سورہ المنافقون
قرآن مجید کی 63 ویں سورت جس کے دو رکوع میں 11 آیات ہیں۔
دور نزول | مدنی |
---|---|
زمانۂ نزول | 6ھ |
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 63 |
عددِ پارہ | 28 |
تعداد آیات | 11 |
نام
پہلی آیت کے فقرہ اذا جآءک المنٰفقون سے ماخوذ ہے۔ یہ اس سورت کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں منافقین ہی کے طرز عمل پر تبصرہ کیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
یہ سورت غزوۂ بنی المصطلق سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی واپسی پر یا تو دوران سفر نازل ہوئی یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد فوراً ہی اس کا نزول ہوا۔ سورۂ نور کے مضمون میں بتحقیق یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ غزوۂ بنی المصطلق شعبان 6ھ میں واقع ہوا تھا۔ اس طرح اس کی تاریخ نزول ٹھیک ٹھیک متعین ہو جاتی ہے۔
تاریخی پس منظر
جس خاص واقعہ کے بارے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس کا ذکر کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مدینے کے منافقین کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے، کیونکہ جو واقعہ اس موقع پر پیش آیا تھا وہ محض ایک اتفاقی حادثہ نہ تھا، بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا سلسلۂ واقعات تھا جو بالآخر اس نوبت تک پہنچا۔
مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اوس اور خزرج کے قبیلے آپس کی خانہ جنگیوں سے تھک کر ایک شخص کی قیادت و سیادت پر قریب قریب متفق ہو چکے تھے اور اس بات کی تیاریاں کر رہے تھے کہ اس کو اپنا بادشاہ بنا کر باقاعدہ اس کی تاجپوشی کی رسم ادا کر دیں حتٰی کہ اس کے لیے تاج بھی بنا لیا گیا تھا۔ یہ قبیلۂ خزرج کا رئیس عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ قبیلۂ خزرج میں اس کی بزرگی بالکل متفق علیہ تھی اور اوس و خزرج اس سے پہلے کبھی ایک شخص کی قیادت پر جمع نہیں ہوئے تھے۔[1]
اس صورت حال میں اسلام کا چرچا مدینے پہنچا اور ان دونوں قبیلوں کے با اثر آدمی مسلمان ہونے شروع ہو گئے۔ ہجرت سے پہلے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مدینۂ طیبہ تشریف لانے کی دعوت دی جا رہی تھی اس وقت حضرت عباس بن عبادہ بن نضلہ انصاری رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اس دعوت کو صرف اس مصلحت سے مؤخر کرنا چاہتے تھے کہ عبد اللہ بن ابی بھی بیعت اور دعوت میں شریک ہو جائے، تاکہ مدینہ بالاتفاق اسلام کا مرکز بن سکے۔ لیکن جو وفد بیعت کے لیے حاضر ہوا تھا اس نے اس مصلحت کو کوئی اہمیت نہ دی اور اس کے تمام شرکاء جن میں دونوں قبیلوں کے 75 آدمی شامل تھے، ہر خطرہ مول لے کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دعوت دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ ۔[2] (تفصیلات کے لیے دیکھیے : سورۂ انفال)
اس کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینے پہنچے تو انصار کے ہر گھرانے میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ عبد اللہ ابی بے بس ہو گیا اور اس کو اپنی سرداری بچانے کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی کہ خود بھی مسلمان ہو جائے۔ چنانچہ وہ اپنے ان بہت سے حامیوں کے ساتھ، جن میں دونوں قبیلوں کے شیوخ اور سردار شامل تھے، داخلِ اسلام ہو گیا، حالانکہ دل ان سب کے جل رہے تھے اور خاص طور پر ابن ابی کو اس بات کا سخت غم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی بادشاہی چھین لی ہے۔ کئی سال تک اس کا یہ منافقانہ ایمان اور اپنی ریاست چھن جانے کا یہ غم طرح طرح کے رنگ دکھاتا رہا۔ ایک طرف حال یہ تھا کہ ہر جمعہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے بیٹھتے تو عبد اللہ بن ابی اٹھ کر کہتا کہ
