بسوا کلیان بھارت کی ریاست کرناٹک کے بیدر ضلع کا ایک شہر اور تحصیل ہے۔ پہلے یہ شہر کلیانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بسوا کلیان ضلع بیدر کا دوسرا بڑا بلدیہ ہے۔ عہد آصفجاہی میں یہ ایک مسلم نوابی جاگیر تھی جو آزادی ہند کے بعد جمہوریہ بھارت میں ضم ہو گئی۔ بریانی کی مشہور قسم کلیانی بریانی اسی شہر سے منسوب ہے۔

شہر
سرکاری نام
بسوانا میں سب سے بڑا مجسمہ، 108 فٹ (33 میٹر)
بسوانا میں سب سے بڑا مجسمہ، 108 فٹ (33 میٹر)
عرفیت: انوبھو منتپ کا شہر
بسوا کلیان is located in Karnataka
بسوا کلیان
بسوا کلیان
کرناٹک، بھارت میں جائے وقوع
متناسقات: 17°52′22″N 76°56′59″E / 17.87278°N 76.94972°E / 17.87278; 76.94972
ملک بھارت
ریاستکرناٹک
تقسیمKalaburagi
علاقہBayaluseeme
ضلعبیدر ضلع
تعلقہبسوا کلیان تعلقہ
حکومت
 • قسمبلدیہ کونسل
 • مجلسبسوا کلیان شہر پنچایت
رقبہ
 • کل32 کلومیٹر2 (12 میل مربع)
بلندی621 میل (2,037 فٹ)
آبادی (2011)
 • کل69,717
 • کثافت2,200/کلومیٹر2 (5,600/میل مربع)
 • مرد36,116
 • خواتین33,601
نام آبادیبسوا کلیانی، کلیانی
زبانیں
 • دفتری زبانکنڑ زبان
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+5:30)
ڈاک اشاریہ رمز585 327
رمز ٹیلی فون08481
گاڑی کی نمبر پلیٹKA-56
ویب سائٹhttp://www.basavakalyancity.mrc.gov.in/

تاریخ

ترمیم

بسوا کلیان کی تاریخ 3000 سال پرانی ہے۔ اس کا تذکرہ گرو چرتر میں بھی ملتا ہے۔ [حوالہ درکار] آزادی سے قبل اس کا نام کلیانی تھا۔ آزادی کے بعد 1956ء میں زبان کی بنیاد پر ریاست کی تقسیم ہوئی تو کلیانی کا نام وشوگرو اور انقلابی شخصیت کے مالک بسو نے نام پر بسوا کلیان رکھ دیا گیا۔

بسوا کلیان پر مغربی چالوکیہ سلطنت، کلیانی کلچوری سلطنت، دیوگری یادو سلطنت، سلطنت دہلی، بہمنی سلطنت (بیدر، گلبرگہ)، سلطنت بیدر، بیجاہور سلطنت، مغلیہ سلطنت اور نطام حیدراباد نے حکومت کی ہے۔

مغربی چالوکیہ سلطنت

ترمیم

1050ء تا 1195ء یہ شہر مغربی چالوکیہ (کلیانی چالوکیہ) کا پایہ تخت رہا۔ سومیشور اول (1041ء-1068ء) نے کلیانی کو دار الحکومت بنایا اور اس کی سلطنت کلیانی چالوکیہ کہلائی جو بادامی چالوکیہ سے الگ ہے۔ سومیشور اول کے بعد اس پر سومیشور دوم، ورکم آدیہ چہارم، سومیشور سوم، جگدیک مل سوم اور تیلاپا سوم نے حکومت کی۔ سومیشور اول (1042ء-1068ء) نے پایہ تخت مینک کھیت (موجودہ ملکھیڈ، گلبرگہ ضلع) سے منتقل کر کے کلیانی کو بنا دیا۔ [1] 10ویں اور 12ویں صدی کے دوران میں اس نے تقریباً نصف ہندوستان پر حکومت کی۔[2][3]

اس کی حکومت کا زیادہ تر حصہ دکن اور جنوبی ہند پر مشتمل تھا۔ وکرم آدتیہ کے دربار میں متعدد دشوران تھے جن میں سومیشور، بلہانا (کشمیر کے شاعر) اور قانونی امور کے ماہر وگیانیشور جیسے نام شامل ہیں۔ 26 فروری 1077ء کو وکرم آدتیہ چہارم نے ورش جسنگی مندر کی تعمیر شروع کی۔

کلیانی چالوکیہ طرز تعمیر

ترمیم

کلیانی چالوکیہ طرزتعمیر کے ابتدائی نقوش کنکور میں ملتے ہیں۔ ابتدائی بنیادی تعمیروں میں کلیشور اور نولنگ مندر کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ گدگ-بیٹگیری کے نزدیک لکونڈی کا جین مندر فرشی نقاشی اور سجاوٹ کا اہم نمونہ ہے۔ کلیانی طرز تعمیر 12ویں صدی اپنے شباب پر تھا۔ لکوڈی میں کاشی وشویشور مندر اور کوروتی کا ملک ارجن مندر چالوکیہ طرز تعمیر کی بہترین مثالیں ہیں۔ گدگ-بیٹگیری میں موجود سرسوتی اور سومیشور مندر اب اہنی چمک کھوچکے ہیں اور قریب بہ انہدام ہیں۔ کلیانی چالوکیہ کے قریب 100 مندر اور عمارتیں ہیں۔

