سورہ الحشر

قرآن مجید کی 59 ویں سورت
(الحشر سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 59 ویں سورت جس کے 3 رکوع میں 24 آیات ہیں۔

الحشر
دور نزولمدنی
اعداد و شمار
عددِ سورت59
عددِ پارہ28
تعداد آیات24
الفاظ447
حروف1,913
گذشتہالمجادلہ
آئندہالممتحنہ

نام

دوسری آیت کے فقرے اخرج الذین کفرو من اھل الکتٰب من دیارھم لاول الحشر سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ الحشر آیا ہے۔

زمانۂ نزول

بخاری و مسلم میں حضرت سعید بن جبیر کی روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے سورۂ حشر کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ غزوۂ بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس طرح سورۂ انفال غزوۂ بدر کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت سعید بن جبیر کی دوسری روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ قل سورۃ النضیر یعنی یوں کہو کہ یہ سورۂ نضیر ہے۔ یہی بات مجاہد، قتادہ، زہری، ابن زید، یزید بن رومان، محمد بن اسحاق وغیرہ حضرات سے بھی مروی ہے۔ ان سب کا متفقہ بیان یہ ہے کہ اس میں جن اہل کتاب کے نکالے جانے کا ذکر ہے ان سے مراد بنی النضیر ہی ہیں۔ یزید بن رومان، مجاہد اور محمد بن اسحاق کا قول یہ ہے کہ از اول تا آخر یہ پوری سورت اسی غزوہ کے بارے میں نازل ہوئی۔

اب رہا یہ سوال کہ یہ غزوہ کب واقع ہوا تھا؟ امام زہری نے اس کے متعلق عروہ بن زبیر کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ یہ جنگ بدر کے چھ مہینے بعد ہوا ہے۔ لیکن ابن سعد، ابن ہشام اور بلاذری اسے ربیع الاول کا واقعہ بتاتے ہیں اور یہی صحیح ہے کیونکہ تمام روایات اس امر پر متفق ہیں کہ یہ غزوہ بئر معونہ کے سانحہ کے بعد پیش آیا تھا اور اور یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بئر معونہ کا سانحہ جنگ احد کے بعد رونما ہوا ہے نہ کہ اس سے پہلے۔1

تاریخی پس منظر

اس سورہ کے مضامین کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مدینۂ طیبہ اور حجاز کے یہودیوں کی تاریخ پر نگاہ ڈال لی جائے کیونکہ اس کے بغیر آدمی ٹھیک ٹھیک یہ نہیں جان سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آخر کار ان کے مختلف قبائل کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کے حقیقی اسباب کیا تھے۔ جی جی عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انھوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑ سکے اور عرب سے باہر کے یہودی مؤرخین و مصنفین نے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آ کر وہ اپنے بقیہ ابنائے ملت سے بچھڑ گئے تھے اور دنیا کے یہودی سرے سے ان کو اپنوں مین شمار ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ انھوں نے عبرانی تہذیب، زبان، حتٰی کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کر لی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کتبات ملے ہیں ان میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہود عرب کی تاریخ کا بیشتر انحصار ان زبانی روایات پر ہے جو اہل عرب میں مشہور تھیں اور ان میں اچھا خاصا حصہ خود یہودیوں کا اپنا پھیلایا ہوا تھا۔

حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے آخر عہد میں یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ اس کا قصہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عمالقہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کو کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں۔ بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آ کر فرمان نبی کی تعمیل کی، مگر عمالقہ کے بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوبصورت جوان تھا، اسے انھوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین پہنچے۔ اس وقت حضرت موسٰی کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے جانشینوں نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انھوں نے اس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا اور اسے مجبوراً یثرت واپس آ کر یہیں بس جانا پڑا۔ ۔[1]

اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ 1200 برس قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں لیکن در حقیقت اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہل عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔ دوسری یہودی مہاجرت، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق 587 قبل مسیح میں ہوئي جبکہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتر بتر کر دیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آ کر وادی القریٰ، تیماء اور یثرب میں آباد ہو گئے تھے۔[2] لیکن اس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔

درحقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب 70ء میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا اور پھر 132ء میں انھیں اس سرزمین سے بالکل نکال باہر کیا، اس دور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہو گئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آ کر انھوں نے جہاں جہاں چشمے اور سر سبز باغات دیکھے، وہاں ٹھہر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سود خواری کے ذریعہ سے ان پر قبضہ جما لیا۔ ایلہ، مقنا، تبوک، تیماء، وادی القریٰ، فدک اور خیبر پر ان کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا اور بنی قریظہ، بنی نضیر، بنی یبدل اور بنی قینقاع بھی اسی دور میں آ کر یثرب پر قابض ہوئے۔

یثرب میں آباد ہونے والے قبائل میں سے بنی نضیر اور بنی قریظہ زیادہ ممتاز تھے کیونکہ وہ کاہنوں (Priest یا Cohens) کے طبقہ میں سے تھے، انھیں یہودیوں میں عالی نسب مانا جاتا تھا اور ان کو اپنی ملت میں مذہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینہ میں آ کر آباد ہوئے اس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انھوں نے دبا لیا اور عملاً اس سر سبز و شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد 450ء یا 451ء میں یمن کے اس سیلاب عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورۂ سبا کے دوسرے رکوع میں کیا گیا ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے قوم سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کے عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غسانی شام میں، لخمی حیرہ (عراق) میں، بنی خزاعہ جدہ و مکہ کے درمیان اور اوس و خزرج یثرب میں جا کر آباد ہوئے۔ یثرب پر چونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے اول اول اوس و خزرج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چاروناچار بنجر زمینوں پر بس گئے جہاں ان کو قوت لایموت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخرکار ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غسانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اوس و خزرج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے، بنی نضیر اور بنی قریظہ شہر کے باہر جا کر بسنے پر مجبور ہو گئے۔ تیسرے قبیلے بنی قینقاع کی چونکہ ان دونوں یہودی قبیلوں سے ان بن تھی، اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لیے اسے قبیلۂ خزرج کی پناہ لینی پڑی اور اس کے مقابلے میں بنی نضیر و بنی قریظہ نے قبیلۂ اوس کی پناہ لی تاکہ اطراف یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے، آغاز ہجرت تک، حجاز میں عموماً اور یثرب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایاں خدوخال یہ تھے :