” | حضرات، یہ اللہ کے رسول آپ کے درمیان موجود ہیں جن کی ذات سے اللہ نے آپ کو عزت اور شرف بخشا ہے، لہٰذا آپ ان کی تائید کریں اور جو کچھ یہ فرماتے ہیں اسے غور سے سنیں اور ان کی اطاعت کریں | “ |
[3]۔ دوسری طرف کیفیت یہ تھی کہ روز بروز اس کی منافقت کا پردہ چاک ہوتا چلا جا رہا تھا اور مخلص مسلمانوں پر یہ بات کھلتی چلی جاتی تھی کہ وہ اور اس کے ساتھی اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور گروہ اہل ایمان سے سخت بغض رکھتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی راستے سے گذر رہے تھے کہ ابن ابی نے آپ کے ساتھ بد تمیزی کی۔ آپ نے حضرت سعد بن عبادہ سے اس کی شکایت فرمائی تو انھوں نے عرض کیا:
” | یا رسول اللہ، اس شخص کے ساتھ نرمی برتیے آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہم اس کے لیے تاجِ شاہی تیار کر رہے تھے، اب یہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس سے بادشاہی چھین لی ہے | “ |
۔[4]
جنگ بدر کے بعد جب یہود بنی قینقاع کی صریح بد عہدی اور بلا اشتعال سرکشی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر چڑھائی کی تو یہ شخص ان کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زرہ پکڑ کر کہنے لگا کہ
” | یہ سات سو مردانِ جنگی، جو ہر دشمن کے مقابلے میں میرا ساتھ دیتے رہے ہیں، آج ایک دن میں آپ انہیں ختم کر ڈالنا چاہتے ہیں؟ خدا کی قسم، میں آپ کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا جب تک آپ میرے ان حلیفوں کو معاف نہ کر دیں گے | “ |
جنگ احد کے موقع پر اس شخص نے صریح غداری کی اور عین وقت پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر میدان جنگ سے الٹا واپس آ گیا۔ جس نازک گھڑی میں اس نے یہ حرکت کی تھی اس کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ قریش کے لوگ تین ہزار کا لشکر لے کر مدینے پر چڑھ آئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے مقابلے میں صرف ہزار آدمی ساتھ لے کر مدافعت کے لیے نکلے تھے۔ ان ایک ہزار میں سے بھی منافقین تین سو آدمی توڑ لایا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صرف سات سو کی جمعیت کے ساتھ تین ہزار دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔
اس واقعے کے بعد مدینے کے عام مسلمانوں کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو گیا کہ یہ شخص قطعی منافق ہے اور اس کے وہ ساتھی بھی پہچان لیے گئے جو منافقت میں اس کے شریک کار تھے۔ اسی بنا پر جنگ احد کے بعد جب پہلا جمعہ آیا اور یہ شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبے سے پہلے حسب معمول تقریر کرنے کے لیے اٹھا تو لوگوں نے اس کا دامن کھینچ کر کہا "بیٹھ جاؤ، تم یہ باتیں کرنے کے اہل نہیں ہو۔ " مدینے میں یہ پہلا موقع تھا کہ علانیہ اس شخص کی تذلیل کی گئی۔ اس پر برہم ہو کر وہ لوگوں کی گردنوں پر سے کودتا پھاندتا مسجد سے نکل گیا۔ مسجد کے دروازے پر بعض انصاریوں نے اس سے کہا "یہ کیا حرکت کر رہے ہو، واپس چلو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے استغفار کی درخواست کرو"۔ اس نے بگڑ کر جواب دیا "میں ان سے استغفار نہیں کرانا چاہتا"۔[3]
پھر 4ھ میں غزوۂ بنی النضیر پیش آیا اور اس موقع پر اس شخص نے اور اس کے ساتھیوں نے اور بھی زیادہ کھل کر اسلام کے خلاف اعدائے اسلام کی حمایت کی۔ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ ان یہودی دشمنوں سے جنگ کی تیاری کر رہے تھے اور دوسری طرف یہ منافقین اندر ہی اندر یہودیوں کو پیغام بھیج رہے تھے کہ ڈٹے رہو، ہم تمھارے ساتھ ہیں، تم سے جنگ کی جائے گی تو ہم تمھاری مدد کریں گے اور تم کو نکالا جائے گا تو ہم تمھارے ساتھ نکلیں گے۔ اس خفیہ ساز باز کا راز اللہ تعالٰی نے خود کھول دیا۔ (ملاحظہ کیجیے : سورۂ حشر)
لیکن اس کی اور اس کے ساتھیوں کی اتنی پردہ دری ہو جانے کے باوجود جس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے ساتھ درگزر کا معاملہ فرما رہے تھے وہ یہ تھی کہ منافقین کا ایک بڑا جتھا اس کے ساتھ تھا۔ اوس اور خزرج دونوں قبیلوں کے بہت سے سردار اس کے حامی تھے۔ مدینے کی آبادی میں کم از کم ایک تہائی تعداد اس کے ساتھیوں کی موجود تھی، جیسا کہ غزوۂ احد کے موقع پر ظاہر ہو چکا تھا۔ ایسی حالت میں یہ کسی طرح مناسب نہ تھا کہ باہر کے دشمنوں سے لڑائی کے ساتھ ساتھ اندر کے اِن دشمنوں سے بھی جنگ مول لے لی جاتی۔ اسی بنا پر ان کی منافقت کا حال جانتے ہوئے بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک مدت تک ان کے ساتھ ان کے ظاہری دعوائے ایمان کے لحاظ سے معاملہ فرماتے رہے۔ دوسری طرف یہ لوگ بھی نہ اتنی طاقت رکھتے تھے، نہ ہمت کہ علانیہ کافر بن کر اہل ایمان سے لڑ لیتے یا کسی حملہ آور دشمن کے ساتھ کھلم کھلا مل کر میدان میں آ جاتے۔ بظاہر وہ اپنا ایک مضبوط جتھا بنائے ہوئے تھے مگر ان کے اندر وہ کمزوریاں موجود تھیں جن کا نقشہ اللہ تعالٰی نے سورۂ حشر کی آیات 12 – 14 میں صاف صاف کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اس لیے وہ مسلمان بنے رہنے میں ہی اپنی خیر سمجھتے تھے۔ مسجدوں میں آتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے، زکٰوۃ بھی دے ڈالتے تھے، زبان سے ایمان کے وہ لمبے چوڑے دعوے کرتے تھے جن کے کرنے کی مخلص مسلمانوں کو کبھی ضرورت پیش نہ آتی تھی۔ ان کے پاس اپنی ہر منافقانہ حرکت کے لیے ہزار جھوٹی توجیہیں موجود تھیں جن سے وہ خاص طور پر اپنے ہم قبیلہ انصار کو یہ دھوکا دینے کی کوشش کرتے رہتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ان تدبیروں سے وہ اپنے آپ کو ان نقصانات سے بھی بچا رہے تھے جو انصار کی برادری سے الگ ہو جانے کی صورت میں ان کو پہنچ سکتے تھے اور فتنہ پردازی کے ان مواقع سے بھی فائدہ اٹھا رہے تھے جو اس برادری میں شامل رہ کر انھیں مل سکتے تھے۔
یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی منافقین کو غزوۂ بنی المصطلق کی مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جانے کا موقع مل گیا اور انھوں نے بیک وقت دو ایسے عظیم فتنے اٹھا دیے جو مسلمانوں کی جمعیت کو بالکل پارہ پارہ کر سکتے تھے۔ مگر قرآن پاک کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت سے اہل ایمان کو جو بہترین تربیت ملی تھی اس کی بدولت ان دونوں فتنوں کا بروقت قلع قمع ہو گیا اور یہ منافقین الٹے خود ہی رسوا ہو کر رہ گئے۔ ان میں سے ایک فتنہ کا ذکر سورۂ نور میں کیا گیا ہے جبکہ دوسرے فتنے کا ذکر اِس سورت میں ہے۔
اس واقعہ کو بخاری، مسلم، احمد، نسائی، ترمذی، بیہقی، طبرانی، ابن مردویہ، عبد الرزاق، ابن جریر طبری، ابن سعد اور محمد بن اسحاق نے بکثرت سندوں سے نقل کیا ہے۔ بعض روایات میں اس مہم کا نام نہیں لیا گیا جس میں یہ پیش آیا تھا اور بعض میں اسے غزوۂ تبوک کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ مگر مغازی اور سیر کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ غزوۂ بنی المصطلق کے موقع پر پیش آیا تھا۔ صورت واقعہ تمام روایات کم جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتی ہے :
بنی المصطلق کو شکست دینے کے بعد ابھی لشکر اسلام اس بستی میں ٹھیرا ہوا تھا جو مریسیع نامی کنویں پر آباد تھی کہ یکایک پانی پر دو صاحبوں کا جھگڑا ہو گیا۔ ان میں سے ایک کا نام جہجاہ بن مسعود غفاری تھا جو حضرت عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ملازم تھے اور ان کا گھوڑا سنبھالنے کی خدمت انجام دیتے تھے اور دوسرے صاحب سنان بن دبر الجہنی (حوالہ دونوں اصحاب کے نام مختلف روایات میں مختلف بیان کیے گئے ہیں ہم نے یہ نام ابن ہشام کی روایت سے لیے ہیں) تھے جن کا قبیلہ خزرج کے ایک قبیلے کا حلیف تھا۔ زبانی ترش کلامی سے گذر کر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی اور جہجاہ نے سنان کے ایک لات رسید کر دی جسے اپنی قدیم یمنی روایات کی بنا پر انصار سخت توہین و تذلیل سمجھتے تھے۔ اس پر سنان نے انصار کو مدد کے لیے پکارا اور جہجاہ نے مہاجرین کو آواز دی۔ اب ابی نے اس جھگڑے کی خبر سنتے ہی اوس اور خزرج کے لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا اور چیخنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور اپنے حلیف کی مدد کرو۔ ادھر سے کچھ مہاجرین بھی نکل آئے۔ قریب تھا کہ بات بڑھ جاتی اور اسی جگہ انصار و مہاجرین آپس میں لڑ پڑتے جہاں ابھی ابھی وہ مل کر ایک دشمن سے لڑے تھے اور اسے شکست دے کر ابھی اسی علاقے میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ لیکن یہ شور سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نکل آئے اور آپ نے فرمایا
” | یہ جاہلیت کی پکار کیسی؟ تم لوگ کہاں اور یہ جاہلیت کی پکار کہاں؟ اسے چھوڑ دو، یہ بڑی گندی چیز ہے | “ |
۔ اس پر دونوں طرف کے صالح لوگوں نے آگے بڑھ کر معاملہ رفع دفع کرا دیا اور سنان نے جہجاہ کو معاف کر کے صلح کر لی۔
اس کے بعد ہر وہ شخص جس کے دل میں نفاق تھا عبد اللہ بن ابی کے پاس پہنچا اور ان لوگوں نے جمع ہو کر اس سے کہا کہ اب تک تو تم سے امیدیں وابستہ تھیں اور تم مدافعت کر رہے تھے، مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمارے مقابلے میں ان کنگلوں کے مددگار بن گئے ہو۔ ابن ابی پہلے ہی کھول رہا تھا۔ ان باتوں سے وہ اور بھی زیادہ بھڑک اٹھا کہنے لگا
” | یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے ملک میں جگہ دی، ان پر اپنے مال تقسیم کیے، یہاں تک کہ اب یہ پھل پھول کر خود ہمارے ہی حریف بن گئے۔ ہماری اور ان قریش کے کنگلوں (یا اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حالت پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کر تاکہ تجھی کو پھاڑ کھائے۔ تم لوگ ان سے ہاتھ روک لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں۔ خدا کی قسم، مدینے واپس پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال دے گا۔ | “ |
مجلس میں اتفاق سے حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے جو اس وقت ایک کم عمر لڑکے تھے۔ انھوں نے یہ باتیں سن کر اپنے چچا سے ان کا ذکر کیا اور ان کے چچا نے جو انصار کے رئیسوں میں سے تھے، جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زید کو بلا کر دریافت کیا تو انھوں نے جو کچھ سنا تھا من و عن دہرا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا شاید تم ابن ابی سے ناراض ہو۔ ممکن ہے کہ تم سے سننے میں کچھ غلطی ہو گئی ہو۔ ممکن ہے کہ تمھیں شبہ ہو گیا ہو کہ ابن ابی یہ کہہ رہا ہے۔ مگر زید نے عرض کیا نہیں حضور، خدا کی قسم میں نے اس کو یہ باتیں کہتے سنا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابن ابی کو بلا کر پوچھا تو وہ صاف مکر گیا اور قسمیں کھانے لگا کہ میں نے یہ باتیں ہر گز نہیں کہیں۔ انصار کے لوگوں نے بھی کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لڑکے کی بات ہے، شاید اسے وہم ہو گیا ہو، یہ ہمارا شیخ اور بزرگ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک لڑکے کی بات کا اعتبار نہ فرمائیے۔ قبیلے کے بڑے بوڑھوں نے زید کو بھی ملامت کی اور وہ بیچارے رنجیدہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ رہے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زید کو بھی جانتے تھے اور عبد اللہ بن ابی کو بھی، اس لیے آپ سمجھ گئے کہ اصل بات کیا ہے۔
حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے آ کر عرض کیا
” | مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ یا اگر مجھے اجازت دینا مناسب خیال نہیں فرماتے تو خود انصار ہی میں سے معاذ بن جبل، یا عباد بن بشر، یا سعد بن معاذ، یا محمد بن مسلمہ کو حکم دیجیے کہ وہ اسے قتل کر دیں | “ |
اس حوالے سے مختلف روایات میں مختلف انصاری بزرگوں کے نام آئے ہیں جن کے متعلق حضرت عمر نے عرض کیا تھا کہ آپ ان میں سے کسی شخص سے یہ خدمت لے لیں اگر مجھ سے اس لیے یہ کام لینا مناسب خیال نہیں فرماتے کہ میں مہاجر ہوں، میرے ہاتھوں اس کے مارے جانے سے فتنے بھڑک اٹھنے کا امکان ہے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا
” | ایسا نہ کرو، لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں ہی کو قتل کر رہا ہے | “ |
اس کے بعد آپ نے فوراً ہی کوچ کا حکم دے دیا، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معمول کے لحاظ سے وہ کوچ کا وقت نہ تھا۔ مسلسل 30 گھنٹے چلتے رہے یہاں تک کہ لوگ تھک کر چور ہو گئے۔ پھر آپ نے ایک جگہ پڑاؤ کیا اور تھکے ہوئے لوگ زمین پر کمر ٹکاتے ہی سو گئے۔ یہ آپ نے اس لیے کیا کہ جو کچھ مریسیع کے کنویں پر پیش آیا تھا اس کے اثرات لوگوں کے ذہن سے محو ہو جائیں۔ راستے میں انصار کے ایک سردار حضرت اسید بن حضیر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ آپ سے ملے اور عرض کیا “یا رسول اللہ، آج آپ نے ایسے وقت کوچ کا حکم دیا جو سفر کے لیے موزوں نہ تھا اور آپ کبھی ایسے وقت میں سفر کا آغاز نہیں فرمایا کرتے تھے؟“ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا "تم نے سنا نہیں کہ تمھارے ان صاحب نے کیا گوہر افشانی کی ہے؟" انھوں نے پوچھا "کون صاحب؟" فرمایا "عبد اللہ بن ابی" انھوں نے پوچھا "اس نے کیا کہا؟" فرمایا "اس نے کہا ہے کہ مدینہ پہنچ کر عزت والا ذلیل کو نکال باہر کرے گا" انھوں نے عرض کیا "یا رسول اللہ، خدا کی قسم عزت والے تو آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے، آپ جب چاہیں اسے نکال سکتے ہیں "۔
رفتہ رفتہ یہ بات تمام انصار میں پھیل گئی اور ان میں ابن ابی کے خلاف سخت غصہ پیدا ہو گیا۔ لوگوں نے ابن ابی سے کہا جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معافی مانگو۔ مگر اس نے تڑخ کر جواب دیا "تم نے کہا ان پر ایمان لاؤ، میں ایمان لے آیا، تم نے کہا اپنے مال کی زکٰوۃ دو، میں نے زکٰوۃ بھی دے دی، اب بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ میں محمد کو سجدہ کروں۔ " ان باتوں سے اس کے خلاف مومنینِ انصار کی ناراضی اور زیادہ بڑھ گئی اور ہر طرف سے اس پر پھٹکار پڑنے لگی۔ جب یہ قافلہ مدینہ طیبہ میں داخل ہونے لگا تو عبد اللہ بن ابی کے صاحبزادے، جن کا نام بھی عبد اللہ ہی تھا، تلوار سونت کر باپ کے آگے کھڑے ہو گئے اور بولے "آپ نے کہا تھا مدینہ واپس پہنچ کر عزت والا ذلیل کو نکال دے گا، اب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ عزت آپ کی ہے یا اللہ اور اس کے رسول کی۔ خدا کی قسم، آپ مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کو اجازت نہ دیں "۔ اس پر ابن ابی چیخ اٹھا "خزرج کے لوگو! ذرا دیکھو، میرا بیٹا ہی مجھے مدینے میں داخل ہونے سے روک رہا ہے "۔ لوگوں نے یہ خبر حضور تک پہنچائی اور آپ نے فرمایا "عبد اللہ سے کہو، اپنے باپ کو گھر آنے دو۔ " عبد اللہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے کہا "ان کا حکم ہے تو اب آپ داخل ہو سکتے ہیں " اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے فرمایا "کیوں عمر، اب تمھارا کیا خیال ہے؟ جس وقت تم نے کہا تھا مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت دیجیے اس وقت اگر تم اسے قتل کر دیتے تو بہت سی ناکیں اس پر پھڑکنے لگتیں۔ آج اگر میں اس کے قتل کا حکم دوں تو اسے قتل کیا جا سکتا ہے۔ " حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عرض کیا "خدا کی قسم، اب مجھے معلوم ہو گيا کہ اللہ کے رسول کی بات میری بات سے زیادہ مبنی بر حکمت تھی۔ "
اس سے دو اہم شرعی مسئلوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ جو طرزِ عمل ابن ابی نے اختیار کیا تھا، اگر کوئی شخص مسلم ملت میں رہتے ہوئے اس طرح کا رویہ اختیار کرے تو وہ قتل کا مستحق ہے۔ دوسرے یہ کہ محض قانوناً کسی شخص کے مستحقِ قتل ہو جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرور اسے قتل ہی کر دیا جائے۔ ایسے کسی فیصلے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اس کا قتل کسی عظیم تر فتنے کا موجب تو نہ بن جائے گا۔ حالات سے آنکھیں بند کر کے قانون کا اندھا دھند استعمال بعض اوقات اس مقصد کے خلاف بالکل الٹا نتیجہ پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے قانون استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک منافق اور مفسد آدمی کے پیچھے کوئی قابل لحاظ سیاسی طاقت موجود ہو تو اسے سزا دے کر مزید فتنوں کو سر اٹھانے کا موقع دینے سے بہتر یہ ہے کہ حکمت اور تدبر کے ساتھ اس اصل سیاسی طاقت کا استیصال کر دیا جائے جس کے بل پر وہ شرارت کر رہا ہو۔ یہی مصلحت تھی جس کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کو اس وقت بھی سزا نہ دی جب آپ اسے سزا دینے پر قادر تھے، بلکہ اس کے ساتھ برابر نرمی کا سلوک کرتے رہے، یہاں تک کہ دو تین سال کے اندر مدینہ میں منافقین کا زور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