کلچوری اور بسویشور

ترمیم

کلیانی چالوکیہ کے بعد کلچوری کلیانی نے کلیانی کا پایہ تخت بنایا ہے۔ 12ویں صدی میں کلیانی کلچوری سلطنت کے بادشاہ (1156ء-1167ء) نے تخت نشین ہونے کے بعد بسو کو وزیر اعظم کا عہدہ سونپ دیا۔ بسو سماجی کارکن تھے جنھوں نے چھوا چھوت اور جنسی نامساوات کے خلاف آواز اٹھائی اور یہیں شوشرن تحریک کی ابتدا ہوئی۔ بسو نے وچن ساہتیہ کے ذریعے متعدد لوگوں کو متاثر کیا اور قریب 600 مصنفین و مولفین کو تیار کیا جنہیں وچنکرس کہا جاتا تھا۔

سماجی و مذہبی تحریک کا مرکز

ترمیم

کلیانی مذہبی و سماجی تحریک کا مرکز رہا ہے۔ 12ویں صدی میں عظیم سماجی کارکن بسو کی محنتوں کی وجہ سے کلیانی تعلیم و تعلم کا مرکز بن چکا تھا۔ بواسا، اکا، مہادیوی، چن بسون، سداراما اور دیگر شرنوں کا تعلق بسوا کلیان ہی سے ہے۔ وہ بسوا ہی تھے جنھوں نے ہندو مت میں شدت پسندی اور ذات پات کی سخت مخالفت کی۔[4]

سیاحت

ترمیم

جلاسنگوی کے زمانہ میں چالوکیہ سلطنت کے زمانہ کے ناراین پورہ اور شوپورہ کے مندر موجود ہیں۔ بسوا مندر بسواکلیان کے قلب میں واقع ہے۔ کچھ اسلامی تعمیرات بھی ہیں جیسے موتی محل، حیدری محل، پیران درگاہ۔ کچھ دیگر مذہبی مقامات ہیں جیسے گچینا ماتا، کامبلی ماتا اور سدانند ماتا۔

  • بسواکلیان قلعہ کو چالوکیہ کے زمانہ میں تعمیر کیا گیا بعد میں نظام نے بھی اس کی تعمیر و توسیع میں حصہ لیا۔

قلعہ کے ایک حصہ میں ایک میوزیم بھی ہے جس میں تاریخ کی اہم معلومات محفوظ ہیں۔ 10ویں اور 11ویں صدی کے جین مندر بھی ہیں۔[5]

  • ناراین پورہ میں شیو مندر
  • بسوریشور مندر
  • انوبھو منٹپ
  • علامہ پربھو کا مجسمہ اور بسوان کی کچھ تصاویر۔
  • بسوا دھرم پیٹھ چیرٹبل ٹرسٹ۔
  • شری بسوریشور غار اور اکمہادیوی غار۔

تعلیم

ترمیم

بسواکلیان کو تعلیمی ثقافت کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہاں کئی بڑے تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ مندرجہ ذیل چند اہم ادرے؛

  • بسواریشور پرائمری ہائی اسکول (کنڑ اور انگریزی)
  • شانتی نکیتن پرائمری اور ہائی اسکول
  • بسواکلیان انجیئرنگ کالج، بسوا کلیان، بیدر، کرناٹک

جغرافیہ

ترمیم

بسوا کلیان 17°52′N 76°57′E / 17.87°N 76.95°E / 17.87; 76.95۔[6] پر واقع ہے۔ پورے شہر کی اوسط اونچائی 621 میٹر (2037 فٹ) ہے۔

شماریات

ترمیم

بھارت میں مردم شماری، 2011ء کے مطابق شہر کی آبادی 69,717 افراد پر مشتمل تھی جن میں 36,116 مرد اور 33,601 خواتیں شامل ہیں۔ اکثریت کنڑ زبان بولتی ہے۔ کنڑ کے علاوہ مراٹھی زبان، ہندی زبان اور اردو زبان بھی علاقہ میں بولی جاتی ہے۔

بسوا کلیان کا جنسی تناسب 973 خواتین بمقابلہ 1000 مرد ہے۔ شرح خواندگی اوسط 77.46% ریاست کے اوسط 75.36% سے بہتر ہے۔ مرد کی شرح خواندگی 82.46% اور خواتین کی 72.13% ہے۔

مذہب

ترمیم
بسوا کلیان میں مذاہب
مذہب فیصد
ہندو
  
95%
مسلمان
  
1.5%
مسیحیت
  
0.22%
دیگر†
  
2.11%
دیگر مذاہب
بشمول سکھs (0.06%)، بدھ مت (0.74%)، جین مت (0.06%)۔

نگار خانہ

ترمیم
 
بسوا کلیان قلعہ
 
بسوا کلیان قلعہ
 
بسوا کلیان مندر

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. http://www.deccanherald.com/content/537255/sights-around-basavakalyan.html
  2. "Basavakalyan getting facelift"۔ The Hindu۔ Chennai, India۔ 2007-08-08۔ 04 جون 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مئی 2009 
  3. "The Chalukyas of Kalyani"۔ 01 دسمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2008 
  4. "Basavakalyan"۔ 27 مئی 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مئی 2009 
  5. "BASAVAKALYAN"۔ 05 اکتوبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مئی 2009 
  6. Falling Rain Genomics, Inc – Basavakalyan