بھارت میں مردم شماری، 2011ء
15ویں بھارتی مردم شماری دو مرحلوں میں منعقد کی گئی تھی، خانہ شماری اور مردم شماری۔ خانہ (عمارت) شماری کا آغاز 1 اپریل، 2010ء کو ہوا اور اس میں تمام عماراتوں کی معلومات جمع کی گئیں۔ معلومات برائے قومی آبادی رجسٹر پہلے مرحلے میں جمع کی گئیں، جو تمام مندرج بھارتی رہائشی شہریوں کو 12 ہندوسوں پر مشتمل آدھار (یو آئی ڈی اے آئی) شناختی کارڈ جاری کرنے کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ دوسرے مرحلے میں 9 سے 28 فروری 2011ء کے درمیان میں آبادی کی گنتی کی گئی۔ 1872ء کے بعد سے بھارت میں مردم شماریاں ہو رہی ہیں اور 2011ء میں، پہلی بار بایو میٹرک معلومات جمع کی گئی تھیں۔ 31 مارچ، 2011ء کو جاری کردہ رپورٹوں کے مطابق، بھارت کی کل آبادی 121 کروڑ ہو چکی ہے جو ہر دس سال میں 17.64% بڑھ رہی ہے۔[2] آبادی میں شرح خواندگی 74.04% جس میں ہر سال میں 9.21% اضافہ ہو رہا ہے۔ مردم شماری 2011ء کا نعرہ تھا، 'ہماری مردم شماری، ہمارا مستقبل'۔
بھارت کی 15 ویں مردم شماری | |
---|---|
عمومی معلومات | |
ملک | بھارت |
تاریخ شماری | 2010–2011 |
کل آبادی | 1,210,193,422 |
فیصد تبدیلی | 17.70%[1] |
سب سے زیادہ آباد | اتر پردیش (199,812,341) |
سب سے کم آباد | سکم (610,577) |
مردم وخانہ شماری کا یہ عمل 28 ریاستوں[ا] اور 7 عملداریوں کے 640 اضلاع، 5,924 ذیلی اضلاع، 7,935 قصبوں اور 6 لاکھ سے زیادہ گاؤں پر پھیلا ہوا تھا۔ مجموعی طور پر 27 لاکھ اہلکاروں نے 7،935 شہروں میں گھروں کا دورہ کیا اور 6 لاکھ گاؤں، آبادی کی درجہ بندی جنس، مذہب، تعلیم اور پیشہ کے مطابق کی گئی۔[3] اس سارے عمل پر کل خرچ تقریباً ₹2,200 کروڑ (امریکی $310 ملین)[4] – یہ فی فرد $0.50 سے کم خرچ بنتا ہے، باقی دنیا میں اس کام پر اندازہ $4.60 فی فرد خرچ ہوتا ہے۔[3] ہر 10 سال بعد ہونے والی بھارت کے وسیع علاقوں میں مردم شماری نے بھارت میں کئی چیلنجوں کا سامنا کیا ہے۔ ثقافتوں کا تنوع اور افرادی قوت نے اس میں مخالف کی ہے۔
ذاتوں کی معلومات کو مندرجہ ذیل حکمران اتحادی رہنماؤں کی طرف سے مردم شماری میں شامل کیا گیا بشمول لالو پرساد یادو، شرد یادو اور ملائم سنگھ یادو جن کو حزب مخالف کی جماعتوں بھارتیہ جنتا پارٹی، شرومنی اکالی دل، شیو سینا اور انا دراود منیتر کڑگم کی حمایت بھی حاصل تھی۔[5] ذاتوں کی شماریات اس سے پہلے آخری بار برطانوی دور میں 1931ء میں جمع کی گئیں۔ ابتدا میں مردم شماری میں لوگوں نے اپنی سماجی حیثیت کے فروغ کے لیے ذات بتانے میں مبالغہ کیا البتہ اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ کئی لوگ ذات کو پست بتا کر حکومتی سہولیات حاصل کرتے ہیں۔[6] قیاس آرائی موجود تھی کہ 2011ء میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری ہو گی، 80 سال کے بعد (آخری بار 1931ء میں ہوئی)، جس سے بھارت میں "دیگر پسماندہ طبقات" کی درست ترین تعداد کا علم ہو سکے گا۔[7][8][9][10] بعد میں اس کو قبول کیا گیا تھا اور معاشرتی اقتصادی اور ذاتوں کی شماری بندی 2011ء منعقد کی گئی جس کے نتائج پہلی بار 3 جولائی 2015ء کو مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پیش کیے۔[11] 1980ء میں مینڈل کمیشن کے مطابق دیگر پسماندہ طبقات کی آبادی 52% تھی، نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن نے اگرچہ (این ایس ایس او) 2006ء میں ایک سروے کے بعد دیگر پسماندہ طبقات کی آبادی 41%بتائی تھی[12]
