اسلامی عہد زریں سے مراد تاریخ (اور بطور خاص مغربی مصنفین کی کتب) میں اس عہد یا زمانے کی لی جاتی ہے جو آٹھویں صدی تا تیرہویں صدی عیسوی تک محیط ہے [1] جبکہ بعض مورخین و تاریخی ذرائع اسے پندرھویں [2] اور سولہویں [3] صدی تک قائم رکھتے ہیں۔ اسلامی دور عروج یا اسلام کے عہد زریں کو بعض اوقات (بطور خاص مغربی مصنفین کی اصطلاح میں) اسلامی نشاۃ ثانیہ یعنی Islamic renaissance کے نام سے جانا جاتا ہے ؛ اردو میں اس کے ليے ایک اور لفظ عصرِ نہضہ یا عصرالنھضہ بھی اختیار کیا جاتا ہے جو نشاۃ ثانیہ کی نسبت بہتر ہے کیونکہ نشاۃ ثانیہ کو النھضہ بھی کہا جاتا ہے جبکہ انگریزی میں اس کے ليے renaissance کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ النھضہ کا لفظ نھض سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی قیام کرنا (یعنی اٹھ کھڑا ہونا)، بیدار ہونا، ابھرنا وغیرہ کے ہوتے ہیں جو انگریزی کلمہ renaissance میں پائے جاتے ہیں۔ فی الحقیقت انگریزی میں یہ لفظ دو الفاظ سے بنا ہے re بمعنی دوبارہ اور nasci بمعنی پیداہونے کے۔ اردو میں استعمال کیا جانے والا لفظ نشاۃ ثانیہ بھی گویا عربی زبان سے ہی آیا ہے مگر اس کے ساتھ ثانی کا لفظ آنے کی وجہ سے بعض اوقات انگریزی زبان سے تراجم اور مغرب میں مروج اصطلاحات کے متبادل کی صورت میں مبالغہ آمیز ہو سکتا ہے ؛ مثال کے طور پر Islamic renaissance مغربی مصنفین کے کتب میں آنے والا ایک ایسا لفظ ہے جس کو نشاۃ ثانیہ بھی کہنا اور ساتھ ساتھ اسلام کا ابتدائی زمانہ بھی کہنا ہو سکتا ہے کہ مذہب اسلام کے بنیادی تصور پر تو درست ہو مگر ایک تاریخی زمانے کے تصور میں مبہم ہو جاتا ہے۔ بعد اس تمہید یا انتباہ کے رقم یہ ہے کہ چونکہ نشاۃ ثانیہ کا لفظ ہی اردو میں زیادہ مستعمل ہے لہذا اس مضمون میں Islamic renaissance کی اصطلاح کے متبادل نھضۃ السلام اور یا اسلامی عصرنہضہ کے ساتھ ساتھ اسلامی نشاۃ ثانیہ بھی کو بھی اسی مفہوم میں درج کیا گیا ہے۔

طلیطلہ میں ابراہیم بن سعید الساحلی (1067؟) کا بنایا ہوا ایک اسطرلاب جو اندلس کے ایک عجائب گھر میں موجود ہے۔

نظرِ طائرانہ

اسلامی ممالک پر کئی سو سال سے ناکارگی اور بیخبری میں رہنے کا الزام متعدد بار سامنے آتا رہا ہے [4] جس کی وجہ سے اسلامی نشاۃ ثانیہ پر کچھ تحریر کرنے سے قبل سب سے پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اس زمانے میں جس کو عروج اسلام کا دور کہا جاتا ہے ترقی کے خدوخال کیا تھے؟ یہ بات انسانی معاشرے کی نفسیات سے مربوط ہے اور تاریخ کے مطالعے سے عیاں ہے کہ جب کوئی قوم پسماندگی میں گرتی ہے تو نا صرف یہ کہ اس کا مستقبل بکھر جاتا ہے بلکہ اس کا ماضی بھی۔ اور یہی حال اسلامی دورعروج کے ساتھ پیش آیا [5] کہ ترقی اور سائنس میں اس کے دورعروج کے خدوخال بھی بکھر جانے کی وجہ سے عرصہ دراز تک اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ اسی عرصۂ دراز تک ایسے متعدد مورخین و مصنفین کہ جن کو ان بکھر جانے والے شواہد میں سے کچھ دستیاب ہوئے وہ پریقین انداز میں اسلامی دورعروج پر لکھتے بھی رہے ؛ جس کا اندازہ اس مضمون میں آنے والی مختلف کتب کے حوالہ جات سے ہوجاتا ہے۔

