ابن کثیر
ابن کثیر عالم اسلام کے معروف محدث، مفسر، فقیہ اور مورخ گذرے ہیں۔ آپ کا مکمل نام اسماعیل بن عمر بن کثیر، لقب عماد الدین اور عرفیت ابن کثیر ہے۔ آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد شیخ ابو حفص شہاب الدین عمر اپنی بستی کے خطیب تھے اور بڑے بھائی شیخ عبد الوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہہ تھے۔
امام | |
---|---|
اَبو الفداء اِسماعيل بن عمر بن کثیر | |
(عربی میں: إسماعيل بن عُمر بن كثير بن ضَوْ بن درع القرشي الحَصْلي البُصروي الدمشقي الشافعي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1301ء [1][2] بصرى ، درعا |
وفات | 18 فروری 1373ء دمشق |
عملی زندگی | |
استاذ | ابن تیمیہ ، ذہبی ، ابن قیم ، یوسف بن عبد الرحمن المزی ، الدمیاطی |
پیشہ | محدث ، فقیہ ، مفسر قرآن ، مورخ |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [3] |
شعبۂ عمل | تاریخ ، علم حدیث ، تفسیر قرآن ، فقہ |
ملازمت | مدرسہ نور الدین |
کارہائے نمایاں | تفسیر ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ ، سیرت ابن کثیر |
درستی - ترمیم |
حافظ ابن کثیر کی ولادت 701ھ میں مجدل میں ہوئی جو بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے۔ کم سنی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بڑے بھائی نے اپنی آغوش تربیت میں لیا۔ انھیں کے ساتھ دمشق چلے گئے۔ یہیں ان کی نشو و نما ہوئی۔ ابتدا میں فقہ کی تعلیم اپنے بڑے بھائی سے پائی اور بعد کو شیخ برہان الدین اور شیخ کمال الدین سے اس فن کی تکمیل کی۔ اس کے علاوہ آپ نے ابن تیمیہ وغیرہ سے بھی استفادہ کیا۔ تمام عمر آپ کی درس و افتاء، تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے۔ اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی۔ 26 شعبان بروز جمعرات 774ھ میں وفات پائی۔
نام ونسب
ترمیماسماعیل کنیت : ابوالفداء لقب:عماد الدین اور ابن کثیر عرف ہے سلسلہ نسب یہ ہے : اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن ذرع القیسی البصروی ثم الدمشقی آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کے والد شیخ ابوحفص شہاب الدین عمر اپنی بستی خطیب تھے آپ کے بڑے بھائی شیخ عبد الوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہ تھے۔
ولادت و تعلیم و تربیت
ترمیمآپ کی ولادت 700ھ میں بمقام مجدل ہوئی جو ملک شام کے مشہور بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے، اس وقت آپ کے والد یہاں کے خطیب تھے، ابھی آ پ تیسرے یا چوتھے برس میں ہی تھے کہ والد بزرگوار نے 703ھ میں وفات پائی اور نہایت ہی کم سنی میں آپ یتیمی کا داغ اٹھانا پڑا، باپ کاسایہ سرسے اٹھا تو بڑے بھائی نے اپنی آغوش تربیت میں لے لیا۔ والد کی وفات کے تین سال بعد یعنی 706ھ میں آپ اپنے برادر بزرگوار کے ساتھ دمشق چلے آئے اور پھر یہیں آپ کی نشو و نما ہوئی، ابتدا میں اپنے بڑے بھائی سے فقہ کی تعلیم پائی بعد کو شیخ برھان الدین ابراہیم بن عبد الرحمن فرازی معروف بہ ابن فرکاح شارخ تنبیہ المتوفی 729ھ اور شیخ کمال الدین قاضی شہبہ سے اس فن کی تکمیل کی، اس زمانہ میں دستور تھا کہ طالب علم جس فن کو حاصل کرتا اس فن کی کوئی مختصر کتاب زبانی یاد کرلیتا۔ چنانچہ آپ نے بھی فقہ کی التنبیہ فی فروع الشافعیہ، مصنفہ شیخ ابواسحاق شیرازی المتوفی 476ھ کو حفظ کرکے 718ھ میں سنادیا اور اصول فقہ میں علامہ ابن حاجب مالکی المتوفی 746ھ کی مختصر کو زبانی یاد کیا۔ اصول کی کتابیں آپ نے علامہ شمس الدین محمود بن عبد الرحمن اصفہانی شارح مختصر ابن حاجب المتوفی 749ھ سے پڑھی تھیں۔