آزادی کے بعد، ذات شماری کی یہ پہلی مثال ہے۔ آزادی کے بعد انفرادی طور پر صرف ریاست کیرلا میں 1968ء میں ای ایم ایس نمبوتیری پاڈ نے مختلف سماجی و معاشی کمزور ذاتوں سے متعلق ایک سروے کروایا تھا اور یہ کیرلا سماجی و اقتصادی جائزہ 1968ء میں مکمل ہوا اور اور 1971ء میں کیرلا گزیٹر میں اس کے نتائج شائع ہوئے۔۔[13]
مردم شماری
ترمیمسی چندرامولی رجسٹرار جنرل اور 2011ہ بھارت مردم شماری کے مردم شماری کمشنر تھے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کو 16 زبانوں میں جمع کیا گیا تھا اور تربیتی نصاب 18 زبانوں میں تیار کیا گیا تھا۔ 2011ء میں، بھارت اور بنگلہ دیش نے اپنی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں میں مل کر پہلی بار مردم شماری کی۔[14][15] مردم شماری دو مرحلے میں منعقد کی گئی تھی۔ پہلے میں خانہ شماری ہوئی، جو 1 اپریل 2010ء کو شروع ہوئی اور تمام عمارتوں اور آباد مکانات سے متعلق اعداد و شمار جمع کیے گئے۔[16] پہلے مرحلے میں قومی آبادی رجسٹر بھی جمع کیا گیا تھا۔ دوسرے مرحلے میں، ملکبھر کی آبادی کی شمار بندی ہوئی، یہ کام 9 سے 28 فروری 2011ء کے دوران میں ہوا۔
معلومات
ترمیماندراج تعمیرات
ترمیمگھر (یا تعمیر کوئی بھی) کے لیے 35 سوال تھے۔[17]
Building number Census house number Predominant material of floor, wall and roof of the census house Ascertain use of actual house Condition of the census house Household number Total number of persons in the household Name of the head of the household Sex of the head Caste status (SC or ST or others) |
Ownership status of the house Number of dwelling rooms Number of married couple the household Main source of drinking water Availability of drinking water source Main source of lighting Latrine within the premises Type of latrine facility Waste water outlet connection Bathing facility within the premises |
باورچی خانے کی دستیابی کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن ریڈیو/ٹرانسسٹر ٹیلی ویژن کمپیوٹر/لیپ ٹاپ ٹیلی فون/موبائل فون بائیسکل سکوٹر/موٹر سائیکل/موپڈ کار/جیپ/وین بینک خدمات لینے کی معلومات۔ |
آبادی کی گنتی
ترمیمآبادی کی گنلتی کے رجسٹر میں کل 30 سوالات تھے۔[18][19]
فرد کا نام سربراہ سے رشتہ جنس تاریخ پیدائش اور عمر موجودہ ازدواجی حیثیت شادی کی عمر مذہب ذات/درج قبیلہ معذوری مادری زبان |
جو دیگر زبانیں جانتا ہے تعلیمی حیثیت حاضری کی کیفیت (تعلیم) اعلیٰ ترین تعلیمی قابلیت گذشتہ سالوں کے دوران میں جو کام کیا معاشی سرگرمیوں کا زمرہ کاروبار کی نوعیت تجارت یا خدمت مزدور کی کلاس غیر معاشی سرگرمی |
حصول یا کام کے لیے دستیاب کام کے مقام کا فاصلہ مقام پیدائش گذشتہ رہائش گاہ کا مقام منتقلی کی وجہ منتقلی کی جگہ میں قیام کی مدت زندہ بچے ابک تک پیدا ہونے والے بچے آخری سال پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد |
قومی آبادی رجسٹر
ترمیمقومی آبادی کے رجسٹر میں رہائشیوں سے 9 سوالات کیے گئے تھے۔[20]
فرد کا نام اور رہائشی کیفیت آبادی کے رجسٹر میں درج ہونے والے شخص کا نام سرپرست سے رشتہ جنس تاریخ پیدائش ازدواجی حیثیت تعلیمی قابلیت کاروبار / سرگرمی باپ، ماں اور بیوی کا نام |
پوروں کے نشانات لینے اور تصاویر یہ معلومات ایک بار جمع ہو جانے کے بعد، ملک کے تمام شہریوں کو ایک 12 ہندسوں کا شناختی کارڈ جسے آدھار کارڈ کہا گیا ہے جاری کیا جائے گا، پہلا کارڈ 2011ء میں جاری کیا گیا تھا۔[21][22][23]
مردم شماری رپورٹ
