ابراہیم پورداؤد رشتی (پیدائش: 9 فروری 1885ء– وفات: 17 نومبر 1968ء) ایران کے ممتاز ادیب، مصنف اور مترجم تھے۔بیسویں صدی کے ایران میں ابراہیم پورداؤد کو سنسکرت زبان، اوستائی زبان، جرمن زبان اور فرانسیسی زبان کا ماہر مترجم تسلیم کیا جاتا ہے۔ابراہیم کو ایران کے ممتاز ترین مصنفین و محققین کی فہرست میں سرفہرست شمار کیا جاتا ہے جنھوں نے اوستائی زبان کے ادب کو دوبارہ زندہ کر دیا۔

ابراہیم پورداؤد رشتی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 20 فروری 1886ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رشت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 نومبر 1968ء (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تہران   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ پیرس   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف ،  مترجم ،  مضمون نگار ،  پروفیسر ،  شاعر ،  اکیڈمک ،  مورخ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ تہران   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

پیدائش اور خاندان ترمیم

ابراہیم کی پیدائش 9 فروری 1885ء کو ایران کے شہر رشت میں ہوئی۔ ابراہیم کی والدہ ایک عالم کی بیٹی اور والدزمیندار اور تاجر تھے۔

تعلیم اور ادبی خدمات ترمیم

1905ء میں ابراہیم روایتی طب کی تعلیم کے لیے تہران آگئے مگر علم طب میں خاطرخواہ فائدہ نہ ہونے کے باعث چھوڑ دیا اور 1908ء میں 23 سال کی عمر میں بیروت چلے گئے تاکہ وہاں فرانسیسی ادب کی تحصیل کرسکیں۔ بیروت میں قیام اڑھائی سال سے زائد رہا۔ بیروت سے واپسایران آئے اور خاندان سے ملاقات کے بعد فرانس روانہ ہو گئے ۔ فرانس میں قیام کے دوران ’’ایران شہر‘‘ نامی مجلہ جاری کیا جس کی اشاعت اپریل 1914ء سے شروع ہوئی۔ ’’ایران شہر‘‘ نامی اِس مجلہ کا چوتھا اور آخری شمارہ جنگ عظیم اول کی ابتدا کے دِن (28 جولائی 1914ء) شائع ہوا اور پھر بند ہو گیا۔ جنگ عظیم اول کے دوران ابراہیم فرانس سے بغداد چلے آئے اور یہاں سے ’’رست خیز‘‘ نامی مجلہ جاری کیا جس کے 25 شمارے شائع ہوئے۔یہ مجلہ مارچ 1916ء تک شائع ہوتا رہا۔ 1916ء میں ابراہیم نے بغداد سے جرمنی چلے گئے جہاں وہ 1924ء تک مقیم رہے۔ جرمنی میں قیام کے دوران وہ زرتشتیت کی تاریخ کا بغور مطالعہ کرتے رہے اور زرتشتیت پر تحقیق کا سلسلہ شروع کیا۔

ابراہیم کو جرمن، فرانسیسی، سنسکرت، فارسی، عربی پر کامل عبور حاصل تھا۔ قدیم فارسی یعنی پہلوی اور اَوِستَا پر بہترین مہارت و عبور حاصل تھا۔ ترکی زبان بھی انھوں نے تحقیق کے لیے سیکھی تاکہ ترکی کتب کا ترجمہ کرسکیں۔ اِنہی خصوصیات کے باعث انھوں نے ایران کی قدیم زبانوں اور زرتشتیتکے قدیمی لٹریچر (ادب) پر اپنے تحقیقی مضامین شائع کیے۔ بمبئی میں قیام کے دوران سنسکرت سیکھی تاکہ قدیم ہندی ادب تک رسائی ممکن ہو سکے۔تہران یونیورسٹی میں سالہا سال تک تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔ ابراہیم ایک اچھے طبیب بھی تھے مگر وہ اپنی ہمہ جہت صلاحیتوں کے باعث ایرانی عوام میں مقبول رہے۔[2]

وفات ترمیم

ابراہیم پورداؤد کی وفات 83 سال کی عمر میں 17 نومبر 1968ء کو تہران میں ہوئی۔ انھیں رشت میں اُن کے خاندانی مقبرے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

ایران کی تحریکِ آزادی کے لیے کوششیں ترمیم

ابراہیم ہمہ جہت صفات کے علاوہ ایران میں آزادی کی تحریک کے لیے سرگرم عمل رہے۔’’رست خیز‘‘ نامی مجلہ اگرچہ مختصر مدت کے لیے جاری کیا مگر اُس میں ملتِ ایران کو بیدار کرنے میں اہم کام کیا گیا۔ ابراہیم نے ملی اہمیت کی متعدد نظمیں اور مقالات شائع کیے۔ وہ حقیقت میں ’’وطن پرست‘‘ تھے اور ایران کی قدیم و جدید اشیاء کے عاشق بھی ثابت ہوئے تھے۔ قاچار خاندان جو ترکمان ترک النسل تھے اور غیر ایرانی النسل خاندان کی حیثیت سے ایران کے تخت پر براجمان تھے، اِسی لیے ابراہیم غیر ایرانی النسل خاندان کی حکومت سے نفرت کرتے تھے۔ احمد شاہ قاچار کی تخت نشینی پر بھی ابراہیم نے نفرت آمیز اشعار کہے جس میں احمد شاہ قاچار کو ایران کی سرزمین سے ’’بیگانہ‘‘ کہا گیا۔1925ء میں قاچار خاندان کے اختتام پر ابراہیم نے مسرت انگیز اشعار کہے۔[3]

کتابیات ترمیم

  • ڈاکٹر محمد ریاض/ڈاکٹر صدیق شبلی: فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ، مطبوعہ سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور، 2011ء

حوالہ جات ترمیم

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb130154739 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ، صفحہ 133-134۔
  3. فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ، صفحہ 134۔