فن حدیث کی تکمیل آپ نے اس عہد کے مشہور اساتذہ فن سے کی تھی، علامہ سیوطی، ذیل تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں۔ سمع الحجازوالطبقۃ یعنی حجاز اور اس طبقہ کے علما سے آپ نے سماع حدیث کیا۔
اساتذہ
ترمیمحجاز کے ہم طبقہ وہ علما جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا اور جن کا ذکر خصوصیت سے آپ کے تذکرہ میں علما نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں
- (1)عیسی بن المعطعم ّ
- (2)بہاؤ الدین قاسم بن عساکر المتوفی 723ھ
- (3)عفیف الدین اسحاق بن یحیی الامدی المتوفی 725ھ
- (4)محمد بن زراد
- (5)بدرالدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی المتوفی 711ھ
- (6)ابن الرضی
- (7)حافظ مزی
- (8)شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ
- (9)حافظ ذہبی
- (10)عمادالدین محمد بن الشیرازی المتوفی749ھ۔
لیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفاد ہ کا موقع ملا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبد الرحمن مزی شافعی مصنف تہذیب الکمال المتوفی 742ھ ہیں۔ حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بنا پر اپنی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کر دیا تھا۔ اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کر دیا۔ سعادت مند شاگرد نے اپنے محترم استاذکی شفقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا، مدت مدید تک حاضر خدمت رہے اور ان کی اکثر تصانیف کاجس میں تہذیب الکمال بھی داخل ہے بھی داخل ہے، خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کرکی چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں وتخرج بالمزی ولازمہ وبرع۔ اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ المتوفی 728ھ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مصر سے آپ کو دیوسی، وانی اور ختنی وغیرہ نے حدیث کی اجازت دی تھی۔
منزلت علمی
ترمیمامام ابن کثیر کو علم حدیث کے علاوہ فقہ، تفسیر، تاریخ اور عربیت میں بھی کمال حاصل تھا، چنانچہ علامہ ابن العماد حنبلی، ابن حبیب سے ناقل ہیں۔ انتھت الیہ ریاستہ العلم فی التاریخ و الحدیث والتفسیر(ان پر تاریخ، حدیث اور تفسیر میں ریاست علمی ختم ہو گئی۔ درس وافتاء، ذکر الٰہی شگفتہ مزاجی :۔ حافظ ابن کثیر کی تمام عمر درس وافتاء اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ (جو اس زمانہ میں علم حدیث کے مشہور مدرسے تھے )میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے، بڑے ذاکر شاغل تھے، چنانچہ ابن حبیب نے آپ کے متعلق لکھا کہ امام ذی التسبیح والتھلیل طبیعت بڑی شگفتہ پائی تھی۔ لطیفہ گو اور بذلہ سنج تھے، حافظ ابن حجر نے آپ کے اوصاف میں حسن الفاکہۃ کے الفاظ استعمال کیے ہیں، یعنی بڑا پر لطف مزاح کیا کرتے تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق: اخیر میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ حافظ ابن کثیر کو اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق تھا، جس نے آ پ کی علمی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ بعض ان مسائل میں بھی امام ابن تیمیہ سے متاثر تھے جن میں وہ جمہور سلف سے متفرد ہیں، چنانچہ ابن قاضی شہبہ اپنے طبقات میں لکھتے ہیں کانت لہ خصوصیۃ بابن تیمیہ مناضلتہ عنہ واتباع لہ فی کثیر من ارایئہ وکان یفتی برایہ فی مسئلتہ الطلاق وامتحن بسبب ذالک واوذی۔ ان کو ابن تیمیہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور ان کی طرف سے لڑا کرتے تھے اور بہت سی آراء میں ان کی اتباع کرتے تھے چنانچہ طلاق کے مسئلہ میں بھی انہی کی رائے پر فتوی دیتے تھے جس کے نتیجے میں آزمائش میں پڑے اورستائے گئے۔
وفات
ترمیماخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی، جمعرات کے دن شعبان کی چھبیس تاریخ ٧٧٤ھ میں وفات پائی (رحمۃ اللہ ) اور مقبرہ صوفیہ میں اپنے محبوب استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے پہلو میں دفن کیے گئے، آپ کے کسی شاگرد نے آپ کی وفات پر بڑا درد انگیز مرثیہ لکھا ہے، جس کے دو شعر یہ ہیں لفقدک طلاب العلوم تاسفوا وجادوابدمع لایبیدغزیر ومزجواماء المدامع بالدما لکان قلیلا فیک یا ابن کثیر ترجمہ(شائقین علوم تمھارے اٹھ جانے پر متاسف ہیں، اس کثرت سے آنسو بہا رہے ہیں کہ تھمنے ہی کو نہیں آتے اور اگر وہ آنسوؤں کے ساتھ لہو بھی ملا دیتے تب بھی اے ابن کثیر تمھارے لیے تھوڑے تھے)
پسماندگان
ترمیمپسماندگان میں دو صاحبزادے بڑے نامور چھوڑے تھے، ایک زین الدین عبد الرحمن جن کی وفات 792ھ میں ہوئی اور دوسرے بدرالدین ابوالبقاء محمد۔ یہ بڑے پایہ کے محدث گذرے ہیں۔ انھوں نے 803ھ میں بمقام رملہ وفات پائی، ان دونوں کا ذکر حافظ بن فہد نے اپنے ذیل میں بسلسلہ وفیات کیا ہے۔
تصنیفات
ترمیمآپ نے تفسیر، حدیث، سیرت اور تاریخ میں بڑی بلند پایہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، یہ آپ کے اخلاص کا ثمرہ اور حسن نیت کی برکت تھی کہ بارگاہ ایزدی سے ان کو قبول عام اور شہرت دوام کی مسند عطا ہوئی، مورخین نے آپ کے تصانیف کی افادیت اوران کی قبولیت کا ذکر خاص طور سے کیا ہے، ذہبی لکھتے ہیں، ولہ تصانیف مفیدۃ ابن حجر کہتے ہیں ۔ سادت تصانیفہ فی البلادفی حیاتہ وانتفع الناس بھا بعد وفاتہ ان کی زندگی میں ان کی تصانیف شہر شہر جا پہنچیں اور ان کی وفات کے بعد لوگ ان سے نفع اندوز ہوتے رہے۔ آپ کی جن تصانیف پر ہمیں اطلاع ملی ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
- (1) تفسیر القرآن العظیم : جس کے متعلق حافظ سیوطی تصریح کرتے ہیں کہ اس طرز پر دوسری تفسیرنہیں لکھی گئی، یہ تفسیر بالروایہ میں سب سے زیادہ مفید ہے۔
- (2) البدایہ والنہایہ : یہ فن تاریخ میں ان کی بیش بہا تصانیف ہیں اور مصر سے طبع ہو کر شائع ہو چکی ہے اس میں ابتدائے کائنات سے لے کر احوال آخرت تک درج ہیں۔
- (3) التکمیل فی معرفتہ الثقات والضعفاء والمجاہیل
- (4) الہدی والسنن فی احادیث المسانید والسنن : یہی کتاب ہے جو جامع المسانید کے نام سے مشہور ہے۔
- (5) طبقات الشافعیہ : اس میں فقہا شافعیہ کا تذکرہ ہے ۔