ترمیمPrعارضی معلومات (ڈیٹا) 31 مارچ 2011ء کو جاری کی گئیں (اور 20 مئی 2013ء کو ان کو تازہ/اپڈیٹ کیا گیا)۔[24][25][26][27][28] 2011ء میں پہلی بار کی مخنث آبادی کو شمار کیا گیا۔[29][30] 2011ء میں آبادی کا مجموعی جنسی تناسب ہر 1،000 مردوں کے مقابل 943 خواتین ہیں۔[31] بھارت میں تیسری جنس کی سرکاری تعداد 4.9 لاکھ ہے۔[32]
آبادی | کل | 1,210,854,977 |
مرد | 623,724,568 | |
عورت | 586,469,294 | |
شرح خواندگی | کل | 74% |
مرد | 82.10% | |
خواتین | 65.50% | |
کثافت آبادی | فی کلومیٹر2 | 382 |
جنسی تناسب | فی 1000 مرد | 943 عورتیں |
بچوں میں جنسی تناسب (0–6 عمر کی حد) | فی 1000 مرد | 919 |
آبادی
ترمیم2011ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی 1,210,193,422 تھی۔[33] 2001ء سے 2011ء کے درمیآن میں بھارتی آبادی میں 181.5 ملین کا اضافہ ہوا، جو برازیل کی آبادی سے تھوڑا سا کم ہے۔ بھارت، دنیا کے 2.4% زمینی رقبے پر 17.5% آبادی والا ملک ہے۔ اترپردیش 200 ملین آبادی کے ساتھ سب سے بڑی ہے۔ کل آبادی کی نصف آبادی 6 ریاستوں اترپردیش، مہارشٹر، بہار، مغربی بنگال، آندھرا پردیش اور مدھیہ پردیش میں ہے۔[34] 121 کروڑ بھارتیوں میں سے، 83.3 کروڑ (68.84%) دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جب کہ 37.7 کروڑ شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔[35][36] بھارت میں 45.36 کروڑ لوگ تارکین وطن ہیں، جو مجموعی آبادی کا 37.8 فیصد ہے۔[37][38][39]
بھارت کئی بڑے مذاہب جیسے ہندومت، بدھ مت، سکھ مت اور جین مت کے مقام پیدائش کی حیثیت رکھتا ہے،،جب کہ کئی دیسی عقائد اور قبائلی مذاہب ایسے بھی ہیں جو بڑے مذاہب کی صدیوں کی عملداری کے باموجود اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔مردم شماری کے بعد، مردم شماری میں مذہب سے متعلق لوگوں سے لی گئی معلومات کو جاری کیا گيا ہے۔
درجہ | ریاست (ی وٹی) | قسم | آبادی[40] | آبادی ک ا%[41] | مرد | عورتیں | جنسی تناسب [42] |
شرح خواندگی (%) | شہری[43] آبادی |
دیہی[43] آبادی |
رقبہ[44] (km²) |
کثافت (/km²) |
دس سالہ اضافہ% (2001–2011) |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | اتر پردیش | ریاست | 199,812,341 | 16.5 | 104,480,510 | 95,331,831 | 930 | 67.68 | 155,111,022 | 44,470,455 | 240,928 | 828 | 20.1% |
2 | مہاراشٹر | ریاست | 112,374,333 | 9.28 | 58,243,056 | 54,131,277 | 929 | 82.34 | 61,545,441 | 50,827,531 | 307,713 | 365 | 16.0% |
3 | بہار (بھارت) | ریاست | 104,099,452 | 8.6 | 54,278,157 | 49,821,295 | 918 | 61.80 | 92,075,028 | 11,729,609 | 94,163 | 1,102 | 25.1% |
4 | مغربی بنگال | ریاست | 91,276,115 | 7.54 | 46,809,027 | 44,467,088 | 950 | 76.26 | 62,213,676 | 29,134,060 | 88,752 | 1,030 | 13.9% |
5 | آندھرا پردیش[ا] | ریاست | 84,580,777 | 6.99 | 42,442,146 | 42,138,631 | 993 | 67.02 | 56,361,702 | 28,219,075 | 275,045 | 308 | 11.1% |
6 | مدھیہ پردیش | ریاست | 72,626,809 | 6.00 | 37,612,306 | 35,014,503 | 931 | 69.32 | 52,537,899 | 20,059,666 | 308,245 | 236 | 20.3% |
7 | تمل ناڈو | ریاست | 72,147,030 | 5.96 | 36,137,975 | 36,009,055 | 996 | 80.09 | 37,189,229 | 34,949,729 | 130,058 | 555 | 15.6% |
8 | راجستھان | ریاست | 68,548,437 | 5.66 | 35,550,997 | 32,997,440 | 928 | 66.11 | 51,540,236 | 17,080,776 | 342,239 | 201 | 21.4% |
9 | کرناٹک | ریاست | 61,095,297 | 5.05 | 30,966,657 | 30,128,640 | 973 | 75.36 | 37,552,529 | 23,578,175 | 191,791 | 319 | 15.7% |
10 | گجرات | ریاست | 60,439,692 | 4.99 | 31,491,260 | 28,948,432 | 919 | 78.03 | 34,670,817 | 25,712,811 | 196,024 | 308 | 19.2% |