  • زبان، لباس، تہذیب اور تمدن، ہر لحاظ سے انھوں نے پوری طرح عربیت کا رنگ اختیار کر لیا تھا، حتٰی کہ ان کی غالب اکثریت کے نام تک عربی ہو گئے تھے۔ 12 یہودی قبیلے جو حجاز میں آباد ہوئے تھے، ان میں سے بنی زعوراء کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی نہ تھا۔ ان کے چند گنے چنے علما کے سوا کوئی عبرانی جانتا تک نہ تھا۔ زمانۂ جاہلیت کے یہودی شاعروں کا جو کلام ہمیں ملتا ہے ان کی زبان اور خیالات اور مضامین میں شعرائے عرب سے الگ کوئی امتیازی شان نہیں پائی جاتی جو انھیں ممیز کرتی ہو۔ ان کے اور عربوں کے درمیان شادی بیاہ تک کے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ در حقیقت ان میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا لیکن ان ساری باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب بالکل نہ ہوئے تھے اور انھوں نے شدت کے ساتھ یہودی عصبیت برقرار رکھی تھی۔ یہ ظاہری عربیت انھوں نے صرف اس لیے اختیار کی تھی کہ اس کے بغیر وہ عرب میں رہ نہ سکتے تھے۔
  • ان کی اس عربیت کی وجہ سے مغربی مستشرقین کو یہ دھوکا ہوا ہے کہ شاید یہ بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ یہودی مذہب قبول کرنے والے عرب تھے یا کم از کم ان کی اکثریت عرب یہودیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ یہودیوں نے حجاز میں کبھی کوئی تبلیغی سرگرمی دکھائی ہو یا ان کے علما نصرانی پادریوں اور مشنریوں کی طرح اہل عرب کو دین یہود کی طرف دعوت دیتے ہوں۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہل عرب کو وہ اُمی (Gentiles) کہتے تھے، جس کے معنی صرف ان پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان امیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و ناجائز طریقے سے مار کھانا اسرائیلیوں کے لیے حلال و طیب ہے۔ سرداران عرب کے ماسوا، عام عربوں کو وہ اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ انھیں دین یہود میں داخل کر کے برابر کا درجہ دے دیں۔ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، نہ روایات عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرورملتا ہے جو یہودی ہو گئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کی بجائے صرف اپنے کاروبار سے دلچسپی تھی۔ اسی لیے حجاز میں یہودیوں ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض اسرائیلی قبیلوں کا سرمایۂ فخر و ناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علما نے تعویذ گنڈوں اور فال گیری اور جادوگری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا جس کی وجہ سے عربوں پر ان کے "علم" اور "عمل" کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔
  • معاشی حیثیت سے ان کی پوزیشن عرب قبائل کی بہ نسبت زیادہ مضبوط تھی۔ چونکہ وہ فلسطین و شام کے زیادہ متمدن علاقوں سے آئے تھے، اس لیے وہ بہت سے ایسے فنون جانتے تھے جو اہل عرب میں رائج نہ تھے اور باہر کی دنیا سے ان کے کاروباری تعلقات بھی تھے۔ ان وجوہ سے یثرب اور بالائی حجاز میں غلے کی درآمد اور یہاں سے چھوہاروں کی برآمد ان کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ مرغ بانی اور ماہی گیری پربھی زیادہ تر انہی کا قبضہ تھا۔ پارچہ بافی کا کام بھی ان کے ہاں ہوتا تھا۔ جگہ چگہ میخانے بھی انھوں نے قائم کر رکھے تھے جہاں شام سے شراب لا کر فروخت کی جاتی تھی۔ بنی قینقاع زیادہ تر سنہار اور لوہار اور ظروف سازی کا پیشہ کرتے تھے۔ اس سارے بنج بیوپار میں یہ یہودی بے تحاشا منافع خوری کرتے تھے لیکن اس کا سب سے بڑا کاروبار سود خواری کا تھا جس کے جال میں انھوں نے گرد و پیش کی عرب آبادیوں کو پھانس رکھا تھا اور خاص طور پر عرب قبائل کے شیوخ اور سردار جنہیں قرض لے لے کر ٹھاٹھ جمانے اور شیخی بگھارنے کی بیماری لگی ہوئي تھی، ان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے۔ یہ بھاری شرح سود پر قرضے دیتے اور پھر سود در سود کاچکر چلاتے تھے جس کی گرفت میں آ جانے کے بعد مشکل ہی سے کوئی نکل سکتا تھا۔ اس طرح انھوں نے عربوں کو معاشی حیثیت سے کھوکھلا کر رکھا تھا، مگر اس کا فطری نتیجہ یہ بھی تھا کہ عربوں میں بالعموم ان کے خلاف ایک گہری نفرت پائی جاتی تھی۔
  • ان کے تجارتی اور مالی مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ عربوں میں سے کسی کے دوست بن کر کسی سے نہ بگاڑیں اور نہ ان کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے مفاد کا تقاضا یہ بھی تھا کہ عربوں کو باہم متحد نہ ہونے دیں اور انھیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ جب بھی عرب قبیلے باہم متحد ہوئے، وہ ان بڑی بڑی جائیدادوں اور باغات اور سر سبز زمینوں پر انھیں قابض نہ رہنے دیں گے جو انھوں نے اپنی منافع خوری اور سود خواری سے پیدا کی تھی۔ مزید برآں اپنی حفاظت کے لیے ان کے ہر قبیلے کو کسی نہ کسی طاقت ور عرب قبیلے سے حلیفانہ تعلقات بھی قائم کرنے پڑتے تھے، تاکہ کوئی دوسرا زبردست قبیلہ ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس بنا پر با رہا انھیں نہ صرف ان عرب قبائل کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لینا پڑتا تھا، بلکہ بسا اوقات ایک یہودی قبیلہ اپنے حلیف عرب قبیلہ کے ساتھ مل کر کسی دوسرے یہودی قبیلے کے خلاف جنگ آزما ہو جاتا تھا جس کے حلیفہ تعلقات فریق مخالف ہوتے تھے۔ یثرب میں بنی قریظہ اور بنی نضیر اوس کے حلیف تھے اور بنی قینقاع خزرج کے۔ ہجرت سے تھوڑی مدت پہلے اوس اور خزرج کے درمیان جو خونریز لڑائی بعاث کے مقام پر ہوئی تھی اس میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے۔ (دیکھیے : جنگ بعاث)

یہ حالات تھے جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اولین کام کیے ان مین سے ایک یہ تھا کہ اوس اور خزرج اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی (دیکھیے : مؤاخات) اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی تھی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے (دیکھیے : میثاق مدینہ)اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن امور کی پابندی قبول کی تھی:

یہ کہ یہودی اپنا خرچ اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء حملہ آور کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے اور ان کے درمیان نیکی و حق رسانی کا تعلق ہوگا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا، اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی، اور یہ کہ جب تک جنگ رہے یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے مصارف اٹھائیں گے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء کے درمیان اگر کوئي ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے۔ اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آور ہو اس کے مقابلے میں شرکائے معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ ہر فریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہوگا

یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ روش کا اظہار شروع کر دیا اور ان کا عناد روز بروز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑی وجوہات تین تھیں :

  1. ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو محض ایک رئیس قوم دیکھنا چاہتے تھے جو ان کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کر کے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوی مفاد سے سروکار رکھے۔ مگر انھوں نے دیکھا کہ آپ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں خود ان کے اپنے رسولوں اور کتب پر ایمان لانا بھی شامل تھا) اور معصیت جھوڑ کر ان احکام الٰہی کی اطاعت اختیار کرنے اور ان کی اخلاقی حدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیا بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ ان کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ عالمگیر اصولی تحریک اگر چل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔
  2. دوسرے یہ کہ اوس و خزرج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ گرد و پیش کے عرب قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اس اسلامی برادری میں شامل ہو کر ایک ملت بنتے جا رہے ہیں، انھیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کے لیے انھوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا الو سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی وہ اب اس نئے نظام میں نہ چل سکے گی بلکہ ته ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا جس کے آگے ان کی چالیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔
  3. تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدن کی جو اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کر رہے ہیں اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام ناجائز طریقوں کا سدباب شامل تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سود کو بھی آپ ناپاک کمائی اور حرام خوری قرار دے رہے تھے جس سے انھیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپ کی فرمانروائی قائم ہو گئی تو آپ اسے قانوناً ممنوع کر دیں گے۔ اس میں ان کو اپنی موت نظر آتی تھی۔

ان وجوہ سے انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپ کو زک دینے کے لیے کوئی چال، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکنڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرہ برابر تامل نہ تھا۔ وہ آپ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے تاکہ لوگ آپ سے بدگمان ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تھے تاکہ وہ اس دین سے برگشتہ ہو جائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے تھے تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جا سکیں۔ فتنے برپا کرنے کے لیے منافقین سے ساز باز کرتے تھے۔ ہر اس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔ اوس اور خزرج کے لوگ خاص طور پر ان کا ہدف تھے جن سے ان کے مدتہائے دراز سے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ جنگ بعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ ان کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اخوت کا وہ رشتہ تار تار ہو جائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیا تھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لیے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں سے ان کا پہلے سے لین دین تھا، ان میں سے جونہی کوئي شخص اسلام قبول کرتا وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمھارا دین کچھ اور تھا، اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے اس لیے ہم پر تمھارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔

معاہدے کے خلاف یہ کھلی کھلی معاندانہ روش تو جنگ بدر سے پہلے ہی وہ اختیار کر چکے تھے۔ مگر جب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش پر فتح مبین حاصل ہوئی تو وہ تلملا اٹھے اور ان کے بغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ اس جنگ سے وہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ قریش کی طاقت سے ٹکرا کرمسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی لیے انھوں نے فتح اسلام کی خبر پہنچنے سے پہلے مدینے میں افواہیں اڑانی شروع کر دی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید ہو گئے اور مسلمانوں کو شکست فاش ہوئی اور اب ابو جہل کی قیادت میں قریش کا لشکر مدینے کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ لیکن جب نتیجہ ان کی امیدوں اور تمناؤں کے خلاف نکلا تو وہ غم اور غصے کے مارے پھٹ پڑے۔ بنی نضیر کا سردار کعب بن اشرف چیخ اٹھا کہ

خدا کی قسم اگر محمد نے ان اشرافِ عرب کو قتل کر دیا ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اُس کی پیٹھ سے بہتر ہے

پھر وہ مکہ پہنچا اور بدر میں جو سردارانِ قریش مارے گئے تھے ان کے نہایت اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر مکہ والوں کو انتقام پر اکسایا۔ پھر مدینہ واپس آ کر اس نے اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفا کی بہو بیٹیوں کے ساتھ اظہارِ عشق کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ربیع الاول 3ھ میں محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرادیا [3] (دیکھیے : سریہ محمد بن مسلمہ بجانب کعب بن اشرف)

یہودیوں کا پہلا قبیلہ جس نے اجتماعی طور پر جنگ بدر کے بعد کھلم کھلا اپنا معاہدہ توڑ دیا، بنی قینقاع تھا۔ یہ لوگ خود شہر مدینہ کے اندر ایک محلہ میں آباد تھے اور چونکہ یہ سنہار، لوہار اور ظروف ساز تھے، اس لیے ان کے بازار میں اہل مدینہ کو کثرت سے جانا آنا پڑتا تھا۔ ان کو اپنی شجاعت پر بڑا ناز تھا۔ آہن گر ہونے کی وجہ سے ان کا بچہ بچہ مسلح تھا۔ سات سو مردانِ جنگی ان کے اندر موجود تھے۔ اور ان کو اس بات کا بھی زعم تھا کہ قبیلۂ خزرج سے ان کے پرانے حلیفانہ تعلقات تھے اور خزرج کا سردار عبد اللہ بن ابی ان کا پشتیبان تھا۔ بدر کے واقعہ سے یہ اس قدر مشتعل ہوئے کہ انھوں نے اپنے بازار میں آنے جانے والے مسلمانوں کو ستانا اور خاص طور پر ان کی عورتوں کو چھیڑنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک روز ان کے بازار میں ایک مسلمان عورت کو برسرِ عام برہنا کر دیا گیا۔ اس پر سخت جھگڑا ہوا اور ہنگامے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی قتل ہو گیا۔ جب حالات اس حد تک پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے محلہ میں تشریف لے گئے اور ان کو جمع کر کے آپ نے ان کو راہ راست پر آنے کی تلقین فرمائی مگر انھوں نے جواب دیا "اے محمد! تم نے شاید ہمیں بھی قریش سمجھا ہے؟ وہ لڑنا نہیں جانتے تھے، اس لیے تم نے انھیں مار لیا۔ ہم سے سابقہ پیش آئے گا تو تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں "۔ یہ گویا صاف صاف اعلانِ جنگ تھا۔ آخر کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوال (اور بروایت بعض ذی القعدہ) 2ھ کے آخر میں ان کے محلہ کا محاصرہ کر لیا۔ صرف پندرہ روز ہی یہ محاصرہ رہا تھا کہ انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور ان کے تمام قابل جنگ آدمی باندھ لیے گئے۔ اب عبد اللہ بن ابی ان کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے سخت اصرار کیا کہ آپ انھیں معاف کر دیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی درخواست قبول کر کے یہ فیصلہ فرما دیا کہ بنی قینقاع اپنا سب مال، اسلحہ اور آلاتِ صنعت چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں۔[3]۔ (دیکھیے : غزوۂ بنو قینقاع)

ان دو سخت اقدامات (یعنی بنی قینقاع کے اخراج اور کعب بن اشرف کے قتل) سے کچھ مدت تک یہودی اتنے خوف زدہ رہے کہ انھیں کوئی مزید شرارت کرنے کی ہمت نہ ہوئی مگر اس کے بعد شوال 3ھ میں قریش کے لوگ جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے تیاریوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھ کر آئے اور ان یہودیوں نے دیکھا کہ قریش کی تین ہزار فوج کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ صرف ایک ہزار آدمی لڑنے کے لیے نکلے ہیں اور ان میں سے بھی تین سو منافقین الگ ہو کر پلٹ آئے ہیں، تو انھوں نے معاہدے کی پہلی اور صریح خلاف ورزی اس طرح کی کہ مدینہ کی مدافعت میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوئے، حالانکہ وہ اس کے پابند تھے۔ پھر جب معرکۂ احد میں مسلمانوں کو نقصانِ عظیم پہنچا تو ان کی جراتیں اور بڑھ گئیں، یہاں تک کہ بنی نضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سازش کی جو عین وقت پر ناکام ہو گئی۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بئر معونہ کے سانحہ (صفر 4ھ) کے بعد عمرو بن امیہ ضمری نے انتقامی کارروائی کے طور پر غلطی سے بنی عامر کے دو آدمیوں کے قتل کر دیا جو دراصل ایک معاہد قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے مگر عمرو نے ان کو دشمن قبیلہ کے آدمی سمجھ لیا تھا۔ اس غلطی کی وجہ سے ان کا خون بہا مسلمانوں پر واجب آ گیا تھا اور چونکہ بنی عامر کے ساتھ معاہدے میں بنی نضیر بھی شریک تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چند صحابہ کے ساتھ خود ان کی بستی میں تشریف لے گئے تاکہ خوں بہا کی ادائیگی میں ان کو بھی شرکت کی دعوت دیں۔ وہاں انھوں نے آپ کو چکنی چپڑی باتوں میں لگایا اور اندر ہی اندر یہ سازش کی کہ ایک شخص اُس مکان کی چھت پر سے آپ کے اوپر ایک بھاری پتھر گرا دے جس کی دیوار کے سائے میں تشریف فرما تھے مگر قبل اس کے کہ وہ اپنی اس تدبیر پر عمل کرتے، اللہ تعالٰی نے آپ کو بروقت خبردار کر دیا اور آپ فوراً وہاں سے اٹھ کر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ اب ان کے ساتھ کسی رعایت کا سوال باقی نہ رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو بلا تاخیر یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم نے جو غداری کرنی چاہی تھی وہ میرے علم میں آ گئی ہے۔ لہٰذا دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد اگر تم یہاں ٹھیرے رہے تو جو شخص بھی تمھاری بستی میں پایا جائے گا اس کی گردن مار دی جائے گی۔ دوسری طرف عبد اللہ بن ابی نے ان کو پیغام بھیجا کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمھاری مدد کروں گا اور بنی قریظہ اور بنی غطفان بھی تمھاری مدد کو آئیں گے، تم ڈٹ جاؤ اور ہر گز اپنی جگہ نہ چھوڑو۔ اس جھوٹے بھروسے پر انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الٹی میٹم کا یہ جواب دیا کہ ہم یہاں سے نہیں نکلیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کر لیجیے۔ اس پر ربیع الاول 4ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا اور صرف چند روز کے محاصرے کے بعد (جس کی مدت بعض روایات میں چھ دن اور بعض میں پندرہ دن آئی ہے) وہ اس شرط پر مدینہ چھوڑ دینے کے لیے راضی ہو گئے کہ اسلحہ کے سوا جو کچھ بھی وہ اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکیں گے لے جائیں گے۔ اس طرح یہودیوں کے اس دوسرے شریر قبیلے سے مدینہ کی سرزمین خالی کرا لی گئی۔ ان میں سے صرف دو آدمی مسلمان ہوکر یہاں ٹھہر گئے۔ باقی شام اور خیبر کی طرف نکل گئے۔ (دیکھیے : غزوۂ بنو نضیر)

یہی واقعہ ہے جس سے اس سورت میں بحث کی گئی ہے۔2

موضوع اور مضامین

سورت کا موضوع، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، جنگ بنی نضیر پر تبصرہ ہے۔ اس میں بحیثیت مجموعی چار مضامین بیان ہوئے ہیں :

  1. پہلی چار آیتوں میں دنیا کو اس انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جو ابھی ابھی بنی نضیر نے دیکھا تھا۔ ایک بڑا قبیلہ جس کے افراد کی تعداد اس وقت مسلمانوں کی تعداد سے کچھ کم نہ تھی، جو مال و دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھا ہوا تھا، جس کے پاس جنگی سامان کی بھی کمی نہ تھی، جس کی گڑھیاں بڑی مضبوط تھیں، صرف چند روز کے محاصرے کی تاب بھی نہ لا سکا اور بغیر اس کے کہ کسی ایک آدمی کے قتل کی بھی نوبت آئی ہوتی وہ اپنی صدیوں کی جمی جمائی بستی چھوڑ کر جلا وطنی قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طاقت کا کرشمہ نہیں تھا بلکہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے نبرد آزما ہوئے تھے اور جو لوگ اللہ کی طاقت سے ٹکرانے کی جرات کریں وہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔
  2. آیت 5 میں قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن کے علاقے میں جو تخریبی کارروائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔
  3. آیت 6 سے 10 تک یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائیدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کر دیا گیا۔
  4. آیت 11 سے 17 تک منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انھوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو درحقیقت ان کے اس رویے کی تہ میں کام کر رہے تھے۔
  5. آخری رکوع پورا کا پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہوں، مگر ایمان کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جس قرآن کو ماننے کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے اور جس خدا پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔3

حوالہ جات

  1. کتاب الاغانی، ج 19، ص 94
  2. فتوح البلدان، البلاذری
  3. ^ ا ب ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری

1،2،3 تفسیر تفہیم القرآن، سید ابو الاعلیٰ مودودی، متعلقہ عنوانات