- (6) مناقب الشافعی : یہ رسالہ امام شافعی کے حالات میں ہے ۔
- (7) تخریج احادیث ادلتہ التنبیہ۔
- (8) تخریج احادیث مختصر ابن حاجب، التنبیہ اور مختصر یہ دونوں کتابیں وہی ہیں جن کو مصنف نے عہد طالب علمی میں حفظ کیا تھا، ان دونوں کتابوں میں کتب حدیث سے تخریج بھی لکھی ہے۔
- (9)شرح صحیح بخاری ک:اس کی تصنیف بھی شروع کی تھی مگر ناتمام رہ گئی 'کشف الظنون میں ہے کہ صرف ابتدائی ٹکڑے کی شرح ہے۔ مصنف نے اس کا ذکر اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
- (10)الاحکام الکبیر:یہ کتاب بہت بڑے پیمانہ پر احادیث احکام میں لکھنی شروع کی تھی 'مگر کتاب الحج تک لکھ سکے تمام نہ کرسکے 'مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اس کتاب کا بھی ذکر کیا ہے۔
- (11)اختصار علوم الحدیث :نواب صدیق حسن خاں نے منہج الوصول فی اصطلاح احادیث الرسول میں اس کا نام الباعث الحثیث علی معرفتہ علوم الحدیث لکھا ہے 'یہ علامہ ابن صلاح المتوفی 643ھ کی مشہور کتاب علوم الحدیث معروف بہ مقدمہ ابن صلاح کا جو اصول حدیث میں ہے 'اختصار ہے 'مصنف نے اس میں جابجا مفید اضافے کیے ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں ولہ فیہ فوائد(اس کتاب میں حافظ ابن کثیر کے بہت سے افادات ہیں ۔)
- (12)مسند الشیخین :اس میں شیخین یعنی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے جو حدیثیں مروی ہیں ان کو جمع کیا گیا ہے۔ مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اپنی ایک تصنیف مسند عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ معلوم نہ ہوسکاکہ آیا وہ مستقل علاحدہ کتاب ہے یا اسی کا حصہ ثانی ہے۔
- (13)السیرۃ النبویہ صلی اللہ علیہ وسلم :یہ سیرت پر بڑی طویل کتاب ہے۔
- (14)الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول:یہ سیرت پر ایک مختصر کتاب ہے۔ مصنف نے اس کا ذکر اپنی تفسیر میں سورہ احزاب کے اندر غزوہ خندق کے بیان میں کیا ہے۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں کتب خانہ شیخ الاسلام میں موجود ہے۔
- (15)کتاب المقدمات :اس کا ذکر مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
- (16)مختصر کتاب المدخل للبیہقی :اس کا ذکر بھی اختصار الحدیث کے مقدمہ میں کیا ہے۔
- (17)الاجتہاد فی طلب الجہاد :جب فرنگیوں نے قلعہ ایاس کا محاصرہ کیااس وقت آپ نے یہ رسالہ امیر منجک کے لیے لکھا'یہ رسالہ مصر سے چھپ کر شائع ہو چکا ہے۔
- (18)رسالتہ فی فضائل القرآن :یہ رسالہ بھی تفسیر ابن کثیر کیساتھ مطبع المنار مصر میں طبع ہو چکا ہے۔
- (19)مسند امام احمد بن حنبل کو بھی حروف پر مرتب کیا تھا اور ا سکے ساتھ طبرانی کی معجم اور ابو یعلی کی مسندسے زوائد بھی درج کیے تھے۔ امام ابن کثیر کی تمام تصانیف میں یہ خوبی عیاں ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں نہایت تحقیق کیساتھ لکھتے ہیں اور مفصل لکھتے ہیں 'عبارت سہل اور پیرایہ بیان دلکش ہوتا ہے۔
- (20)الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ عنوان : Encyclopaedia of Islam
- ↑ عنوان : Ибн Касир
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13748427p — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