11 | اوڈیشا | ریاست | 41,974,218 | 3.47 | 21,212,136 | 20,762,082 | 979 | 72.87 | 34,951,234 | 6,996,124 | 155,707 | 269 | 14.0% |
12 | کیرلا | ریاست | 33,406,061 | 2.76 | 16,027,412 | 17,378,649 | 1,084 | 94.00 | 17,445,506 | 15,932,171 | 38,863 | 859 | 4.9% |
13 | جھارکھنڈ | ریاست | 32,988,134 | 2.72 | 16,930,315 | 16,057,819 | 948 | 66.41 | 25,036,946 | 7,929,292 | 79,714 | 414 | 22.3% |
14 | آسام | ریاست | 31,205,576 | 2.58 | 15,939,443 | 15,266,133 | 958 | 72.19 | 26,780,526 | 4,388,756 | 78,438 | 397 | 16.9% |
15 | پنجاب | ریاست | 27,743,338 | 2.29 | 14,639,465 | 13,103,873 | 895 | 75.84 | 17,316,800 | 10,387,436 | 50,362 | 550 | 13.7% |
16 | چھتیس گڑھ | ریاست | 25,545,198 | 2.11 | 12,832,895 | 12,712,303 | 991 | 70.28 | 19,603,658 | 5,936,538 | 135,191 | 189 | 22.6% |
17 | ہریانہ | ریاست | 25,351,462 | 2.09 | 13,494,734 | 11,856,728 | 879 | 75.55 | 16,531,493 | 8,821,588 | 44,212 | 573 | 19.9% |
18 | دہلی | یوٹی | 16,787,941 | 1.39 | 8,887,326 | 7,800,615 | 868 | 86.21 | 944,727 | 12,905,780 | 1,484 | 11,297 | 21% |
19 | جموں و کشمیر | ریاست | 12,541,302 | 1.04 | 6,640,662 | 5,900,640 | 889 | 67.16 | 9,134,820 | 3,414,106 | 222,236 | 56 | 23.7% |
20 | اتراکھنڈ | ریاست | 10,086,292 | 0.83 | 5,137,773 | 4,948,519 | 963 | 79.63 | 7,025,583 | 3,091,169 | 53,483 | 189 | 19.2% |
21 | ہماچل پردیش | ریاست | 6,864,602 | 0.57 | 3,481,873 | 3,382,729 | 972 | 82.80 | 6,167,805 | 688,704 | 55,673 | 123 | 12.8% |
22 | تریپورہ | ریاست | 3,673,917 | 0.30 | 1,874,376 | 1,799,541 | 960 | 87.22 | 2,710,051 | 960,981 | 10,486 | 350 | 14.7% |
23 | میگھالیہ | ریاست | 2,966,889 | 0.25 | 1,491,832 | 1,475,057 | 989 | 74.43 | 2,368,971 | 595,036 | 22,429 | 132 | 27.8% |
24 | منی پور | ریاست | 2,721,756 | 0.21 | 1,290,171 | 1,280,219 | 992 | 79.21 | 1,899,624 | 822,132 | 22,327 | 122 | 18.7% |
25 | ناگالینڈ | ریاست | 1,978,502 | 0.16 | 1,024,649 | 953,853 | 931 | 79.55 | 1,406,861 | 573,741 | 16,579 | 119 | -0.5% |
26 | گوا | ریاست | 1,458,545 | 0.12 | 739,140 | 719,405 | 973 | 88.70 | 551,414 | 906,309 | 3,702 | 394 | 8.2% |
27 | اروناچل پردیش | ریاست | 1,383,727 | 0.11 | 713,912 | 669,815 | 938 | 65.38 | 1,069,165 | 313,446 | 83,743 | 17 | 25.9% |
28 | پدوچیری | یوٹی | 1,247,953 | 0.10 | 612,511 | 635,442 | 1,037 | 85.85 | 394,341 | 850,123 | 479 | 2,598 | 27.7% |
29 | میزورم | ریاست | 1,097,206 | 0.09 | 555,339 | 541,867 | 976 | 91.33 | 529,037 | 561,997 | 21,081 | 52 | 22.8% |
30 | چندی گڑھ | یوٹی | 1,055,450 | 0.09 | 580,663 | 474,787 | 818 | 86.05 | 29,004 | 1,025,682 | 114 | 9,252 | 17.1% |
31 | سکم | ریاست | 610,577 | 0.05 | 323,070 | 287,507 | 890 | 81.42 | 455,962 | 151,726 | 7,096 | 86 | 12.4% |
32 | جزائر انڈمان و نکوبار | یوٹی | 380,581 | 0.03 | 202,871 | 177,710 | 876 | 86.63 | 244,411 | 135,533 | 8,249 | 46 | 6.7% |
33 | دادرا و نگر حویلی | یوٹی | 343,709 | 0.03 | 193,760 | 149,949 | 774 | 76.24 | 183,024 | 159,829 | 491 | 698 | 55.5% |
34 | دمن و دیو | یوٹی | 243,247 | 0.02 | 150,301 | 92,946 | 618 | 87.10 | 60,331 | 182,580 | 112 | 2,169 | 53.5% |
