹائیاں، ببول کی گوند، پتھر کی گونڈیاں اور سپاریوں کی مدد سے تیار کردہ گلے کے ہار وغیرہ لاہوت لامکاں اور شاہ نورانی درگاہ پر فروخت کرتے ہیں۔[16]

لاہوت کے پہاڑوں میں پیداوار ترمیم

لاہوت کے پہاڑوں پر پکھراج اور زہر مہرہ کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ ان پہاڑوں میں آنکھ کی بیماری کے لیے ”سرمے“ میں کام آنے والی بوٹی جسے ”ممیری“ کہتے ہیں عام پائی جاتی ہے۔ بروہی لوگ اس نایاب بُوٹی کی چھوٹی چھوٹی گھچیاں لا کر زائرین کے ہاتھ نہایت ارزاں قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نایاب قسم کی جڑی بوٹیاں درگاہ شاہ نورانی اور لاہوت کے راستوں میں دستیاب ہیں اس کے علاوہ سلاجیت بھی کافی مقدار میں لاہوت کی پہاڑیوں میں پایا جاتاہے۔[17]

لاہوت لامکاں کے قِصّے ترمیم

قِصّہ اول :

ایک دفعہ کچھ زائرین شاہ نورانی سے لاہوت کے لیے راونہ ہوئے اور لاہوت کر کے شاہ نورانی واپس جانے کے لیے نکلنے لگے تو ان میں سے ایک شخص نے ضد کی کہ وہ ایک رات یہاں ضرور گزارے گا۔ (شام پانچ بجے کے بعد لاہوت میں انسانوں کے جانے پر پابندی عائد ہے کیونکہ پانچ بجے کے بعد جنات کا لاہوت کرنے کا وقت ہوتا ہے[18]) اور دوسرے روز صبح اٹھ کر شاہ نورانی واپس جائے گا اس کے دوستوں نے اسے بہت منع کیا مگر وہ نہ مانا۔ اگلے روز جب اس کے دوست وہاں اسے واپس لانے کے لیے گئے تو دیکھا رجب علی بہکی بہکی اور عجیب سی حرکات کر رہا ہے۔ اس کو صرف یہی کہتے سنا گیا ”وہ یہاں تھے کدھر گئے؟“۔ رجب علی کو زبردستی بیٹھا کر اس کے دوستوں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ رات کو جب 'رجب' کی آنکھ کھلی تو دیکھتا ہے کہ

ایک شخص اونٹ پر سوار ہے جو عربی لباس زیب تن کئے ہوئے ہے اور ایک دوسرا شخص بھی عربی لباس میں تھا۔ اونٹی کی رسی پکڑ کر آگے آگے جارہا ہے۔ یہ دیکھ کر رجب علی اٹھا اور ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر تو اونٹ کی رفتار بہت کم تھی لیکن فاصلہ ایک دوسرے کا کم نہیں ہو رہا تھا ۔جب کافی آگے نکل گیا تو ایک دہشت ناک آواز پہاڑیوں کے درمیان میں گونچتی ہوئی اس کو سنائی دی؛

”ہمارا پیچھا مت کرو!“
تب بھی رجب علی ان کا پیچھا کرتا رہا۔ آخر ایک جگہ ایسی آئی کہ دو پہاڑیوں کے درمیان میں اتنا بڑا فاصلہ آ گیا جسے اونٹ نے چھلانگ لگا کر پار کر لیا۔ اور رجب علی دیکھتا ہی رہ گیا اور چھلانگ نہ لگا پایا

۔ اپنے دوستوں کو یہ بات بتانے کے بعد رجب علی بے ہوش ہو گیا۔ اور دوبارہ ہوش میں آیا تو وہی بہکی حرکتے کرنے لگا اس کے بعد رجب علی اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا۔ مقامی لوگوں نے قصہ سنا تو فوراً کہنے لگے کے وہ اونٹنی علی کی تھی جو شام پانچ بجے کے بعد زندہ ہوتی ہے اور وہاں دو عربی افراد اور کوئی نہیں بلکہ علیؓ اور حسینؓ تھے۔ (واللہ اعلم بالصواب)[19]

قِصّہ دوم :

ایک مرتبہ کسی زائر نے یہ سوچا کہ لاہوت کرنے کے لیے ان دشوار راستوں سے گذرنا اور ان پہاڑوں کے ٹیڑے میڑھے اور تنگ راستوں سے گذرنا تو بہت ہی مشکل ہے تو پیدل چلنے سے بہتر ہے کہ کوئی سواری مثلاً اونٹ کرائے پر لے کر لاہوت کیا جائے۔ اونٹ کرائے پر لے کر وہ شخص لاہوت روانہ ہو گیا اور پہلا پہاڑ پار کر لیا۔ دوسرا پار کرنے ہی والا تھا کہ اس پہاڑ کے موڑ پر ایک درویش دیکھا۔ جس نے اس شخص کو آگے جانے سے روکا اور کہا کہ
”سواری چھوڑ دو اور پیدل جاؤ ایسے تمہارا لاہوت قبول نہیں ہوگا!“
لیکن اس شخص نے بہانہ کیا کہ میری ٹانگ میں تکلیف ہے۔ اس وجہ سے پیدل نہیں چل سکتا۔ درویش نے اسے کہا
”اگر تم نے اسی طرح جبل پار کرنے کی کوشش کی تو پھر ہونے والے نقصان کے زمہ دار تم خود ہوگے“
وہ پھر بھی نہ مانا اب جیسے ہی پہاڑ پار کرنے لگا تو اونٹ کے پیر میں کیل گھس گئی اور اونٹ کے ساتھ وہ اچانک سے زمین پر آگر اور ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ پھر اس شخص کی سمجھ میں آیا یہ درویش نہیں بلکہ کوئی اللہ جل جلالہ کی ولی شخصیت تھی۔[20]

قِصّہ سوم :

فقیر قطب علی شاہ ایک ولی بزرگ گذرے ہیں۔ ان کو بچپن ہی سے لاہوت کی پہاڑوں کا بڑا شوق تھا۔ فقیر قطب 17 برس کی عمر سے 40 کی عمر تک لاہوت جاتے رہے۔ چالیس چالیس دنوں تک وہاں وقت گزارتے تھے۔ ایک دن والد صاحب نے پوچھا کیوں بیٹا کیا بات ہے کہ اتنا عرصہ وہاں جاکر کیوں رہتے ہو۔ تو فقیر قطب نے جواب دیا۔ ابا جان جو بات ان جبال میں ہے وہ کہیں نہیں ہے سارا سچ یہاں ہے میرا دل اب کہیں نہیں لگتا ہے۔ لاہوت میں فقیر قطب کا کھانا قدرتی تھا کیوں کہ ان پہاڑوں میں ایک قسم کا پھل پیدا ہوتا ہے جسے ”منگھو“ پھل کہا جاتا ہے وہ کھا کر فقیر قطب وقت گزارتے تھے۔[21]


منگھو پھل پہاڑوں میں پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سخی سلطان کا نام منگھو پھل کی وجہ سے منگھو پیر پڑ گیا۔

علی بن ابی طالب کی بلوچستان آمد ترمیم

علی بن ابی طالب کی بلوچستان آمد سے متعلق جو باتیں روایت میں آچکی ہیں۔ ان کا تاریخی طور پر کوئی ثبوت نہیں ملتا سوائے اس کے کہ بلوچستان میں آپ کی آمد کے متعلق بلوچستان۔ ماضی۔ حال۔ مستقبل کے مصنف اس عنوان سے ”مسلمانوں کی ان علاقوں میں آمد“ میں لکھتے ہیں کہ؛

تقریباً چھٹی صدی عیسوی میں پہلی دفعہ مسلمانوں کا بلوچستان اور سندھ سے تعلق ہوا


مشہور تاریخ دان بلاذری کے بیان کے مطابق

حضرت عثمان نے عراق کے گورنر عبداللہ بن عامر کو ہدایت کی کہ بلوچستان اور سندھ کی طرف بحریہ کا ایک مشن روانہ کیا جائے تاکہ وہاں کے حالات سے واقفیت ہوسکے۔ چنانچہ حضرت عثمان کو خبر ملی کہ اس علاقے میں پانی بالکل ناپید ہے۔ پھل ہیں مگر کھانے کے قابل نہیں۔ چور و ڈاکو بلا روک ٹوک ظلم ڈھاتے ہیں۔ جیسے ظالم ڈاکو ہیں ایسا ہی ظالم علاقہ۔ تھوڑی فوج کے ذریعے مقابلے میں کامیابی ناممکن ہے۔ بڑا لشکر بغیر رسہ نہیں ٹھہر سکتا۔ حضرت عثمان کو تعجب ہوا اور انہوں نے اس علاقے پر حملے کا ارادہ ترک کر دیا۔
حضرت علی کے خلافت کے دور میں حارث بن مرو العبدی نے بلوچستان کی سرحد پر چڑھائی کی۔ بیش بہا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ پھر معاویہ کے دور میں بھی باقاعدہ اس علاقے پر لشکر کشی ہوئی (یہ بات محمد بن قاسم سے پہلے کی ہے)۔

اس سے یہ ثابت تو ہو گیا کہ حضرت علی کا زیادہ یا کم بلوچستان سے اور لاہوت لامکاں سے تعلق رہا ہے۔[22]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. تعارف و تذکرہ لاہوت لامکاں۔ صفح ہ6
  2. Tales from Lahoot valley - The Express Tribune
  3. Lahoot Lamakan : Aik Saher Angaze Maqam - لاہوت لامکاں: ایک سحر انگیز مقام
  4. http://daaira.com/travel/lahoot-lamakan-place-of-spiritual-mysteries/
  5. Bolo, bolo, jeay Shah - The Express Tribune
  6. تعارف و تذکرہ لاہوت لامکاں۔ صفحہ 8
  7. تعارف و تذکرہ لاہوت۔ صفحہ 9
  8. بلوچی قدیم مقامات۔ باب دوم۔ صفحہ۔٧
  9. بلوچی قدیم مقامات۔ باب دوم۔ صفحہ۔9
  10. تعارف و تذکرہ لاہوت لامکاں۔ صفحہ10
  11. تعارف و تذکرہ لاہوت لامکاں۔ صفحہ11-12
  12. بلوچستان کے قبائل(ضلع گزئٹرز سے انتخاب)۔ پروفیسر انور رومان
  13. تحفۃ الکرام صفحہ۔781
  14. ”لاہوت کے عنوان“، عبدالغفور دوش، فیلڈ رپورٹ۔ اسلام آباد
  15. ”لاہوت کے عنوان“، عبدالغفور دوش،فیلڈ رپورٹ۔ اسلام آباد
  16. تعارف و تذکرہ حضرت سید بلاول شاہ نورانی، صفحہ 45-47 مصنف، محمود نظامانی
  17. The country of Baluchistan by A.W.Hughes Lahore 1877
  18. تعارف و تذکرہ لاہوت لامکاں صفحہ۔200
  19. قَصَصْ لاہوت لامکاں۔ قصہ 3۔ صفحہ 22
  20. قَصَصْ لاہوت لامکاں۔ قصہ 19۔ صفحہ 69
  21. جہانیاں خاندان۔ سندھ صفحہ 23
  22. تذکرہ صوفیائے بلوچستان مصنف ڈاکٹر انعام الحق کوثر

بیرونی روابط ترمیم