اسلام کا عہد زریں یا اسلام کا سنہری دور؛ اسلامی دنیا یا اسلامی حکومت میں نشو و نما پانے والے ایک ایسے زمانے کو بیان کرتا ہے کہ جب اس میں بسنے والے انسان بالفاظ انکا معاشرہ ؛ انسانی معیار زندگی کے اعتبار سے اس زمانے میں موجود دیگر معاشروں یا تہذیبوں کی نسبت بہتر مقام تک پہنچا اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مجموعی طور پر ترقی حاصل کی۔ یہی وہ بنیادی پیمانہ ہوتا ہے کہ جو کسی بھی معاشرے یا تہذیب کے دور کو سنہری دور کہلانے کا مستحق قرار دیتا ہے ؛ برعکس کہ کسی ایک (یا چند) شعبہ جات زندگی میں بہتر کارکردگی اور دیگر شعبہ جات میں پسماندگی کا مظاہرہ، اس معاشرے میں بسنے والے انسانوں کی کیفیت حیات quality of life میں بہتری نا ہونا اور معاشی حالت مستحکم نا ہونا چند ایسے اہم عوامل ہیں کہ جن کی موجودگی میں کسی بھی تہذیب یا معاشرے کے عہد کو سنہری یا زریں نہیں کہا جاتا۔ اسلامی عہد زریں سے مراد بھی ایک ایسے ہی زمانے کی ہے کہ جب اس معاشرے میں کیفیت حیات بہتر ہوئی اور اس میں بسنے والے مہندسین (engineers)، اطباء و حکماء، تاجر، علماء اور ماہرین حرب و حکومت اپنے اپنے متعلقہ شعبہ جات میں تحقیقات اور تخلیقات میں سرگرم رہے جس کی وجہ سے اس پورے معاشرے یا عہد کو مجموعی طور پر استحکام حاصل ہوا اور مزید ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں۔ اور بمطابق ایک تاریخ نویس Howard R. Turner کے۔.۔.۔.۔ "مسلم ہنرمندوں اور سائنسدانوں، شہزادوں اور مزدوروں نے یکجا ہو کر ایک ایسا منفرد تمدن تخلیق کیا جو ہر براعظم پر معاشروں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ متاثر کر چکا ہے " [6] (اصل عبارت : "Muslim artists and scientists, princes and laborers together created a unique culture that has directly and indirectly influenced societies on every continent." )۔۔.۔.۔.۔ مغرب میں عام طور پر دو اقسام کے افکار رکھنے والے گروہ نظر آتے ہیں ایک وہ جو اسلامی دنیا میں ہونے والی تحقیقات اور سائنسی و دیگر علوم میں ترقی سے یکسر پردہ پوشی کی تگ و دو میں رہتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جو یا تو اسلامی دور زریں میں ہونے والی تحقیقات و تخلیقات اور نئی ایجادات کا واضح اعتراف کرتے ہیں اور یا پھر کم از کم اتنا ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان سائنسدانوں، ریاضی دانوں اور علما نے دنیا میں اس وقت تک ہونے والی ترقی کی رکھوالی اور پرورش کی، خواہ وہ چین سے ہو یا یونان سے۔ Alison Abbott کے مطابق "مغربی مورخین سائنس اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ یورپی نشاۃ ثانیہ کے علم میں آنے اور وسعت پانے سے قبل عرب دنیا قرون وسطی میں قدیم یونانی سائنسی علوم کی نگہبان تھی۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس بارے میں تحقیق بہت کم کی گئی ہے کہ عربوں نے کس طرح ان سائنسی علوم کو ترقی دی اور کس طرح اس علم کو استعمال کیا [7]۔

اساس و استقرار

زمانۂ خلافۃ الاسلامیہ اور اس کی وسعت۔
  حضرت محمد (ص) ؛ 622-632
  خلافت راشدہ ؛ 632-661
  خلافت امویہ ؛ 661-750

اسلام کی تعلیمات اختیار کرنے کے بعد اعرابی یا صحرا نورد عرب منظم ہو کر ساتویں صدی اور آٹھویں کے اوائل تک ایک وسیع خلافۃ الاسلامیہ تشکیل دے چکے تھے اور حضرت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی فتوحات (632ء) سے اسراع پا کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ (661ء) تک قائم رہنے والی خلافت راشدہ نے چند دہایوں میں اتنی وسعت اختیار کرلی کہ اس کا شمار دنیا کی وسیع ترین حکومتوں میں کیا جانے لگا۔ [8]۔ متعدد مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کا سنہری دور دراصل اسی وقت سے شروع ہوا کہ جب محمد (ص) اور خلفائے راشدین کے دور حکومت میں عرب معاشرے کی پرانی اقدار و روایات تبدیل ہوئیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی ؛ جیسے معاشری سلامتی (social security)، خاندان کی ساخت اور باہم روابط کا تصور، غلامی، عورتوں کے حقوق، نسلی و لسانی اقلیتوں کا مقام اور ان کے حقوق جیسے تصورات میں اصلاح اور بہتری ہوئی جو گذشتہ کے تصورات سے یکسر مختلف تھی [9][10][11][12]۔ عباسیوں (750ء تا 1258ء) نے امویوں (660ء تا 750ء) کی خلافت کا خاتمہ کیا اور اسلامی حکومت کا دار الخلافہ، دمشق سے بغداد کی جانب آگیا؛ متعدد تاریخ نویس اسی مقام سے شروع ہونے والے دور کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ تسلیم کرتے ہیں اور یہی وہ زمانہ بھی ہے جس میں سولہویں صدیں تک یورپ کی سائنس پر چھائے رہنے والے مسلم سائنسدان جابر بن حیان (721ء تا 815ء) نے سائنس اور بطور خاص علم کیمیاء کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا [13]۔ اس زمانے میں بغداد کو ایک عالمی علمی مرکز کی حثیت حاصل ہوئی اور یہاں اس ادارۂ تفکر و تحقیق کا قیام (830ء تا 1258ء) عمل میں آیا جس کو بیت الحکمۃ (House of Wisdom) کے نام سے جانا جاتا ہے ؛ کوئی 500 سو سال سے زائد عرصہ تک مختلف سائنسی و دنیاوی علوم میں خدمات انجام دینے کے بعد یہ ادارہ منگولوں کے ایک سالار ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوط بغداد پر، خود اپنے انجام کو پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ہلاکت اور تباہی کے وقت دریا برد کی جانے والی کتابوں کی تعداد اس قدر تھی کہ ان کی روشنائی سے دریائے دجلہ کا پانی چھ ماہ تک سیاہ رنگت اختیار کیے رہا (انگریزی ویکیپیڈیا[14]) مستند تاریخی[حوالہ درکار]۔

اخلاقیات

حوالہ جات

  1. Matthew E. Falagas, Effie A. Zarkadoulia, George Samonis (2006)۔ "Arab science in the golden age (750–1258 C.E.) and today"، The FASEB Journal 20، p. 1581–1586.
  2. George Saliba (1994)، A History of Arabic Astronomy: Planetary Theories During the Golden Age of Islam، p. 245, 250, 256-257. New York University Press، ISBN 0-8147-8023-7.
  3. Ahmad Y Hassan، Factors Behind the Decline of Islamic Science After the Sixteenth Century
  4. Philip Ball Science in culture: The zenith of Islamic science Nature 440, 997. 20 اپریل 2006
  5. UNESCO. The different aspects of Islamic Culture Volume IV.
  6. Howard R. Turner, Science in Medieval Islam، University of Texas Press, 1 نومبر، 1997، ISBN 0-292-78149-0, pg. 270 (book cover, last page)
  7. Alison Abbott Islamic science: Rebuilding the past Nature 432, 997. 16 دسمبر 2006
  8. World Civilizations; Islam the caliphate آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ wsu.edu (Error: unknown archive URL) واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی
  9. Bernard Lewis (جنوری 21, 1998)۔ "Islamic Revolution"۔ The New York Review of Books 
  10. Watt (1974)، p.234
  11. Robinson (2004) p.21
  12. Nancy Gallagher, Encyclopedia of Women & Islamic Cultures, Infanticide and Abandonment of Female Children
  13. Interactive Timeline; Islamic era science Nature 2 نومبر 2006
  14. English Wikipedia; House of Wisdom