35 | لکشادیپ | یوٹی | 64,473 | 0.01 | 33,123 | 31,350 | 946 | 91.85 | 14,121 | 50,308 | 32 | 2,013 | 6.2% |
کل | بھارت | 35 | 1,210,854,977 | 100 | 623,724,248 | 586,469,174 | 943 | 73.00 | 833,087,662 | 377,105,760 | 3,287,240 | 382 | 17.64% |
مذہبی آبادیات
ترمیم2011ء کی مردم شماری کی مذہبی معلومات (ڈیٹا) حکومت بھارت نے 25 اگست 2015ء کو جاری کیں۔[45][46][47] اس کے مطابق بھارت میں 79.8% (966.3 ملین) ہندو[48] اور 14.23% (172.2 ملین) مسلمان ہیں۔[49][49][50][51] اور مسیحی 2.30% (28.7 ملین) ہیں۔ 2011ہ کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں 57,264 پارسی ہیں۔[52][53] پہلی بار، 2011ء کی مردم شماری میں "لا مذہب" کا خانہ رکھا گیا۔[54][55] اس مردم شماری کے مطابق 2.87 ملین بھارتیوں نے خود کو کسی مذہب سے وابستہ نہیں کیا۔[56][57] جو 1.21 بلین کی آبادی کا 0.24% بنتا ہے۔[58][59] مندرجہ ذیل کے جھول میں بھارت کی مذہبی آبادی ک وبلحاظ دہائی بیان کیا گیا ہے۔[60][61][62] Tبھارت میں 6 مذاہب کو "قومی اقلیت" کا درجہ کیا گیا ہے، اس میں– مسلم، مسیحی، سکھ، جین، بودھ اور پارسی شامل ہیں۔[63][64] سنی، شیعہ، بوہری، آغا خانی اور احمدیہ کو اسلام کے فرقے مانا گیا ہے۔[65][66][67] 2011 کی مردم شماری کے مطابق، چھ بڑے عقائد- ہندو، مسلم، مسیحی، سکھ، جین اور بدھ بھارت کی 121 کروڑ آبادی کا 99.4% ہیں، جبکہ “دوسرے مذاہب، عقائد” (او آر پی) کی تعداد 82 طے کی گئی۔ دیگر عقائد والوں میں،چھ عقائد- 49.57 لاکھ سرنا دھرم، 10.26 لاکھ گوند، 5.06 لاکھ ساڑی، ڈونیو پولو (3.02 لاکھ) ارونا چل پر دیش میں،ساناماہی (2.22 لاکھ) منی پور میں،کھاسی (1.38 لاکھ) کو میگھالیہ میں اکثریت حاصل ہے۔[68] مہاراشٹر میں 9,652 لادین افراد ہیں، جو ملک بھر میں سب سے بڑی تعداد ہے، اس کے بعد میگھالیہ (9,089) اور کیرلا ہیں۔[69]
- بھارت میں بڑے مذہبی گروہوں کی آبادی کے رجحانات (1951ء–2011ء)
مذہبی گروہ |
آبادی % 1951 |
آبادی % 1961 |
آبادی % 1971 |
آبادی % 1981 |
آبادی % 1991 |
آبادی % 2001 |
آبادی % 2011[70] |
---|---|---|---|---|---|---|---|
ہندومت | 84.1% | 83.45% | 82.73% | 82.30% | 81.53% | 80.46% | 79.80% |
اسلام | 9.8% | 10.69% | 11.21% | 11.75% | 12.61% | 13.43% | 14.23% |
مسیحیت | 2.3% | 2.44% | 2.60% | 2.44% | 2.32% | 2.34% | 2.30% |
سکھ مت | 1.79% | 1.79% | 1.89% | 1.92% | 1.94% | 1.87% | 1.72% |
بدھ مت | 0.74% | 0.74% | 0.70% | 0.70% | 0.77% | 0.77% | 0.70% |
جین مت | 0.46% | 0.46% | 0.48% | 0.47% | 0.40% | 0.41% | 0.37% |
زرتشتیت | 0.13% | 0.09% | 0.09% | 0.09% | 0.08% | 0.06% | n/a |
دیگر مذاہب / لا مذہب | 0.43% | 0.43% | 0.41% | 0.42% | 0.44% | 0.72% | 0.9% |
شرح خواندگی
ترمیم7 سال سے بڑی عمر کے ہر فرد کو جو کسی بھی زبان میں لکھنا اور پڑھنا جانتا تھا، اسے خواندہ شمار کیا گیا۔ 1991ء سے بقل کی مردم شماریون مین یہ حد 5 سال تک کے بچوں پر لاگو ہوتی تھی۔ پوری آبادی کی شرح خواندگی کو خام شرح خواندگی قرار دیا جاتا ہے، جب کہ 7 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی شرح خواندگی کو مؤثر شرح خواندگی قرار دیا جاتا ہے۔ مؤثر شرح خواندگی 74.04% تھی، جس میں سے مردوں میں شرح خواندگی 82.14% اور عورتوں میں 65.46% ہے۔[71]
شمار۔ | سال مردم شماری (%) | کل (%) | مرد (%) | عورتیں (%) |
---|---|---|---|---|
1 | 1901 | 5.35 | 9.83 | 0.60 |
2 | 1911 | 5.92 | 10.56 | 1.05 |
3 | 1921 | 7.16 | 12.21 | 1.81 |
