برہم باندھو اپادھیائے ((بنگالی: ব্রহ্মবান্ধব উপাধ্যায়)‏) ‏(1 فروری 1861ء – 27 اکتوبر 1907ء) بنگال کے مشہور ماہر الہیات، صحافی اور مجاہد آزادی تھے۔[3] برہم باندھو رام کرشن پرم ہنس اور کیشب چندر سین کے دوست، سوامی ویویکانند کے ہم جماعت اور رابندرناتھ ٹیگور کے قریبی شناساؤں میں سے ایک تھے۔[4]

برہم باندھو اپادھیائے
(بنگالی میں: ব্রহ্মবান্ধব উপাধ্যায় ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 1 فروری 1861ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 27 اکتوبر 1907ء (46 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کولکاتا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی اسکاٹش چرچ کالج
ہوگلی کالجیٹ اسکول   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف ،  مدیر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی ترمیم

برہم باندھو اپادھیائے ایک ”کولین براہمن“ خاندان میں پیدا ہوئے، ان کا پیدائشی نام بھوانی چرن بادیوپادھیائے تھا۔[5] کولین کی اصطلاح ابتدائی برہمنی ہندو معاشرے کے اس رسم کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کے تحت ایک مرد کو کئی بیویاں رکھنے کی اجازت تھی۔ برہم باندھو کے دادا کے متعلق مشہور تھا کہ ان کی چھپن بیویاں تھیں۔ ان کے والد دیوی چرن بادیوپادھیائے برطانوی راج میں پولیس افسر تھے۔ دیوی چرن کے تین بیٹے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا ہری چرن کلکتہ میں معالج تھا، دوسرا بیٹا پربتی چرن وکیل اور تیسرا بھوانی چرن تھے۔ غیر منقسم بنگال کے ضلع ہوگلی میں واقع کھنیان گاؤں میں ان کی پیدائش ہوئی۔ جب وہ ایک برس کے تھے تو ان کی والدہ رادھا کماری وفات پاگئیں، چنانچہ ان کی پرورش ان کی دادی کے ہاتھوں ہوئی۔[6]

بھوانی چرن نے کلکتہ کی مشہور تعلیم گاہوں اسکاٹش مشن اسکول، ہوگلی کالیجیٹ اسکول، میٹرپولیٹن انسٹی ٹیوشن (موجودہ ودیا ساگر کالج) اور جنرل اسمبلی انسٹی ٹیوشن (موجودہ اسکاٹش چرچ کالج) میں تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1880ء کی دہائی میں جب وہ جنرل اسمبلی انسٹی ٹیوشن میں زیر تعلیم تھے اس وقت سوامی ویویکانند ان کے ہم جماعت تھے۔[7] برہم باندھو رابندر ناتھ ٹیگور کے بھی دوست تھے۔

جب وہ کالج میں زیر تعلیم تھے تو کیشب چندر سین اور رابندر ناتھ ٹیگور کے والد دیویندر ناتھ ٹیگور سے خاصے متاثر ہوئے اور برہمو سماج کی طرف راغب ہوئے۔ سنہ 1881ء میں انھوں نے برہمویت کو اختیار کر لیا اور اس کے مبلغ بن گئے۔ انھوں نے صوبہ سندھ کے قصبہ حیدرآباد میں موجود ایک برہمو اسکول میں بھی پڑھایا۔[8]

حوالہ جات ترمیم

کتابیات ترمیم

  • K.P. Aleaz (1979)، "The Theological Writings of Brahmabandhav Upadhyaya Re-Examined" (PDF)، Indian Journal of Theology، April–June 
  • Animananda (1908)، The Blade: Life and Work of Brahmabandhab Upadhyay.، Roy & Sons 
  • Animananda (1946)، Swami Upadhyay Brahmabandhab: A Story of His Life, Part-I، The Author 
  • Ramkrishna Bhattacharya (April 2008)، "Brahmabandhav Upadhyay: The Unvanquished Publicist"، 175th Year Commemoration Volume، Scottish Church College 
  • Mathew Chandrakunnel (2005)، "The Search for Truth: Trials and tribulations of Brahmabandhab Upadhyay" (PDF)، International Journal of Culture, Philosophy & Theology، 2:12 
  • Paul M Collins (2007)، Christian Inculturation in India، Ashgate Publishing، ISBN 978-075-466-076-7 
  • Phalguni P Desai (2010)، "Tagore's Educational Experiments and Right to Education Bill: a Comparison"، Rupkatha Journal on Interdisciplinary Studies in Humanities، 2:4، ISSN 0975-2935 
  • William Alan Firth-Smith (2011)، "Brahmabandhab Upadhyay: An Enigmatic Catholic Freedom Fighter 1861-1907" (PDF)، Thesis submitted in partial fulfilment of the requirement for the Degree of Master of Theology 
  • Julius Lipner (1999)، Brahmabandhab Upadhyay: The Life and Thought of a Revolutionary، Delhi: Oxford University Press India 
  • Hitendra Patel (2008)، Khudiram Bose: Revolutionary Extraordinaire، Publications Division, Ministry of Information and Broadcasting, Government of India، ISBN 978-812-301-539-2 
  • Madhusudhan Rao (2001)، "Lessons from India - Brahmabandhab Upadhyay and the failure of Hindu Christianity" (PDF)، International Journal of Frontier Missions، 4:18 
  • V Sebastian (2008)، "Constructions of National Space: Tracing the Development of Upadhyay's Nationalist Thought"، Jnanadeepa - Pune Journal of Religious Studies، 1:11 
  • Simonti Sen (2005)، Travels to Europe - Self and other in Bengali Travel Narratives 1870 - 1910، New Delhi: Orient Longman، صفحہ: 18، ISBN 81-250-2738-6 
  • H. C. E. Zacharias (1933)، Renascent India from Rammohan Roy to Mohandas Gandhi، London: George Allen Unwin Ltd. 

بیرونی روابط ترمیم