4 | 1931 | 9.50 | 15.59 | 2.93 |
5 | 1941 | 16.10 | 24.90 | 7.30 |
6 | 1951 | 16.67 | 24.95 | 9.45 |
7 | 1961 | 24.02 | 34.44 | 12.95 |
8 | 1971 | 29.45 | 39.45 | 18.69 |
9 | 1981 | 36.23 | 46.89 | 24.82 |
10 | 1991 | 42.84 | 52.74 | 32.17 |
11 | 2001 | 64.83 | 75.26 | 53.67 |
12 | 2011 | 74.04 | 82.14 | 65.46 |
- اس جدول میں بھارت کی 1901ء سے 2011ء تک خام شرح خواندگی دی کئی ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمملاحظات
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Decadal Growth :www.censusindia.gov.in" (PDF)
- ↑ "India's population — 127,42,39,769 and growing"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ^ ا ب C Chandramouli (23 اگست 2011)۔ "بھارت کی مردم شماری 2011 – اختراعات کی کہانی"۔ پریس انفارمیشن بیورو، حکومت ہند۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "کیا ہمیں واقعی مردم شماری کی ضرورت ہے؟"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Demand for caste census rocks Lok Sabha"۔ 03 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Login"۔ 28 مئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "OBC data not in 2011 Census, says Moily"۔ انڈین ایکسپریس۔ 18 دسمبر 2009۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولائی 2016
- ↑ "No data since 1931, will 2011 Census be all-caste inclusive? – دی ٹائم آف انڈیا"۔ دی ٹائم آف انڈیا۔ 11 مارچ 2010۔ 02 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Caste in Census 2011: Is it necessary?"۔ دی ٹائم آف انڈیا۔ 28 مئی 2010
- ↑ "OBCs form 41% of population: Survey – دی ٹائم آف انڈیا"۔ دی ٹائم آف انڈیا۔ 1 ستمبر 2007۔ 23 اگست 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Govt releases socio-economic and caste census for better policy-making"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "OBc count: 52 or 41%? – دی ٹائم آف انڈیا"۔ دی ٹائم آف انڈیا۔ 1 نومبر 2006۔ 03 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ G.O.K 1971: Appendix XVIII
- ↑ "Bangladesh and India begin joint census of border areas"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Census in Indian and Bangladesh enclaves ends"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ Vinay Kumar (4 اپریل 2010)۔ "House listing operations for Census 2011 progressing well"۔ The Hindu۔ Chennai, India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2011
- ↑ "Census of India 2011; Houselisting and Housing Census Schedule" (PDF)۔ Government of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "Census of India 2011; Household Schedule-Side A" (PDF)۔ حکومت ہند۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "Census of India 2011; Household Schedule-Side B" (PDF)۔ حکومت ہند۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "National population register; Household Schedule" (PDF)۔ Government of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "Census operation in history kicks off"۔ The Hindu۔ 1 اپریل 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 اپریل 2010
- ↑ "India launches new biometric census"۔ Yahoo news۔ 1 اپریل 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 اپریل 2010
- ↑ "India launches biometric census"۔ بی بی سی۔ 1 اپریل 2010۔ 1 اپریل 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 اپریل 2010
- ↑ "India's total population is now 121 crore"۔ LiveMint۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2013
- ↑ "India at Glance – Population Census 2011"۔ Census Organisation of India. 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جنوری 2014
- ↑ "It's official. We are the second most populous nation in the world at 1.2 billion"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "India's total population is now 1.21 billion"
- ↑ "India's total population is 1.21 billion, final census reveals"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Pakistan counts transgender people in national census for first time"
- ↑ Over 70,000 transgenders in rural India, UP tops list: Census 2011
- ↑ "Sex ratio worsens in small families, improves with 3 or more children"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "First count of third gender in census: 4.9 lakh"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Why activists are upset with Census disability numbers"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Indian States Census 2011"۔ Census Organization of India. 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جنوری 2014
- ↑ "About 68.84 per cent Indians live in rural areas: Census report"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Rural Urban"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Every 3rd Indian migrant, most headed south"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ Migration in India still largely remains a social rather than an economic phenomenon
- ↑ Migration in India is slowly becoming more urban and driven by economic factors
- ↑ "ریاستوں کی فہرست بلحاظ آبادی، جنس تناسب اور خواندگی مردم شماری 2011ء"۔ 2011 Census of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2013
- ↑ "Ranking of States and Union territories by population size: 1991 and 2001" (PDF)۔ Government of India (2001)۔ Census of India۔ صفحہ: 5–6۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2008
- ↑ "Population" (PDF)۔ حکومت ہند (2011)۔ بھارت کی مردم شماری۔ 12 جنوری 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب "Provisional Population Totals"۔ حکومت ہند (2011)۔ Census of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2011
- ↑ "Area of India/state/district"۔ حکومت ہند (2001)۔ Census of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2008
- ↑ Abantika Ghosh, Vijaita Singh (24 جنوری 2015)۔ "Census 2011: Muslims record decadal growth of 24.6 pc, Hindus 16.8 pc"۔ Indian Express۔ Indian Express۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جنوری 2015
- ↑ "Hindus 79.8%، Muslims 14.2% of population: census data"۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "India Census 2011"۔ Censusindia.gov.in۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2015
- ↑ "India's religions by numbers"۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ^ ا ب "Muslim population growth slows"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Muslim representation on decline"۔ The Times of India۔ 31 اگست 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2015
- ↑ Share on Twitter (26 اگست 2015)۔ "Muslim share of population up 0.8%، Hindus' down 0.7% between 2001 and 2011 – Times of India"۔ Timesofindia.indiatimes.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولائی 2016
- ↑ "Where we belong: The fight of Parsi women in interfaith marriages"۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Parsi population dips by 22 per cent between 2001–2011: study"۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "The tradition of atheism in India goes back 2,000 years. I'm proud to be a part of that"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Why a Tinder date is better than 72 virgins in paradise"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Against All Gods: Meet the league of atheists from rural Uttar Pradesh"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "People without religion have risen in Census 2011, but atheists have nothing to cheer about"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "2.87 million Indians have no faith, census reveals for first time"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "1.88 lakh people in Tamil Nadu state 'no religion' in 2011 census"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Muslim politics:At a crossroads"۔ livemint.com۔ Livemint۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2014
- ↑ Aariz Mohammed (1–15 مئی 2013)۔ "Demographic Dividend and Indian Muslims – i"۔ Milli Gazette۔ Milli Gazette۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2013
- ↑ Aariz Mohammed (1–15 مئی 2013)۔ "Demographic Dividend and Indian Muslims – i"۔ Milli Gazette۔ Milli Gazette۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2013
- ↑ "National minority status for Jains"۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ Jains become sixth minority community
- ↑ "Sunnis, Shias, Bohras, Agakhanis and Ahmadiyyas were identified as sects of Islam."۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Protest against inclusion of Ahmediyyas in Muslim census"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Minority in a minority"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Fewer minor faiths in India now, finds Census; number of their adherents up"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "God versus Atheism, Bengal vouches for believers"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018
- ↑ "Population by religious community – 2011"۔ 2011 بھارت میں مردم شماری۔ Office of the Registrar General & Census Commissioner۔ 25 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2015
- ↑ "Census Provional Population Totals"۔ The Registrar General & Census Commissioner، بھارت۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 فروری 2013
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر بھارت میں مردم شماری، 2011ء سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |